خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 8؍ فروری 2019ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 8؍ فروری 2019ء بمطابق 8تبلیغ 1398 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
آج جن صحابہ کا میں ذکر کروں گا ان میں سے پہلا نام حضرت اَبُو مُلَیْل بِن اَلْاَزْعَر کاہے۔ ان کی والدہ کا نام اُمّ عمرو بنت اشرف تھا اور ان کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا۔ ان کو غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 353 ابو ملیل بن الازعرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسدالغابہ جلد 6صفحہ 295 ابو ملیل بن الازعرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) ایک روایت کے مطابق ان کے بھائی حضرت ابوحَبِیْب بن اَزْعَر بھی غزوۂ بدر اور دیگر غزوات میں شامل ہوئے تھے۔ (اسد الغابہ جلد 6صفحہ 65 ابو حبیب بن الازعرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
دوسرا ذکر حضرت اَنَس بن مُعَاذ انصاریؓ کاہے۔ بعض روایات میں آپ کا نام اُنَیْس بھی بیان ہوا ہے۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھا۔ آپ کی والدہ کا نام اُمّ ِاُنَاس بنت خالد تھا۔ آپ غزوۂ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ غزوۂ احد میںآپؓ کے بھائی حضرت اُبَیْ بن معاذ بھی آپ کے ساتھ شامل ہوئے۔ ان کی وفات کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کی وفات حضرت عثمان کے زمانۂ خلافت میں ہوئی۔جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت انس بن معاذ اور ان کے بھائی حضرت اُبَیْ بن مُعاذ بئرِ مَعُونَہ میں شہید ہوئے تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 381 انس بن معاذؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 299 انس بن معاذ بن انسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
اگلا ذکر حضرت اَبُو شَیْخ اُبَیْ بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاہے۔حضرت اُبَیْ بن ثابت کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عدی سے تھا۔ ان کی کنیت اَبُوشَیْخ تھی۔ ایک قول کے مطابق یہ کنیت آپ کے بیٹے کی تھی۔ ان کی والدہ کا نام سُخْطیٰ بنتِ حَارِثَہ تھا۔ حضرت اُبَیْ بن ثابت حضرت حسان بن ثابتؓ اور حضرت اَوس بن ثابتؓ کے بھائی تھے۔ آپؓ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شریک ہوئے اور ان کی وفات واقعہ بئرِ معونہ کے روز ہوئی۔
اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ حضرت اُبَیْ بن ثابت غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے یا نہیں۔ تاریخ کی مختلف کتابیں ہیں۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت اُبَیْ بن ثابت زمانہ جاہلیت میں فوت ہو گئے تھے اور غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں جو شریک تھے وہ ان کے بیٹے اَبُو شَیْخ بن اُبَیْ بن ثابت تھے۔ جبکہ علامہ ابن ہشام نے بدر کے شاملین میں حضرت اَبُو شَیْخ اُبَیْ بن ثابِت کو شمار کیا ہے۔ حضرت اُبَیْ بن ثابت کی وفات کے متعلق روایات میں ملتا ہے کہ آپ واقعہ بئرِ َمعُونہ کے روز فوت ہوئے جبکہ بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ ان کی وفات غزوۂ احد کے روز ہوئی۔ بہرحال یہ بھی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جو صحابی غزوۂ احد کے روز شہید ہوئے وہ آپؓ نہیں تھے بلکہ آپؓ کے بھائی حضرت اَوْس بن ثَابِتؓ تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 382 ابو شیخ ابی بن ثابتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 165-166 ابی بن ثابتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
(اصابہ جلد 1صفحہ 179 ابی بن ثابتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
(سیرت ابن ہشام صفحہ 340 من حضر بدراً مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
پھر ایک ذکر ہے حضرت اَبُو بُرْدَہ بِن نِیَار کا۔ کنیت ان کی اَبُو بُرْدَہ تھی ۔ اَبُو بُرْدَہ اپنی کنیت سے مشہور تھے۔ ان کا نام ہانی تھا۔ ایک روایت میں آپ کا نام حارث اور ایک دوسری روایت میں مالک بھی بیان ہوا ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ بَنُو قُضَاعَہ کے خاندان بَلِی سے تھا۔ حضرت اَبُو بُرْدَہ حضرت براء بن عازبؓ کے ماموں تھے۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت اَبُو بُرْدَہ حضرت بَرَاء بن عَازِب کے چچا تھے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ غزوۂ بدر، احد، خندق سمیت تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ فتح مکہ کے دن بنو حارثہ کا جھنڈا حضرت اَبُو بُرْدَہ کے پاس تھا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 344 ابو بردہ بن نیارؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)(اصابہ جلد 7صفحہ 31-32 ابو بردہ بن نیارؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)(اسد الغابہ جلد 5صفحہ 358 ھانیٔ بن نیارؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) حضرت اَبُوعَبْس اور حضرت اَبُو بُرْدَہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس وقت دونوں نے قبیلہ بنو حَارِثہ کے بتوں کو توڑا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 343 ابو عبس بن جبرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) یعنی اپنے قبیلے کے وہ جو بت تھے، اُن کو(توڑا تھا)۔ حضرت ابو اُمَامہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر کے لئے بدر کی طرف کوچ کا ارادہ کیا تو حضرت ابو اُمَامہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے۔ اس پر ان کے ماموں حضرت اَبُو بُرْدَہ بن نِیَار نے کہا کہ تم اپنی ماں کی خدمت گزاری کے لئے رک جاؤ۔ ماں بیمار تھی ان سے کہا تم رک جاؤ۔ حضرت ابو اُمَامہ نے کہا، ان میں بھی جوش تھا کہ اسلام کے خلاف حملہ ہو رہا ہے تو میں بھی جاؤں۔ انہوں نے کہا کہ وہ آپ کی بھی بہن ہیں۔ مجھے جو کہہ رہے ہیں تو آپ رک جائیں۔ جب یہ معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو امامہ کو رکنے کا حکم دیا یعنی بیٹے کو اور حضرت اَبُو بُرْدَہ لشکر کے ساتھ گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے واپس آئے تو حضرت ابو امامہ کی والدہ فوت ہو چکی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔
(اسد الغابہ جلد 6صفحہ 15 ابو امامہ بن ثعلبہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
غزوۂ احد کے دن مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے تھے۔ ایک گھوڑا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جس کا نام ’اَلسَّکْب‘ تھا اور اور دوسرا گھوڑا حضرت ابو بُرْدَہ کے پاس تھا جس کا نام ’مُلَاوِحْ‘ تھا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 1صفحہ 380 ذکر خیل رسول اللہﷺ و دوابہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت اَبُو بُرْدَہ بن نِیَار بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ قبائل کے پاس تشریف لے گئے۔ اُن کے حق میں دعا کی لیکن ایک قبیلے کو آپؐ نے چھوڑ دیا اور ان کے پاس تشریف نہیں لے کے گئے۔ اس پر یہ بات اس قبیلے والوں کو بڑی گراں گزری کہ کیا وجہ ہے ؟ اس پر انہوں نے اپنے ایک ساتھی کے مال کی تلاشی لی تو اس کی چاد ر میں سے ایک ہار نکلا جو اس نے خیانت کرتے ہوئے لے لیا تھا۔ پھر ان لوگوں نے وہ ہار واپس کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بھی تشریف لے گئے اور ان لوگوں کے حق میں بھی دعا کی۔
(المعجم الکبیر للطبرانی جلد 22 صفحہ 195 ما اسندہ ابو بردہ بن نیارؓ حدیث 511 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2002ء)
حضرت اَبُو بُرْدَہ حضرت علی کے ساتھ تمام جنگوں میں شامل رہے۔ آپؓ کی وفات حضرت معاویہؓ کے ابتدائی دور میں ہوئی۔ ان کی وفات کے سال کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ کی وفات 41 ہجری میں ہوئی جبکہ دوسری روایات میں 42ہجری اور 45ہجری کا ذکر بھی ملتا ہے۔
(اصابہ جلد 7صفحہ 32 ابو بردہ بن نیارؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت بَرَاء بن عَازِب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیہ کے دن نماز کے بعد ہم سے مخاطب ہوئے اور فرمایا جس نے ہماری نماز جیسی نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی تو اس نے ٹھیک قربانی کی اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تو وہ بکری گوشت ہی کے لئے ہوئی۔ یعنی یہ قربانی نہیں ہے۔ بلکہ عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا وہ تو اس طرح ہی ہے جس طرح گوشت کھانے کے لئے بکری ذبح کر لی۔ اس پر حضرت اَبُو بُرْدَہ بن نِیَاراٹھے( جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے) اور انہیں کہا یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کے نکلنے سے پہلے ہی قربانی کر لی ہے اور میں یہ سمجھا تھا کہ آج کا دن کھانے پینے کا ہے۔ اس لئے میں نے جلدی کی، خود بھی کھایا اور اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں کو بھی کھلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بکری تو گوشت ہی کے لئے ہوئی۔ یہ تمہاری قربانی نہیں ہے۔ اس پر حضرت اَبُو بُرْدَہ نے کہا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیاں یعنی بکری کے مادہ بچے ہیں اور وہ گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہیں یعنی کہ اچھی پلی ہوئی ہیں اور گو ایک سال کی ہیں لیکن دو بکریوں کی نسبت سے زیادہ بہتر ہیں، موٹی تازی ہیں۔ اگر میں یہ قربانی کر دوں تو کیا میری طرف سے کافی ہو گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں کر دو لیکن تمہارے بعد کسی کو کافی نہیں ہو گا۔(صحیح البخاری کتاب العیدین باب کلام الامام والناس فی خطبۃ العید … الخ حدیث 983)تمہیں تو یہ اجازت ہے لیکن تمہارے بعد اور کسی کو اجازت نہیں۔
دوسری احادیث بھی یہی بتاتی ہیں کہ ایک تو یہ کہ عید کے بعد قربانی کی جائے اور دوسرے بکری کی قربانی کی ایک عمر ہوتی ہے وہ ہونی چاہئے۔ بہرحال یہ جو آپؐ نے فرمایا کہ تمہارے بعد کسی کو کافی نہیں ہے۔ اس بارے میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں سوال ہوا کہ قربانی کے بکرے کی عمر کیا ہونی چاہئے تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حضرت مولانا نورالدینؓ وہاں بیٹھے ہوئے تھے ان کو فرمایا کہ آپ جواب دیں۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ اہل حدیث کے نزدیک دو سال کا ہونا ضروری ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 10 صفحہ 100)
یا ہمارے ملکوں میں یہ رواج ہے کہ وہ کہتے ہیںد وندا ہونا ضروری ہے۔سامنے کے دو بڑے دانت نکلے ہونے چاہئیں۔ تو بہرحال اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَبُو بُرْدَہ کوجو فرمایا کہ تمہاری قربانی تو مَیں اس ایک سال کے پٹھے کی قبول کرتا ہوں لیکن آئندہ کے لئے اَور کسی کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ جوان بکری یا بکرا ہونا چاہئے اور یہی طریق جماعت میں رائج ہے یا ہمارے فتوے میں ہے جیسا کہ میں نے کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔
پھر حضرت اَسْعَد بن یزید کا ذکر ہے۔ حضرت اَسْعَد کے والد کا نام یَزِیدِ بنِ الْفَاکِہ تھا اور ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو زُرَیْق سے تھا۔ آپؓ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔ علامہ ابن اسحاق نے اَسْعَد کی بجائے سَعْد بن یَزِید کا نام اصحاب بدر میں لکھا ہے۔ حضرت اَسْعَد بن یزید کے نام کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ بعض نے آپ کا نام سَعْد بن زید، سعید بن الفاکہ اور سعد بن یزید بیان کیا ہے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 445 اسعد بن یزیدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 450 سعد بن الفاکہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
پھر ایک بدری صحابی حضرت تَمیم بن یَعَار انصاریؓ تھے۔ حضرت تمیم کے والد کا نام یَعَار تھا۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو جدارۃ بن عوف بن الحارث سے تھا۔ آپ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ حضرت تمیم کی اولاد میں بیٹا رِبْعِیّ اور بیٹی جمیلہ تھیں۔ ان کی والدہ قبیلہ بنو عمرو سے تھیں۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 407 تمیم بن یعارؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت اَوْس بن ثَابِت بن مُنْذِرہے۔ یہ بھی انصاری تھے۔ ان کی کنیت اَبُو شَدَّاد تھی۔ حضرت اَوس کے والد کا نام ثابت تھا۔ آپ کی والدہ کا نام سُخْطیٰ بنتِ حَارِثَہ تھا۔ آپ مشہور صحابی حضرت شَدَّاد بن اَوْس کے والد تھے۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ بَنُو عَمرو بِن مَالِک بن نَجَّار سے تھا۔ یہ عقبہ ثانیہ میں شامل تھے نیز ایمان لائے۔ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ حضرت حسّان بن ثابتؓ (جو مشہور شاعر تھے) اور حضرت اُبَیْ بن ثابت آپؓ کے بھائی تھے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ جب مدینہ ہجرت کر کے آئے تو ان کے ہاں ان کا قیام ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفّانؓ اور حضرت اوس بن ثابت کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ ان کی وفات کے بارے میں عبداللہ بن محمد بن عُمَارَہ انصاری کہتے ہیں کہ ان کی وفات، ان کی شہادت غزوۂ احد میں ہوئی تھی۔ بعض دوسرے اس سے اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن جو اختلاف کرنے والے ہیں وہ کمزور راوی ہیں۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 41, 382 عثمان بن عفانؓ، اوس بن ثابتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت ثَابِت بن خَنْسَاء ہے ۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو غَنْم بن عدِی بن نَجَّار سے تھا اور غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی سعادت ان کو نصیب ہوئی۔ ان کے بارے میں اتنا ہی علم ہو اہے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 389 ثابت بن خنساءؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت اَوْس بن اَلصَّامِت بدر کےایک صحابی تھے جنہوں نے بدر میں حصہ لیا ہے۔ حضرت اَوس بن صامت حضرت عبادۃ بن صامتؓ کے بھائی تھے۔ حضرت اَوس غزوۂ بدر اور احد اور دوسرے تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اَوس بن صامت اور حضرت مَرْثَد بنْ ابِی مَرْثَد اَلْغَنَوِی کے درمیان عقد مؤاخات کیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اوس نے اپنی اہلیہ خُوَیْلَہ بنتِ مالِک سے ظِھَار کیا تھا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 413 اوس بن صامتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 323 اوس بن صامتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
ظِھَارکہتے ہیں جو عربوں میں یہ رواج تھا کہ اپنی بیوی کو ماں کہہ دیایا بہن کہہ دیا۔ اس طرح کہنے کے بعد اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے یعنی کہ تم میری ماں ہو اس لئے حرام ہو گئی ہو۔ اسلام نے اس رسم کو مٹا دیا اور حکم دیا کہ اس کلمہ کے کہنے سے طلاق نہیں ہوتی۔ ماں بہن کہہ دیاتو طلاق نہیں ہو جاتی۔ ہاں یہ بیہودہ بات ہے جس کی سزا میں اسلام نے کفّارہ مقرر کیاہے۔ حضرت اَوس نے کفارہ نہیں ادا کیا، کفارہ دینے سے پہلے اپنی اہلیہ سے تعلق قائم کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ یہ غلط ہے۔ پندرہ صَاع جَو ساٹھ مسکینوں کو کھلائیں۔ یعنی کفّارہ یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو تم کھانا کھلاؤ۔ ظِھَارکے متعلق قرآن کریم میں بھی حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
اَلَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَآئِہِمْ مَّا ہُنَّ اُمَّہٰتِہِمْ۔ اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا الّٰٓئِیْ وَلَدْنَہُمْ وَ اِنَّہُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًا۔ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ۔ وَالَّذِیْنَ یُظٰہِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِہِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا۔ ذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۔فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ۔ وَ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔(المجادلۃ3-5)
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہو سکتیں۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا اور یقیناً وہ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ اور اللہ یقیناً بہت درگزر کرنے والا اور بہت بخشنے والا ہے۔ اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں پھر جو کہتے ہیں اس سے رجوع کر لیتے ہیں۔ یعنی پہلے ماں کہہ دیا۔ پھر کہہ دیا اوہو غلطی ہو گئی تو پیشتر اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں، ایک گردن کاآزاد کرنا ہے یعنی اس زمانے میں تو غلام ہوتے تھے ایک غلام کو آزاد کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ وہ ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے ۔ پس جو اس کی استطاعت نہ پاتے ہوں۔ (اگر یہ استطاعت نہیں ہے کہ غلام ہے اس کوآزاد کرنا ہے) تو مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنا ہے پیشتر اس کے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چھوئیں۔ پس جو اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مسکینوںکو کھانا کھلانا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے طمانیت نصیب ہو۔ یہ اللہ کی حدود ہیں اور کافروں کے لئے بہت ہی دردناک عذاب مقدرہے۔
اس کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ:’’جو شخص اپنی عورت کو ماں کہہ بیٹھے تو وہ حقیقت میں اس کی ماں نہیں ہو سکتی۔ ان کی مائیں وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہوئے۔ سو یہ ان کی بات نامعقول اور سراسر جھوٹ ہے اور خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اور جو لوگ ماں کہہ بیٹھیں اور پھر رجوع کریں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے ایک گردن آزاد کر دیں۔ یہی خدائے خبیر کی طرف سے نصیحت ہے اور اگر گردن آزاد نہ کر سکیں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے دو مہینہ کے روزے رکھیں اور اگر روزے نہ رکھ سکیں تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاویں۔‘‘
(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 50)
ان کی بیوی حضرت خُوَیْلَہ بنتِ مَالِک بن ثَعْلَبَہ سے روایت ہے کہ میرے شوہر اَوس بن صَامِتْ نے مجھ سے ظِہَار کیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں مجھے فرما رہے تھے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کر۔ وہ تیرا چچا زاد بھائی بھی ہے۔ مجھے اپنی بات پر اصرار رہا یہاں تک کہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔ انہوں نے کہا ماں کس طرح ہو سکتی ہے۔وہ تمہارا چچا زاد بھائی بھی ہے اور تم اس کی بیوی ہو۔ کہتی ہیں مَیں نے بہرحال اس بات پر اصرار کیا یہاں تک کہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ قَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِھَا۔(المجادلۃ2:) کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپؐ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ یعنی تیرا خاوند ایک غلام آزاد کرے۔ اب اس کی سزا یہ ہے جو آیت میں بیان ہوئی جس طرح قرآن شریف کا حکم ہے۔ اس کے بعد ساری تفصیل ہےجو پہلے بیان ہو چکی ہے کہ ایک غلام کو آزاد کرو۔ کہتی ہیں میں نے اس پہ عرض کیا کہ اس میں اس کی طاقت نہیں۔ کہاں سے لے؟ وہ تو غریب آدمی ہے۔ آپؐ نے فرمایا پھر دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی عمر ایسی ہے کہ وہ لگاتار روزے بھی نہیں رکھ سکتا۔ اِس کی اس میں سکت نہیں ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا۔ پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ اس کے پاس تو مال بھی کوئی نہیں ہے۔ اس کے پاس کچھ نہیں ہے جس سے وہ صدقہ دے۔ خُوَیْلَہ کہتی ہیںمیں بیٹھی ہوئی تھی کہ تبھی اس وقت کھجور کا ایک تھیلا آیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی نے پیش کیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں کھجوروں کے دوسرے تھیلے کے ساتھ اس کی مدد کروں گی یعنی اگر یہ مجھے مل جائے تو ایک اَور تھیلے کا انتظام ہو سکتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ جا اِس کو لے جا۔ یہ تھیلا لے جاؤ اور اس میں سے اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ اور پھر اپنے چچا کے بیٹے کے پاس جاؤ۔(سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب فی الظھار حدیث 2214)یعنی اپنے خاوند کے پاس جاؤ۔ تم اس کے کہنے سے کوئی ماں واں نہیں بنی۔ ان صحابہ کی سیرت بیان ہوتی ہے توبعض مسائل بھی ساتھ ساتھ حل ہو جاتے ہیں۔
حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ سب سے پہلا ظِہَارجو اسلام میں ہوا۔ یعنی بیوی کو ماں کہنے کا وہ یہی حضرت اوس بن صامت کا تھا۔ ان کے نکاح میں ان کے چچا کی بیٹی تھی ان سے انہوں نے ظِہَارکیا تھا۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 323 اوس بن صامتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ حدود قائم کی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ معاملہ پیش ہوا۔ آپؑ نے فرمایا کہ اس کی یہی سزا ہے۔ خلیفہ ثانیؓ کے زمانہ میں اسی طرح ایک معاملہ پیش ہوا آپؓ نے فرمایا یہی سزا ہے۔ اور سوائے اس کے کہ کوئی بہت ہی غریب ہے اور طاقت نہیں ہے تو پھر وہ استغفار کرے اور جس حد تک سکت ہے، پہنچ ہے وہ اس کی سزا میں دے۔ تو بہرحال اللہ تعالیٰ نے بیوی کو ماں یا بہن کہنے کے لئے حدود قائم کی ہیں۔ بعضوں کو عادت ہوتی ہے ہر ذرا سی بات پر لڑائیاں ہوئیں تو کہہ دیا کہ میرے پہ حرام ہو گئی یا یہ ہو گیا تو تم میری ماں کی طرح ہو تم فلاں ہو یا قسم کھا لی۔تو یہ سب قسمیں ہیں اور ان پر حدود قائم ہوتی ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے تو اس کو یہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ غلام کو آزاد کرو یا روزے رکھو یا مسکینوںکو کھانا کھلاؤ۔
حضرت اوس بن صامتؓ شاعر بھی تھے۔ حضرت اوس بن صامت اور شَدَّاد بن اوس انصاری نے بیت المقدس میں رہائش رکھی۔ ان کی وفات سر زمین فلسطین کے مقام رَمْلَہ میں 34 ہجری میں ہوئی۔ اس وقت حضرت اوس کی عمر 72 سال تھی۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 323 اوس بن صامتؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت ارقم بن ابی ارقم ہے۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ حضرت ارقم کی والدہ کا نام اُمَیْمَہ بنت حارث تھا۔ بعض روایت میں ان کا نام تُمَاضِرْ بنتِ حُذَیْم اور صَفْیَہ بنت حارِث بھی بیان ہوا ہے۔
حضرت ارقم کا تعلق قبیلہ بنو مَخْزُوم سے تھا۔ آپ اسلام لانے والے اولین صحابہ میں سے تھے۔ بعض کے نزدیک جب آپؓ ایمان لائے تو آپؓ سے قبل گیارہ افراد اسلام قبول کر چکے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ نے ساتویں نمبر پر اسلام قبول کیا۔ حضرت عُروہ بن زُبیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت ارقم، حضرت ابوعُبَیدہ بن جَرَّاح اور حضرت عثمان بن مَظْعُونؓ اکٹھے ایک ہی وقت میں ایمان لائے۔ حضرت ارقم کا ایک گھر مکہ سے باہر کوہِ صفا کے پاس تھا جو تاریخ میں دارِ ارقم کے نام سے مشہور ہے۔ دارِ ارقم ان کا گھر تھا۔ اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام قبول کرنے والے افراد عبادت کیا کرتے تھے۔ یہیں پر حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد یعنی حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کی تعداد40 ہو گئی تھی اور وہ اس گھر سے باہر نکلےتھے۔ یہ گھر حضرت ارقم کی ملکیت میں رہا۔ پھر آپؓ کے پوتوں نے یہ گھر ابوجعفر منصور کو فروخت کر دیا۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 187 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
(اصابہ جلد 1صفحہ 197 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
(مستدرک علی الصحیحین جلد 3صفحہ 574 حدیث 6127 کتاب معرفۃ الصحابہ ذکر ارقم بن ابی الارقم مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
اس کے بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے تفصیل یہ ہے کہ اسلام کے پہلے تبلیغی مرکز یعنی دارِ ارقم کے بارے میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال پیدا ہوا کہ مکہ میں ایک تبلیغی مرکز قائم کیا جاوے جہاں مسلمان نماز وغیرہ کے لئے بے روک ٹوک جمع ہو سکیں اور امن و اطمینان اور خاموشی کے ساتھ باقاعدہ اسلام کی تبلیغ کی جا سکے۔ اس غرض کے لئے ایک ایسے مکان کی ضرورت تھی جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو۔ چنانچہ آپؐ نے ایک نَومسلم ارقم بن ابی ارقم کا مکان پسند فرمایا جو کوہِ صفا کے دامن میں واقع تھا۔ اس کے بعد تمام مسلمان یہیں جمع ہوتے،یہیں نماز پڑھتے، یہیں متلاشیان حق آتے۔‘‘ یعنی جن کو دین کی تلاش تھی اور اسلام کا پیغام سنتے تھے وہ سننے کے لئے اور سمجھنے کے لئے آتے تھے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے لئے آتے تھے‘‘ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اسلام کی تبلیغ فرماتے۔ اسی وجہ سے یہ مکان تاریخ میں خاص شہرت رکھتا ہے اور دارالاسلام کے نام سے مشہور ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریباً تین سال تک دارِ ارقم میں کام کیا یعنی بعثت کے چوتھے سال آپؐ نے اسے اپنا مرکز بنایا اور چھٹے سال کے آخر تک آپؐ نے اس میں اپنا کام کیا۔‘‘ اپنےاس مشن کو جاری رکھا اور ’’مؤرخین لکھتے ہیں کہ دارِ ارقم میں اسلام لانے والوں میں آخری شخص حضرت عمرؓ تھے جن کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور وہ دارِ ارقم سے نکل کر برملا تبلیغ کرنے لگ گئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 129)
مدینہ ہجرت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مؤاخات حضرت اَبُو طَلْحَہ زَید بن سَہْل کے ساتھ قائم فرمائی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 185 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت اَرْقَم غزوۂ بدر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مال غنیمت میں سے ایک تلوار انہیں دی تھی۔ حضرت اَرْقَم غزوۂ بدر، احد سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓکو مدینہ میں ایک گھر بھی دیا تھا۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صدقات کی وصولی کے لئے بھی مقرر کر کے بھجوایا تھا۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 198 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
(اصابہ جلد 1صفحہ 187 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
تاریخ میں یہ بھی ہے کہ حضرت ارقم معاہدہ حلف الفضول میں بھی شامل ہوئے تھے۔(استیعاب جلد 1 صفحہ 131 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)وہ معاہدہ جو غریبوں کی مدد کرنے کے لئے اسلام سے پہلے مکہ کے رہنے والے بڑے لوگوں نے کیا تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھے۔ حضرت ارقم کے بیٹے عثمان بن اَرْقَم روایت کرتے ہیں کہ میرے والد کی وفات 53 ہجری میں ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر 83 سال تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کی 55 ہجری میں وفات ہوئی۔ عمر کے بارے میں اختلاف ہے کہ اسّی سال تھی یا اس سے کچھ اوپرتھی۔ حضرت ارقم نے وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ پڑھائیں جو صحابی تھے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ عَقِیْق مقام میں تھے اور وہاں سے دور تھے۔ مروان نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی کسی غیر حاضر شخص کی وجہ سے دفن نہ کیا جائے۔ موجود نہیں ہیں اس لئے صحابی کی نعش کو اس وقت تک رکھا جائے جب تک وہ آ نہ جائیں اور چاہا کہ ان کی نماز جنازہ خود پڑھا دیں مگر عُبَید اللہ بن اَرْقم نے مروان کی بات نہ مانی اور سَعْد بن اَبی وقاصؓ کے آنے پر حضرت ارقم کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور جَنَّتُ البقیع میں دفن کئے گئے۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 188 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
ان کے متعلق ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ حضرت ارقم نے بیت المقدس جانے کے لئے رخت سفر باندھا، تیاری کی، جانا چاہتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفر پر جانے کے لئے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم وہاں بیت المقدس میں کسی ضرورت کے لئے یا تجارت کی غرض سے جا رہے ہو؟ حضرت ارقم نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ کوئی کام نہیں ہے اور نہ تجارت کی غرض سے جانا ہے بلکہ بیت المقدس میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز اَور مسجدوں کی ہزاروں نمازوں سے بہتر ہے یعنی یہاں مدینے میں سوائے کعبہ کے جس پر حضرت ارقم نے اپنا ارادہ بدل لیا۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 187 ارقم بن ابی الارقمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت بَسْبَسْ بن عَمْرو ہے۔ ایک روایت میں آپ کا نام بَسْبَسْ بِن بِشْر بھی آیا ہے۔ حضرت بَسْبَسْ جُہَنِی انصاری کا تعلق قبیلہ بنو سَاعِدَۃ بن کعب بن خزرج سے تھا جبکہ عروہ بن زبیر کے مطابق آپ کا تعلق بنو طَرِیْف بن خزرج سے ہے۔ آپؓ نے غزوۂ بدر میں شرکت کی تھی۔ آپؓ کا شمار انصار صحابہ میں ہوتا ہے۔(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 373 بسبس الجھنیؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء) آپ کو بُسَیْسَہْ اور بُسَیْس اور بَسْبَسَہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 379 بسبہ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) غزوۂ بدر کے علاوہ آپ نے غزوۂ احد میں بھی شرکت کی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 422 بسبس بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
غزوۂ بدر کے لئے مدینہ سے نکلنے کا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے یہ لکھا ہے کہ:
’’مدینہ سے نکلتے ہوئے آپؐ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن ام مَکْتُوم کو مدینہ کا امیر مقرر کیا تھا۔ مگر جب آپؐ رَوْحَاء کے قریب پہنچے جو مدینہ سے 36 میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبداللہ ایک نابینا آدمی ہیں اور لشکر قریش کی آمد آمد کی خبر کا تقاضا ہے کہ آپؐ کے پیچھے مدینہ کا انتظام مضبوط رہے۔ آپؐ نے اَبُولُبَابَہ بن مُنْذِر کو مدینہ کا امیر مقرر کر کے واپس بھجوا دیا اور عبداللہ بن ام مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام الصلوٰۃ رہیں مگر انتظامی کام اَبُولُبَابہ سرانجام دیں۔‘‘یہ لکھتے ہیں کہ ’’مدینہ کی بالائی آبادی یعنی قباء کے لئے آپؐ نے عَاصِم بن عَدِی کو الگ امیر مقررفرمایا۔‘‘ آپ نے جو امراء بھیجے تھے، مقرر فرمائے یا تبدیلیاں کیں وہ یہاں سے ’’ اسی مقام سےآپؐ نے بَسِیْس (یعنی بَسْبَس) اورعدی نامی دو صحابیوںکو دشمن کی حرکات و سکنات کا علم حاصل کرنے کے لئے بدر کی طرف روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ وہ بہت جلد خبر لے کر واپس آئیں۔‘‘
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 354)
دو ہفتے پہلے خطبہ میں حضرت عَدِی بِن اَبِی زَغْبَاءْ کے ذکر میں اس واقعہ کا ذکر ہو چکا ہے۔جن کو بھیجا گیا تھا ان میں حضرت بَسْبَساور حضرت عدی بن اَبی زغباء دونوں شامل تھے۔ جب یہ بدر کے مقام پر خبر لینے کے لئے پہنچے تو وہاں حضرت بَسْبَسبن عمرو اور عدی بن اَبی زغباء نے کنوئیں کے قریب ایک ٹیلے کے پاس اپنے اونٹ بٹھا کر اپنی مشکیں لیں اور کنوئیں سے پانی بھرا اور وہاں پیا بھی۔ اس دوران انہوں نے وہاں دو عورتوں کو باتیں کرتے سنا جو کسی قافلے کے آنے کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ 617 بسبس و عدی یتجسسان الاخبار مطبوعہ تراث الاسلام مصر 1955ء)
اور وہاں ایک شخص بھی کھڑا تھا۔ بہرحال یہ دونوں واپس آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان عورتوں کی باتوں کے بارے میںبتایا کہ وہ ایک قافلے کے آنے کے بارے میں اس طرح باتیں کر رہی تھیں۔ وہ شخص جو وہاں کھڑا تھا اس کا نام مَجْدِی تھا۔(یہ تفصیل میں پہلے بیان کر چکا ہوں) تو مؤرخ لکھتے ہیں کہ اگلی صبح ابوسفیان وہاں پہنچا جبکہ قافلہ بھی وہاں آیا ہوا تھا۔ اس نے مَجْدِی سے پوچھا کہ اے مَجْدِی! کیا تو نے ایسے کسی شخص کو دیکھا ہے جو یہاں جاسوسی کے لئے آیا ہو؟ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر تو ہم سے دشمن کا حال چھپائے گا تو قریش میں سے کبھی کوئی بھی شخص تجھ سے صلح نہیں کرے گا۔ مَجْدِی نے کہا یعنی وہ شخص جو کھڑا تھا بخدا میں نے یہاں کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کو میں نہ پہچانتا ہوں۔ یہاں سے تیرے اور یثرب کے درمیان کوئی دشمن نہیں ہے اور اگر کوئی ہوتا تو وہ مجھ سے مخفی نہ رہ سکتا اور نہ ہی میں تجھ سے اس کو چھپاتا۔ وہ کہتا ہے مگر ہاں یہ ہے کہ مَیں نے دو سواروں کو دیکھا تھا۔ وہ اس جگہ رُکے تھے اور اُس جگہ اشارہ کیا جہاں حضرت بَسْبَس اور حضرت عدی رُکے تھے اور انہوں نے اپنے اونٹ بٹھائے تھے۔ کہنے لگا کہ انہوںنے یہاں اپنے اونٹ بٹھائے تھے، پانی پیا تھا اور پھر یہاں سے چلے گئے۔ ابو سفیان اس جگہ پر آیا جہاں دونوں صحابہ نے اونٹ بٹھائے تھے اور ان دونوں کے اونٹوں کی مینگنیاں اٹھا کر توڑنے لگا۔اس لیے کہ تجسس تھا۔تو پہچان کے لئے یہ بھی توڑنے لگا۔ جب اس نے توڑی تو اونٹ کی مینگنیوں میں سے کھجور کی گٹھلی نکلی تو ابوسفیان بولا بخدا!! اہلِ یثرب کے اونٹوں کا یہی چارا ہے۔ یہ تو وہاں سے آئے ہیں۔ یہ دونوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب محمدؐ کے جاسوس تھے۔ یعنی دونوں جو شخص آئے تھے یہ تو مدینے سے آئے ہیں اور یہ جاسوس ہیں۔ اونٹ کی مینگنیوں سے مجھے یہ اندازہ لگ گیا ہے کہ کیوں یہاں آئے تھے۔ کہنے لگا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ بہت قریب ہیں۔ اس کے بعد وہ وہاں سے جلدی جلدی اپنے قافلے کو لے کر روانہ ہو گیا۔
(کتاب المغازی للواقدی صفحہ 40-41 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1984ء)
ان عربوں کو اس زمانے میں بھی جاسوسی کے اندازے لگانے کا بڑا ملکہ تھا اور یہ بھی جاسوسی کے ہی انداز تھے۔ اس کے ذکر میں، بدر کی جنگ کے ذکر میں سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یہ لکھا ہے کہ
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے قریب پہنچے تو کسی خیال کے ماتحت جس کا ذکر روایات میں نہیں ہے آپ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنے پیچھے سوار کر کے اسلامی لشکر سے کچھ آگے نکل گئے۔ اس وقت آپؐ کو ایک بوڑھا بدوی ملا جس سے آپؐ کو باتوں باتوں میں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت قریش کا لشکر بدر کے بالکل پاس پہنچا ہوا ہے۔ آپؐ یہ خبر سن کر واپس تشریف لے آئے اور حضرت علیؓ اور زبیر بن العوام اور سعد بن وقاصؓ وغیرہ کو دریافت حال کے لئے آگے روانہ فرمایا اور ایک روایت کے مطابق بھیجے جانے والوں میں حضرت بَسْبَس بھی شامل تھے۔ پہلے تو یہ لوگ گئے تھے قافلے کی خبر لینے کے لئے۔ اب جو پتہ لگا کہ لشکر آ رہا ہے تو اس لشکر کی خبر لینے کے لئے جن لوگوں کو بھیجا ان میں یہ شامل تھے۔ جب یہ لوگ بدر کی وادی میں گئے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مکہ کے چند لوگ ایک چشمہ سے پانی بھر رہے تھے۔ ان صحابیوں نے ان پر، جماعت پر حملہ کر کے ان میں سے ایک حبشی غلام کو پکڑ لیا اور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ جب وہ لے کر آئے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں مصروف تھے۔ صحابہؓ نے یہ دیکھ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو نماز میں مصروف ہیں خود اس غلام سے پوچھنا شروع کیا کہ ابوسفیان کا قافلہ کہاں ہے؟ یہ حبشی غلام چونکہ لشکر کے ہمراہ آیا تھا۔ وہ تو اس لشکر کے ہمراہ آیا تھا جو بدر کی جنگ کے لئے آ رہا تھا۔ اس کوتو قافلے کا علم نہیں تھا اور وہ قافلے سے بے خبر تھا اس نے جواب میں کہا کہ ابوسفیان کا تو مجھے علم نہیں ہے البتہ ابوالحِکم یعنی ابوجَہل اور عُتبہ اور شَیبہ اور اُمَیّہ وغیرہ اس وادی کے دوسرے کنارے ڈیرے ڈالے پڑے ہیں۔ صحابہ نے جن کو تو صرف قافلے کا پتہ تھا نا، یہی اندازہ تھا اور یہی انہوں نے دماغ میں بٹھایا ہوا تھا تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور دیدہ دانستہ قافلے کی خبر کو چھپانا چاہتا ہے جس پر بعض لوگوں نے اسے کچھ مارا پیٹا بھی، زدو کوب کیا۔ لیکن جب وہ اسے مارتے تھے وہ ڈر کے مارے کہہ دیتا تھا کہ اچھا میں بتاتا ہوں اور جب اسے چھوڑ دیتے تو وہ پھر وہی پہلا جواب دیتا تھا کہ مجھے ابوسفیان کا، اس کے قافلے کا علم نہیں ہے۔ ہاں البتہ ابوجَہل ایک لشکر لے کے آ رہا ہے اور وہ پاس ہی موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں سنیں تو آپؐ نے جلدی سے نماز سے فارغ ہو کر صحابہ کو مارنے سے روکا اور فرمایا جب وہ سچی بات بتاتا ہے تم اسے مارتے ہو اور جھوٹ کہنے لگتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو۔ پھر آپؐ نے خود نرمی کے ساتھ اس سے دریافت فرمایا کہ لشکر اس وقت کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا اس وقت سامنے والے ٹیلے کے پیچھے ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ لشکر میں کتنے آدمی ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ بہت ہیں مگر پوری تعداد مجھے معلوم نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا اچھا یہ بتاؤ کہ ان کے لئے کھانا کھانے کے لئے ہر روز کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں؟ اس نے کہا کہ دس ہوتے ہیں۔ دس اونٹ اس قافلے کے لئے ذبح ہوتے ہیں۔ سامان کے علاوہ کھانے پینے کا بھی اتنا سامان لے کے آئے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ دس اونٹ ذبح ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ایک ہزار آدمی ان کے ساتھ آئے ہیں اور حقیقتاً وہ اتنے ہی لوگ تھے۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 355-356)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے حضرت ثَعْلَبَہ بن عَمْرو، اَنْصَاری تھے۔ حضرت ثَعْلَبہ کا تعلق قبیلہ بنو نجار سے تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام کَبْشَہ تھا جو کہ مشہور شاعر حضرت حسَّان بن ثَابِتؓ کی بہن تھیں۔ حضرت ثَعْلَبہ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے۔ آپؓ ان اصحاب میں بھی شامل تھے جنہوں نے بنو سلمہ کے بت توڑے تھے۔ آپؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جنگ جِسر یعنی پُل والی جنگ میں ہوئی تھی۔ جنگ جِسرایرانیوں کے ساتھ 14 ہجری میں ہوئی یا طبری میں 13ہجری کا درج ہے کہ یہ جنگ ہوئی تھی۔ اس جنگ میں دونوں فریق یعنی حضرت ابوعُبیدؓ کی نگرانی میں مسلمانوں کا لشکر اور بَہْمَن جَازَوَیْہ کی نگرانی میں ایرانی فوج دریائے فرات پر آمنے سامنے تھیں۔ دریا کو عبور کر کے جنگ کرنے کے لئے ایک جسر یعنی پل بنایا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے اسے جنگ جسر کہا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک ان کی وفات حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں مدینہ میں ہوئی تھی۔
(روض الانف جلد 3 صفحہ 158-159 تسمیۃ من کسروا اٰلھۃ بنی سلمۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت )
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 386 ثعلبہ بن محصنؓ، 340 سلمۃ بن اسلمؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 366 وقعۃ القرقس مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
(تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 522 ولایۃ ابی عبید مطبوعہ دار الفکر بیروت 2000ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت ثَعْلَبَہ بن غَنَمَہ۔ حضرت ثعلبہ کا نام ایک روایت میں ثَعْلَبَہ بن عَنَمَہ بھی بیان ہوا ہے۔ حضرت ثعلبہ کی والدہ کا نام جَہِیْرَہ بنت قَیْن تھا۔ آپ کا تعلق انصارکے قبیلے بنو سَلَمہ سے تھا۔ حضرت ثعلبہ اُن ستّر اصحاب میں شامل تھے جنہوں نے بیعت عقبہ ثانیہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ حضرت ثعلبہ جب ایمان لائے تو آپ نے، حضرت معاذ بن جبلؓ اور عبداللہ بن اُنَیس نے مل کر بنو سلمہ کے یعنی اپنے قبیلے کے ہی بت توڑے۔ آپ غزوۂ بدر، احد اور خندق میں شریک ہوئے اور غزوہ خندق میں ھُبَیْرَہ بِن اَبِی وَھَب نے حضرت ثعلبہ کو شہید کیا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ثعلبہ غزوۂ خیبر کے موقع پر شہید ہوئے تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 435 ثعلبہ بن غنمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)،(استیعاب جلد 1صفحہ 207 ثعلبہ بن عنمہؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت جابر بن خالد۔ حضرت جابر بن خالد کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو دِیْنَار سے تھا۔ حضرت جابر بن خالد غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہوئے تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 394 جابر بن خالدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھرایک صحابی ہیں حضرت حارث بن نُعمان بن اُمَیّہ، انصاری تھے۔ حضرت حارث کا تعلق انصار کے قبیلہ اوس سے تھا۔ آپ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ آپؓ حضرت عبداللہ بن جُبَیْر اور حضرت خَوَّات بن جُبَیْرکے چچا تھے۔ جنگ صِفِّیْن کے موقع پر حضرت علیؓ کی طرف سے شامل ہوئے تھے۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 641 حارث بن نعمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
(اصابہ جلد 1صفحہ 694 حارث بن نعمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
پھر حضرت حارث بن انس انصاری ہیں۔ ان کی والدہ کا نام حضرت ام شریک تھا اور والد انس بن رافع تھے۔ آپ کی والدہ نے بھی اسلام قبول کیا اور رسول اللہ کی بیعت سے مشرف ہوئی تھیں۔ حضرت حارث کا تعلق قبیلہ اوس کی شاخ بنو عبدالاشْھَل سے تھا۔ غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہوئے تھے اور غزوۂ احد میںآپ کو شہادت نصیب ہوئی۔ حضرت حارِث ان چند اصحاب میں سے تھے جو غزوۂ احد میں حضرت عبداللہ بن جُبَیْر کے ساتھ درّے پر ڈٹے رہے اور جامِ شہادت نوش کیا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 334 حارث بن انسؓ ، صفحہ 362 عبد اللہ بن جبیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 8صفحہ 277 ام شریکؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
پھر حضرت حُرَیْث بن زید انصاری ایک صحابی تھے۔ ایک روایت میں ان کا نام زید بن ثعلبہ بھی بیان ہوا ہے۔ حضرت حُرَیْث کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو زید بن حارث سے تھا۔ آپؓ اپنے بھائی حضرت عبداللہ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تھے جنہیں اذان کی بابت رؤیا دکھائی گئی تھی۔ آپؓ غزوۂ احد میں بھی شامل ہوئے تھے۔ (اسد الغابہ جلد 1صفحہ 717-718 حریث بن زیدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)اِن کے بھائی کو بھی اذان کے الفاظ کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت حَارِث بن اَصِمَّہ۔ حضرت حارث بن اصِمّہ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو نجار سے تھا اور بئرِ معونہ کے روز یہ شہید ہوئے تھے۔
(استیعاب جلد 1صفحہ 292 حارث بن ا صمہ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث اور حضرت صُہَیْب بن سِنَان کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔
(اصابہ جلد 1صفحہ 673 حارث بن صمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت حارث بن اصِمّہغزوۂ بدر کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب الرَّوْحَاءکے مقام پر پہنچے تو آپؓ میں مزید سفر کی طاقت نہ رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو مدینہ واپس بھیج دیا لیکن اموال غنیمت میں آپؓ کا حصہ بدر میں شامل ہونے والوں کی طرح مقرر فرمایا۔ یعنی عملاً شامل نہیں ہوئے تھے لیکن ایک جذبہ کے تحت نکلے تھے لیکن صحت نے اجازت نہیں دی یا اس وقت زیادہ بیمار ہو گئے ہوں گے اس لئے واپس بھجوا دئے گئے لیکن آپ کی نیت اور جذبے کو دیکھ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ میں شمار فرمایا۔ آپ غزوۂ احد میں شریک تھے۔ اُس دن جب لوگ منتشر ہو گئے تو اُس وقت حضرت حارث ثابت قدم رہے۔ حضرت حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت کی۔ آپؓ نےعثمان بن عبداللہ بن مُغِیرہ مَخْزُومی کو قتل کیا یعنی حضرت حارثؓ نے اور سلب لے لیا یعنی جو اس کا جنگی لباس اور سامان تھا وہ لے لیا جس میں اس کی زرہ اور خَود اور تلوار تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سامان آپؓ کو ہی عطا کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب عثمان بن عبداللہ کی ہلاکت کی خبر ہوئی تو فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اسے ہلاک کیا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 386 حارث بن صمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 615 حارث بن صمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
عثمان بن عبد اللہ بڑا خطرناک دشمن تھا۔ یہ ایک مشرک تھا اور غزوۂ احد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے کی غرض سے پورے ہتھیاروں سے لیس ہو کر آیا تھا۔ غزوۂ احد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ میرے چچا حمزہؓ کے ساتھ کیا ہوا؟ حضرت حارثؓ ان کی تلاش میں نکلے۔ جب آپ کو دیر ہو گئی تو حضرت علیؓ روانہ ہوئے اور حارث کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت حمزہؓ شہید ہو چکے ہیں۔دونوں صحابہ نے واپس آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شہادت کی خبر دی۔
حضرت حارثؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھاٹی میں تھے فرمایا کہ کیا تم نے عبدالرحمٰن بن عوف کو دیکھا ہے؟ میں نے عرض کی۔ جی ہاں میں نے انہیں دیکھاہے۔ وہ پہاڑی کے پہلو میں تھے اور ان پر مشرکین کا لشکر حملہ آور تھا۔ میں نے ان کی طرف رخ کیا تا کہ ان کو بچاؤں مگر پھر میری نظر آپؐ پر پڑی اور میں آپؐ کے پاس آ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے اس کی حفاظت کر رہے ہیں یعنی عبدالرحمٰن بن عوف کی فرشتے حفاظت کر رہے ہیں۔ ایک اَور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے اس کی معیت میں لڑ رہے ہیں۔ حضرت حارثؓ کہتے ہیں کہ میں عبدالرحمن بن عوف کے پاس گیا۔ پھر واپس ہو کے گیا۔ جب جنگ خاتمے کو پہنچی تو مَیں نے دیکھا ان کے سامنے سات آدمی قتل ہوئے پڑے ہیں۔ میں نے کہا کہ کیا آپؓ نے ان سب کو قتل کیا ہے؟اس پر عبدالرحمٰن نے کہا کہ ان تین کو تو مَیں نے قتل کیا ہے مگر باقیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ ان کو کس نے قتل کیا ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا۔ یعنی کہ فرشتے اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 615 حارث بن صمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
حضرت حارث واقعہ بئرِ َمعُونہ میں شریک ہوئے۔ جس وقت یہ واقعہ ہوا اور صحابہ کو شہید کیا گیا اُس وقت حضرت حارث اور عمرو بن اُمَیَّہ اونٹوں کو چرانے گئے ہوئے تھے۔ سیرت ابن ہشام میں دو اصحاب عمرو بن امیہ اور حضرت مُنْذِر بن محمد کا درج ہے۔ بہرحال بعض کتابوں کی روایت میں یہ تھے جو اونٹوں کو چرانے والےتھے۔ بہرحال اس روایت کے مطابق جو یہ کہتی ہے کہ یہ تھے، جب واپسی پر یہ اپنے پڑاؤ کی جگہ پر پہنچے تو دیکھا کہ پرندے وہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو انہوں نے سمجھ لیا کہ ان کے ساتھی شہید ہو چکے ہیں۔ حضرت حارث نے حضرت عمرو سے کہا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ عمرو نے کہا کہ میرا خیال تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے اور واپس جا کے خبر کی جائے۔ حضرت حارثؓ نے کہا کہ میں اس جگہ سے پیچھے نہیں رہوںگا جہاں مُنذِر کو قتل کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ آگے بڑھے اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 615 حارث بن الصمۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
(سیرت ابن ہشام صفحہ 439 حدیث بئر معونۃ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ کہتے ہیں کہ حَارِث کی شہادت دشمنوں کی طرف سے مسلسل پھینکے جانے والے نیزوں کی وجہ سے ہوئی تھی جو ان کے جسم میں پیوست ہو گئے تھے اور آپؓ شہید ہو گئے تھے۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 615 حارث بن الصمۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
اللہ تعالیٰ ان تمام بدری صحابہ کے درجات بلند سے بلند فرماتا چلا جائے۔
٭…٭…٭