حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے متعلق سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی کچھ یادیں
خاکسار کو ایم ٹی اے کے کسی پروگرام کے سلسلہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے رہنمائی کی درخواست کرنا ہو تو اکثر پورا پروگرام یا اس کےمتعلقہ حصے کی ریکارڈنگ ساتھ لے جاتا ہے۔ بعض اوقات حضور زبانی سُن کررہنمائی فرمادیتے ہیں اور بعض اوقات اس پروگرام کی ریکارڈنگ چلانے کا ارشاد فرماتے ہیں۔اس کے لئے حضور اپنے سامنے رکھے DVD Player کی ٹرے کو ریموٹ کنٹرول سے کھول دیتے ہیں اور خاکسار اس میں رکھی DVD کو نکال کر متعلقہ پروگرام کی ڈی وی ڈی رکھ کر چلا دیتا ہے۔
ایک آدھ بار کے علاوہ ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ وہاں پہلے سے موجود ڈی وی ڈی حضرت مصلح موعودؓ کی اُس تقریر کی ہوتی ہےجس میں حضورؓ بڑے جلال سے فرماتے ہیں:’’اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!!‘‘۔ پھر جب حضور پروگرام کا متعلقہ حصہ ملاحظہ فرمالیتے ہیں تو فرماتے ہیں، ’’وہی واپس لگا دو‘‘۔
ایک مرتبہ حضور نے ازراہِ شفقت دریافت فرمایا کہ ’’تم نے یہ تقریر سنی ہوئی ہے؟‘‘۔ خاکسار نے عرض کی کہ جی نہیں حضور، سنی تو نہیں ہوئی۔ تو حضور نے ریموٹ کنٹرول سے اس تاریخ ساز خطاب کی ریکارڈنگ چلائی۔ وہ پُرجلال تقریر چلی اور کافی دیر چلتی رہی۔ اس وقت حضرت مصلح موعودؓکی پُر شوکت آواز اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی بنفسِ نفیس موجودگی نے سماعت اور بصارت پر جو گہرا اثر چھوڑا ، اس کا اندازہ قارئین کر ہی سکتے ہیں۔
یہ وہ تجربہ ہے جس سے مجھے حضور انور کی حضرت مصلح موعودؓسے محبت کا اندازہ ہوا۔ پھر ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓسے متعلق ذکر میں خاکسار نے عرض کرنے کی ہمت کی کہ :
’’حضور، آپ حضرت مصلح موعودؓکا اپنے خطبات میں بہت ذکر فرماتے ہیں…‘‘ (یہ عرض داشتیں یونہی نامکمل سی ہوتی ہیں، کہ براہِ راست سوالیہ طرز پر کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی)۔
فرمایا:’’حضرت مصلح موعودؓکا مقام ایسا تھا کہ حضورؓنے خود اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر فرمایا کہ حضورؓموعودخلیفہ تھے۔ یعنی خلیفہ کے مقام سے بلند مگر نبی کے مقام سے نیچے۔ تو ایسے وجود کے ذکر کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ وہ جو حضورؓ نے فرمایا تھا نا کہ
؎ اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
تو وہ وقت اب آگیا ہے۔ اور ابھی تودنیا کو حضرت مصلح موعودؓ کے مقام و منصب سے مزید آگاہی ہونی ہے۔‘‘
اس بات سے اس محبت کا اور بھی زیادہ اندازہ ہوا جو سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو حضرت مصلح موعودؓ سے ہے۔پھر ابھی کچھ روز قبل(9 فروری،2019)، حضور انور کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا تو ایک ایسی صورت بنی کہ حضرت مصلح موعودؓ کے جنازہ کا ذکر ہوا۔خاکسار نے عرض کی:
’’حضور، آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کا جنازہ یاد ہے؟‘‘
فرمایا’’بالکل یاد ہے۔ جنازہ کا اٹھایا جانا، جنازہ کے ساتھ چل کر بہشتی مقبرہ جانا اور پھر نمازِ جنازہ ادا کرنا بھی یاد ہے۔ بلکہ یہ تم کتنے سال پرانی بات کررہے ہو(سوچتے ہوئے اور انگلیوں پر حساب لگاتے ہوئے)…تقریباً 53،52 سال پرانی۔ تو اس وقت تو دوڑ دوڑ کر جنازے کے ساتھ جانایاد ہے۔‘‘
یہاں خاموشی ہوئی، تو یہ وہ خاموشی تھی جسے خود توڑنا مجھے ہمیشہ کسی جرم سے کم نہیں لگا۔ وہ خاموشی جو بھرپور ہوتی ہے۔ اسے بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں۔
خاموشی یوں ختم ہوئی کہ حضور نے خود فرمایا:
’’مجھے یہ بھی یاد ہے کہ کسی پیارے ،کسی عزیز کی وفات کا یہ پہلا تجربہ تھا جو ہوش کے زمانہ میں ہوا۔ اور کسی بہت پیارے وفات شدہ وجود کی پیشانی کو بوسہ دینے کا بھی پہلا تجربہ جو یاد رہ گیا۔ آج تک وہ پیشانی اور وہ تجربہ یاد ہے۔ حضرت مصلح موعود کے جسدِ اطہر کے سرہانے کھڑے ہونا بھی یاد ہے۔‘‘
بالعموم دورانِ ملاقات مجھے حضور انور کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنے کی مجال نہیں ہوا کرتی۔ بعض اوقات یہ خیال بھی آتا ہے کہ حضور براہ راست مخاطب فرمارہے ہیں اور میں نیچے دیکھ رہا ہوں، خلافِ ادب ہی نہ ہو۔ مگر کیا کریں کہ نظر نہیں اٹھتی اور اگر اٹھتی ہے تو نظر بھر کردیکھا نہیں جاتا۔مگر جب حضور انور نے یہ بات بیان فرمائی تو بے ساختہ میری نگاہ حضور کے چہرۂ مبارک کی طرف اٹھ گئی۔اس مختصر سے ثانیے میں مجھے وہ محبت، وہ جذبات ، وہ عقیدت نظر آئی جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھی کہ حضور اس عظیم ہستی کی پیشانی کو بوسہ دینے کی مبارک گھڑی کو گویا محسوس فرمارہے ہیں۔
میں نے نگاہ جھکا لی اور اس گھڑی میں خاموش رہنے کو بہتر خیال کیا۔ پھر حضور کی مبارک آواز آئی:
’’حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا خلیفہ منتخب ہونا بھی یادہے۔ رات گیارہ بجے کے بعد اعلان ہوا تھا ۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ مسجد سے واپس گھر تشریف لائے۔ سب خاندان والے جمع تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ اپنے کمرےمیں تشریف لے گئے۔ کوئی آدھ گھنٹہ تنہا اپنے کمرے میں رہے۔ پھر باہر تشریف لائے۔‘‘
’’یہ بھی یاد ہے کہ حضرت مصلح موعود کا جسدِ اطہر کمرے میں ہی تھا۔ خاندان کے افراد موجود تھے۔ کسی عورت یا کسی بچے کی اونچی رونے کی آواز آئی۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ (ابھی خلیفہ منتخب نہیں ہوئے تھے) نے منع فرمایا اور فرمایا کہ صدمہ میں آواز اونچی نہیں کرنی اور یہ کہ اس وقت صرف خاموشی سے قدرتِ ثانیہ کے ظہور کے لئے دعا کریں۔ مجھے یاد ہے کہ بعد میں یہ آواز اونچا نہ کرنے والی نصیحت حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ جو وہاں موجود تھے، نے بھی فرمائی‘‘۔
خاکسار نے عرض کی کہ ’’حضور، آپ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اس کمرے میں۔۔۔‘‘
فرمایا، ’’ہاں! اس وقت اس کمرے میں حضرت مصلح موعودؓ کا جسدِ اطہر بھی تھا، اور وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث بھی تھے، خلیفۃ المسیح الرابع بھی تھے اور میں بھی تھا‘‘۔
کیا ہی مبارک ہوگا وہ کمرہ اور وہ وقت جہاں چار خلفائےاحمدیت بیک وقت موجود تھے۔ حضرت مصلح موعودؓکو اپنے رب کا بلاوا آچکا تھا مگر جسدِ اطہر ابھی موجود تھا اور پھر تین ایسی ہستیاں جو مستقبل میں آسمانِ احمدیت پر آفتابِ خلافت بن کر چمکنے والی تھیں۔ آسمانِ احمدیت، جہاں اللہ تعالیٰ نے کبھی آفتاب کو غروب ہونے نہیں دیا۔
’’حضور، حضرت مصلح موعودؓ سے ملنا بھی یاد ہوگا‘‘
’’ہاں! ایک دفعہ تو میں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ (حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے داداجان)کے ساتھ ملنے گیا تھا۔ حالانکہ وہ حضرت مصلح موعودؓ کے بھائی تھے، مگر انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا کہ سیدھے اندر ملنے چلے گئے ہوں۔ قصرِ خلافت کے باہر پہنچ کر پہلے اجازت حاصل کرنے کے لئے اندر پیغام بھیجا۔ پھر اجازت ملی تو حاضر ہوئے۔ بڑے ادب سے وہاں موجود رہے، جو عرض کرنی تھی کی، اور بڑے ادب سے واپس تشریف لے آئے۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا مگرخلافت کے مقام و منصب کو سمجھنے میں ایک ابتدائی تجربہ یہ بھی تھا۔‘‘
’’پھر اس کے علاوہ بھی کئی دفعہ بچپن میں حضرت مصلح موعودؓکا مجھ سے مذاق میں بات کرنا یاد ہے۔ایک مرتبہ حضور مری میں تھے۔ ہم بھی وہاں گئے ہوئے تھے۔ میں اور میرا ایک ماموں زاد بھائی گھوم پھر رہے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓکی نظر ہم پر پڑی۔ ہمیں پاس بلا کر ہم بچوں کی عمر کے مطابق مذاق فرمایا جس کا ہم بہت دیر تک لطف لیتے رہے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ملاقات اختتام کو پہنچی۔ حضرت مصلح موعودؓکے حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی یادداشتیں اور وہ بھی حضور کی زبانی سُن کر جو کیفیت ہوئی ، وہ قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہ یادداشتیں الحکم کی طرف سے تمام احباب ِ جماعت کی خدمت میں یومِ مصلح موعود کے تحفہ کے طور پر پیش ہیں۔
اختتام کرتے ہیں اس شعر کے ساتھ جو حضرت مصلح موعودؓکا ہے، اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے ذکر میں بیان فرمایا ۔
؎ اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
تو آئیے ہم بھی اپنے پیارے امام کے ساتھ مل کر دعا کریں کہ اے اللہ ! ملت کے اس عظیم الشان فدائی پر اپنی رحمت نازل فرما۔ وہ ملت کا فدائی، جو اَن گنت راتیں قوم کے درد میں سویا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کے مقام کو سمجھنے والا اور اس نعمت سے بہت محبت کرنے والا اور اس کی قدر کرنے والا بنا دے۔آمین
(بشکریہ ہفت روزہ الحکم)