ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط 32)
دوزخ عارضی ہے اور بہشت دائمی
صبح کی سیر میں بہشت ودوزخ کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایاکہ
قرآن شریف میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے بہشت کا ذکر فرمایا ہے،وہاں بہشت کے انعامات کی نسبت
عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ (ہود:109)
فرمایا ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھا۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو امید ہی نہ رہتی اور مایوسی پیدا ہوتی۔اس لئے کہ بہشت کے دوامی انعاموں کو دیکھ کر مسرت بڑھتی ہے۔ اور دوزخ کے ایک معین عرصہ تک ہونے سے امید پیدا ہوتی ہے۔جیسے ایک شاعر نے اس کو یوں بیان کیا ہے ؎
گویند کہ بحشر جستجو خواہد بود
واں یار عزیز تُندخو خواہد بود
از خیر محض شرّے نیاید ہرگز
خوش باش کہ انجام بخیر خواہد بود
ہمارا ایمان یہی ہے کہ دوزخ میں انسان ایک عرصہ تک رہیں گے،پھر نکل آئیں گے ۔گویا جن کی اصلاح نبوت سے نہیں ہوسکی۔ ان کی اصلاح دوزخ کرے گا۔حدیث میں آیا ہے۔
یَاْتِی عَلٰی جَہَنَّمَ زَمْانٌ لَیْسَ فِیْھَا اَحَدٌ ۔
یعنی جہنم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس میں کوئی متنفس نہیں ہوگا ۔اور نسیم صبا اس کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گی۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 129،128)
*۔اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کے یہ دو اشعار استعمال کیے ہیں ۔
گُوْیَنْدکِہْ بِحَشَرْ جُسْتُجُوْ خَواہَدْ بُوْدْ
وَاںْیَارِعَزِیْزِتُنْدخُوْخَواہَدْبُوْد
اَزْخَیْرِ مَحْض شَرِّےْ نَیْاَیَد ہَرْگِزْ
خُوْشْ بَاشْ کِہْ اَنْجَامْ بِخَیْر خَواہَدْبُوْد
ترجمہ شعر نمبر 1:۔ کہتے ہیں قیامت کے دن تفتیش ہوگی اور اس دن وہ پیارا محبوب تند خو ہوگا۔
ترجمہ شعر نمبر 2:۔ خالص بھلائی والی ہستی سے برا سلوک ہرگز ممکن نہیں مطمئن رہو کہ انجام بخیر ہوگا۔
ابوسعید ابوالخیر کی ایک رباعی ذیل میں درج ہے جو درج بالا رباعی سے فقط چند الفاظ میں مختلف ہے۔دونوں کاترجمہ ایک ہی ہے ۔
گُوْیَنْدْ بِہْ حَشْرگُفْتُگُوْ خَواھَدْ بُوْد
وَانْ یَارِعَزِیْزِ تُنْدخُو خَواھَدْ بُوْد
اَزْخَیْرِمَحْض جُزْ نِیْکُوْیِیْ نَاَیَدْ
خُوَشْ بَاشْ کِہْ عَاقِبَتْ نِکُوْخَواہَدْبُوْدْ
اس رباعی کے دوسرے شعر کا دوسرا مصرع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 4؍ دسمبر 1903ءکو الہام بھی ہوا جو تذکرہ صفحہ 416ایڈیشن ششم پرہے یعنی ۔
‘‘خُوْش بَاشْ کِہْ عَاقِبَتْ نِکُوْخَواھَدْ بُوْد۔خُوْش بَاشْ کِہْ عَاقِبَتْ نِکُوْخَواھَدْبُوْد۔’’
خوش ہو کہ انجام نیک ہو گا۔خوش ہو کہ انجام نیک ہوگا۔پھر 2؍جنوری 1904ء کو کھانسی سے آرام کے لیے یہ الہام ہوا
‘‘انشاء اللہ خیر وعافیت ۔ خُوْش بَاشْ کِہْ عَاقِبَتْ نِکُوْ خَواھَدْ بُوْدْ’’۔
جو صفحہ نمبر419پر ہے۔
٭…٭…٭