شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام: آپؑ کے لکھنے اور قلم کا بیان(حصہ سوم)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لکھنے اور قلم کا بیان(حصہ سوم)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی1901ء کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور کی خط و کتابت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :
‘‘اوائل میں جب آپ کا کوئی دعویٰ نہ تھا اور براہین احمدیہ کی تالیف میں مصروف تھے۔اُس وقت آپ کا معمول یہ تھا کہ جو خطوط آتے اُن کا جواب آپ خود لکھتے۔لکھنے کے لئے دیسی قلم اور سیاہی استعمال فرماتے اور باریک فرینچ پیپر پر خطوط کا جواب دیتے تھے۔’’
(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ5،پیش لفظ)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ
‘‘وہ کتابیں جو اکثر حضرت صاحب کی زیر نظر رہتی تھیں۔ نیز تصنیف کے تمام کاغذات بستوں میں بندھے رہتے تھے ایک ایک وقت میں اس قسم کے تین تین بستے جمع ہو جاتے تھے۔عموماً دو بستے تو ضرور رہتے تھے یہ بستے سلے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔بلکہ صرف ایک چورس کپڑا ہوتا تھا۔جس میں کاغذ اور کتابیں رکھ کر دونوں طرف سے گانٹھیں دے لیا کرتے تھے۔تصنیف کے وقت آپ کا سارا دفتر آپ کا پلنگ ہوتا تھا۔اسی واسطے ہمیشہ بڑے پلنگ پر سویا کرتے تھے۔
خاکسار (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے) عرض کرتا ہے کہ مَیں نے حضرت صاحب کو کبھی میز کرسی لگا کر کام کرتے نہیں دیکھا۔البتہ بسا اوقت (اوقات) ٹہلتے ہوئے تصنیف کا کام کیا کرتے تھے۔اور اکثر پلنگ یا فرش پر بیٹھ کر کام کرتے تھے۔’’
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر698)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :
‘‘(حضرت) والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب مٹی کے تیل کی روشنی کے سامنے بیٹھ کر کام کرنا ناپسند کرتے تھے اور اسکی جگہ موم بتیاں استعمال کر تے تھے۔ایک زمانہ میں کچھ عرصہ گیس کا لیمپ بھی استعمال کیا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ کئی کئی موم بتیاں جلا کر سامنے رکھوا لیتے تھے اگر کوئی بتی بجھ جاتی تھی تو اس کی جگہ اور جلا لیتے تھے اور گھر میں عموماً موم بتیوں کے بنڈل منگواکر ذخیرہ رکھوا لیتے تھے۔خاکسار کو یاد ہے کہ ایک دفعہ اس دالان میں جو بیت الفکر کےساتھ ملحق شمال کی طرف ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام شمالی دیوار کے پاس پلنگ پر بیٹھے ہوئے شاید کسی کا م میں مصروف تھے اور پاس موم کی بتیاں جلی رکھی تھیں ۔حضرت والدہ صاحبہ بتیوں کے پاس سے گزریں تو پشت کی جانب سے ان کی اوڑ ھنی کے کنارے کو آگ لگ گئی اور ان کو کچھ خبر نہ تھی۔حضرت مسیح موعود نے دیکھا تو جلدی سے اُٹھکر اپنے ہاتھ سے آگ بجھائی۔’’
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر4)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ تحریر فرماتے ہیں :
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت شریف میں یہ بات داخل تھی کہ رات کو بھی عموماً تحریر کا کام کیا کرتے تھے۔اور یہ کام عموماً موم بتیوں کی روشنی میں کرتے تھے۔ابتدائی زمانہ میں دیسی چراغ جلایا کرتے تھے پھر بعثت کے بعد عموماً موم بتی ہی سے کام لیا ہے۔مٹی کے تیل کو آپ پسند نہ کرتے تھے مگر ہری کین * استعمال کی ہے۔’’
(سیرت حضرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 71)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ تحریر فرماتے ہیں :
‘‘آپ نے جب سے اشاعت حق کے لئے قلم ہاتھ میں لیا آپ کی عادت میں یہ امر داخل تھا کہ کاغذ کے نیچے کوئی چیز بطور زیر مشق کے استعمال نہیں کی بلکہ عام طریق یہ تھا کہ ایک سفید کاغذ بغیر رول کے لے کر اس کے دونوں طرف شکن ڈال لیا کرتے تھے جو قدیم طریق تھا اور پھر جب لکھنے لگتے تو تھوڑے تھوڑے فاصلے سے بطور مسطر کے شکن ڈالتے اور لکھتے جاتے جب وہ صفحہ ختم ہو جاتا تو تازہ لکھے ہوئے حصہ کو اوپر کر کے شروع صفحہ والے حصہ کو الٹ لیتے اور اس طرح پر بغیر استعمال بلاٹنگ پیپر کے لکھتے جاتے۔نہ آپ کو اس کے نیچے کسی چیز کے رکھنے کی ضرورت ہوتی اور نہ خشک کرنے کے لئے کسی بلاٹنگ پیپر کی۔زمانہ بعثت سے پہلے آپ جب لکھتے تھے تو بہت سے کاغذات جو چھپے ہوئے ہوں اور کچھ حصہ ان کا سفید ہو ان پر لکھ لیا کرتے اور سیالکوٹی کاغذ استعمال کرتے تھے۔جب فرنچ پیپر فل سکیپ سائز کا جاری ہوا تو اکثر آپ اسی پر لکھتے۔اس وقت آپ دیسی کالی سیاہی اور واسطین کا قلم استعمال فرماتے تھے لیکن جب آپ مامور ہو گئے اور بیعت کا سلسلہ جاری ہو گیا اور انگریزی قلم عام ہو گئے اور بلیو، بلیک سیاہی عام ہو گئی تو آپ نے لوہے کے قلم سے کام لینا شروع کیا۔سیاہی عام طور پر آپ سرخ رنگ کی استعمال فرماتے اور اخیر عمر میں ٹیڑھے نب استعمال فرماتے تھے۔ایک زمانہ تک شمشیر قلم نب بھی آپ نے استعمال کئے ٹیڑھے نب کا رواج حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے دیا پھر یہی نب آپ کو پسند تھا۔تحریر کے وقت حضور کی عادت تھی کہ گنگناتے بھی جاتے تھے۔مضمون لکھ کر دوبارہ پڑھتے اور ہر دفعہ جب مضمون پر نظر ثانی کرتے تو اس میں اضافہ کرتے یہاں تک کہ کاپی اور پروف تک پر اضافہ کرتے جاتے اور آخری پروف تک بھی بعض اوقات ایزادی ہوتی رہتی تھی۔اس سے پایا جاتا ہے کہ آپ کے دماغ میں مضامین کی آمد کس زور سے تھی اور اس کا چشمہ کوئی دوسری ہستی تھی۔
تحریر کے وقت یہ بھی آپ کی عادت شریف میں داخل تھا کہ اکثر ٹہل کر لکھا کرتے تھے اور اس مطلب کے لئے دو طرف دوات رکھ لیا کرتے تھے ٹہلتے بھی جاتے اور لکھتے بھی جاتے تھے۔بعض لوگوں کو آپ کی اس عادت پر تعجب بھی ہوا کہ ٹہل کر کتاب پڑھی تو جاتی ہے مگر لکھی نہیں جاتی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اس عادت کو خود جب ذکر فرماتے تھے تو یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مضامین چلتے پھرتے ہیں یعنی ان میں حس اور زندگی ہے۔’’
(سیرت حضرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓصفحہ 71-73)
لوہے کی قلم اور تلوار: اصحاب میں سے ایک نے عرض کی کہ آیت
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ(سورۃ الحدید : 26)
سے معلوم ہوتاہے کہ حدید نے اپنا فعل بأس شدید کا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کیا کہ اس سے سامان جنگ وغیرہ تیار ہو کر کام آتا تھا مگر اس کے فعل منافع للناس کا وقت یہ مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے کہ اس وقت تمام دنیا حدید (لوہے) سے فائدہ اٹھا رہی ہے …
حضرت اقدس نے اس پر فرمایا کہ
‘‘میں بھی سارے مضمون لوہے کے قلم ہی سے لکھتا ہوں۔ مجھے بار بار قلم بنانے کی عادت نہیں ہے۔اس لئے لوہے کے قلم استعمال کرتا ہوں ۔آنحضرتؐ نے لوہے سے کا م لیا ہم بھی لوہے ہی سے لے رہے ہیں اور وہی لوہے کی قلم تلوار کا کام دے رہی ہے۔’’
(حضرت اقدس جس قلم سے لکھا کرتے ہیں وہ ایک خاص قسم کا ہوتا ہے جس کی نوک آگے سے داہنی طرف کو مڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس کی شکل تلوار کی سی ہوتی ہے۔ایڈیٹر)
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ283-284)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خط و کتابت کا بیان (حصہ اوّل)
انبیاء اور مرسلین اپنی ا قوام کو مختلف ذرائع سے انذار اور تبشیر کرتے رہے ہیں ان میں سے ایک ذریعہ خطوط کا بھی ہے چنانچہ قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ملکہ سبا کے نام خط کا ذکر سورۃ النمل کی آیات 29تا 31میں ان الفاظ میں ملتا ہے۔
اِذۡہَبۡ بِّکِتٰبِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقِہۡ اِلَیۡہِمۡ ثُمَّ تَوَلَّ عَنۡہُمۡ فَانۡظُرۡ مَا ذَا یَرۡجِعُوۡنَ۔ قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اِنِّیۡۤ اُلۡقِیَ اِلَیَّ کِتٰبٌ کَرِیۡمٌ۔ اِنَّہٗ مِنۡ سُلَیۡمٰنَ وَ اِنَّہٗ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔(سورۃ النمل:29تا31)
ترجمہ: یہ میرا خط لے جا اور اسے ان لوگوں کے سامنے رکھ دے پھر اُن سے ایک طرف ہٹ جا۔پھر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔(یہ خط دیکھ کر) اس (ملکہ) نے کہا اے سردارو! میری طرف یقیناً ایک معزز خط بھیجا گیا ہے۔یقینا ًوہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے: اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا، بن مانگے دینے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خطوط کے ذریعہ تبلیغ حق کا فریضہ ادا فرمایا ان میں سے قیصرروما ہرقل کے نام خط، کسریٰ شہنشاہ فارس کے نام خط، مقوقس والیٔ مصر کے نام خط، نجاشی شاہِ حبشہ کے نام خط، رئیسِ غسان کے نام خط اور رئیسِ یمامہ کے نام خط قابل ذکر ہیں ۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی اسلام کی تائید میں مختلف اخبارات میں خطوط تحریر فرمایا کرتے تھے بعد میں یہ سلسلہ بڑھتا اور منظم ہوتا چلا گیا۔1891ء میں آپ نے‘‘فتح اسلام’’ تحریر فرمائی اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں :
‘‘اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا۔یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔اِسی اسلام کا زندہ کرنا خداتعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے روبراہ کرنے کیلئے ایک عظیم الشان کا رخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔سو اُس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کیلئے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا۔چنانچہ منجملہ ان شاخوں کے… چوتھی شاخ اس کارخانہ کی وہ مکتوبات ہیں جو حق کے طالبوں یا مخالفوں کی طرف لکھے جاتے ہیں۔چنانچہ اب تک عرصہ مذکورہ بالا میں نوّے ہزار سے بھی کچھ زیادہ خط آئے ہونگے جن کا جواب لکھا گیا بجز بعض خطوط کے جو فضول یا غیر ضروری سمجھے گئے اور یہ سلسلہ بھی بدستور جاری ہے اور ہر ایک مہینے میں غالباً تین سَو سے سات سَو یا ہزار تک خطوط کی آمد و رفت کی نوبت پہنچتی ہے۔’’
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ10تا24)
‘‘ہم نے تو خدا کے اذن سے بادشاہان وقت کو دعوت کی یہاں تک کہ قیصرہ ہند کے ولی عہد کو اسلام کا خط لکھا…’’
‘‘اور قریب تیس ہزار کے اس دعویٰ کے دکھلانے کے لیے اشتہارات تقسیم کئے گئے اور آٹھ ہزار انگریزی اشتہار اور خطوط انگریزی رجسٹری کرا کر ملک ہند کے تمام پادریوں اور پنڈتوں اور یہودیوں کی طرف بھیجے گئے اور پھر اس پر اکتفا نہ کر کے انگلستان اور جرمن اور فرانس اور یونان اور روس اور روم اور دیگر ممالک یورپ میں بڑے بڑے پادریوں کے نام اور شہزادوں اور وزیروں کے نام روانہ کئے گئے۔چنانچہ ان میں سے شہزادہ پرنس آف ویلز ولی عہد تخت انگلستان و ہندوستان اور گلیڈ سٹون وزیر اعظم اور جرمن کا شہزادہ بسمارک ہے چنانچہ ان تمام صاحبوں کی رسیدوں سے ایک صندوق بھرا ہوا ہے۔’’
(مکتوب بنام منشی مظہر حسین صاحب؛ الحکم مؤرخہ24 اگست1901ء صفحہ6)
ان کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ وکٹوریہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور شاہ افغانستان کو بھی اپنے دعویٰ اور اسلامی جہاد کی حقیقت سے اپنے مکتوب کے ذریعہ مطلع کیا۔
……………………………………………………(باقی آئندہ)
٭…٭…٭