’’تمام زمین ہی مسجد ہے‘‘
وبائی ایام میں نماز باجماعت کی صورت
اور
آنحضور ﷺ کی امتیازی شان جُعِلَت لِیَ الاَرضُ مسجدًا کا عالمگیر ظہور
جب ایک بہت بڑے لشکر کے خیمے وسیع وعریض میدان میں میل ہا میل تک پھیلا دیے جائیں اور اندھیری رات میں ہر خیمے کا اپنا الاؤ روشن ہو تو یہ ایک عجیب بارعب نظارہ ہوگا۔ جسے دیکھنے والا مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر کروڑوں روشن چراغوں کا یہی پھیلاؤ کرۂ ارض پر کر دیا جائے تو تصور کیجیے کہ کیسا شاندار او رمنفرد منظر وجود میں آئے گا۔
وبا کے ان دنوں میں سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ایک غیر معمولی خصوصیت اور امتیازی شان کا اظہار ہورہا ہے۔ اس سے پہلے اجتماعی صورت میں عالمگیر سطح پر کبھی ایسا منظر پیدا نہیں ہوا ۔ ایک ایسی تصویر پینٹ ہوئی ہے جو دلربا اور دلفریب ہے۔لیکن اس کا نظارہ چشم تصور میں ہی کیا جاسکتا ہے کہ یہ معاملہ عشق و محبت کا ہے اور عشق کی آنکھ سے ہی نظر آنے والا ہے ۔
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھےخدا تعالیٰ کی طرف سے پانچ ایسی باتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی اور نبی کو عطا نہیں ہوئیں ۔ اول مجھے ایک مہینے کی مسافت کے اندازے کے مطابق خدا داد رعب عطا کیا گیا ہے۔ دوسرے میرے لیے ساری زمین مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔ تیسرے میرے لیے جنگوں میں حاصل شدہ مال غنیمت جائز قرار دیا گیا ہے، حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لیے جائز نہیں تھا۔ چوتھے مجھے خدا کے حضور شفاعت کا مقام عطا کیا گیا ہے۔ اور پانچویں مجھ سے پہلے ہر نبی صرف اپنی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا لیکن میں ساری دنیا اور سب قوموں کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔
( بخاری کتاب الصلوۃ حدیثْ نمبر 438)
ہمارا موضوع سید ولد آدم حضرت محمد ﷺ کو عطا ہونے والی دوسری امتیازی شان پر بات کرنا ہے۔ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے لوگ اس خصوصیت میں شریک نہیں ہیں۔ بالفاظ دیگر قرآنی ارشاد اینما تولوا فثم وجہ اللہ کی عملی تصویرآپﷺ کی اس امتیازی شان میں دہرائی گئی ہےکہ ساری زمین میرے لیے مسجد بنا دی گئی ہے اور پاک کر دی گئی ہے۔
آج دنیا بھرمیں مختلف النوع مذاہب کی قسم ہا قسم کی عبادت گاہیں جگہ جگہ قائم ہیں۔ عام طو رپرعبادات کے لیے اپنی اپنی عبادت گاہ کا رخ کیا جاتا ہے۔لیکن میرے آقاو مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو یہ خصوصیت عطا ہوئی کہ ساری زمین آپ کے لیے اور آپ کے طفیل امت مسلمہ کے لیے پاک کر دی گئی اور اسے مسجد کا درجہ عطا ہوا۔ جو جہاں بھی ہے عبادت کر سکتا ہے کوئی روک نہیں۔ گویا حدود و قیود سے باہر ہر لمحہ و ہر آن کسی بھی جگہ عبادت بجا لا سکتے ہیں ۔
اس عظیم الشان خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئےسیدنا حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جُعِلَت لِیَ الاَرضُ مَسجِداً ساری دنیا میرے لئے مسجد بنا دی گئی ہے۔ ا س کے یہ بھی معنی ہیں کہ اسلام میں گرجوں اور مندروں کا طریق نہیں ہر جگہ انسان عبادت کر سکتا ہے۔ مسجد صرف اجتماع کی جگہ ہے۔ ورنہ مساجد عبادت کے لئے مخصوص نہیں اور یہ نہیں کہ مسجد سے باہرعبادت نہیں ہو سکتی جیسا کہ ہندوؤں اور عیسائیوں کا طریق ہے کہ ان کے نزدیک مندروں اور گرجوں سے باہر عبادت نہیں ہو سکتی ۔ اگر کسی جگہ مسجد نہ ہو اور کوئی مسلمان سفر کرر ہا ہو تو جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہی جگہ مسجد اور وہی جگہ عبادت گاہ ہو جائے گی ۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ10؍ جنوری1936ء)
ساری دنیا ہمارے خدا کا گھرہے
ساری زمین کو مسجد کہے جانے کی حکمت اور اس کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک لطیف نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’مسجد ایک خدا کا گھر بھی ہے جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ جُعِلَت لِیَ الاَرضُ مَسجِداًکے یہ معنی بھی ہیں کہ جس طرح سارے لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور وہاں چھوٹے بڑے امیر غریب کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا اسی طرح رسول کریمﷺ نے فرمایا ہمارے لئے ملکوں کا کوئی امتیاز نہیں جس طرح مسجد خدا کا گھر کہلاتی ہے اسی طرح ساری دنیا ہمارے خدا کا گھرہے‘‘ ( خطبہ جمعہ 10؍جنوری1936ء)
منفرد خصوصیت جو دنیا کی کسی امت میں نہیں ہے
یہ منفرد اورامتیازی شا ن جو صرف اسلام میں پائی جاتی ہے کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’دوسری بات جو خصوصیت سے آنحضورﷺ نے اپنے بارے میں فرمائی وہ یہ تھی کہ ’’ ساری زمین میرے لئے مسجد اور پاک بنا دی گئی ہے۔‘‘ ساری زمین کے پاک ہونے سے مراد یہ نہیں کہ زمین کا وہ حصہ جہاں گند پڑا ہو وہ بھی پاک ہے۔ مراد یہ کہ ہر جگہ صاف جگہ دیکھ کر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اور ہر گندی جگہ بھی طبعی عمل کے ذریعہ رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کی طرف سے صا ف کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مٹی میں صفائی کی خاصیت موجو دہے ۔ مٹی پاک کر دیا کرتی ہے۔ اسی لئے تیمم میں بھی مٹی کی طرف رجوع کرنے کا فرمایا ہے۔ پس فرمایا ساری زمین میرے لئے پاک کر دی گئی ہے اور یہ جو خصوصیت ہے دنیا کی کسی اور امت میں آپ کو دکھائی نہیں دے گی کہ ساری زمین ان کی عبادت کےلئے پاک قرار دی گئی ہو۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ26؍فروری 1999ء ۔الفضل انٹرنیشنل16؍اپریل 1999ء)
رحمتہ للعالمین کے لیےخصوصی باران رحمت
رب کائنات نے یہ جو خصوصی امتیاز آنحضرت ﷺ کو عطا فرمایا دراصل یہ آپ ﷺ کے رحمت للعالمین ہونے کے ایک اور پہلو پر روشنی ڈالنے والا تھا۔ یہ اظہار تھا اس بات کا کہ ایک اور زاویے سے بھی آپ کی رحمت زمان و مکان تک ممتد ہونے والی ہے۔ اس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:
’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ کو خصوصی رحمت عطا ہوئی ہے اس لئے کہ آپؐ رحمۃ للعالمین تھے اور اس رحمت کا عطا ہونا اس کا لازمی حصہ ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ26؍ فروری 1999ء۔الفضل انٹرنیشنل 16؍ اپریل 1999ء)
عبادت گزاروں کی جماعت دنیا کے کنارو ں تک
جُعِلَت لِیَ الاَرضُ مَسجِداًیعنی ساری زمین کو آپ کے لیے مسجد بنا دیا گیا ہے کی امتیازی شان میں ایک پیش خبری بھی تھی۔اس میں یہ اظہار بھی تھا کہ عبادت گزاروں کی جو جماعت حضرت محمدﷺ پیدا کرنے والے ہیں وہ زمین کے چپے چپے پر مالک کائنات کے حضور سر بسجود ہو کر اپنے سجدوں کے نشان چھوڑنے والی ہے۔ اگر آپﷺ کے ماننے والوں نے کرہ ارض کے ہر کونے میں عبادات بجا لانے کی خاطر پہنچنا ہی نہیں تھا تو پھر اس منفرد خصوصیت کی کوئی شان باقی نہیں رہتی۔ یہ ٹائٹل جو صرف آپﷺ کو عطا ہوا پیشگوئی کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہےاور آج عالمگیر سطح پر اجتماعی طور پر ایک اور انداز سےاس کا ظہور ہو رہا ہے جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔
حالیہ وبا کے دنوں میں دیکھتے ہی دیکھتے ایسی صورت حال پیدا ہوئی گئی کہ جس نے دنیا کو اس طرح ہلا کر رکھ دیا ہے کہ انسان نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اسی صورت کے اندر سے وہ منظر بھی عیاں ہوا ہے جس کا ذکر ہم کر رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی نہاں در نہاں حکمتوں کے تحت آج پندرھویں صدی ہجری میں ایک عجیب رنگ میں ساری زمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لیے مسجد بنا دی گئی ہے۔ ان ایام میں شاید کسی نے فوری یہ نہ سوچا ہو کہ اس تکلیف کی حالت میں سے ایک پہلو یہ بھی ظاہر ہو گا کہ اسلام کا منفرد مقام ثابت ہونے والا ہے۔ ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ کو عطا ہونے والی خصوصیات میں سے ایک کا اظہار بہت کھل کر الگ شان سے پورا ہونے والا ہے ۔
کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑی تو ا س کو روکنے کا فوری حل اجتماعات سے کنارہ کشی تجویز ہوا۔ ایک انسان سے ایک سے دو میٹر کا فاصلہ اختیا رکرنے کا طبی مشورہ دیا جانے لگا۔پوری دنیا میں سرکاری و غیر سرکاری تقریبات پر پابندی لگ گئی ۔ کھیلوں کے بڑے بڑے عالمی قومی اور مقامی اجتماعات کینسل ہو گئے۔ شادی بیاہ، منگنی ،عقیقہ حتی کہ جنازوں کے اجتماعات بھی ممنوع قرارپائے۔ کرۂ ارض پر انسان خود اختیارکردہ تنہائی پر مجبورہوا۔ نئی اصطلاحات وجود میں آگئیں ۔ چند دنوں او رہفتوں میں عالمی طورپر زندگی کے رنگ ڈھنگ بدل کے رہ گئے ۔
اجتماعی زندگی سے دوری کی بات ہوئی تو عبادت گاہوں کے اجتماعات بھی اس ذیل میں آئے اور ایک کے بعد دوسرے ملک میں تمام مذاہب کی عبادت گاہیں بند ہوتی چلی گئیں ۔خانہ کعبہ کا طواف بند کرنا پڑا۔ صلو افی رحالکم کے حکم کی اجتماعی تعمیل کا وقت آگیا۔ یہ اعلان کسی ایک شہر یا گاؤں تک محدود نہیں رہا بلکہ پوری دنیا میں اس کی گونج سنائی دینے لگی۔ مساجد میں اپنی عبادت بجا لانے والے گھروں تک محدود رہ گئے۔مساجد کو ریاض الجنۃ سمجھ کر خوب چرنے والے مومنین اور انتظار الصلواۃ بعد الصلواۃ کی عملی تصویر بنے حقیقی عبادت گزاروں کو یہ حالات بہت تکلیف دینے لگے۔ مسجد میں جانا مجبوراً بند ہوا تو گویا کائنات سمٹ گئی ہو، کا احساس ہونے لگا۔
ایسے میں سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کی طرح بروقت عالم اسلام کی رہنمائی فرمائی اور عالمگیر جماعت احمدیہ کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:
’’افراد جماعت کو بھی میں یہ کہوں گا کہ جہاں حکومت نے اس بیماری کی وجہ سے مسجد میں آنے پر پابندی لگائی ہے یا پابندی تو نہیں لگائی یہاں مثلاً یو۔کے میں یہ ہے کہ انفرادی طور پر مسجد میں آ کر نماز پڑھ سکتے ہیں یا چند فیملی ممبران بھی آکر نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن فاصلہ اتنا ہو کہ آپس میں قریبی رابطہ نہ ہو لیکن اس کے باوجود باجماعت نماز اس طرح نہیں پڑھی جا سکتی کہ سارے اکٹھے ہو کے آئیں۔ تو ایسی صورت میں گھروں میں احباب جماعت کو چاہیے کہ باجماعت نماز کا اہتمام کریں اور جمعہ بھی گھر کے افراد مل کر پڑھیں اور ملفوظات میں سے یا جماعتی کتب میں سے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری کتب میں سے یا الفضل میں سے یا الحکم سے یا کسی اَور رسالے سے کوئی بھی اقتباس پڑھ کر خطبہ دیا جا سکتا ہے اور گھر کے افراد میں سے کوئی بالغ لڑکا یا مرد جمعہ بھی پڑھا سکتا ہے اور نمازیں بھی پڑھا سکتا ہے۔‘‘
(خصوصی پیغام الفضل انٹرنیشنل 31؍مارچ 2020ء)
مساجد البیت کی رونقیں بڑھانے کا وقت
ایسے وقت میں جب مساجد میں باجماعت نمازیں عارضی طو رپر بند کرنا پڑی ہیں تو یہ وقت گھروں میں نمازوں کے قیام کا آگیا ۔ حضرت مسیح موعود ؑکا بھی یہ طریق تھا کہ گھر میں کوئی ایک جگہ عبادت کے لیے مخصوص کرتے ۔حضرت یعقوب علیؓ عرفانی صاحب فرماتے ہیں:
’’1903ءکا واقعہ ہے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے ہم نے سوچا ہے کہ عمر کا اعتبار نہیں ہے۔ ستر 70سال کے قریب عمر کے گزر چکے ہیں۔ موت کا وقت معلوم نہیں خدا جانے کس وقت آجائے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی پڑا ہے ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوتی ہے، رہی سیف اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اورمنشاء نہیں ہے۔ لہٰذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعاء کو امن اورسلامتی اوراعداء پر بذریعہ دلائل نیرّہ اوربراہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنا‘‘۔
عشق الہٰی کے روشن الاؤ
جیسا کہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ہم ان دنوں میں عبادت گاہوں کو سجدوں سے تر بتر کرکے عشق و مستی کے الاؤ روشن کر دیں۔ ہر گلی محلہ میں نہیں ہر گھر میں نماز باجماعت کی شمع جلنے لگی ہے۔ جہاں ہماری مساجد معاشرے میں مینارہ روشنی ہیں اب وہاں ایک ایک گھر چراغ راہ بن گیا ہے۔ چشم تصور اس عجیب روحانی منظر کو دیکھ کر حیران ہے کہ جُعِلَت لِیَ الاَرضُ مَسجِداً کی یہ تعبیر تو وہم و گمان میں بھی نہ تھی ۔ اللہ کرے ہماری عبادتیں عنداللہ مقبول ہوں اور کرہ ارض پر گھر گھر جلے یہ چراغ ایک مرعوب نظارہ بن جائیں جس کا تعلق آپ ﷺ کی دوسری امتیازی شان ’’مجھے ایک مہینے کی مسافت کے اندازے کے مطابق خدا داد رعب عطا کیا گیا ہے‘‘۔ سے بھی ہو ۔
سیدنا حضرت امیر المومنین اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے بداثرات سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور ہر احمدی کو ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور اپنی روحانی حالت کو بھی بہتر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور دنیاکے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو توفیق دے کہ وہ بجائے دنیاداری میں زیادہ پڑنے کے اور خدا تعالیٰ کو بھولنے کے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے والے بھی ہوں۔‘‘
(خطبہ جمعہ6؍ مارچ 2020ء)
جہاں احباب جماعت احمدیہ اپنے امام کی رہنمائی میں قیمتی انسانی جانوں کی حفاظت کی خاطراور معاشرے میں بیماری کے اثرات کم کرنے کے لیے مساجد سے عارضی طور پر الگ ہوئے ہیں۔ وہاں ہر گھر میں مسجد البیت کا قیام ہو گیا ہے۔ عبادتوں کے چراغ پہلے سے بڑھ کر ہر گھر میں روشن ہو گئے ہیں اور دکھی انسانیت کے لئے تمام احمدی اپنے مولیٰ کے حضور التجاؤں اور دعاؤں میں مصروف ہوگئے ہیں ۔
آج ہم بزبان حال و قال یہ التجا کر تے ہیں کہ مولیٰ کریم تیرے حکم کےمطابق تیرے محبوب بندےﷺ کی امتیازی شان کے عالمگیر اظہار کا جو موقع تو نے عطا کر دیا ہے۔ جس کے ہم سب گواہ بن گئے ہیں ۔ ہماری ان سجدہ گاہوں کو گھروں میں بنی ان مساجد البیت کو امن اورسلامتی کا ذریعہ بنا دے۔ جلد حالات ٹھیک ہوں تو جہاں مساجد آباد ہوں گی وہاں ہر گھر میں روشن ہونے والے یہ چراغ بھی روشن رہیں ۔ ہماری درد مندانہ التجائیں سن ۔ ہماری فریادوں کو رائیگاں نہ جانے دے ۔ اور ساری انسانیت کو اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔
امام وقت ہی ڈھال ہیں
دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں پھیلے احمدی احباب نے اپنے امام کی رہنمائی میں فوری اقدامات کیے اور حکومت وقت سے تعاون کرتے ہوئے مساجد بندکر دیں۔ اس موقع پر بھی جماعت احمدیہ کے نظم و ضبط کا نظارہ دنیا نے دیکھ لیا ۔ کیونکہ بعض ممالک میں اسلام کے علمبردار علماء حکومتی رہنمائی، ہدایات اور تجاویز کے باوجود مساجد کھلی رکھنے پر بضد ہو گئے۔ ا س طرح حکام وقت، جو اولی الامر ہیں ،کی اطاعت کو بھی چیلنج کرنے والے بنے اور قیمتی انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بن کرمعاشرے میں بیماری پھیلانے کا باعث بھی۔
وہ یہ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر رہے کہ یہ موقع بھی اسلام کی خصوصیت اور نبی رحمت ﷺ کی منفرد شان کو ظاہر کررہا ہے۔ مسجد کی عارضی بندش کوئی خرابی پیدا نہیں کرتی بلکہ آپﷺ کی امتیازی شان کے پوری دنیا میں بیک وقت اظہار کا موقع ہے۔
مسلمان گھر میں فیملی ممبرز کے ساتھ باجماعت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ میاں بیوی اور بچے با جماعت نماز پڑھ سکتے ہیں۔ وہ بوڑھے اور مریض جو مسجد نہیں جا سکتے تھے وہ گھر میں نما ز با جماعت کی برکتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
علمائے اسلام کو خوشی کے ساتھ اس بات کو بیان کرنا چاہیے تھا کہ ہمارے پیارے بنی ﷺ کی ایک امتیازی خصوصیت کے اظہار کا اجتماعی موقع آگیا۔ ایسا موقع شاید پندرہ سو سال میں کبھی پید انہ ہوا تھا۔ اس لیے ہر گھر کو مسجد بنا دو۔ ہر گھر میں باجماعت نمازیں ادا کرتے ہوئے ا س بات کا اعلان کرو کہ اسلام آسانیاں پیدا کرنے والا مذہب ہے۔ جس نے پہلے سے ہی انسانوں کی خاطر اور فطرت کے مطابق احکام دے رکھے ہیں۔ اس وبا کی وجہ سے جہاں باقی مذاہب کی عبادات میں خلل پیدا ہوا ہے۔ وہاں ہمارا صرف انداز بدلا ہے لیکن عبادات جاری و ساری ہیں ۔ اگر پہلے ایک محلے میں ایک مسجد میں لوگ جمع ہو کر نماز ادا کرتے تھے تو اب ہر گھر مسجد بن گیا ہے۔ پہلے زیادہ تر مرد با جماعت نماز سے مستفید ہوتے تھے۔ اب ہر گھر میں عورتیں، بچے بوڑھے، مریض، بیمار سب شامل ہو سکتے ہیں ۔ اسلام کی شان کا ایک امتیازی پہلو ظاہر ہوا ہے ۔ لیکن افسوس اس موقع کو احسن رنگ میں اسلام کے حق میں استعمال کرنے کے بجائےمولوی اور مفتی نے اسے بھی متنازع بنا دیا۔ اور ایک بار پھر امام الزمان حضرت مسیح موعود ؑ کی پید اکردہ جماعت نےاسلام کی شان اور حضرت محمدﷺ کی منفرد خصوصیت کو اجاگر کر کے عبادات کے روشن چراغ دنیا کے کونے کونے میں ہر گھر جلادیے۔