خلاصہ خطبہ فرمودہ مورخہ 9؍اپریل2019ء
اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابیٔ رسولﷺ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشین تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 19؍اپریل2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 91؍ اپریل 9102ء کو مسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔
خطبہ جمعہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرت ﷺ کے بدری صحابی حضرت عثمان بن مظعون ؓکی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیضان احمد راجپوت صاحب کے حصہ میں آئی۔تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج جن بدری صحابی کا ذکرکروں گا ان کا نام ہے حضرت عثمان بن مظعونؓ۔ان کی کنیت ابو سائب اور والدہ کانام سُخیلہ بنت عنبس تھا۔ آپؓ کا تعلق قریش کے خاندان بنو جمح سے تھا۔ حضورِ انور نے حضرت عثمان بن مظعونؓ کے قبولیتِ اسلام کے واقعےکی تفصلات بیان فرمائیں۔ عثمان بن مظعونؓ نے آنحضرتﷺ کی مجلس میں آیتِ کریمہ ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان وأیتاء ذی القربٰی…الخ سنی تو آپؓ فرماتے ہیں میرے دل میں ایمان نے اپنی جگہ پکّی کرلی اور مجھے محمدﷺسے محبت ہوگئی۔
حضرت مصلح موعودؓ، آنحضرتﷺ کے ابتدائی دور میں حضرت طلحؓہ،زبیرؓ،عمرؓ، حمزؓہ اور عثمان بن مظعونؓ کے ایمان لانے کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ عقل،سمجھ، تقویٰ و طہارت والے ان افراد کی وجہ سے مسلمان ایک طاقت سمجھے جاتے۔ اگر کوئی آنحضرتﷺ کی نسبت کہتا کہ وہ نعوذباللہ پاگل ہیں تواسےجواب ملتا کہ اگر وہ پاگل ہے تو فلاں شخص جو بڑا سمجھ دار اور عقل مند ہےاسے کیوں مانتا ہے۔
حضرت مصلح موعود ؓنے اس مضمون کو حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ جوڑا ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ شروع ہی میں آپؑ پر ایمان لے آئے، مولوی محمد حسین بٹالوی دعوے سے پہلے تعریف کرنے والے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ماموریت کا اعلان کیا تو تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک جماعت فوراً آپؑ پر ایمان لے آئی۔
حضرت طلحہؓ، زبؓیر،عمؓر، عثمانؓ اور عثمان بن مظعونؓ بڑے بڑے خاندانوں کے افراد تھے۔ ہزاروں لوگ ایسے تھے جو اسلام کے شدید دشمن تھے مگر ان کی اولادوں نے اپنے آپ کو آنحضرتﷺ کے قدموں میں ڈال دیا۔
عثمان بن مظعونؓ نے تیرہ آدمیوں کے بعداسلام قبول کیا،حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی۔ جب خبر ملی کہ قریش ایمان لے آئے ہیں تو واپس آگئے۔ ولید بن مغیرہ کی امان میں مکّہ میں داخل ہوئے۔ ابنِ اسحٰق بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن مظعونؓ نے جب دیکھا کہ آنحضرتﷺ اور صحابہ کوتکالیف دی جارہی ہیں توولیدکی امان واپس کردی ۔ آپؓ نے خانہ کعبہ کے پاس جاکر اعلان کردیا کہ اب میں اللہ کے سوا کسی اور کی امان میں نہیں رہنا چاہتا۔
حضورِ انور نےحضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ اور حضرت مصلح موعوؓد کے حوالے سے ہجرتِ حبشہ کی تفاصیل بیان فرمائیں۔ یہ ہجرت آپؐ کے ارشاد پر رجب پانچ نبوی میں ہوئی۔ حبشہ جو ایتھوپیا، ابی سینیا کہلاتا ہےشمال مشرقی افریقہ کا ملک ہے۔ یہاں کے عیسائی بادشاہ نجاشی کا ذاتی نام اصحمہ تھا۔ یہ ایک عادل،بیدار مغز اور مضبوط بادشاہ تھا۔ کُل گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ تمام لوگ قریش کے طاقت ور قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ان لوگوں کو مکّےسے چھپ کر نکلنا پڑا۔ ایک صحابیہ امِّ عبداللہؓ کو راستےمیں حضرت عمر ؓملے، جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے۔ عمرؓ کو جب علم ہوا کہ مسلمان قریش کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت کررہے ہیں تو انہوں نے کہا خدا تمہارے ساتھ ہو۔ امِّ عبداللہؓ کہتی ہیں کہ میں نے اس وقت عمرؓ کی آواز میں ایک رقّت محسوس کی۔ پھر وہ جلدی سے منہ پھیر کر چلے گئے۔
ایک مرتبہ عرب کا مشہور شاعر لبید،مکّہ کے رؤوسا میں بیٹھا شعرسنا رہا تھا۔ اس نے مصرع پڑھا کہ الا کل ماخلا اللہ باطل۔ عثمان بن مظعونؓ کہنے لگے تُونے سچ کہا۔ پھر لبید نے کہا وکل نعیم لامحالۃ زائل۔ اس پر عثمانؓ سےنہ رہا گیا اور کہا کہ تُو نے غلط کہا۔ جنت کی نعمتوں کو زوال نہیں۔ لبید نے اس بات کا برا منایا اور قریش سے کہا کہ تمہاری محفلیں ایسی تو نہ تھیں۔ اس پر قریش سے ایک احمق آدمی کھڑا ہوا اورعثمانؓ کو مکّا ماردیا۔ جس سےآپؓ کی آنکھ نیلی ہوگئی۔ وہاں موجود لوگوں نے آپؓ کو ولید کی پناہ کی یاد دلائی ۔
حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا کہ اللہ کی امان زیادہ محفوظ اور معزز ہے، اور میری دوسری آنکھ بھی اسی طرح کی مصیبت کی آرزو مند ہے۔ آپؓ کو مصائب میں آنحضرتﷺ اور صحابہ کے نمونے دیکھ کر تکلیف پہنچتی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ عثمان بن مظعونؓ نے یہ جواب اس لیے دیا کہ آپؓ نے قرآن کریم سنا ہوا تھا، اسلامی تعلیم سنی ہوئی تھی۔ اب اُن کےنزدیک شعروں کی کچھ حقیقت ہی نہیں تھی۔ لبید نے مسلمان ہونے کے بعدخود یہی طریق اختیار کیا، چنانچہ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ اپنے گورنر کو بعض شعرا کے تازہ کلام بھجوانے کا ارشادفرمایا تو لبید نے قرآن کریم کی آیات لکھ کر بھیج دیں۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ کی وفات پر آپؐ نے انہیں بوسہ دیا، آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اپنے صاحبزادے ابراہیم کی وفات پر ان کی نعش پر فرمایا کہ ہمارے صالح عزیز عثمان بن مظعونؓ کی صحبت میں جا۔ہجرتِ مدینہ کے موقع پر آپؓ کا رشتہ مؤاخات حضرت ابو ھیثم بن تیّھان کے ساتھ قائم ہوا۔آپ تمام لوگوں سے زیادہ عبادت کرتے ،روزے رکھتے، خواہشات سےبچ کر رہتے اور عورتوں سے دُور رہنے کی کوشش کرتے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ عثمانؓ کی اہلیہ پراگندہ حال ازواجِ مطہرات کے پاس حاضر ہوئیں۔ازواجِ مطہرات نے فرمایا کہ اپنے آپ کو سنوار کر رکھا کرو۔ تمہارے شوہر سے زیادہ دولت مند تو قریش میں کوئی نہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ عثمانؓ کے جذبات ہمارے لیے کچھ نہیں۔ ازواج ِ مطہرات نے یہ بات آنحضورﷺ کو بتائی تو آپؐ عثمانؓ سے ملے اور فرمایا کہ کیا تمہارے لیے میری ذات میں اسوہ نہیں؟ تم دن بھر روزے رکھتے ہو، رات بھر عبادت کرتے ہو۔ ایسا مت کرو۔ تمہاری آنکھوں، تمہارے جسم، تمہارے اہل، تمہارے بیوی بچوں کا تم پر حق ہے۔
عثمان بن مظعونؓ کےایک واقعے سے علم ہوتا ہےکہ آپؐ نے عمرؓ کی نسبت فرمایا کہ یہ شخص غلق الفتنۃ یعنی فتنے کی راہ میں روک ہے۔ آپؐ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ تمہارے اور فتنے کے درمیان ایک دروازہ ہوگا۔ جب تک یہ شخص یعنی عمرؓ زندہ رہےگا کوئی فتنہ اسلام میں نہیں آئے گا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔ اس کے بعد ہی زیادہ فتنے شروع ہوئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ فتنے مسلمان امت میں بڑھتے چلے گئےاور اب تک یہ فتنے جاری ہیں۔ مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ،اور اُس دیوار کے پیچھے نہیں آناچاہتے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کےذریعے اس دروازے کو بند کرنے کے لیے قائم فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی محفوظ رکھے کہ ہم احمدی اس ڈھال کے پیچھے رہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے ہمیں مہیا فرمائی ہے۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ پہلے مہاجر تھے جنہوں نے مدینے میں وفات پائی۔آپؓ دو ہجری میں فوت ہوئے اور جنت البقیع میں دفن ہونے والے پہلے شخص تھے۔ آخر میں حضورِ انور نے فرمایا ان کے حوالے سے کچھ اورباتیں ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
٭…٭…٭