متفرق مضامین

یاددہانی: وبائی ایام میں احتیاط اور دعاؤں کی طرف توجہ کریں! (قسط اوّل)

(ذیشان محمود)

وبائی ایام میں جماعت احمدیہ ہمیشہ کی طرح حضرت خلیفۃ المسیح کے زیرِ سایہ ظاہری اسباب کے سا تھ ساتھ دعاؤں میں بھی مشغول ہے۔ ذیل میں اب تک حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جانب سے احباب جماعت کو کی جانے والی تمام ہدایات کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حضور انور نے ابتدا میں بھی اور بعد ازاں ایک خطبہ میں اس امر کی بابت مفصل توجہ دلائی کہ اس وبا کو نشان یا طاعون قرار نہ دیا جائے بلکہ حکومتی اداروں کی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کو یقینی بنایا جائے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بعض احمدیوں کے تبصروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’کورونا وائرس کے لیے نہ تو کوئی ایسی خبر ہے، نہ کہیں میں نے یہ تاثر دیا ہے کہ یہ کوئی نشان ہے جو ظاہر ہو گیا۔

…1918ءیا 1919ءمیں جو انفلوئنزا پھیلا تھا، وہ قادیان تک بھی پہنچا۔ بے شمار لوگ جاں بحق ہوئے۔ احتیاطی تدابیر جو حضرت مصلح موعود ؓنے فرمائیں وہ بھی ملتی ہیں، جس طرح دارچینی والے پانی کا استعمال وغیرہ۔ بلکہ خود حضرت مصلح موعودؓ کو انفلوئنزا کا حملہ ہوا۔ بلکہ بہت شدید ہوا تھا۔حضرت مصلح موعودؓ نے تو وصیت تک تحریر فرمادی تھی کہ اگر فلو کے اُس حملہ میں کچھ ہوجاتا تو کیا کرنا ہے۔‘‘

حضورایدہ اللہ نے فرمایا:

’’یہ وبائیں تو آنی ہیں۔ اب ہر وبا کو نشان قرار دے دینا اور یہ قیاس آرائی شروع کردینا کہ احمدیوں کو کچھ نہیں ہوگا، یا یہ جوبعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ مخلص احمدیوں کو کچھ نہیں ہوگا، بالکل غلط بات ہے۔ ان وباؤں کو کسی کے ایمان کا پیمانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اور جو وصیت حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمائی اس کا آغاز یوں فرمایا کہ ’’میں، مرزا بشیرالدین محمود احمدولد حضرت مسیح موعود علیہ السلام…‘‘ تو حضرت مصلح موعودؓ وصیت تحریر کررہے ہیں اور ولدیت بھی تحریر کررہے ہیں یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے بھی ہیں۔ اس کے باوجود بیماری کا حملہ ہوا اور بڑا شدید ہوا۔ تو بیماری کا حملہ ہو جانا کسی بھی طرح کسی کے ایمان کا پیمانہ نہیں۔‘‘

حضور نے فرمایا:

’’… اگر یہ نشان ہوتا تو سب سے پہلے میں اعلان کرتا کہ یہ ایک نشان ہے۔ میں نے تو بہت شروع سے احتیاطی تدابیر اور حفاظتی دوائیاں بتانا شروع کر دی تھیں۔ اُس وقت سے بتانا شروع کر دی تھیں جب ابھی اس بیماری نے چین سےباہر زور بھی نہیں پکڑا تھا۔ اگر میں اسے کسی قسم کا نشان سمجھتا تو احتیاطی تدبیر سے روکتا۔ میں نے تو پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ جو ماہرین کی طرف سے حکومتی سطح پر احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں، لوگ ان پر عمل کریں۔

میں نے یہاں امیر صاحب کو بھی کہہ دیا ہے۔ صدر خدام الاحمدیہ کو بھی کہہ دیا ہے۔ ہیومینٹی فرسٹ کو بھی کہہ دیا ہے کہ ان دنوں میں لوگوں کی امداد اور فلاح و بہبود کے لیے جو ممکن ہو سکتا ہے کریں۔…

احمدیوں کو چاہیے کہ اس وقت بجائے نشان تلاش کرنے کے اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے اور مسجدوں میں جواحتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں، ان پر عمل کریں۔ اور اپنے اردگرد اگر ان احتیاطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جس کسی کی مدد کرسکتے ہیں کریں۔ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ اس کی مخلوق کا خیال کیا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے لیے اور انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس کا رحم مانگیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 31؍ مارچ 2020ءصفحہ9)

ہومیو پیتھک دواؤں کا استعمال

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احبابِ جماعت کو اس وبا سے بچاؤ کے لیے حفظ ما تقدم ادویات کا نسخہ تجویز فرمایا جو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ افرادِ جماعت تک پہنچایا گیا۔نیز وائرس کے بارے میں مزید معلومات سامنے آئیں تو ساتھ ساتھ نسخہ بھی اپ ڈیٹ کیا جا تا گیا۔ ابتدائی نسخے کے لیے ملاحظہ ہو اخبار الفضل انٹرنیشنل 31؍جنوری 2020ء۔ اَپ ڈیٹ برائے طریقہ استعمال: الفضل انٹرنیشنل 4؍فروری 2020ء۔ وبا سے متاثر ہونے کی صورت میں ایک دوا کا اضافہ: الفضل انٹرنیشنل 22؍مارچ 2020ء۔

ملاحظہ ہو درج ذیل لنک:

حفظ ما تقدم او رعلاج کے طور پر ہومیو پیتھی دوائیں استعمال کرنے کی تلقین

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ظاہری اسباب کے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ انفرادی و اجتماعی صفائی اور احتیاط و سرکاری ہدایات پر مکمل عمل کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔ آپ فرماتے ہیں کہ

’’آج کل جو کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اب مَیں چند باتیں اس کے بارے میں بھی کہہ کر احباب کو توجہ دلانی چاہتا ہوں۔جیسا کہ حکومتوں اور محکموں کی طرف سے حکومتوں کے اعلان ہو رہے ہیں۔ ان احتیاطی تدابیر پر ہمیں، سب کو عمل کرنا چاہیے۔ بعض ہومیو پیتھی دوائیاں بہت شروع میں مَیں نے ہومیوپیتھ سے مشورہ کر کے بتائی تھیں جو حفظِ ماتقدم کے طور پر بھی ہیں اور بعض علاج کے طور پر بھی۔ ان کو استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ایک ممکنہ علاج ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سو فیصد علاج ہے یا اس وائرس کا ہومیوپیتھک کو پتا ہے۔ یہ ایسی وائرس ہے جس کا کوئی علم نہیں لیکن اس کے قریب ترین اس قسم کی بیماری کا جو ممکنہ علاج ہو سکتا تھا اس کے مطابق یہ دوائیاں تجویز کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں شفا بھی رکھے۔ اس لیے استعمال کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی احتیاطی تدابیر بھی ضروری ہیں جیسا کہ اعلان ہو رہے ہیں۔

بیماری کی صورت میں مساجد نہ آئیں

اس بارے میں یہ بھی ضروری ہے کہ مجمع سے بچیں۔ مسجد میں آنے والوں کو بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ اگر ہلکا سا بھی بخار ہے، جسم ٹوٹ رہا ہے یا چھینکیں نزلہ وغیرہ ہے تو پھر مسجد میں نہیں آنا چاہیے۔ مسجد کے بھی کچھ حقوق ہیں اور یہ مسجد کا حق ہے کہ وہاں کوئی ایسا شخص نہ آئے جس سے دوسرے متاثر ہو سکتے ہوں۔ کسی بھی لگنے والی بیماری کا مریض جو ہے اس کو مسجد میں آنے سے بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ ویسے تو عمومی طور پر بھی اور آج کل خاص طور پہ چھینک لیتے وقت بھی ہر ایک کو چاہیے کہ چھینک لیتے وقت منہ پر ہاتھ رکھے یا منہ پر رومال رکھنا چاہیے۔ بعض نمازی بھی یہ شکایت کرتے ہیں کہ بعض لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے چھینکتے ہیں اور منہ کے سامنے نہ ہاتھ رکھتے، نہ رومال رکھتے ہیں اور پھر اتنی زور سے چھینک ہوتی ہے کہ اس کے چھینٹے ہم پر بھی پڑ جاتے ہیں تو یہ جو ساتھ کے نمازی ہیں ان کا بھی حق ہے اس لیے ہر ایک کو، نمازیوں کواس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور آج کل جیسا کہ میں نے کہا خاص طور پر اس کی احتیاط کی ضرورت ہے۔ آج کل جو ڈاکٹرز احتیاط بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہاتھ اور چہرہ صاف رکھیں۔ ہاتھ اگر گندے ہیں تو چہرے پر ہاتھ نہ لگائیں اور ہاتھوں پر سینیٹائزر(sanitizer) لگا کر رکھیں یا دھوتے رہیں لیکن مسلمانوں کے لیے، ہمارے لیے اگر کوئی پانچ وقت کا نمازی ہے اور پانچ وقت باقاعدہ وضو بھی کر رہے ہیں، ناک میں پانی بھی چڑھا رہے ہیں اور اس سے ناک صاف ہو رہا ہے اور صحیح طرح وضو کیا جا رہا ہے تو یہ صفائی کا ایک ایسا اعلیٰ معیار ہے جو سینیٹائزر کی کمی بھی پورا کر دیتا ہے۔ آج کل کیونکہ مارکیٹ سے سینیٹائزر بھی سنا ہے غائب ہو چکے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے پینک (panic)میں سب کچھ خرید لیا ہے، دکان کے شیلف خالی ہیں اور خاص طور پہ ایسی چیزیں جو اس کام کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔ بہرحال جو وضو ہے اور اگر صحیح طرح وضو کیا جائے تو ظاہری صفائی بھی ہے اور انسان جب وضو کرے گا اور پھر نماز بھی پڑھے گا تو یہ ایک روحانی صفائی کا بھی ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور پھر آج کل تو خاص طور پر دعاؤں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے اس طرف ہمیں خاص توجہ دینی چاہیے۔ مسجدوں کے حق کے بارے میں مَیں نے ذکر کیا تو یہ بھی ذکر کر دوں کہ خاص طور پر سردیوں میں بھی اور عام بھی مسجد میں آنے والوں کو جو جرابیں پہن کے آتے ہیں جرابیں بھی روزانہ تبدیل کرنی چاہئیں اور دھونی چاہئیں۔ اگر جرابوں میں سے، پیروں میں سے بو آ رہی ہو تو ساتھ کھڑے نمازیوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے یا جو پیچھے نمازی ہے صف میں سجدہ کر رہا ہے اس کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اس بارے میں احتیاط کرنی چاہیے۔حکم تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بو والی چیز مثلاً لہسن پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں نہ آؤ۔

(سنن ابو داؤد کتاب الاطعمۃ باب فی اکل الثوم حدیث 3823)

بعض دفعہ ڈکار وغیرہ بھی آتے ہیں یا ویسے منہ سے بو آتی ہے اس کی وجہ سے دوسرے جو نمازی ہیں ان کی طبیعت پہ یہ گراں گزرتا ہے اور نمازیوں کے لیے اور مسجد کے ماحول کے لیے بھی یہ تکلیف دہ صورت حال ہو جاتی ہے بلکہ یہ حکم ہے کہ مسجد میں آؤ تو خوشبو لگا کر آیا کرو۔(صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الدھن للجمعۃ حدیث 883)بلکہ اتنی احتیاط ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچا گوشت لے کر مسجد کے اندرسے بھی نہ گزرو۔(سنن ابن ماجہ کتاب المساجد باب ما یکرہ فی المساجد حدیث 748)کجا یہ کہ انسان وہاں بیٹھا ہو۔ پس جسم کی صفائی اور فضا کی صفائی بھی ایک نمازی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اس بہانے سے مسجد میں آنا چھوڑ دیں۔ اپنی ظاہری حالت کو دیکھ کر اپنے دل سے فتویٰ لینا چاہیے اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال کو جانتا ہے اور اس لیے اگر کوئی بیماری ہے تو ڈاکٹر سے تسلی بھی کروا لیں کہ یہ کس قسم کی بیماری ہے لیکن ایک دو دن پرہیز کرنا بھی بہتر ہے۔

مصافحہ سے پرہیز

پھر یہ ہے کہ آج کل کہا جا رہا ہے مصافحوں سے پرہیز کرو۔ یہ بھی بڑا ضروری ہے۔ کوئی پتا نہیں کس کے ہاتھ کس قسم کے ہیں۔ اس لحاظ سے گو مصافحوں سے تعلق بڑھتا ہے، محبت بڑھتی ہے لیکن آج کل اس بیماری کی وجہ سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اب دنیادار جو ہیں جو پہلے شور مچایا کرتے تھے وہ بھی مصافحے نہیں کرتے۔ عورتوں سے مصافحے نہیں کرتے۔ مردوں سے مصافحے نہیں کرتے۔ ان کے بھی لطیفے بننے لگ گئے ہیں۔ اب جرمنی کی چانسلر جو ہے اس سے اس کے وزیر نے مصافحے سے انکار کر دیا اور اس پر ایک لطیفہ بنا ہوا ہے۔ یہاں بھی ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ ہم جو یہ مصافحے کر رہے ہیں کورونا وائرس کی وجہ سے ہم اس سے بچ رہے ہیں اور یہ بڑا اچھا ہے کیونکہ ہماری تو روایت ہی یہ نہیں کہ مصافحے کریں۔ ہماری تو روایت یہ ہے کہ سلیوٹ کیا کرتے تھے یا سر پر سے ہیٹ اتار کے جھکا کرتے تھے۔ تو یہ رواج جو پڑ گیا ہے۔ پھر اس نے یہاں تک بھی یہ کہہ دیا کہ عورتوں کو ہم مصافحے کرتے ہیں بلکہ گلے مل کے kiss کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بھی ہمیں پتا نہیں کہ عورت کو پسند بھی ہے کہ نہیں اور بلا وجہ ہم زبردستی یہ ساری حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بات تو ماننے کو تیار نہیں تھے لیکن اس بیماری نے، اس وبا نے ان کو کم از کم اس طرف توجہ دلا دی ہے۔ اللہ کرے خدا تعالیٰ کی طرف بھی ان کی توجہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر تو ان کو اختلاف تھا جب ہم کہتے تھے اور بڑے پیار سے کہتے تھے کہ اس طرح عورت مرد کا سلام کرنا، مصافحہ کرنا ہمیں منع ہے تو اس پر ان کے بڑے شور تھے لیکن اب سنا ہے اکثر محکموں میں اور مختلف جگہوں پہ بھی یہ لوگ انکار کرتے ہیں اور بڑے rude طریقے سے کرتے ہیں۔ ہم تو پھر پیار سے اور بڑی نرمی سے کہا کرتے تھے کہ یہ ہماری تعلیم ہے لیکن اب یہ کورونا وائرس کے ڈر سے اس حد تک محتاط ہو گئے ہیں کہ وہاں اخلاق کا بھی کوئی پاس نہیں ہے۔ بہرحال اس وبا نے اس لحاظ سے کچھ حد تک ان کی اصلاح کر دی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ کرے کہ یہ اصلاح اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہو۔

دعاؤں کی طرف توجہ کریں!

اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس وبا نے اور کتنا پھیلنا ہے اور کس حد تک جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کیا تقدیر ہے لیکن اگر یہ بیماری خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے ظاہر ہو رہی ہے اور اس زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کے بعد مختلف قسم کی وبائیں،امراض،زلزلے، طوفان بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے بداثرات سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور ہر احمدی کو ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور اپنی روحانی حالت کو بھی بہتر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور دنیاکے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو توفیق دے کہ وہ بجائے دنیاداری میں زیادہ پڑنے کے اور خدا تعالیٰ کو بھولنے کے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے والے بھی ہوں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 06؍مارچ 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍مارچ 2020ءصفحہ15تا16)

خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں

پھر فرمایا:

’’اب جیسا کہ مَیں نے گذشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ یہ جو آج کل کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس کے لیے احتیاطی تدابیر بھی کرتے رہیں اور مسجدوں میں بھی جب آئیں تو احتیاط کر کے آئیں۔ ہلکا سا بخار وغیرہ ہو، جسم کی تکلیف ہو تو ایسی جگہوں پہ نہ جائیں جہاں پبلک جگہیں ہیں اور خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو آفات سے بچائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍ مارچ 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3اپریل 2020ءصفحہ9)

وبا سے متعلق دنیا داروں کے تبصرے

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

’’اب میں آج کل جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس کے بارے میں دنیا داروں کے جو تبصرے ہیں اور تجزیے ہیں وہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ فلپ جونسٹن (Philip Johnston) ڈیلی ٹیلیگراف 18مارچ 2020ء میں یہ لکھتے ہیں کہ نیٹ فلکس (Netflix) اور اس طرح کے دیگر پلیٹ فارمز کی رپورٹ ہے کہ آج کل دکھائی جانے والی 2011ء کی ایک فلم بہت مقبول ہو رہی ہے جس کا نام کونٹیجین Contagion ہے۔ اس کی کہانی میں ایک وائرس (virus) کے پھیلاؤ، طبی محققین اور صحت کے اداروں کی طرف سے اس بیماری کی شناخت اور اس پر قابو پانے کی شدید کوششوں، معاشرتی نظم و ضبط ختم ہونے اور آخر میں اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ویکسین (vaccine) متعارف کروانے کا ذکر ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ شاید ہمارا اس طرح دنیا کی تباہی کے موضوع پر بنی فلموں میں دلچسپی لینا ہمارے لمبا عرصہ رہنے والے استحکام اور ترقی کا نتیجہ ہے۔ دنیادار جو ترقی کر رہے ہیں شاید اس کا نتیجہ ہے جس کے بارے میں ہم میں سے اکثریت کا خیال ہے کہ یہ ترقی ہمیشہ رہے گی۔ کہتا ہے کہ یہ حیران کن ہے کہ صرف دو ہفتوں کے دوران ہماری دنیا بالکل الٹ چکی ہے۔ لکھتا ہے آگے کہ ہمارے سارے منصوبے رک گئے ہیں اور مستقبل کے بارے میں ہماری امیدیں غیر یقینی ہیں۔ پھر آگے کہتا ہے کہ نہ تو سرد جنگ کے دوران ایٹمی جنگ کا خطرہ اور نہ ہی حالیہ پیش آنے والے مختلف معاشی بحرانوں کا ایسا اثر تھا جس طرح آج اس وبا سے ہو رہا ہے۔ پھر آگے لکھتا ہے کہ یہاں تک کہ گذشتہ عالمی جنگ کے دوران بھی لوگ تھیئٹر اور سینما اور ریسٹورنٹ اور کیفے، کلبوں اور پبز (pubs) میں جاتے تھے۔ کم از کم یہ چیز تھی جو لوگوں کو میسر تھی لیکن ہم آج کل یہ بھی نہیں کر سکتے۔ پھر کہتا ہے کہ ہم میں سے بیشتر جو دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے میں پلے بڑھے ہیں ہم لوگوں نے ہمیشہ خوشحالی، استحکام اور اطمینان کی توقع کی ہے جس کا پہلی نسلوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی وہ لوگ ایسے حالات میں تھے کہ اس بارے میں سوچتے۔ پھر آگے لکھتا ہے کہ امید ہے کہ سائنس اس بیماری کی ویکسین یا علاج لے کر ہمارے بچاؤ کے لیے آ جائے اور شاید ایسا ہو بھی جائے۔ اور پھر کہتا ہے کہ سیئٹل (Seattle) میں، امریکہ میں آج انسانی رضاکاروں پر تجربہ کا یہ آغاز ہوا ہے لیکن کہتا ہے کہ بُری خبر یہ ہے کہ یہ جاننے میں بھی مہینوں لگیں گے کہ اس ویکسین کا کوئی فائدہ بھی ہو گا یا نہیں۔ پھر آگے وہ لکھتا ہے کہ پوری تاریخ میں لوگوں نے اس طرح کے حالات میں اپنے عقیدے کا سہارا لے کر اپنے آپ کو ان حالات سے گزارا ہے۔ پرانی تاریخ جو ہے اس میں اگر ایسے خطرناک حالات پیدا ہوئے تو انہوں نے اپنے عقیدے کا سہارا لیا ہے اور اپنے حالات کو گزارا۔ اللہ کی طرف رجوع کیا تا کہ ان لوگوں اور ان کے پیاروں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کو کوئی معنیٰ اور مطلب دیں۔ پھر آگے یہ لکھتا ہے کہ لامذہب ایسے موقعوں پر ہمیشہ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے ایک سیکولر انسانیت پسندانہ نظریہ اپناتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک روشن خیالی کا تصور ہے جو لامذہب اپناتے ہیں۔ ان کا یہ نظریہ ہے کہ انسانی کوششوں سے قدرتی عمل کو ہمیشہ بہتر کیا جا سکتا ہے اور اسے تقدیر یا خدا کے قہر سے جوڑنا ضروری نہیں ہے۔ پھر کہتا ہے کہ ہم نے کتنی بار لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ سائنسدان کچھ حل نکال لیں گے چاہے وہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ ہو یا کوئی وبائی بیماری۔ ہمیں عنقریب یہ پتا چلنے والا ہے کہ آیا اس طرح کی امید رکھنا صحیح ہے یا نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کہتا ہے (دنیا دار ہے ناں خود) کہ پھر میں شاید چرچ کی طرف واپس چلا جاؤں۔ ابھی تو میں مذہب سے دور ہوں، خدا سے دور ہوں اور جو بظاہر شواہدنظر آ رہے ہیں یہ ظاہر اس طرح کر رہے ہیں اور اگر یہ نہیں ہوتا جس طرح یہ سائنسدان کہہ رہے ہیں تو پھر ہمیں بھی سوچنا پڑے گا کہ چرچ کی طرف واپس جائیں، مذہب کی طرف واپس جائیں۔ پس اس وائرس نے دنیا کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ خدا کی طرف رجوع کریں لیکن حقیقی خدا اور زندہ خدا تو صرف اسلام کا خدا ہے جس نے اپنی طرف آنے والوں کو راستہ دکھانے کا اعلان فرمایا ہے۔ ایک قدم بڑھنے والوں کو کئی قدم بڑھ کر ہاتھ پکڑنے کا اعلان فرمایا ہے۔ اپنی پناہ میں لینے کا اعلان فرمایا ہے۔ پس ان حالات میں ہمیں جہاں اپنے آپ کو سنوارنے کی ضرورت ہےوہاں اپنی تبلیغ کو بھی مؤثر رنگ میں کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو اسلام کے بارے میں پہلے سے بڑھ کر متعارف کرانے کی ضرورت ہے اور پھر ہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ دنیا کو بتائے کہ اگر اپنی بقا چاہتے ہو تو اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانو۔ اگر اپنے بہتر انجام چاہتے ہو تو اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانو کہ آخری زندگی کا انجام جو ہے وہی اصل انجام ہے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اس کی مخلوق کے حق ادا کرو۔

ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں

پس ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق بھی ہر ایک کو عطا فرمائے۔ یہ آفات تو اب دنیادار بھی کہتے ہیں کہ اب بڑھتی چلی جانی ہیں۔ اس لیے اپنے بہتر انجام کے لیے جیسا کہ میں نے کہا بہت ضرورت ہے کہ ہم بھی خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور دنیا کو بھی بتائیں کہ اصل انجام آخری زندگی کا انجام ہے جس کے لیے تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بہرحال آنا ہو گا۔ اس کے بارے میں ایک ماہر کی تنبیہ یہ ہے۔ The Times میں یہ مضمون چھ مارچ میں شائع ہوا تھا۔ ایک ماہر نے متنبہ کیا ہے کہ خطرناک وائرس کی جینیاتی تبدیلیوں کے عام ہونے کا بہت امکان ہے اور اس کے ساتھ چند برسوں میں ایک نئے کورونا وائرس کے دنیامیں پھیل جانے کا بھی امکان ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ شاید اگلے ہر تین سال کے بعد کوئی اور نئی بیماری آ جائے۔

بلومبرگ کا ایک مضمون

پھر بلومبرگ (Bloomberg) نے بھی ایک مضمون لکھا۔ وہ کہتا ہے کہ سائنسدان کورونا وائرس پر قابو پا سکتے ہیں لیکن وبائی امراض کے خلاف انسانیت کی جنگ نہ ختم ہونے والی جنگ ہے۔ انسانیت اور جرثوموں کے مابین ارتقا کی دوڑ میں کیڑے دوبارہ آگے آ رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق 1970ء کے بعد سے اب تک پندرہ سو سے زیادہ نئے وائرس دریافت ہوئے ہیں اور اکیسویں صدی میں وبائی بیماریاں پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے اور دور تک پھیل رہی ہیں۔ پھر کہتا ہے کہ اس سے پہلے جو محدود علاقوں میں رہنے والی وبائیں تھیں اب وہ بہت تیزی سے عالمی سطح پر بھی پھیل سکتی ہیں۔ بہرحال اس کی لمبی تفصیلات ہیں یہ تو ساری بیان نہیں ہو سکتیں لیکن اپنے انجام بخیر کے لیے جیسا کہ میں نے کہا ہمیں خدا تعالیٰ سے پہلے سے بڑھ کر تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔

مسجد میں آنے میں بھی احتیاط کریں

کورونا کی وبا کے بارے میں پہلے ہی میں ہدایت دے چکا ہوں۔ یاددہانی بھی کروا دوں کیونکہ اب یہ تمام دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور یہاں بھی اس کا اثر بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ اب حکومت بھی اس بات پہ مجبور ہو گئی ہے کہ اقدامات اٹھائے اور زیادہ سخت اقدامات اٹھائے۔ بڑے اقدامات اٹھائے۔ جب بیماریاں آتی ہیں، وبائیں آتی ہیں تو ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں اس لیے ہر ایک کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ حکومتی ہدایات پر عمل کریں۔ بڑی عمر کے لوگ، بیمار لوگ یا ایسی بیماری میں مبتلا لوگ جن کے جسم کی قوتِ مدافعت کم ہو جاتی ہے ان کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی عمر کے لوگ گھروں سے کم نکلیں اور یہی حکومت کا اعلان بھی ہے سوائے اس کے کہ بہت اچھی صحت ہو عموماً گھر میں رہنا چاہیے۔ یہاں مسجد میں آنے میں بھی احتیاط کریں۔ جمعہ بھی اپنے علاقے کی مسجد میں پڑھیں اور یہاں آج کی حاضری سے بھی لگ رہا ہے کہ اکثر لوگ جمعہ اپنے اپنے علاقوں میں ہی پڑھ رہے ہیں۔ سوائے اس کے کہ اس بات پر بھی حکومت کی طرف سے پابندی لگ جائے کہ جمعہ کے لیے بھی gathering نہ ہو۔ عورتیں عموماً مسجد میں آنے سے پرہیز کریں۔ بچوں کے ساتھ آتی ہیں ان کو پرہیز کرنا چاہیے۔

قوتِ مدافعت بڑھانے کا طریقہ

پھر عموماً ڈاکٹر بھی آج کل یہی کہہ رہے ہیں کہ اپنے جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے اپنے آرام کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے اپنی نیند کو پورا کرنا چاہیے۔ اپنی نیند پوری کریں۔ خود بھی اور بچے بھی۔ ایک بڑے آدمی کے لیے چھ سات گھنٹے کی نیند ہے۔ بچے کے لیے آٹھ، نو گھنٹے یا دس گھنٹے کی نیند ہے۔ اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ نہیں کہ بارہ بجے تک ساری رات بیٹھ کے ٹی وی دیکھتے رہے اور اس کے بعد ایک تو نماز پہ نہ اٹھ سکے پھر صبح جلدی جلدی اٹھے، چند گھنٹوں کے بعد کام پے جانا ہے اس کی مشکلات پھر سارا دن سستی، پھر کمزوری، پھر کام کی تھکاوٹ اور اسی وجہ سے پھر یہ بیماریاں جو ہیں حملہ بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح بچوں کو بھی عادت ڈالیں کہ جلدی سوئیں اور آٹھ نو گھنٹے کی نیند پوری کر کے جلدی اٹھیں۔ پھر بازاری چیزیں کھانے سے بھی پرہیز کریں۔ ان سے بھی بیماریاں پھیلتی ہیں خاص طور پر یہ جو کرسپ (crisp) وغیرہ کے پیکٹ ہیں یہ بچوں کو کھانے کے لیے لوگ دے دیتے ہیں یا ایسی چیزیں جن میں بعض پریزرو یٹوز (preservatives) بھی ڈالے ہوتے ہیں یہ صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ ان سے پرہیز کرنا چاہیے یہ بھی آہستہ آہستہ انسانی جسم کو کمزور کرتے جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آج کل پانی بار بار پینا چاہیے۔ ضروری ہے کہ ایک گھنٹے بعد، آدھے پونے گھنٹے بعد گھنٹے بعد ایک دو گھونٹ پی لیں۔ یہ بھی بیماری سے بچنے کے لیے ایک ذریعہ ہے۔

صفائی کا خیال رکھیں۔ آخری حربہ دعا ہے

ہاتھوں کو صاف رکھنا چاہیے۔ اگر سینیٹائزر نہیں بھی ملتے تو ہاتھ دھوتے رہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کم از کم پانچ دفعہ وضو کرنے والے جو ہیں ان کو صفائی کا موقع مل جاتا ہے۔ وہ اس طرف توجہ کریں۔ چھینک کے بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں۔ مسجدوں میں بھی اور عام طور پر بھی اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بھی رومال آگے رکھ کے، ناک پر رکھ کے یا اب بعض ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اپنا بازو سامنے رکھ کے اس پہ چھینکیں تاکہ اِدھر اُدھر چھینٹے نہ اڑیں۔ بہرحال صفائی بہت ضروری ہے اور اس کا خیال رکھنا چاہیے لیکن آخری حربہ دعا ہے اور یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے شر سے بچائے۔ ان تمام احمدیوں کے لیے بھی خاص طور پر دعا کریں جو کسی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں یا ڈاکٹروں کو شک ہے کہ ان کو بھی یہ وائرس ہے یا کسی بھی اور بیماری میں مبتلا ہیں سب کے لیے دعا کریں۔ پھر اسی طرح کسی بھی بیماری کی کمزوری کی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا وائرس حملہ آور ہو جاتا ہے تو ان کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں بھی بچا کے رکھے۔ عمومی طور پر ہر ایک کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو اس وبا کے اثرات سے بچا کے رکھے۔ جو بیمار ہیں انہیں شفائے کاملہ عطا فرمائے اور ہر احمدی کو شفا عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ ایمان اور ایقان میں بھی مضبوطی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 20؍ مارچ 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍اپریل 2020ءصفحہ7تا8)

اپنے گھروں میں نماز باجماعت کی عادت ڈالیں

حکومتِ برطانیہ کی طرف سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچاؤ کے لیے کی جانے والی حفاظتی تدابیر کی وجہ سے مساجد میں نمازِ جمعہ نہ پڑھے جانے کی ہدایت دی گئی۔ جس کے بعد حضور انور نے اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں اپنے دفترسے جماعت کو ایک پیغام دیا۔ پیغام کے آغاز میں حضورانور نے گھروں میں جمعہ کی ادائیگی کے حوالے سے فقہ میں موجود تفصیل بیان فرمائی۔ پھرحضورِ انور نے فرمایا:

’’بہرحال یہ بیماری جس کے پھیلنے کا بھی خطرہ ہے اور جس کے لیے حکومت نے بھی بعض قواعد اور قانون بنائے ہیں اور ملکی قوانین کے تحت ان پر چلنا بھی ضروری ہے۔ان صورتوں میں ایک جگہ جمع ہونا،اور نماز باجماعت ادا کرنا یا جمعہ پڑھنا مشکل ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا اپنے گھروں میں نماز باجماعت کی عادت ڈالیں۔اس سےجہاں بچوں کو یہ علم ہو گا کہ نمازیں پڑھنا ضروری ہے اور باجماعت پڑھنا ضروری ہےاورآج کل کے حالات کی وجہ سے ہم مسجد نہیں جا سکتے لیکن اس فرض کو اپنے گھروں میں نبھانا ضروری ہے، اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔اس پر خاص طور پر توجہ دیں۔ بعض دفعہ سفروں میں ایسے حالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی آئے تھے جب آپؑ نے جمعہ ادا نہیں کیا۔

(الفضل مورخہ24 جنوری1942ءصفحہ1 جلد20شمارہ21)

تو بہرحال بہت ساری روایات ہیں ایسی جن سے اس بارے میں بھی وضاحت ہوتی ہے کہ متعدی بیماریوں میں جمع ہونا یا بیماریوں میں ایک دوسرے سے ملنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے لیے علیحدہ رہنا چاہیے اور علیحدہ رکھو۔ بہرحال جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہم مستقل تو یہ نہیں چھوڑ رہے اور اس کے لیے متبادل انتظام بھی کر رہے ہیں کہ گھروں میں جمعہ ادا کریں۔میں بھی کوئی انتظام کرنے کی کوشش کروں گا۔

…یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے، اللہ تعالیٰ اس وبا سے دنیا کو جلد پاک کرے اور سب دنیا کو انسانیت کے تقاضے پورے کرنے والا بنائے اورسب خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 17؍اپریل 2020ءصفحہ6)

وبائیں مومنین کی جماعت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں!

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر تفصیل سے وبا ئی ایام میں مومنین کے طرزِ عمل سے متعلق بیان فرمایا اور ایسے احباب کو توجہ دلائی کہ وہ اس وبا کو نشان قرار دینے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے آگےسر بسجود ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ

’’آج کل کورونا کی وبا کی وجہ سے جو دنیا کے حالات ہیں اس نے اپنوں کو بھی، غیروں کو بھی سب کو پریشان کیا ہوا ہے۔ لوگ خط لکھتے ہیں، اپنی پریشانیوں کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنے پیاروں، قریبیوں، رشتہ داروں کی بیماریوں کی وجہ سے پریشان ہیں چاہے وہ کوئی بھی بیماری ہو۔ ان حالات میں بہت زیادہ پریشانی کا اظہار ہوتا ہے کہ اگر کوئی اور بیماری بھی ہے تو کمزور جسم اس وبا کی بیماری کو لے ہی نہ لے۔ احمدیوں میں سےکچھ کو اس بیماری کا حملہ بھی ہوا ہے۔ بہرحال ایک پریشانی نے دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ ایک مربی صاحب نے مجھے لکھا کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیا ہو گیا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ بات ان کی ٹھیک ہے۔حقیقت یہی ہے کہ کچھ پتا نہیں لگ رہا کہ دنیا کو کیا ہو رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی انہی حالات کے متعلق، آج کل کے زمانے کے حالات کے مطابق فرماتا ہے کہو

قَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا (الزلزال: 4)

اور انسان کہہ اٹھے گا کہ اسے ہو کیا گیا ہے؟

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فروری 1920ء میں آج سے تقریباً سو سال پہلے وباؤں، قحط، ابتلا اور طوفانوں کا ذکر کرتے ہوئے اس آیت کی مختصر وضاحت فرمائی تھی کہ پہلے ایک آدھ ہی وبا یا ابتلا آتے تھے لیکن اب یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں ابتلاؤں کے دروازے کھل گئے ہیں۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد 6 صفحہ 387 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 6 فروری 1920ء)

مَیں بھی گذشتہ کئی سالوں سے یہ کہہ رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد اور جب سے کہ آپؑ نے دنیا کو خاص طور پر آفات اور آسمانی بلاؤں سے آگاہ کیا ہے، ہوشیار کیا ہے دنیا میں طوفانوں، زلزلوں، وباؤں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور عمومی طور پر یہ وبائیں اور آفات انسان کو ہوشیار کرنے کے لیے آ رہی ہیں کہ تم اپنے پیدا کرنے والے کے بھی حق ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی حق ادا کرو، اس کے بندوں کے بھی حق ادا کرو۔ پس ان حالات میں ہم نے خود بھی اللہ تعالیٰ کی طرف پہلے سے زیادہ جھکنا ہے اور دنیا کو بھی ہوشیار کرنا ہے۔ بعض بیماریاں یا طوفان اور وبائیں ایسی ہیں کہ جب دنیا میں آئیں تو قدرتی طور پر اس کا اثر ہر ایک پر پڑتا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہ فرماتے ہیں کہ ٹھیک ہے بعض ابتلاؤں کا ہم سے تعلق نہیں ہے لیکن اس دنیا میں جب ہم رہتے ہیں تو کئی باتوں میں مثلاً وبائیں ہیں، قحط ہیں ان میں ہمیں بھی ایک حد تک حصہ لینا پڑتا ہے یعنی ہم بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ہم پر بھی وہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ الٰہی جماعتوں کو ان سے بالکل محفوظ رکھا جائے۔ آپؓ نے فرمایا کہ کیونکہ یہ خدا کی مصلحتوں کے خلاف ہوتا ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد 6 صفحہ 387-388 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 6 فروری 1920ء)

لیکن مومن ان مشکلات سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اس کا شکرگزار بندہ بنتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور بہت جھکنا چاہیے اور اس کا رحم اور فضل مانگنا چاہیے۔ اس لیے پہلے سے بڑھ کر ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض لوگ بعض تبصرے کر دیتے ہیں کہ یہ وبا نشان کے طور پر ہے اور احتیاط کی یا بعض علاج کی کوئی ضرورت نہیں یا اس قسم کے اَور ایسے تبصرے جو دوسروں کے جذبات کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ یہ نشان ہے، خاص طور پر کوئی نشان ہے یا نہیں لیکن عمومی طور پر بہرحال ہم کہتے ہیں جیسا کہ مَیں نے ابھی بھی کہا اور چند خطبے پہلے بھی میں نے اس بیماری کے ذکر میں شروع میں ہی کہا تھا کہ زمینی اور آسمانی بلائیں اور آفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد بہت بڑھ گئی ہیں۔ پس عمومی طور پر تو بےشک کہا جا سکتا ہے لیکن اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے طاعون کے ساتھ ملانا اور پھر اس قسم کی باتیں کرنا کہ نعوذ باللہ جو احمدی اس بیماری میں مبتلا ہیں یا اس سے وفات پا گئے ہیں ان کا ایمان کمزور ہے یا تھا۔ یہ کہنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔

طاعون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے ایک نشان کے طور پر ظاہر ہوا گو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیماری سے فوت ہونے والے کو شہید قرار دیا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الطب باب ما یذکر فی الطاعون حدیث 5733) لیکن بہرحال یہ کیونکہ ایک طاعون کی بیماری کےنشان کے طور پر ظاہر ہوا تھا اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو خاص طور پر فرمایا تھا، اس بارے میں آپؑ نے اعلان بھی فرمایا تھا کہ یہ نشان ہے اور اس بارے میں جماعت کو ہدایات بھی فرمائی تھیں اس لیے اُس طاعون کی جو آپؑ کے زمانے میں آیا ایک علیحدہ حیثیت تھی لیکن ساتھ ہی اُس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقعے پر جماعت کو یہ فرمایا بلکہ مفتی صاحبؓ کو کہا کہ اخبار میں اس کا اعلان کر دیں کہ مَیں اپنی جماعت کے لیے بہت دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے۔مگر آپؑ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر ِالٰہی نازل ہوتا ہے تو پھر بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہو گا۔ پھر صرف یہ نہیں کہ ان کو، نیکوں کو کوئی اثر نہ ہو گا ہاں نیکوں پربھی اثر ہو اجیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ قانونِ قدرت ہے۔ اثر تو ہوتا ہے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں دیکھو حضرت نوحؑ کا طوفان سب پر پڑا اور ظاہر ہے کہ ہر ایک مرد، عورت اور بچے کو اس سے پوری طرح خبر نہ تھی کہ نوحؑ کا دعویٰ اور اس کے دلائل کیا ہیں لیکن طوفان کی زد میں آ گیا۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ جہاد میں جو فتوحات ہوئیں وہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ جہاد میں شامل ہوئے۔ جہاد میں فتوحات ہوئیں۔ اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی جہاد ہوئے۔ ان میں بعض جگہ شکستیں بھی ہوئیں لیکن عمومی طور پر فتوحات ہوئیں۔ آپؑ فرماتے ہیں یہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے ایک نشان تھیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ لیکن ہر ایک میں کفارکے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے۔ یہ نہیں ہوا کہ صرف کافر مارے گئے۔ گو جہاد نشان کے طور پر تھا لیکن اس میں مسلمان بھی مارے گئے اور فرمایا کہ مسلمان جو مارا گیا وہ مسلمان شہید کہلایا۔ آپؑ فرماتے ہیں ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ سب سے اول حقوق اللہ کو ادا کرو۔ اپنے نفس کو جذبات سے پاک رکھو۔ اس کے بعد حقوق العباد کو ادا کرو۔ فرمایا خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خدا تعالیٰ کے حضور رو کردعا نہ کی ہو۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اسبابِ ظاہری کی رعایت رکھو یعنی جو ظاہری احتیاطیں ہیں وہ تمام بجا لاؤ، وہ پوری کرو۔ پھر فرمایا جو تم میں سے بتقدیرِ الٰہی طاعون میں مبتلا ہو جاوے اس کے ساتھ اور اس کے لواحقین کے ساتھ پوری ہمدردی کرو۔ اور ہر طرح سے ان کی مدد کرو اور اس کے علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھو۔ ہر قسم کی کوشش کرو۔ فرمایا لیکن یاد رہے کہ ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ اس کے زہریلے سانس یا کپڑوں سے متاثر ہو جاؤ۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 9صفحہ 251 تا 253)

احتیاطی تدابیر بھی ضروری ہیں

ہمدردی بےشک کرو لیکن احتیاطی تدابیر بھی ضروری ہیں۔ ان سے بچنا بھی ضروری ہے۔ بلکہ اس اثر سے بچو۔پس اس بات سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ جو بھی مدد کرنے والے ہیں ان کو جو یہ ضروری احتیاطیں ہیں مثلاً آج کل یہ کہا جاتا ہے ماسک پہنو اور دوسری احتیاطیں ہیں ان کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اسی طرح سے بلا وجہ لوگوں کے گھروں میں آنے جانے سے بھی بچنا چاہیے۔ حکومت نے بھی منع کیا ہے۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

آج کل یہاں یوکے میں باوجود حکومت کے کہنے کے اور منع کرنے کے لوگ پارکوں میں جا کر اکٹھے ملنا جلنا رکھتے ہیں۔ اجازت تو صرف اس حد تک ہے کہ تم واک (walk)کر سکتے ہو۔ تھوڑی سی کھلی ہوا میں جاسکتے ہو۔ یہ نہیں ہے کہ پارکوں میں بیٹھ کر پکنکیں منانی شروع کر دو اور کئی لوگ اکٹھے ہو جائیں۔ یہ غلط طریق ہے اور حکومت بار بار اس طرف توجہ دلا رہی ہے۔ کاروں میں بیٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ حکومت نے کہا ہے کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ ہم ہوا کے لیے جاتے ہیں۔ exercise کے لیے پارک میں جاتے ہیں تو پھر گھروں سےپیدل جاؤ یا سائیکلوں پرجاؤ۔ یہ کاروں میں اکٹھے بیٹھ کر جو جاتے ہو یہ بھی غلط طریقہ ہے۔ اب بعض جگہ کونسلوں نے پارکنگ کی جگہیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے کہ کاریں آنے کی اجازت ہی نہیں۔ پارکنگ کی اجازت ہی نہیں ہے۔ بہرحال احمدیوں کو اس قسم کی حرکتوں سے بچنا چاہیے۔ جن کے سپرد مدد کے کام ہیں، خدام الاحمدیہ نے بھی بہت سارے والنٹیئر پیش کیے ہیں اور بھی مدد کر رہے ہیں وہ تمام احتیاطوں اور دعاؤں کے ساتھ اس مدد کے فریضے کو سرانجام دیں اور بے احتیاطیوں سے بچیں۔ بلاوجہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ یہ جہالت ہے۔ یہ کوئی بہادری نہیں ہے، یہ جہالت کہلاتی ہے۔ پس بہت احتیاط کریں۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جو خدا نخواستہ اس بیماری سے مر جائے وہ شہید ہے۔ اُس وقت جو طاعون تھی اس کے واسطے غسل کی ضرورت نہیں اور نیا کفن پہنانے کی ضرورت نہیں۔ اس سے پھر شہید والا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تو حکومت نے کچھ حد تک اجازت دی ہوئی ہے۔ غسل بھی کر سکتے ہیں اور کفن بھی پہنا دیتے ہیں۔ اس زمانے میں جو یہ شدید حالات تھے اس وقت آپؑ نے یہ فرمایا تھا کہ ضرورت نہیں۔ پھر تاکیداً آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ گھروں کی صفائی بہت زیادہ کرو اس کے متعلق خاص طورپر ہدایت فرمائی۔ اور گھروں کی صفائی کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اپنے کپڑوں کی صفائی رکھو۔ اپنے کپڑے بھی صاف رکھو اور نالیاں بھی صاف کراتے رہو۔ یہاں تو سارا سیوریج سسٹم (sewerage system)اَنڈرگراؤنڈ (underground)ہوتا ہے۔ غیر ترقی یافتہ ممالک میں جہاں نالیاں کھلی ہوتی ہیں یہ خاص طور پر بہت ضروری چیز ہے کہ نالیاں صاف رکھی جائیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو خاص طور پر فرمایا کہ سب سے مقدم یہ ہے کہ اپنے دلوں کو بھی صاف کرو اور خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صلح کر لو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 253)

یہ خدمت خالصۃً ہمدردی کے جذبے سے ہم کرتے ہیں

پس ہمیں ان حالات میں بھی جو آج کل اس وبا کی وجہ سے ہیں اور ہر ایک اس سے متاثر ہے جیسا کہ میں نے کہا لکھنے والے لکھتے بھی ہیں ان باتوں کی طرف خاص توجہ رکھنی چاہیے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھلا ہے۔ ہمیں اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھولا ہے اور خدا تعالیٰ دعائیں سنتا ہے۔ اگر خالص ہو کر اس کے آگے جھکا جائے تو وہ قبول کرتا ہے، کس رنگ میں قبول کرتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ عمومی طور پر اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، اپنے عزیزوں کے لیے، جماعت کے لیے اور عمومی طور پر انسانیت کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں۔ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں اور ان میں احمدی بھی ہوں گے جن کے پاس احتیاط کے سامان میسر نہیں، جن کو علاج کی سہولتیں نہیں ہیں، کھانے پینے کی سہولتیں نہیں ہیں اللہ تعالیٰ ان پر بھی اور ہم سب پر بھی رحم فرمائے۔ ہم جماعتی طور پر کوشش کرتے ہیں کہ ان حالات میں خوراک وغیرہ ہر احمدی تک پہنچائیں لیکن پھر بھی ہو سکتا ہے، کمی رہ جاتی ہے بلکہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ خوراک یا علاج کی سہولتیں پہنچائیں۔ احمدیوں کے گھر پہنچانے کی اس کوشش کے باوجود کمی رہ جاتی ہے بلکہ ہم تو یہاں تک کوشش کرتے ہیں کہ غیروں تک بھی یہ سب سہولتیں علاج کی سہولت یا خوراک وغیرہ کی سہولت جہاں ضرورت ہے پہنچے اور بے غرض ہو کر یہ خدمت خالصۃً ہمدردی کے جذبے سے ہم کرتے ہیں لیکن پھر بھی بعض متعصب میڈیا کے ذرائع یا نام نہاد علماء یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ احمدی جو یہ خدمت کر رہے ہیں یا خوراک پہنچا رہے ہیں یا میڈیکل ایڈ دے رہے ہیں یہ اپنی تبلیغ کے لیے مدد کرتے ہیں تا کہ ان کی تبلیغ کے رستے کھلیں۔ بہرحال ہمیں ان الزاموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور ہمارے جذبے کو جانتا ہے۔ پھر مَیں کہوں گا کہ آج کل دعاؤں، دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر لحاظ سے جماعت کے ہر فرد کو ہر لحاظ سے اور مجموعی طور پر جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی دعائیں کرنے اور دعاؤں کی قبولیت سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

کاروباری احباب کو لازمی اشیاء کم از کم منافع پر بیچنے کی نصیحت

یہ بات بھی مَیں بعض احمدی کاروباری لوگوں کے لیے کہنا چاہتا ہوں کہ جو احمدی کسی کاروبار میں ہیں وہ اِن دنوں میں اپنی چیزوں پر غیر ضروری منافع بنانے کی کوشش نہ کریں اور غیر ضروری منافع بنانے کی بجائےاور خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں میں اور ضروری لازمی اشیاء میں غیر ضروری منافع بنانے کی بجائے یہ ان چیزوں کو کم از کم منافعے پر بیچیں اور یہی انسانیت کی خدمت کے دن ہیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تلقین فرمائی ہے کہ ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے یہی دن ہیں اور اس ذریعہ سے یہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے بھی دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو جو بھی کاروباری لوگ ہیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ ان حالات میں بجائے غیر ضروری منافعوں کے ایک ہمدردی کے جذبے کے تحت اپنے کاروباروں کو بھی چلائیں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍اپریل2020ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل یکم مئی 2020ءصفحہ5تا6)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button