خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 03؍مئی 2019ء
اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری اصحابِ رسولﷺ کی سیرت مبارکہ کا دلنشین تذکرہ،
مکرمہ صاحبزادی صبیحہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم صاحبزادہ مرزا انور حمد صاحب کی وفات پر ان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جمعہ کے بعد نمازِ جنازہ غائب
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے30؍مئی 9102ء کو مسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج جن بدری صحابہ کا ذکر کروں گا ان میں پہلا نام ہے حضرت عبید بن ابو عبید انصاری اوسیؓ۔ آپؓ قبیلہ اوس کے خاندان بنوامیّہ سے تعلق رکھتے تھے۔ غزوہ ٔبدر،احد اور خندق میں شامل ہوئے۔
دوسرے صحابی جن کا ذکر ہے وہ حضرت عبداللّٰہ بن نعمان بن بلدمہ ہیں۔آپ قبیلہ خزرج کے خاندان بنو خُنَاس سے تھے۔آپؓ اور حضرت قتادہؓ چچا زاد بھائی تھے۔ آپؓ کو غزوہ بدراور احدمیں شامل ہونے کی سعادت ملی۔
اگلا ذکر حضرت عبداللّٰہ بن عمیرؓ کاہے۔ ابنِ ہشام نے آپ کا قبیلہ بنوجِدارہ، جبکہ ابنِ اسحٰق نے بنو حارثہ بیان کیا ہے۔
اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت عبداللّٰہ بن کعبؓ کا ذکر فرمایا۔ آپؓ قبیلہ بنو مازِن سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کے والد کعب بن عمرواور والدہ رباب بنت عبداللہ تھیں۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کو غزوہ ٔبدر میں اموالِ غنیمت پرنگران مقررفرمایا ۔ دیگر مواقع پر بھی آپؓ کو اموالِ خُمس پر نگران بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپؓ غزوہ ٔخندق کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ آپؓ نے33 ہجری میں وفات پائی؛ اور نمازِجنازہ حضرت عثمانؓ نے پڑھائی۔
پھرحضورِ انور نے حضرت عبداللہ بن قیسؓ کا ذکر فرمایا جن کا تعلق بنونجارسے تھا۔ آپؓ غزوہ بدراور احد میں شریک ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ احد میں شہیدہوئے جبکہ ایک دوسری روایت میں آپؓ کےتمام غزوات میں شریک ہونےاور حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں وفات پانے کا ذکر ہے۔
اگلا ذکرحضرت سلمہ ؓبن اسلمکا تھا۔ ان کا تعلق بنو حارثہ بن حارث سے تھا۔ آپؓ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ غزوہ بدر میں صائب بن عبید اور نعمان بن عمرو کو قید کیا۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جنگِ جسر میں شہید ہوئے۔ بوقتِ وفات آپؓ کی عمر کم وبیش 38 برس تھی۔ غزوہ ٔبدر میں آنحضورﷺ کےمعجزات کے ضمن میں بیان ہے کہ سلمہؓ کی تلوار ٹوٹ گئی توآنحضورﷺ نے کھجور کی چھڑی دیتےہوئے فرمایا اس سے لڑائی کرو۔ آپؓ کےہاتھ میں آتے ہی وہ چھڑی بہترین تلوار بن گئی اور بعد میں ہمیشہ وہ آپؓ کے پاس رہی۔غزوہ ٔخندق میں آپؓ کو دوسو آدمیوں پرنگران مقرر کیا گیا تھا۔
حضورِ انور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے حوالے سے قریشِ مکّہ بالخصوص ابوسفیان کی طرف سے آنحضرتﷺ کے قتل کی سازش کے واقعے کی تفصیل بیان فرمائی۔ قاتل کی گرفتاری اور قتل کی سازش کے بےنقاب ہونے پرآپؐ نے دو صحابہ عمرو ؓبن امیہ ضمری اور سلمہؓ بن اسلم کواس حربی دشمن کے خاتمے کے لیے مکّے بھجوایا۔ اہلِ مکّہ کو ان کی آمد کی اطلاع ہوگئی، یہ دونوں صحابہ جان بچا کر واپس آرہے تھے کہ انہیں قریش کے دو جاسوس مل گئے۔ جن میں سے ایک مارا گیا اور ایک کویہ قید کرکے مدینے لے آئے۔صلح حدیبیہ میں سلمہ بن اسلم ؓکو آہنی خود پہن کر آنحضورﷺ کے پاس پہرہ دینے کی سعادت ملی۔
اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت عقبہ بن عثمانؓ کا ذکر فرمایا۔ بعد ازاں حضورِ انورنے حضرت عبداللّٰہ بن سہلؓ کا ذکر فرمایا۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو زعوراءسے تھا۔ آپؓ غزوہ بدراور احد میں اپنے بھائی رافع کے ساتھ شامل ہوئےاور جنگِ خندق میں شہادت پائی۔ غزوۂ حمراءالاسد میں اپنے بھائی رافع کے ہمراہ زخمی ہونے کی حالت میں نہایت تکلیف اٹھا کر شریک ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے دونوں بھائیوں کے لیے دعائے خیر کی۔
حضورِ انور نے جنگِ احد سے واپسی پر غزوۂ حمراءالاسد کی تفصیل حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ کے حوالےسے بیان فرمائی۔ مدینے میں وہ بہت خوف کی رات تھی۔ صبح ہوئی تو پتا چلا کہ قریش کا لشکرمدینے سے چند میل کے فاصلے پر ٹھہرا ہوا، مدینے پر فیصلہ کُن حملے کے لیے مشاورت کررہا تھا۔ آپؐ احد کے زخمی صحابہ کے ہمراہ ایک جوش کے ساتھ ،فاتح لشکر کی طرح قریش کے تعاقب کے لیے روانہ ہوئے۔ قبیلہ خزاعہ کے مشرک رئیس معبد کے ذریعے قریش کو مسلمانوں کے زبردست جوش کا علم ہوا تو وہ مرعوب ہوئےاور مدینے پر حملے کا اردہ ترک کرکے فوراً مکہ روانہ ہوگئے۔ آنحضرتﷺ کو لشکرِ قریش کے یوں بھاگ نکلنے کی اطلاع ملی تو آپؐ نےخدا کا شکر کیا اور فرمایا کہ یہ خدا کا رعب ہے جو اس نے کفّار کے دلوں پر مسلّط کردیا۔
حضورِ انور نے اس کےبعد حضرت عتبہؓ بن ربیعہ کا ذکر فرمایا۔ ابنِ اسحٰق کے نزدیک آپؓ قبیلہ بنو لوزان کے حلیف تھے۔ اور ان کا تعلق قبیلہ بھراءسے تھا۔ بعض کے نزدیک آپؓ قبیلہ اوس کے حلیف تھے۔ انہیں غزوہ ٔبدر اور احد میں شرکت کی توفیق ملی۔ ابنِ حجر کے مطابق جنگِ یرموک میں شامل امرا میں ایک نام عتبہ بن ربیعہ کا بھی ملتا ہے اور وہ یہی صحابی ہیں ۔حضورِ انورنے تیرہ ہجری میں ہونے والی اس جنگ کی تفاصیل بیان فرمائیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کئی صحابہ کی قیادت میں جنگی دستے ملکِ شام کی طرف روانہ فرمائے۔ ہرقل خود چل کر حمص آیااور رومیوں کا بہت بڑا لشکر تیار کیا۔مسلمانوں میں سے بعض اتنےایمان والے بھی نہیں تھے۔ حضرت عمروؓ بن عاص نے ہدایت دی کہ تم سب ایک جگہ جمع ہوجاؤکیونکہ جمع ہونے کی صورت میں قلّت کے باوجود تمہیں مغلوب کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہی مشورہ مسلمانوں کوحضرت ابوبکرؓ نے بھی بھجوایا۔ صفر13؍ ہجری سے لےکر ربیع الثانی تک مسلمانوں نے رومی لشکر کا محاصرہ کیا۔ تاہم مسلمانوں کو اس دوران کامیابی نہیں ملی۔ حضرت ابوبکرؓ کے حکم پر خالدؓ بن ولید عراق سےبطور کمک یرموک پہنچے۔ رومیوں کے لشکر کی تعداد دولاکھ یادولاکھ چالیس ہزار کے قریب بیان کی جاتی ہے۔ اس کے مقابل پر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد سینتیس ہزار سے چالیس ہزار تک بیان کی جاتی ہے۔ اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد رومی فوجی ہلاک ہوئےاور کُل تین ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ ان شہدا میں حضرت عکرؓمہ بن ابوجہل بھی تھے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آج جن صحابہ کا ذکر تھا وہ یہی ہے اب شاید اگلے ذکر رمضان کے بعد ہی ہوں گے۔
آخر میں حضورِ انور نے مکرمہ صاحبزادی صبیحہ بیگم صاحبہ کا ذکر خیر اور نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ آپ 30؍اپریل کو نوےبرس کی عمر میں طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں وفات پاگئیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔آپ حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ کی نواسی، حضرت مرزا رشید احمد صاحب کی بیٹی، حضرت مصلح موعود ؓ اور حضرت امِّ ناصر کے بیٹے صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب کی اہلیہ تھیں۔ حضورِ انور نے فرمایا اس رشتے سے میری ممانی بھی تھیں۔ حضرت اماں جانؓ نے ربوہ میں اپنے خاندان کی جس آخری شادی میں شمولیت فرمائی وہ ان کی شادی تھی۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی بیگم حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ کی بڑی بہن تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اِن دونوں بہنوں کے حوالے سے ایک موقع پر فرمایا کہ یہ اچھا خاندان ہے۔اس گھرانے سے دو بہنیں میری بہوئیں ہیں جو بہت پیارکرنےوالی اور خاندان کو جوڑنےوالی ہیں۔ آپ نہایت سادہ،غریب پروراورمستحقین کی ہمدرد تھیں؛ ان کی باتیں سن کر آب دیدہ ہوجایا کرتی تھیں۔
ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنی والدہ کی نیکیاں اپنانے کی توفیق عطافرمائے۔ اور آپس میں بھی محبت اور پیار سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔جماعت اور خلافت سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔ آمین
٭…٭…٭