قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
(گزشتہ سے پیوستہ ) اِس مثال میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو چیز ہر وقت پاس موجود رہتی ہے اس کی وجہ سے طبیعت میں کوئی خاص تغیر پیدا نہیں ہوتا اور اس کی طرف خاص طور پر توجہ نہیں ہوتی لیکن جو گم جائے یعنی آنکھوں سے اوجھل ہو جائے چونکہ اس کا گم ہو جانا ہر وقت دل میں ٹیس پیدا کرتا ہے اس لئے جب بھی وہ زخم مندمل ہو تو قدرتاً خوشی ہوتی ہے۔ تو جو چیزیں کبھی کبھی سامنے آئیں اُن کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ حِسیں جو کبھی کبھی کام کرتی ہیں وہ گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں بہ نسبت اُن حِسوں کے جو ہرقت کام کرتی ہیں۔
ایک اور موٹی مثال دیکھو! زندگی میں ہم کتنی چیزوں کو دیکھتے ہیں جن کا مادی زندگی سے تعلق ہوتا ہے، مادی زندگی کے لحاظ سے ہمارے جاگنے کی حالت حقیقی ہے اور رؤیا کی حالت غیرحقیقی ہے۔ اور اگلے جہان کے لحاظ سے رؤیا کی حالت حقیقی ہے اور مادی زندگی کی غیرحقیقی۔پس جہاں تک اِس جہاں کا تعلق ہے ہماری رؤیا کی حالت غیر حقیقی ہے اور جاگنے کی حالت حقیقی ہے اب اپنی عمر میں تم اندازہ لگا کر دیکھو کہ عام طور پر آدمی اپنی عمر میں چند رؤیا دیکھتا ہے اور اس کے مقابل پر اربوں ارب نظارے جاگنے کی حالت میں دیکھتا ہے لیکن ان میں سے اکثر بھول جاتے ہیں لیکن جو خواب کے نظارے ہوتے ہیں ان میں سے بعض پر بعض اوقات چالیس پچاس سال گزر جاتے ہیں لیکن وہ نہیں بھولتے۔ کوئی شخص خواب دیکھتا ہے وہ کہتا ہے میں نے ایک بڑا خوشنما درخت چالیس سال ہوئے دیکھا اور اس کے مقابل پر جاگتے ہوئے وہ روزانہ جو بڑے بڑے خوشنما درخت دیکھتا ہے وہ یاد نہیں رہتے کیونکہ مادی آنکھوں کے نظارے وہ روزانہ کرتا ہے اور خواب کی آنکھ سے کبھی کبھی نظارہ دیکھتا ہے یہی فرق دیکھنے اور سننے کی حِس کا ہے۔ انسان کی دیکھنے کی حِس ہر وقت کا م کرتی ہے اور سُننے کی حِس اِس سے کم کام کرتی ہے اس لئے سننے کی حِس کا قوتِ حافظہ پر زیادہ اثر پڑتا ہے بہ نسبت دیکھنے والی حِس کے۔ پھر بعض دفعہ دو دو، تین تین حِسیں مل کر ایک کیفیت کو محسوس کرتی ہیں وہ حافظہ پر اور بھی گہرا اثر ڈالتی ہیںاسی لئے اگر ایک حِس سے کوئی ثواب کا کام کیا جائے اور اس کے ساتھ دوسری ایک دو اور حِسوں کو بھی ملا لیا جائے تو زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسلمان بزرگ باوجود اِس کے کہ اُن کو قرآن شریف حفظ ہوتا تھا وہ قرآن شریف کو کھول کر اُسے آنکھوں سے دیکھتے تھے، زبان سے پڑھتے تھے اور ساتھ ساتھ اُنگلی چلاتے جاتے تھے۔ کسی ایسے ہی بزرگ سے جب کسی نے پوچھا کہ یہ کیا حرکت ہے جب آپ کو قرآن شریف حفظ ہے تو پھر قرآن شریف دیکھ کر کیوں پڑھتے ہیں اور اگر قرآن شریف دیکھ کر پڑھتے ہی ہیں تو ساتھ ساتھ منہ سے کیوں دُہراتے جاتے ہیں اور پھر اِس کے ساتھ اُنگلی ہلاتے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے جواباً کہا کہ میاں! خداتعالیٰ کے سامنے ہر چیز کا جائزہ ہوگا اگر میں نے حافظہ کے ذریعہ پڑھا تو صرف دماغ عبادت گزار ہو گا جب خداتعالیٰ نے مجھے آنکھیں دی ہیں تو یہ عبادت گزار کیوں نہ ہوں اور زبان دی ہے تو وہ عبادت گزار کیوں نہ ہو اِس لئے قرآن شریف دیکھ کر پڑھتا ہوں اور زبان سے دُہراتا جاتا ہوں اور ساتھ ساتھ اُنگلی بھی رکھتا چلا جاتا ہوں تاکہ اُنگلی بھی عبادت گزار ہو جائے۔ تو جتنی حِسیں زیادہ کام کرتی چلی جاتی ہیں ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اِسی طرح حافظے میں جتنی زیادہ حِسیں لگائیں گے اتنی ہی زیادہ بات یاد رہے گی۔ جس کام میں کان، آنکھ اور قوتِ لامسہ تینوں لگ جائیں وہ زیادہ دیر تک حافظہ میں قائم رہے گی تو جن چیزوں کو انسان کبھی کبھار استعمال کرتا ہے وہی حافظہ میں زیادہ قابلِ قدر سمجھی جاتی ہیں کیونکہ کبھی کبھار آنے والے انسان کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔
دماغ میں ایک بڑی لائبریری بنی ہوئی ہے جس طرح دنیا میں لائبریریاں ہیں۔ دنیا کی لائبریریاں چھوٹی ہیں لیکن دماغ میں اتنی بڑی لائبریری ہے کہ اربوں ارب کو ٹھڑیاں اِس میں ہیں ہر چیز جسے انسان دیکھتا ہے یا جسے انسان سنتا ہے اُسی وقت حافظہ کے نگران اُس چیز کو جسے وہ دیکھتا ہے یا سنتا ہے یا چھوتا ہے یا چکھتا ہے یا سونگھتا ہے فوراً ہر الگ الگ چیز کو الگ الگ کوٹھڑیوں میں رکھ دیتے ہیں۔ غرض ہر بات کے لئے ایک الگ کوٹھڑی موجود ہے فوراً اُسے وہاں رکھ دیا جاتا ہے اور ہر ادنیٰ حرکت جو ہم کرتے ہیں وہاں محفوظ ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر جب ہمیں کسی وقت کوئی خیال آتا ہے مثلاً ہم نے زید کو دیکھا اُس کو دیکھتے ہی دل میں خیال پید ا ہوتا ہے کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے یہ تو ہمارا پُرانا واقف ہے، ہمارے محلے کا رہنے والا ہے اور ہمیں فلاں جگہ ملا تھا۔پہلے اس کو ان باتوں کا بالکل خیال نہیں ہوتا لیکن جس طرح ایک افسر جب دفتر میں آتا ہے اور اس کے سامنے مسل پیش ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے اس کے متعلق پہلے کاغذات پیش کرو اسی طرح جب زید سامنے آتا ہے تو جو دماغ کے لائبریرین ہیں اُن کو فوراً حکم دے دیا جاتا ہے کہ اس کی مسل مکمل کر کے پیش کرو۔ اِس پر وہ اس کی مسل مکمل کرتے ہیں وہ مختلف خانوں سے جوجو باتیں اس سے متعلق ہوتی ہیں انہیں اکٹھا کرتے ہیں اور اس کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور وہ اُسے ملتے ہی کہتا ہے آپ میرے رشتہ دارہیں مجھے فلاں جگہ ملے تھے، آپ کا گھر فلاں جگہ ہے، آپ ہماری بیوی کے فلاں رشتہ دارہیں، آپ کی والدہ ہماری خالہ لگتی ہیں وغیرہ وغیرہ حالانکہ زید کو دیکھنے سے پہلے یہ خیالات اُس کے ذہن میں نہ تھے مگر سامنے آتے ہی ساری کی ساری مسل مکمل ہو کر پیش ہو جاتی ہے۔ تو جتنے زیادہ حواس کسی چیز کے محسوس کرنے میں استعمال ہوتے ہیں اُتنی ہی زیادہ وہ حافظہ میں قائم رہتی ہے کیونکہ اُسے لائبریری کی کئی الماریوں میں رکھا جاتا ہے اور لائبریرین کا اسے نکالنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اگر ایک الماری اُس کے ذہن سے نکل گئی ہو تو دوسری الماری اُسے اس کے وجود کا پتہ دے دیتی ہے۔
غرض خداتعالیٰ نے حافظہ کے متعلق ایک بڑا لطیف اور وسیع قانون بنایا ہے اور اس قانون سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں سُنی ہوئی باتیں ہمیں زیادہ یاد رہتی ہیں بہ نسبت دیکھی ہوئی باتوں کے۔( جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سُنی ہوئی بات اپنی اصلی شکل میں قائم رہتی ہے اور دیکھی ہوئی چیز بدلتی رہتی ہے جیسے انسانوں کی شکلیں، مکانات، سٹرکوں وغیرہ کی حالت) میری تقریر کو ہی لے لو اِس کا سننا زیادہ اہم ہے پڑھنے سے۔ کیونکہ زیادہ آدمی سننے والے ہیں اور پڑھنے والے تھوڑے ہیں، پڑھنے والے اگر بعد میں پڑھ لیں تو پڑھ سکتے ہیں لیکن اکثر حصہ تعلیم یافتہ نہیںہے اس لئے ہمیں پڑھے ہوؤں کی اتنی فکر نہیں جتنی اَن پڑھوں کی۔ ہمارے ملک میںچھ فیصدی آدمی پڑھے ہوئے ہیں اور 94 فیصد آدمی اَن پڑھ ہیں۔ ہمیں چھ فیصدی پڑھے ہوؤںکی اتنی فکر نہیں ہونی چاہئے جتنی94 فیصدی اَن پڑھوں کی۔ یہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ اگر کسی قوم کے 94 فیصدی افرادخراب ہوں گے تو چھ فیصدی اس سے بچ نہیں سکتے۔ لکڑی تیرتی ہے اور پتھر ڈوبتا ہے لیکن اگر بڑی لکڑی پر ایک چھوٹے سے پتھر کو رکھ دیں تو وہ بھی تیرتا ہے اور اگر چھوٹی سی لکڑی پر ایک بڑی سِل رکھ دیں تو لکڑی بھی ساتھ ہی ڈوب جائے گی تو کثرت، قلّت کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ پس اگر چھ فیصدی آدمی قرآن شریف پڑھ لیں اور اُسے اچھی طرح جان لیں اور 94 فیصدی آدمی قرآن شریف نہ جانتے ہوں تو روحانی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک سَو فیصدی آدمی قرآن شریف نہ پڑھ لیں، اُسے سمجھ نہ لیں، اُسے اچھی طرح جان نہ لیں ہم محفوظ نہیں ہو سکتے۔ اس لئے ضروری ہے کہ باقی 94 فیصدی کو بھی ہم پڑھائیں، ان کی سُستیوں کو دور کریں اور بار بار کہہ کر اُن کو مجبور کر دیں کہ وہ قرآن شریف کو سُنیں اور یاد کریں اور ان کی توجہ اِس طرف پھیر دیں کہ اُن کے لئے قرآن شریف کا سننا اور یاد کرنا ضروری ہے۔
اس کام کو پورا کرنے کے لئے میں نے اس تحریک کو شروع کیا ہے اور اِس دفعہ سَتر اَسّی آدمی آئے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ 80،70 آدمی کافی ہیںہاں وہ 80،70 آدمی بنیاد کا کام تو دے سکتے ہیںمگر ہمارے لئے مکمل عمارت کا کام نہیں دے سکتے۔ لاکھو ں کی جماعت میں سے 80،70 آدمیوں کا تیار ہو جانا کوئی حیثیت نہیں رکھتااِس کی تو اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی آٹے میں نمک کی۔ یہ تو اُسی وقت ہمارے کام آسکتے ہیں جب یہ اپنی جماعتوں میں جاکر جو کچھ اِنہوں نے پڑھا ہے اُسے اُن لوگوں کو پڑھائیں جو پڑھ سکتے ہیں اور باقیوں کو سننے اور یادکرنے پر مجبور کریں اور اتنا سنائیں کہ اُن کو یاد ہو جائے اور اِس طرح اُن کو یاد کرائیں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد کو قرآن شریف کا علم حاصل ہو جائے۔آخر ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہتے ہوئے تیرہ یا پندرہ سال کے اندر اندر ایسی جماعت تیار ہو گئی جو ساری دنیا کی معلّم ثابت ہوئی لیکن ہم پر پچاس سال گزر گئے ہیں ابھی تک ہم میں وہ تغیر نہیں پیدا ہوا اور نہ ہم سے وہ تغیر پیدا ہوا ہے۔ اگرچہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کے لئے انہیں ایک سہولت حاصل تھی کہ جو باتیں اُن کے سامنے کی جاتی تھیں وہ اُن کی اپنی زبان میں ہوتی تھیں اس لئے ہر بات سُنتے ہوئے اسے ساتھ ساتھ سمجھتے بھی جاتے تھے ان کے لئے اتنا کافی تھا کہ اگر کوئی انسان ان کے کان میں صرف اتنا ہی کہہ دیتا کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ تو اُن کی زندگی کے لئے کافی تھا اسلئے کہ ان میں سے ہر ایک جانتا تھا کہ ال کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھاکہ حمد کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھا کہ دال کے اوپر جو پیش ہے اُس کے کیا معنی ہیں،وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اللّٰہِ جس کے آخر میں ‘ہ’ہے اور جس کی ‘ہ’ کے نیچے زیر ہے اِس کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھا الرَّحْمٰن میں ال کیا کہتا ہے اور رحمٰن کیا، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ الرَّحِیْمِ کا ال کیا کہتا ہے اور رحیم کیا کہتا ہے، اور الرَّحِیْمِ کے نیچے جو زیر ہے وہ کیا کہتی ہے، وہ یہ سب کچھ جانتا تھا اِس لئے اس کیلئے اَلْحَمْدُ کے الفاظ کا سننا ہی کافی ہو جاتا تھا مگر ہمارے ملک کے لوگ جو عربی زبان سے بکلّی ناواقف ہیں ان سے بِسْمِ اللّٰہِ کی ب سے لیکر وَالنَّاسِ کی ‘س’ تک قرآن سُن جاؤ اگر انہوں نے ناظرہ پڑھا ہوا ہے یا قرآن حفظ کیا ہوا ہے تو وہ سب کچھ سنا دیں گے لیکن یہ نہ جانتے ہوں گے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے کچھ بھی نہیں بلکہ جو کچھ یاد ہے یا جو لفظ پڑھے ہوئے ہیں انہیں دُہراتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب والوں میں صرف سورہ فاتحہ جو تغیر پیدا کر سکتی تھی ہماری جماعت میں سارا قرآن وہ تغیر پیدا نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ اِس جماعت کے اکثر افراد قرآن کریم کے معنی نہیں جانتے۔اب اِس کا علاج دو ہی طرح ہو سکتا ہے کہ یا تو ہم ان کو قرآن تک لے جائیں یعنی اُن کو عربی پڑھا دیں تا وہ قرآن کو سمجھ سکیں اور اگر یہ نہیں تو قرآن کو اُن تک لے جائیں یعنی اِس کا ترجمہ اُن کو سنائیں۔ ان عربی دانوں کے بغیر ہم قومی تغیر پیدا نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی روحانی عظیم الشان تغیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے اندر جو کوتاہیاں، سستیاں اور غفلتیں پائی جاتی ہیں اِن کی ایک ہی وجہ ہے کہ ابھی تک ہم پر قرآن شریف کے دروازے نہیں کُھلے۔
(جاری ہے )