حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے بارہ میں صحابہؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے رؤیا و کشوف
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ الودود بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍ فروری 2013ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض صحابہؓ کی روایات کے حوالہ سے ان کی بعض رؤیا کا ذکر فرمایا جن کا خصوصیت سے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ سے تعلق ہے اور جن میں پیشگوئی مصلح موعود کی صداقت اور آپؓکی خلافت کے اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ ہونے سے متعلق پہلے سے خبریں دی گئی ہیں۔اس شمارہ کی مناسبت سے اس پُر معارف خطبہ جمعہ میں سے چند روایات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ مکمل خطبہ جمعہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل انٹرنیشنل 08؍ مارچ 2013ء۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’حضرت امیر محمد خان صاحبؓ…بیان فرماتے ہیں کہ ’’24؍ فروری 1912ء بدھ وار کی رات خواب کے اندر مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی۔ (یہ جس خواب کا ذکر کر رہے ہیں، یہ حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی کی خواب ہے) کہ جب مبارک موعود آئے گا تو تخت نشین کیا جائے گا۔ اس سے مراد ہم تو جارج پنجم کی تخت نشینی لیتے تھے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ مبارک موعود سے مراد صاحبزادہ میاں محمود احمد ہیں اور تخت نشینی سے مراد آپ کی خلافت ہے۔ پھر خیال ہوا کہ آپ کی خلافت کے وقت تو دنیا میں کوئی زبردست زمینی یا آسمانی نشان ظاہر ہونا چاہئے تھے۔ تب تفہیم ہوئی کہ نشان بھی پورا ہو جائے گا۔ صاحبزادہ صاحب کی خلافت کے ذکر سے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرہ بشاش ہو رہا تھا اور مَیں بھی خوش ہو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ مَیں تو مبارک موعود کا ظہور کسی دُور کے زمانے میں سمجھتا تھا لیکن خدا کا شکر ہے کہ یہ خوش وقت بھی میری زندگی میں ہی مجھے نصیب ہوا۔ پھر خواب کے اندر خیال پیدا ہوا کہ خلیفہ تو حضرت مولوی صاحب ہیں، میاں صاحب کس طرح خلیفہ ہو گئے۔ تب تفہیم ہوئی کہ خلیفہ اوّل نے تو بہت بوڑھے ہونا نہیں کیونکہ خدا کے پیارے ارزل عمر کو نہیں پہنچتے‘‘۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 142-143 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحبؓ)
حضرت خیر دین صاحبؓجن کی بیعت 1906ء کی ہے، فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ مَیں نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ گیارہ کرم لمبا ہو گیا ہے۔ (کرم ایک پیمانہ ہے جو دیہاتوں میں زمینوں کی پیمائش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، ساڑھے پانچ فٹ کا۔ یعنی پچپن ساٹھ فٹ لمبا ہو گیا) اس میں بتایا ہے کہ خدا نے ان کو غیر معمولی طاقت عطا فرمائی ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اسی حالت میں دیکھا کہ آپ کا چہرہ مبارک مغرب کی طرف ہے اور ایک چھوٹی سی دیوار پر رونق افروز ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور آپ روتے کیوں ہیں؟ آپ نے فرمایا اس واسطے روتا ہوں کہ لوگ مجھے معبود نہ بنالیں‘‘۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 161 از روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ سکنہ جموں فرماتے ہیں۔ دسمبر 1891ء کی ان کی بیعت ہے کہ ’’مجھے 1931ء میں کشفی حالت میں ایک بچہ دکھایا گیا جس سے سب لوگ بہت پیار کرتے تھے۔ مَیں نے بھی اُسے گود میں اُٹھا لیا اور پیار کیا۔ اگرچہ وہ چھوٹا سا بچہ ہے مگر لوگ کہتے ہیں کہ اس کی عمر تینتالیس سال کی ہے۔ مجھے القاء ہوا کہ اس کشف میں جو بچہ دکھایا گیا ہے وہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح ہیں۔ 1931ء میں آپ کی عمر تینتالیس سال کی تھی۔ اور یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی اشعار میں درج ہے کہ ؎
بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا
جو ہو گا ایک دن محبوب میرا
اس میں لفظ ’’ایک‘‘ میں بھی اشارہ 1931ء کی طرف ہے کیونکہ بحساب ابجد ’’ایک‘‘ کے عدد 31 ہیں۔ یعنی الف، ی، ک۔ ایک جو ہے اُس کے عدد جو ہیں وہ ابجد کے حساب سے 31 بنتے ہیں اور روحانی ترقی کا کمال بھی چالیس سال کے بعد شروع ہوتا ہے اس لئے اس کشف میں بچہ 43کا دکھایا گیا۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 84-85 از روایات حضرت خلیفہ نور الدینؓ صاحب سکنہ جموں)
حضرت خیر دین صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب احرار کا فتنہ بھڑکا تو خاکسار نے دیکھا کہ حضرت
امیر المومنین کے ایک طرف یوسف نامی شخص لیٹا ہوا ہے اور دوسری طرف حضور کے شیر محمد لیٹا ہوا ہے۔ تو اس میں جنابِ الٰہی نے یہ بتایا کہ واقعہ میں یہ یوسف تو ہے مگر بعض لوگ حضور کی ترقی کو دیکھ کر جل رہے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ کیونکہ غیر معمولی خدائی طاقت ہے اس لئے جلنے والے کچھ نہیں کر سکیں گے۔ گویا یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس شعر کے مطابق ہے۔
یوسف تو سن چکے ہو اِک چاہ میں گراتھا
یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 160 از روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓفرماتے ہیں کہ مئی 1938ء (میں) جس وقت احرار کا بہت زور تھا،اُس وقت مَیں نے دعا کرنی شروع کی اور درود شریف کثرت سے پڑھنا شروع کر دیا۔ (احرار نے جماعت کے خلاف بہت زیادہ شورش اُٹھائی تھی) کہ یا ربّ! میرے پیر کی عزت رکھیں، دشمن کا بہت زور ہے۔ تو مجھ کو سرورِ کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ تین اونٹ ہیں۔ ایک اونٹ پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر بھی اُس کے اوپر ہیں۔ اور صحابی دوسرے اونٹوںپر بیٹھے ہوئے تھے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب نے فرمایا کہ سوہنے خاں! تم آ گئے ہو؟ جاؤ اور قدم آہستہ آہستہ چلنا تا کہ دشمن پر رعب ہو جاوے۔ حضور کا غلام آگے آگے چلا۔ جب دس قدم چلا تو حکم ہوا کہ سوہنے خاں! تم پیچھے ہو جاؤ، تمہارا پاؤں شور کرتا ہے۔ سرورِ کائنات اونٹ سے اُتر کر پیادہ ہو کر آگے چلنے لگے۔ جب مسجد مبارک کے (قادیان کی مسجد مبارک کے) پاس پہنچے تو سب صحابی اونٹوں سے اُتر کر اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد مبارک میں بھی چلے گئے۔ سب صحابیوں کو مسجد مبارک میں چھوڑ کر (صحابی بھی ساتھ تھے، مسجد مبارک میں چلے گئے) پھر مسجد مبارک کی جو کھڑکی لگی ہوئی ہے، وہاں سے گزر کر خلیفہ ثانی کے گھر پہنچ گئے۔ (یہاں ان کی خواب ختم ہوتی ہے) ۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 200-201 از روایات حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ)
حضرت خیر دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ مَیں نے دیکھا کہ امیر کابل کہتا ہے کہ مَیں نے اپنا پیسہ بھیج دیا ہے۔ پیچھے آپ بھی آ رہا ہوں۔ جب مستریوں نے ایک فتنہ برپا کیا (یہ مستریوں کا جو فتنہ تھا، یہ وہاں قادیان میں ایک اندرونی فتنہ تھا، انہوں نے بڑا شور مچایا تھا) تو اُس وقت مَیں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ ثانی آسمان پر ٹہل رہے ہیں۔ گویا اس میں یہ بتایا کہ اُن کا اتنا اونچا مقام ہے کہ اُن کے مقام تک پہنچنا نہایت ہی مشکل ہے، گویا محال ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کے لوگ جتنا چاہیں زور لگا لیں خدا کے فضل سے ان کا کوئی نقصان نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ اُن کا قدمِ مبارک بہت بلندی پر ہے۔ یہ حضور علیہ السلام کے اس شعر کے ماتحت ہے کہ ؎
آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار‘‘
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 160 از روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت میاں سوہنے خان صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اب مَیں صداقت خلیفہ ثانی بیان کرتا ہوں جو میرے پر ظاہر ہوئی۔ جس وقت احرار کا بہت زور تھا اور مستریوں نے بھی حضور پر بہت تہمت لگائی تھی۔ مَیں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اے اللہ! میرے پیر کی عزت رکھ۔ وہ تو میرے مسیح کا بیٹا ہے۔ بہت دعا کی اور بہت درود شریف اور الحمد شریف پڑھا اور دعا کرتا رہا۔ خواب عالمِ شہود میں ایک شخص میرے پاس آیا۔ اُس نے بیان کیا کہ مشرق کی طرف بڈھا گاؤں میں مولوی آئے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو ہم نے جڑ سے اکھیڑ دینا ہے۔ اور بندہ (یعنی یہ میاں سوہنے خان صاحب) کہتے ہیں کہ میں، برکت علی احمدی اور فتح علی احمدی کو اپنے ساتھ لے کر خواب میں ہی اُن کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں مولوی آئے ہوئے تھے۔ جب وہ موضع پنڈدری قد پہنچے، اُس وقت نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ مَیں نے امام بن کر ہر دو احمدیوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی۔ اتنے میں خِرد خان اور غلام غوث احمدی پھگلانہ بھی آ گئے۔ مَیں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان پر دو چاند ہیں۔ ایک چاند بہت روشن ہے۔ دوسرا جو مربع شکل اُس کے ساتھ لگا ہوا ہے، وہ بے نور ہے۔ روشنی نہیں ہے۔ میرے دیکھتے دیکھتے اس میں روشنی ہونی شروع ہو گئی۔ غرضیکہ وہ چاند دوسرے چاند کے برابر روشن ہو گیا۔ مَیں نے دعا کی، یہ دونوں ایک قسم کے روشن ہو گئے۔ اُس وقت مجھے آواز آئی کہ پہلا چاند مرزا صاحب مسیح موعود ہیں اور یہ دوسرا چاند جو اب روشن ہوا ہے یہ میاں بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ثانی ہیں۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 199-200 از روایات حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ)