حاصل مطالعہ
مباحثات سے وہ کامیابی نہیں ہوئی جو اخلاق سے حاصل ہوئی
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :
’’وہ لوگ جن کا مطمح نظر گرد وپیش سے چند گز آگے بھی نہیں اٹھتا۔ ان کے سوا ہر عقل مند جانتا ہے کہ عیسائی حکومت دنیا پر اب اس قدر مستحکم ہوچکی ہے کہ اب دنیا کی کوئی ظاہری طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اور اس کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔ اور یہ سب کچھ پادریوں کے چند یاد کئے ہوئے فقروں اور ان کے شیریں کلام اور بناوٹی اخلاق کا ہی نتیجہ ہے۔ بہت سی جگہیں ہیں کہ جہاں پادریوں نے اس طریق سے کامیابی حاصل کی ہے۔
چنانچہ پشاور ہی کا واقعہ ہے کہ وہاں مدت تک عیسائیت پھیلانے کے لئے کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ آخر وہاں ایک پادری پہنچا۔ جس نے بازاروں میں علی الاعلان وعظ کرنا شروع کیا۔ دوسرے لوگ اسے گالیاں دیتے کوئی اس پر تھوکتا کوئی گالی دیتا اور کوئی اس پر راکھ وغیرہ پھینکتا۔ وہ جواب دیتا کہ بھائی تم مجبور ہو کیونکہ تمہارا مذہب ایسے ہی اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور میں بھی مجبور ہوں کیونکہ میرا مذہب مجھے ایسی ہی برداشت، محبت، نرم دلی سکھاتا ہے۔ آخر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ کھڑا ہوا اور نہ صرف علی الاعلان عیسائیت کو قبول کیا بلکہ زمین بھی گرجا کے لئے دی۔ جہاں گرجا بنایا گیا۔ پھر اس طرح چین میں بھی عیسائیت کی تبلیغ کی گئی اور آج وہاں بڑے بڑے خاندان سب عیسائی ہوچکے ہیں۔ یہ سب بناوٹی اخلاق کا نتیجہ ہے۔ جب یہ بناوٹی اخلاق دنیا کو جیت سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ سچے اخلاق دنیا کو نہ جیت سکیں۔
بار بار تجربہ ہوا ہے کہ مباحثات سے وہ کامیابی نہیں ہوئی جو اخلاق سے حاصل ہوئی ہے۔ چنانچہ ہمارے ایک دوست ہیں جو ایسی ایسی جگہوں پر جاتے ہیں۔ جہاں کسی طرح بھی احمدیت نہیں پھیل سکتی تھی۔ ان کے جانے سے وہاں جماعتوں کی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اور وہ ان کے اخلاق کا نتیجہ ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍نومبر1926ء مطبوعہ خطبات محمود جلد10صفحہ 274-275)
چندہ وصیت میں بڑھنے کی تحریک
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :
’’ جو شخص خود جائداد پیدا کرتا ہے۔ اسے یہ بھی امید رکھنی چاہئے کہ اس کی اولاد بھی ایسی ہوگی کہ جائداد بڑھائے گی۔ جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ اگر میں وصیت میں جائداد دے دوں گا تو اولاد کیا کھائے گی وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کی اولاد نالائق ہوگی۔ایک شخص جس کے پاس کچھ نہ تھا۔ اس نے کوشش کر کے کئی ہزار کی جائداد پیدا کر لی۔ تو اسے امید رکھنی چاہئے کہ اس کی اولاد اس سے بھی بڑھ کر ترقی کرے گی۔ اور اس رنگ میں اولاد کی تربیت کرنی چاہئے کہ وہ دنیا میں ترقی کر سکے۔ ورنہ جو اولاد کی اس طرح تربیت نہیں کرتا یہ سمجھتا ہے جو کچھ میں نے کمایا ہے اسی پر اولاد کا گذارہ ہوگا۔ وہ اپنی اولاد کو نالائق سمجھتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ
بندہ میرے متعلق جیسا خیال کرتا ہے میں ویسا ہی کر دیتا ہوں اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد نکمی اور نالائق ہوگی ہم جو دے جائیں گے اسی پر اس کا گذارہ ہوگا اسے بڑھا نہیں سکے گی تو خدا تعالیٰ ایسی اولاد سے یہی معاملہ کرے گا کہ اسے نالائق بنا دے گا۔ لیکن اگر یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد ہم سے بھی زیادہ ہوشیار اور قابل ہوگی اور دین کی خدمت کرنے میں ہم سے بھی بڑھ جائےگی تو میں سمجھتا ہوں ایسی اولاد کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا۔ کسی خدا کے بندہ کا قول ہے کہ کسی سچے مومن کی سات پشتوں تک کسی کو سوال کرتے نہیں دیکھا جائے گا۔
پس وصیت کرتے ہوئے احباب کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے جو اعلیٰ حصہ مقرر کیا ہے۔ وہ 3/1ہے اور ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ حصہ کی وصیت کرے۔ ہاں اگر اپنی مجبوریوں کی وجہ سے3/1حصہ کی نہ کر سکے تو 4/1حصہ کی کرے۔ اور اگر 4/1حصہ کی نہ کرسکے تو 5/1حصہ کی کرے۔ اگر 5/1حصہ کی نہ کر سکے تو 6/1حصہ کی کرے۔ اور اگر 6/1حصہ کی نہ کر سکے تو 7/1حصہ کی کرے۔ اگر 7/1حصہ کی نہ کر سکے تو 8/1حصہ کی کرے۔ اگر 8/1حصہ کی نہ کر سکے تو 9/1حصہ کی کرے اور اگر کچھ بھی نہ کر سکے تو 10/1حصہ کی کرے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍مئی 1926ء مطبوعہ خطبات محمود جلد10صفحہ168)
(مرسلہ:انور شہزاد)
’’حضرت مولوی نور الدین صاحب کی تفسیر قرآن آسمانی تفسیر ہے‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک معروف صحابی پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی کتاب تذکرۃ المہدی جلد اول صفحہ 244 میں تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت اقدس علیہ السلام بار بار مجھے فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کی تفسیر قرآن آسمانی تفسیر ہے۔صاحبزادہ صاحب! ان سے قرآن پڑھا کرو اور ان کے درس قرآن میں بہت بیٹھا کرو اور سنا کرو۔اگر تم نے دو تین سیپارہ بھی حضرت مولوی صاحب سے سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا مادہ اور تفسیر کرنے کا ملکہ ہو جائے گا۔یہ بات مجھ سے حضرت اقدس علیہ السلام نے شاید پچاس مرتبہ کہی ہوگی‘‘۔
(تذکرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ244)
یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ
میاں بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں عورتوں کو درس دے رہا تھا اور میرے درس میں یہ آیت آئی
یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ (البقرۃ:36)
فرمایا۔ میرے دل میں اس وقت کے حسب حال اس کا یہ مفہوم ڈالا گیا کہ میاں بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ تم دونوں مل کر جنت میں رہو اور یہ جنت اس وقت جنت رہ سکتا ہے جب تک تم آپس میں جھگڑا نہ کرو۔ جہاں میاں بیوی میں تنازعات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے پھر وہ گھر جنت نہیں بلکہ دوزخ کا نمونہ ہو جاتا ہے۔اس لئے چاہئے کہ میاں بیوی باہم نہایت خوشی اور آرام سے مل کر رہیں جھگڑا نہ کریں ایک دوسرے کی دل شکنی نہ کریں اور مرد خصوصیت سے عورتوں کی بعض کمزوریوں پر برداشت اور حوصلہ سے کام لیں۔‘‘
(ارشادات نور جلد دوم صفحہ 324)
(مرسلہ: انجینئر محمود مجیب اصغر)
بچوں میں قرآن کریم کی محبت پیدا کرنے کی تلقین
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمارتے ہیں :
’’ہمارے بچے عموماً ماشاء اللہ بڑی چھوٹی عمر میں قرآنِ کریم ختم کر لیتے ہیں۔ جن کی ماؤں کو زیادہ فکر ہوتی ہے کہ ہماری اولاد جلد قرآنِ کریم ختم کرے وہ اُن پر بڑی محنت کرتی ہیں۔ یہاں بھی اور مختلف ملکوں میں جب مَیں جاتا ہوں تو وہاں بھی بچوں اور والدین کو شوق ہوتا ہے کہ میرے سامنے بچوں سے قرآنِ کریم پڑھوا کر اُن کی آمین کی تقریب کروائیں۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ قرآنِ کریم ختم کروانے کے بعد پھر اُن کی دہرائی اور بچے کو مستقل قرآنِ کریم پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے عموماً اتنا تردّد اور کوشش نہیں ہوتی جتنی ایک مرتبہ قرآنِ کریم ختم کروانے کے لئے کی جاتی ہے۔ کیونکہ مَیں جب پوچھتا ہوں کہ تلاوت باقاعدہ کرتے ہو یا نہیں (بعضوں کے پڑھنے کے انداز سے پتہ چل جاتا ہے) تو عموماً تلاوت میں باقاعدگی کا مثبت جواب نہیں ہوتا۔ حالانکہ ماؤں اور باپوں کو قرآنِ کریم ختم کروانے کے بعد بھی اس بات کی نگرانی کرنے چاہئے اور فکر کرنی چاہئے کہ بچے پھر باقاعدہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کی عادت ڈالیں۔ پس اپنی فکریں صرف ایک دفعہ قرآنِ کریم ختم کروانے تک ہی محدودنہ رکھیں بلکہ بعد میں بھی مستقل مزاجی سے اس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ یقیناً پہلی مرتبہ قرآنِ کریم پڑھانا اور ختم کروانا ایک بہت اہم کام ہے۔ بعض مائیں چار پانچ سال کے بچوں کو قرآنِ کریم ختم کروا دیتی ہیں اور یقینا ًیہ بڑا محنت طلب کام ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مستقل مزاجی سے اسے جاری رکھنا اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں ایک خاتون کا مجھے خط ملا جس میں میری والدہ کا ذکر تھا اور لکھا کہ ایک بات جو انہوں نے مجھے کہی اور آج تک میں اس پر اُن کی شکر گزار ہوں کہ ایک دفعہ میں اپنی بچی یا بچے کو لے کر گئی جس نے قرآنِ کریم ختم کیا تھا تو مَیں نے بڑے فخر سے انہیں بتایا کہ اس بچے نے چھ سال کی عمر میں قرآنِ کریم ختم کر لیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ چھ سال یا پانچ سال میں قرآنِ کریم ختم کرنا تو اتنے کمال کی بات نہیں ہے۔ مجھے تم یہ بتاؤ کہ تم نے بچے کے دل میں قرآنِ کریم کی محبت کتنی پیدا کی ہے؟ تو حقیقت یہی ہے کہ قرآنِ کریم پڑھانے کے ساتھ ہی قرآنِ کریم کی محبت پیدا کرنی بھی ضروری ہے۔ اور تبھی بچے کو خود پڑھنے کا شوق بھی ہو گا۔ اور جس زمانے اور دَور سے ہم گزر رہے ہیں جہاں بچوں کے لئے متفرق دلچسپیاں ہیں۔ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے، دوسری کتابیں ہیں۔ ان دلچسپیوں میں بچے کا خود صبح باقاعدہ تلاوت کرنا اور پڑھنا اُسے قرآنِ کریم کی اہمیت کا احساس دلائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس زمانے میں جب مختلف قسم کی دلچسپیوں کے سامان ہیں، مختلف قسم کی دلچسپی کی کتابیں موجود ہیں، مختلف قسم کے علوم ظاہر ہو رہے ہیں، اس دور میں قرآنِ کریم پڑھنے کی اہمیت اور زیادہ ہو جاتی ہے اور ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ پس اس کو پڑھنے کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بچوں میں قرآنِ کریم کی محبت اُس وقت پیدا ہو گی جب والدین قرآنِ کریم کی تلاوت اور اُس پر غور اور تدبر کی عادت بھی ڈالنے والے ہوں گے۔ اُس کے پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دیں گے۔ جب ہر گھر سے صبح کی نماز کے بعد یا آجکل کیونکہ سردیوں میں نماز لیٹ ہوتی ہے، اگر کسی نے کام پر جلدی نکلنا ہے تو نماز سے پہلے تلاوت باقاعدہ ہو گی تو وہ گھر قرآنِ کریم کی وجہ سے برکتوں سے بھر جائے گا اور بچوں کو بھی اس طرف توجہ رہے گی۔بچے بھی اُن نیکیوں پر چلنے والے ہوں گے جو ایک مومن میں ہونی چاہئیں۔ اور جوں جوں بڑے ہوتے جائیں گے قرآنِ کریم کی عظمت اور محبت بھی دلوں میں بڑھتی جائے گی۔ اور پھر ہم میں سے ہر ایک مشاہدہ کرے گا کہ اگر ہم غور کرتے ہوئے باقاعدہ قرآنِ کریم پڑھ رہے ہوں گے تو جہاں گھروں میں میاں بیوی میں خدا تعالیٰ کی خاطر محبت اور پیار کے نظارے نظر آ رہے ہوں گے، وہاں بچے بھی جماعت کا ایک مفید وجود بن رہے ہوں گے۔ اُن کی تربیت بھی اعلیٰ رنگ میں ہو رہی ہو گی۔ اور یہی چیز ہے جو ایک احمدی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے پوری توجہ اور کوشش سے کرنی چاہئے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍دسمبر2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍جنوری2012ءصفحہ5)
(مرسلہ: سید احسان احمد، لندن)
٭…٭…٭