جلسہ سالانہ قادیان 2001ء اور 2012ء میں شمولیت
اے قادیاں دارالاماں
اونچا رہے تیرا نشاں
مسیح و مہدی کا مسکن، جس کی الٰہی نوشتوں میں خبر تھی۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنی ایک رؤیا یا کشف میں قادیان کا نام قرآن پاک میں بھی لکھا دیکھا تو اسی قادیان کی زیارت کی تڑپ ہر احمدی مسلمان کو ہوتی ہے۔ ہم اکثر سردیوں کی چھٹیوں میں پاکستان جاتے تھے۔ 2001ء میں میاں کے بھائی کی شادی تھی۔ کام سے انہیں محدودچھٹیاں ہی تھیں۔ انہوں نے کہہ دیا کہ تم نے اگر دو تین ہفتے پہلے جانا ہے تو چلی جاؤ۔ میں نے کہا کہ اچھا میں پھر قادیان چلی جاؤں گی۔ حسنِ اتفاق سے چند روز پہلے لجنہ کی سالانہ تعلیمی و تربیتی کلاس تھی جہاں ایک بہت زندہ دل، دلچسپ بزرگ خاتون سے وقفہ کے دوران بات چیت ہوئی۔ باتوں باتوں میں کہنے لگیں کہ قادیان جانے کا بہت دل ہے۔ میں نے کہا کہ میرا بھی بہت دل کرتا ہے۔ فرمانے لگیں ’’سچی، چل فیر دونوں چلیئے‘‘۔ میاں جی نے حامی بھری تو جھٹ ان سے فون ملا کر بات کی۔ انڈین ویزا کی کچی پکی معلومات لیں۔ اور اس طرح انڈین ایمبیسی جاپہنچے۔ جاکر اپنا مدعا بیان کیا۔ جماعت کے شعبہ امور خارجیہ اور قادیان دارالامان کے متعلقہ شعبہ سے رابطہ کیا۔ ہر دو شعبہ جات نے بھرپور مدد کی۔ الحمدللہ کہ اس طرح چند دن کے لیے قادیان کا ویزا مل گیا۔ ہم تو ہواؤں میں اُڑنے لگے۔ دیار مہدی علیہ السلام جانے کا تصور ہی از حد خوش کُن تھا۔
آپا ضیا قمر ساہی صاحبہ(جو اب وفات پاچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین)کے ساتھ مستقل رابطہ تھا۔ خیر میں اپنی چھوٹی بیٹی مریم نیّر کو لے کر لاہور ایئر پورٹ پہنچی۔ وہاں میاں کی خالہ اور ان کی فیملی نے بھرپور استقبال کیا۔ آپا ساہی صاحبہ کی ایک دوست نے لندن سے بھی ان کے ساتھ قادیان جانے کا پروگرام بنایا ہوا تھا۔ مقررہ دن وہ دونوں معزز خواتین اور خاکسار مسجد دارالذکر لاہور میں اکٹھے ہوئے اور ٹیکسی میں واہگہ بارڈر کی طرف روانہ ہوئے۔ واہگہ اور پھر اٹاری بارڈرز پر پاسپورٹ کی چیکنگ اور سب کارروائی کے بعد بالآخر ہم پھر ٹیکسی میں بیٹھ کر قادیان دارالامان کی طرف روانہ ہوئے۔ دل کا عجیب عالم تھا۔ ایک ذرہ حقیر، ناچیز کو خدا تعالیٰ نے یہ سعادت بخشی۔ الحمد للہ
ٹیکسی کا کرایہ ہم تینوں نے مل کر ادا کیا۔ یہ ایک سادی سی ٹیکسی تھی۔ جرمنی کی کاروں کے مقابلہ میں بظاہر تو یہ ٹوٹی پھوٹی ہو گی مگر اس وقت ہمیں کتنی عزیز تھی یہ ہم ہی جانتی تھیں۔ زیر لب دعاؤں میں مصروف، اردگرد شہروں و دیہات کے مناظر بھی دیکھتے گئے۔ ایک سڑک پہ ہاتھی بھی کسی سواری میں جُتا دیکھا۔ مینارة المسیح کو دیکھنے کی تمنا لیے آگے بڑھتے رہے۔ الحمد للہ قادیان پہنچنے سے کچھ پہلے ہی باہر سڑک سے مینارة المسیح پر نظر پڑی۔ اپنے تئیں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی دعا مانگنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضلوں سے قبول فرمالے۔
آپا ضیاقمر ساہی صاحبہ نے کہا تھا کہ میری دوست حلیمہ صاحبہ کا بہت زبردست نیا فلیٹ ہے۔ تمام سہولتوں سے آراستہ و پیراستہ۔ ہم سب وہیں ٹھہریں گے۔ سو ہم سیدھے وہیں جااترے۔ حلیمہ صاحبہ خوش قسمت ہیں۔ حلیمہ صاحبہ تو جاتے ہی گھر میں مصروف ہوگئیں۔ آپا ساہی نے کہا کہ میں ذرا کمر سیدھی کر لوں۔ میں نے موقع غنیمت جانا۔ مریم گڑیا کو پرام میں ڈالا اور دیوانہ وار قادیان کے گلی کوچوں میں پھرنا شروع کر دیا۔ وہ بستی جس کی مٹی نے مسیحا کے قدم چومے تھے۔
مہمانوں کی آمد کا خوب رش تھا۔ پورے انڈیا سے کشمیر سے مہمان آرہے تھے۔ خوب گہما گہمی تھی۔ ہر طرف سے مینارة المسیح پربھی نظر پڑتی تھی۔ حتیٰ المقدور دعائیں بھی کرتی جاتی۔ ہر گلی کوچہ کو پیار محبت کی نظر سے دیکھتی۔ ایک دو گھروں کی گھنٹیاں بھی بجا دیں۔ ایک تو یاد ہے کہ اصحاب احمدؓ کے مؤلف مکرم ملک صلاح الدین صاحب کا یاد پڑا کہ چھوٹی بہن نے کبھی ذکر کیا تھا کہ ان سے کوئی سسرالی رشتہ داری ہے۔ وہ بلاجھجک گھر میں لے گئے اور بہت ایمان افروز باتیں سناتے رہے۔ دو تین گھنٹے پھر پھرا کر فلیٹ میں واپس پہنچی تو آپا ساہی کہنے لگیں کہ ویسے شعبہ رہائش نے بھی بہت انتظام کیا ہوتا ہے۔ ان سے بھی بات کر کے دیکھو۔ بیٹی کو لیا اور پوچھتے پوچھاتے متعلقہ دفتر پہنچ گئی۔ سب جگہیں بالکل قریب قریب پیدل کے رستے پر ہی ہیں۔ دفتر میں انہوں نے بہت عزت و تکریم کا سلوک کیا۔ جرمنی کا سن کر کہنے لگے کہ آپ بہت لمبا سفر کر کے آئی ہیں ہم کوشش کرتے ہیں کہ دارالامان میں آپ کو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے گھر میں (جو ابھی نیا نیا ہی مرمت ہو کر بہت خوبصورت تعمیر ہوگیا تھا) ایک کمرے میں ٹھہرنے کی جگہ دے دیں۔ اپنی خوش قسمتی پر رشک آگیا۔ گھر کے اوپر والے کمرے میں جس میں پہلے سے ایک دو اور مہمان عورتیں بھی رہائش پذیر تھیں انہوں نے خاکسار کو ٹھہرا دیا۔ بعدازاں اسی کمرے میں امریکہ سے تشریف لائے ایک مربی صاحب کی بیگم، بیٹی اور ایک خاتون کو بھی ٹھہرایا۔ یہ ایک بہت اچھا اور کشادہ کمرہ تھا۔ روشن و ہوا دار، 7، 8 بیڈ اور چارپائیاں بچھی تھیں۔ دیواروں میں الماریاں بھی تھیں۔ جس میں ہم سب نے اپنا سامان رکھا۔ کسی نے اٹیچی کیس چارپائیوں کے نیچے رکھے۔ الحمد للہ۔ فائیو سٹار ہوٹل کے کمروں میں وہ سکون نہ ہو گا جو ہمیں یہاں میسر آیا۔ کشمیر سے تشریف لائے ہوئے ایک سائنسدان صاحب کی بیوی جن کا نام نگہت صاحبہ تھا وہ بھی ہمارے ساتھ اس کمرے میں ٹھہری تھیں۔ بہت ہی حلیم طبع اور پیاری شخصیت کی مالک تھیں۔ ان سے بہت دوستی ہوگئی۔ انہوں نے مجھے ایک خوبصورت کشمیری رومال(شال) بھی تحفہ دیا۔ جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ خاکسار نے بھی انہیں ایک برقعہ اور سوٹ تحفہ دیا۔ بعدازاں ان سے کچھ خط و کتابت بھی رہی۔ اللہ کرے اب الفضل کی وساطت سے پھر دوستی ہوجائے۔ آمین
جہاں تک یاد پڑتا ہے دارالمسیح میں ہی نیچے والے پورشن میں مہمانوں کے طعام کا بھی بندوبست تھا۔ بہت اعلیٰ درجہ کی مہمان نوازی کی تھی۔ جامعہ کے طلباء خدمت پر مامور تھے۔ خدمت گزاری میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزائے خیر سے نوازے۔ (آمین)
ہمارا تقریباً پانچ دن کا ٹور تھا۔ جس میں سے تین دن جلسے کے تھے۔ صبح سویرے ہم تیار ہو کر جلسہ گاہ پہنچ جاتے۔ صبح سے شام تک جلسہ گاہ میں رہتے۔ سب دنیا محویت کے عالم میں بیٹھی سن رہی ہوتی کسی بھی قسم کا شور شرابہ نہ ہوتاڈیوٹی دینے والیاں بھی صرف چند ایک ہی تھیں۔ سب پروگرام الحمد للہ منظم طریق پہ ہو رہا ہوتا۔ اس سال موسم بھی ماشاء اللہ نسبتًا اچھا رہا۔ بہت زیادہ ٹھنڈ نہیں تھی۔ دھوپ بھی نکل آتی۔ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی کچھ معزز ہستیاں تشریف لائی ہوئی تھیں۔ انہیں دیکھ کر بچپن، لڑکپن کی وہی جلسے کی حسین یادیں تازہ ہوئیں۔ جو اس عمر میں انہیں دیکھ کر ایک سرور، سکون ملتا تھا۔ ان کے قریب ہی بیٹھنے کا الحمدللہ موقع ملا۔
ربوہ میں جیسے عارضی ریستوران اور سٹال لگ جاتے تھے قادیان میں بھی ویسے ہی تھے۔ یہاں کپڑوں، جیولری وغیرہ کے کافی سٹال تھے۔ دل بھر کر چند دنوں میں بچوں اور رشتہ داروں کے لیے شاپنگ بھی کی۔ بلکہ کچھ دو چار سوٹ سلوا بھی لیے۔ بہت سی مقامی خواتین سے بھی اچھی دوستی ہوگئی۔ بعد میں کافی سالوں تک خط و کتابت بھی رہی۔ دارالمسیح میں ٹھہر کر مینارة المسیح کو آتے جاتے دیکھتے۔ 2012ء میں تو اس کے اوپر جانے کی بھی سعادت ملی۔ ایک روحانی سکون محسوس ہوتا ۔مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ اس زمانے میں الگ الگ تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ مسجد اقصیٰ جانے کے لیے مجھے اچھا خاصا لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑا۔ چھوٹی سی بچی ساتھ تھی تو کافی مشکل ہوئی۔ لیکن شوق نے سب کام آسان کردیے۔ مسجد اقصیٰ میں مقام خطبہ الہامیہ، مزار مبارک والد ماجد حضرت اقدس مسیح موعودؑ، مینارة المسیح کے پاس جانے کا موقعہ ملا۔ کافی سالوں بعد ایک دن حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ الہام پڑھا کہ ’’اس چھوٹی مسجد سے (مسجد مبارک) بڑی مسجد(مسجد اقصیٰ) تک مسجد ہی مسجد ہے‘‘ تو دل میں از حد خوشی ہوئی کہ آپ کے اس الہام مبارک کو میں نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھا۔ کیونکہ 2012ء میں جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی توفیق ملی تو مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ کے درمیان مسجد ہی مسجد تھی۔ اور میں اندر ہی اندر سے مسجد مبارک سے مسجد اقصیٰ جا پہنچی تھی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔ سبحان اللہ۔
بیت الدعا میں بھی ہر وقت زائرین کا تانتا بندھا رہتا۔ اس لیے بیت الدعا میں بہت مشکل سے ہی تھوڑا سا ٹائم ملتا رہا۔ دارالمسیح میں مقدس مقامات پر نوافل کی ادائیگی کی توفیق بھی ملتی رہی۔ الحمد للہ۔ مسجد مبارک میں صفائی کرنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔
قادیان دارالامان کی کچھ خواتین سے بھی اچھی سلام دعا ہوگئی تھی۔ ان کے گھروں میں بھی جانے کا موقعہ ملا۔ ہر کوئی مہمان نواز۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا گھر آتے جاتے دیکھنے کا موقعہ ملتا تھا۔ تڑپ تھی کہ اندر جا کر بھی دیکھیں۔ ایک دن کنڈی بجا دی۔ خاتون خانہ نے بغیر کچھ پوچھے کہا کہ اندر آجائیں۔ میں کچھ وضاحت کرنا چاہ رہی تھی وہ بصد اصرار اندر لے گئیں۔ سب گھر مہمانوں سے پُر تھا۔ سارا گھر دیکھنے کا موقع ملا جس سے دل کو بہت خوشی ہوئی۔
بہشتی مقبرہ، جہاں امام الزمان، نبی اللہ، مسیح دوراں و مہدی معہود کا ابدی مسکن ہے جا کر دعا کی توفیق ملی۔ ہیں تو کمزور گناہگار، اللہ تعالیٰ ہمارے گناہ معاف فرمائے، کمزوریوں، کوتاہیوں سے صرفِ نظر فرمالے، اپنے رحم و کرم کی چادر میں لپیٹ لے۔ بہشتی مقبرہ واقعی میں مقبرہ بہشتی محسوس ہوتا ہے۔ پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہے۔
بہشتی مقبرہ کے ساتھ ہی بہت سی یادیں ہیں۔ ہر ہر قدم پر وہ یادیں آتیں کہ کس طرح حضرت مسیح پاکؑ اپنے اصحاب کے ساتھ یہاں باغ میں فروکش ہوتے۔ طاعون کے زمانہ میں یہاں قیام، نماز جنازہ حضرت اقدسؑ و انتخاب خلافت اولیٰ، یہ سب مقامات بہشتی مقبرہ میں ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے آبائی قبرستان میں بھی جانے اور دعا کرنے کی توفیق ملی۔
2012ء کے جلسہ سالانہ میں ایک نئی بات جو پہلے والے جلسہ میں نہیں دیکھی وہ ٹرانسپورٹ کا بہترین انتظام تھا۔ واہگہ سے اٹاری بارڈ کا رستہ 2001ء میں ہم نے پیدل طے کیا تھا جبکہ 2012ء میں ہر طرف مستعد خدام کھڑے تھے جو مہمانوں کا سامان اٹھا کر بس میں لوڈ کرتے۔ اسی طرح اٹاری پرآگے بھی بسیں تیار کھڑی تھیں جنہوں نے معمولی کرایہ لے کر ہمیں قادیان پہنچا دیا۔ نہ کوئی رش نہ دھکم پیل۔ اسی طرح قادیان سے واپسی پر ہوابلکہ آگے سے ربوہ جانے کے لیے بسوں کا بہترین انتظام تھا اور ہم آرام سےربوہ پہنچ گئے۔
واہگہ اور اٹاری بارڈر پہ طعام کا بھی جماعت کی طرف سے بہترین انتظام تھا۔ یہ سب جماعت کی برکتیں ہیں۔ تخم ریزی حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی تھی جو اب چہار دانگ عالم میں پھیل چکی ہے۔ اس کے ماننے والے علم و معرفت میں کمال حاصل کرنے والے ہوں اور ان کے نیک نمونہ سے دنیا کو خدا کی یاد آئے۔ (آمین)