جلسہ سالانہ ربوہ کی چند خوبصورت یادیں
انسان کا اپنے بچپن سے خاص تعلق ہوتا ہے۔ بچپن کے یہ رنگ اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ یہ زندگی کے آخری لمحوں تک آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔ میرے بچپن کی یادوں میں سے سب سے خوبصورت اور روشن یادیں ’’جلسہ سالانہ ربوہ‘‘کی ہیں۔ 1983ءتک سرزمین ِربوہ نے خوب خوب برکتیں سمیٹیں۔ پھر خدا تعالیٰ نے یہ خوش بختی سرزمینِ انگلستان کے نصیب میں لکھ دی، جس پر اہلِ انگلستان خدا تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔
1984ء سے ربو ہ کی سرزمین ہر سال دسمبر میں اس جلسہ کی آمد کا انتظار کرتی ہے۔ مگر یہ دسمبر بھی ہر سال خاموشی سے ایسے ہی گزر جاتا ہے۔ ہاں مگر سب کی دعاؤں میں ضرور زور آجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مناجات پیش کی جاتی ہیں۔ اور دل سے یہ صدا نکلتی ہے؎
ہے قادرِ مطلق یار میراتم میرے یار کوآنے دو
بانئ سلسلہ احمدیہ حضرت مسیحِ موعودؑ نے 27؍دسمبر 1891ء کو جماعت کے اندر محبتِ الٰہی، محبتِ رسولﷺ پیدا کرنے کے لیے اور ان کی تعلیم وتربیت، آپس میں باہمی ہمدردی اور اخوت، دعوت الی اللہ، ترقیٔ ایمان کے لیے جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جماعتِ احمدیہ کی صداقت کا ایک ثبوت ہے کہ مسجدِ اقصیٰ قادیان میں منعقد ہونے والا ایک چھوٹا سا جلسہ (جس میں محض 75مخلصین شامل ہوئے تھے)اب دنیا کے بہت سارے ممالک میں منعقد ہوتا ہے۔
آئیے دن رات کی اس گردش میں زندگی کی یادداشتوں میں، جلسہ سالانہ ربوہ کی چند اجلی یادیں دیکھتے ہیں۔
پورا سال ربوہ کے باسی ان تین دنوں کا انتظار کرتے تھے۔ اور ان دنوں میں تو گویا اس پیاری، مقدس بستی کے ذرے ذرے میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ گویا رنگ ونور کی برسات ہو جیسے ایک ایک فرد کے چہرے پر ایک خاص جذبہ اور خوشی نظر آتی تھی۔ ربوہ کو خوب سجایا جاتا۔ گھروں میں عجیب گہماگہمی اور رونق نظر آتی تو بازار بھی خوب سنور جاتے۔ فرائی مچھلی، منان آئس کریم، سفید اور گلابی رنگ کی cotton candy، خاص الخاص مٹھائیاں، جلیبی سموسہ اور برفی، گلاب جامن اور گاجر کے حلوے کی مہک پورے بازار میں چھائی ہوتی۔
ربوہ کی فضاؤں میں گونجنے والی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، نعرہ تکبیر، اھلاً وسھلاً ومرحبا، صَلِّ عَلیٰ کی صدائیں آج بھی کانو ں میں سنائی دیتی ہیں۔
آج ان واقعات کو 37,36سال گزر گئے لیکن ان صداؤں کا طلسم ابھی تک اسی طرح قائم ہے۔
اصلاح نفس و نیکیوں کا موسم
حضرت مسیحِ موعودؑ نے جلسہ کے بیان فرمودہ اغراض و مقاصد میں سب سے پہلا مقصد یہ بیان فرمایا ہے:
’’تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو، اور اپنے مولیٰ کریم اور رسولِ پاکﷺ کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالتِ انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفرِ آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ341)
حضرت مسیح و مہدی موعود علیہ السلام نے 1893ء میں جلسہ سالانہ کی عظیم الشان اغراض پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا کہ
’’ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہدوتقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لیے ایک نمونہ بن جائیں اور انکساراور تواضع او راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لیے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘
(شہادت القرآن صفحہ98طبع اول)
ان مبارک کلمات میں جن کے الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہیں جماعت احمدیہ کے مرکزی جلسہ کے مندرجہ ذیل چودہ(14)مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔
(1) ملاقات (2) فکر معاد (3) خوفِ خدا (4) زہد (5)تقویٰ (6) خدا ترسی (7) پرہیزگاری (8) نرم دلی (9)باہم محبت (10) مواخات (11) انکسار (12) تواضع (13) راست بازی (14) دینی مہمات میں سرگرمی۔
جلسہ سالانہ کے ایام کے حضرت خلیفۃ المسیح کے ایمان افروز خطابات، نمازِ تہجد کا خصوصی اہتمام، باجماعت نماز، نعرہ ہائے تکبیر کی صدائیں، درود شریف کا ورد، علمائے احمدیت کی تقاریر، ذکرِالٰہی میں گزرتے شب وروز ہر احمدی کے ایمان اور یقین کو بڑھاتے چلے جاتے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ دلوں میں لگے گناہوں اور کمزوریوں کے زنگ دھلتے چلے جاتے ہیں۔
یہ تین دن بھی عجیب دن ہوتے تھے۔ لگتا تھا ربوہ میں کوئی نئی ہی دنیا آباد ہو گئی ہے جہاں حضرت مسیحِ موعوؑ دکے ارشاد کے مطابق اپنے مولیٰ کریم اور رسولِ پاکﷺ کی محبت کے حسین رنگ ہی نظر آتے تھے۔
خوشیوں، باہمی اخوت و اخلاص کا موسم
حضرت مسیحِ موعودؑ کے اس ارشاد کےمطابق کہ
’’تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے خشکی اور نفاق اور اجنبیت کو درمیان سے اٹھا دینے کے لئے بدرگاہِ رب العزت کوشش کی جائے۔
جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں گزشتہ سال داخل ہوئے ہیں پرانے بھائی ان کا منہ دیکھ لیں اور روشناس ہو کر آپس میں رشتہ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہو۔ ‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ341)
یہ جلسہ کے دن بھی مسرتوں خوشیوں کے دن بن جاتے۔ جہاں اخلاص و وفا، سادگی وقناعت، اخوت وبھائی چارہ، مہمان نوازی، احسان واپنائیت، شوق و جذبہ، وسعتِ قلبی کے سارے رنگ نظر آتے تھے۔
اہلِ ربوہ کے دلوں کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ خواتین سارا سال بچت کچھ رقم پس انداز کرتی رہتی تھیں کہ دسمبر میں حضرت مسیحِ موعودؑ کے مہمانو ں کی بہترین رنگ میں خدمت کر سکیں۔ حالانکہ اس وقت اتنی مالی کشائش نہیں ہوتی تھی، محدود آمدنی ہوتی تھی مگر ہمارے گھر میں والد محترم کے واقفِ زندگی ہونے کی برکت سے سارے کام احسن رنگ میں انجام پاتے اور گھر وں میں ڈھیروں سکون ہوتا تھا۔ مہمان نوازی ان دنوں میں اپنی انتہا کو پہنچی ہوتی تھی۔
میری والدہ کی وفات پر2011ء میں میرے ایک عزیز نے مجھے بتایا کہ جلسہ سالانہ پر ہم رات کا کھانا آپ کے گھر کھایا کر تے تھے۔ یہ 1980ء کی دہائی کے شروع سالوں کی بات ہے کہ ایک جلسہ سا لانہ پر ہمیں آپ کے گھر روز مرغیاں دانا کھاتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ جلسہ کے اختتام پر وہ نظر نہ آئیں۔ میں نےآپ کی امی سے پوچھا کہ خالہ وہ مرغیاں کہاں گئی ہیں؟ توآپ کی امی نے جواب دیا کہ وہ تو میں نے آپ سب کو کھلا دی ہیں۔
لنگر خانے سے آنے والی چھوٹی بالٹیوں میں دال اور آلو گوشت کو کون بھول سکتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور حضرت مسیحِ موعودؑ کی دعاؤں کا اثر ہے کہ لنگر خانہ کے آلو گوشت اور دال کے سامنے آج ملکوں ملکوں کے بہترین کھانے ہیچ لگتے ہیں۔
ان دنوں نازک مزاج رشتہ داروں کے لیے جمال بیکری کی مزےدار milky bread، میٹھے bun، بسکٹ (جو آج کل کے sooper بسکٹ سے ملتے جلتے ہیں ) کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ پھر ان دنوں میں رات کو مونگ پھلی، ریوڑی، ابلے ہوئے گرم گرم دیسی انڈے، چائے، قہوہ کا دور بھی چلتا تھا۔
جلسہ سالانہ ربوہ کی یادوں میں ایک نہ بھولنے والی یاد یہ ہے کہ مہمان زیادہ ہونے کی وجہ سے گھر چھوٹے پڑ جاتے تھے۔ مگر اہلِ ربوہ کے دل اتنے ہی کشادہ اور وسیع ہوتے جاتے تھے۔ جلسہ کی جیسے آمد ہوتی میری والدہ ہم سب بہن بھائیوں کے بستر سٹور میں لگو ادیتیں۔ ہمارا بستردسمبر کی سخت سردی میں پرالی کے اوپر چادراور رضائی ہوتا تھا۔ ہمارا پورا گھر مہمانوں کے لیے حاضر ہوتا تھا۔ اور ہمارا یہ حال ہوتا تھا کہ ہمارا دل چاہتا تھا کہ یہ مہمان ادھر ہی رہیں، کبھی واپس نہ جائیں۔
(آج کل کی جنریشن کے برعکس !آج کل کے بچے اگر گھروں میں مہمان آجائیں تو ہمارا کمرہ ہمارا آرام کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اور ان کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ مہمان واپس کب جائیں گے؟)
سب عزیز رشتہ داروں کے ساتھ گذرے سال کا پورا حال و احوال بھی سنا جاتا۔ خاندانوں کے مابین رشتہ ناطہ کے بھی بہت سارے معاملات انہی مبارک دنوں میں طے پاتے تھے۔
دعاؤں کا موسم
جلسہ کے تین دن رحمتوں، برکتوں اور فضلوں کے دن ہوتے تھے جو اپنے دامن میں ڈھیروں خوشیاں لے کر آتے اور پھر ہمیں اداس کرکے چلے جاتے۔ ہم پھر اگلے سال کی راہ تکتے کہ یہ دن دوبارہ جلد آئیں۔
جب جلسہ سالانہ کا آخری دن ہوتا تو ربوہ کی فضائیں دعاؤں اور نعروں سے گونج اٹھتی تھیں۔
فتح وظفر کے گیت گاتی یہ فضائیں ہر احمدی کے ایمان و ایقان کو مزید مضبوطی دے جاتیں کہ سید ومولیٰ پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور حضرت مسیحِ موعودؑ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق جماعت احمدیہ خوب پھلے پھولے اور ترقی کرے گی۔ ان شاءاللہ۔
اللہ کرے کہ اس سچی اور سُچی بستی ربوہ میں جلسہ کی رونقیں لوٹ آئیں اور اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کے حق میں وہ ساری دعائیں قبول فرمائے جو حضرت مسیحِ موعودؑ نے جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے حق میں کی ہیں۔ آمین۔
اختتام میں حضرت مسیحِ موعودؑ کی اس پیاری دعا سے کرتی ہوں جو آپؑ نے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کو دی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’ہر ایک صاحب جو اس للّٰہی جلسہ کے لئے سفر اختیار کریں، خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہواور ان کو اجرِ عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کردیوے۔ اور ان کے ہم وغم دور فرمادے۔ اور ان کو ہر یک تکلیف سے مَخلصی عنایت کرے۔ اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے۔ اور روزِ آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ انکو اٹھاوے جن پر اس کا فضل ورحم ہے۔ اور تا اختتامِ سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو۔ اے خدا، اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشاء یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے۔ آمین ثم آمین‘‘
(اشتہار 7؍دسمبر 1892ء مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 342)