کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام
قبولیت دعا کا فلسفہ
دعا بڑی چیز ہے! افسوس! لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر دعا جس طرز اور حالت پر مانگی جاوے، ضرور قبول ہو جانی چاہیے۔ اس لیے جب وہ کوئی دعا مانگتے ہیں اور پھر وہ اپنے دل میں جمائی ہوئی صورت کے مطابق اس کو پورا ہوتا نہیں دیکھتے، تو مایوس اور ناامید ہو کر اللہ تعالیٰ پر بدظن ہو جاتے ہیں؛ حالانکہ مومن کی یہ شان ہونی چاہیے کہ اگر بظاہر اسے اپنی دعا میں مُراد حاصل نہ ہو، تب بھی نا امید نہ ہو۔ کیونکہ رحمتِ الٰہی نے اس دعا کو اس کے حق میں مفید نہیں قرار دیا۔ دیکھو بچّہ اگر ایک آگ کے انگارے کو پکڑنا چاہے تو ماں دوڑ کر اس کو پکڑ لے گی۔ بلکہ اگر بچّہ کی اس نادانی پر ایک تھپّڑ بھی لگا دے تو کوئی تعجب نہیں۔ اسی طرح مجھے تو ایک لذت اور سُرور آجاتا ہے۔ جب مَیں اس فلسفۂ دعا پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ علیم و خبیر خدا جانتا ہے کہ کونسی دعا مفید ہے۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 434۔435۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)