اختلافی مسائل

اللہ تعالیٰ نے انہیں (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو) وفات دی پھر اپنی طرف اٹھا لیا۔ از امام ابن حزم

(ابن قدسی)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے علم الکلام میں وفات مسیح کا عقیدہ از روئے قرآن وحدیث ثابت فرمایا۔ اس عقیدے کو پیش کرنے کی وجہ سے غیر احمدی علماء آپؑ پر کفر کے فتوے بھی لگاتے ہیں۔ لیکن یہاں دیکھنے والی بات یہ ہےکہ کیا حضورؑ سے پہلے بھی کسی عالم نے اس عقیدے کو پیش کیا ہے؟ چنانچہ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن حزم وفات مسیح کے قائلین میں سے تھے۔

ابن حزم کا پورا نام علی بن احمد بن سعید بن حزم، کنیت ابو محمد ہے اور آپ نے ابن حزم کے نام سے شہرت پائی۔ آپ اندلس کے شہر قرطبہ میں 994ء میں پیدا ہوئے اور 1064ء میں فوت ہوئے۔ آپ تقریباً چار سو کتب کے مؤلف کہلاتے ہیں۔

ان کی ایک کتاب ’’المحلی ‘‘ہے۔ اس کا اردو ترجمہ غلام احمد حریری صاحب صدر شعبہ علوم اسلامیہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے کیا ہے۔ اس کے ٹائٹل پر لکھا ہے۔ ’’دوہزار سے زائد احکام ومسائل زندگی پر مشتمل فقہ الحدیث کی بلند پایہ کتاب‘‘۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 51پر لکھا ہے:

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ مقتول ہوئے نہ مصلوب بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی پھر اپنی طرف اٹھا لیا۔ قرآن کریم میں فرمایا:

وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ(النساء :157)

انہوں نے عیسٰی کوقتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا۔

مزید ارشاد ربانی ہے

اللّٰهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا (الزمر: 42)

اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کر لیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی روحیں سوتے میں (قبض کر لیتا ہے )

اس آیت سے معلوم ہوا کہ وفات کی دو قسمیں ہیں (1)نیند (2)موت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی سے حضرت عیسیٰ کا مطلب یہ نہ تھا کہ جب تو نے مجھے سلا دیا بلکہ ان کی مراد یہ تھی کہ جب تو نے مجھے وفات دی۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ حضرت عیسیٰ مقتول یا مصلوب ہوئے تو وہ شخص کافر اور مرتد ہے۔ اس کا خون اور مال مباح ہے۔ اس لیے کہ وہ شخص قرآن کی تکذیب اور اجماع کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ‘‘

(المحلی اردو جلد اول از ابن حزم مترجم :غلام احمدحریری صفحہ نمبر 51، دارالدعوۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور )

مترجم خود حیات مسیح کے قائل ہیں اس لیے انہوں نے ’’المحلی ‘‘کا ترجمہ کرتے ہوئے ابن حزم کی وفات مسیح کی واضح تحریر پر حاشیہ لکھا کہ

’’ابن حزم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مقتول یا مصلوب ماننے والے کو مرتد یا واجب القتل اس لیے قرار دے رہے ہیں کہ اس نے قرآن کی تکذیب کی اور اجماع کی خلاف ورزی کی مگر خود وہ حیاتِ عیسیٰ کے اجماعی عقیدے کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن اس مخالفت کی وجہ قرآن کی صریح آیات اور اس کے ظاہری معنی ہیں …ابن حزم بہت سے مسائل میں جمہور علماء سے الگ مسلک رکھتے ہیں۔ حیاتِ عیسیٰ کے اجماعی مسئلہ سے اختلاف بھی ان کے تفردات میں سے ایک ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ ابن حزم نزول عیسیٰ کو تسلیم کرتے ہیں …گویا وفات عیسیٰ کے ساتھ وہ نزول عیسیٰ کے بھی قائل ہیں۔ (غلام احمد حریری مترجم )‘‘

(المحلی اردو جلد اول از ابن حزم مترجم :غلام احمدحریری صفحہ نمبر51، 52حاشیہ، دارالدعوۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور)

امام ابن حزم معراج النبیﷺ کے متعلق لکھتے ہیں کہ

’’حضرت محمدﷺ کو اللہ تعالیٰ نے روح مع الجسم رات کو آسمانوں کی سیر کرائی اور آپؐ ایک ایک آسمان پر تشریف لے گئے۔ آپؐ نے وہاں انبیاء علیھم السلام کی روحیں دیکھیں۔‘‘

(المحلی اردو جلد اول از ابن حزم مترجم :غلام احمدحریری صفحہ نمبر71، دارالدعوۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور )

امام ابن حزم خود جسمانی معراج کے قائل ہیں لیکن وہاں انبیاء کی روحوں کے ساتھ ملاقات مانتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ

’’اس حدیث کے راوی حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح حضورؐ نے آسمانوں پر حضرات آدم، ادریس، عیسیٰ، موسیٰ اور ابراہیم علیھم السلام کو پایا۔ حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ مذکورہ انبیاء کس کس جگہ تھے۔ صرف یہ مذکور ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام پہلے آسمان پر اور حضرت ابراہیم علیہ السلام چھٹے آسمان پر تھے۔ پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ اس حدیث سے اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کی روحیں جنت میں تھیں۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ وکتاب الحج وکتاب الانبیاء، صحیح مسلم کتاب الایمان، سنن نسائی کتاب الصلوٰۃ، سنن ابن ماجہ کتاب الصلوٰۃ )

(المحلی اردو جلد اول از ابن حزم مترجم :غلام احمدحریری صفحہ نمبر54، دارالدعوۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور )

(مرسلہ:ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button