تقدیر اُمم
[نوٹ: اس مضمون میں درج نظریات اور نتائج مختلف ماہرین کی کتب پر مبنی ہیں جن کا ذکر آخر پر کیا گیا ہے۔ راقم الحروف نے جہاں اپنے کسی خیال کا ذکر کیا ہے وہاں اس کی نشاندہی کر دی ہے۔ مضمون کے آخری حصہ میں اس بارے میں قرآنی تعلیم بیان کی گئی ہے۔ مضمون بہت اختصار سے لکھا گیا ہے اور بہت سے اہم ممالک کا تذکرہ نہیں کیا جا سکا۔ ]
پس منظر
انسان ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ آئندہ کے متعلق جس حد تک ممکن ہو علم حاصل کر سکے۔ سیاسی یا بین الاقوامی امور سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو خاص طور پرمعلوم کرنے کی خواہش ہوتی ہے کہ آئندہ کوئی ملک کیا طرز عمل اپنائے گا یا یہ کہ ایک صدی کے بعد دنیا کا نقشہ کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ اس ضمن میں جو اندازے لگائے جاتے ہیں وہ اتنے ہی درست ثابت ہوں گے جتنے وہ معقول اور حقائق پر مبنی ہوں گے۔ اسی طرح جتنی ان اندازوں کی بنیاد غیر مبدل چیزوں پر ہو گی اتنا ہی وہ درست ہوں گے ورنہ پچاس یا ستر سال بعد کا کوئی واقعہ حالات کو بالکل مختلف رُخ دے سکتا اور اندازوں کو غلط ثابت کر سکتا ہے۔
دہائیاں بھی بعض اوقات لمحات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وقتی مسائل اور مشکلات کسی قوم کے طرز عمل پر زیادہ دیر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ مثلاً آج سے سو سال قبل ۱۹۱۸ءمیں پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر کیا یہ کہا جا سکتا تھا کہ جرمنی دوبارہ عالمی طاقت بننے کے بعد دوبارہ مکمل طور پر تباہ اور تقسیم ہو جائے گا اور اس کے بعد پھر تیسری بار ایک عالمی طاقت بن کر ابھرے گا؟ تاہم اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ جرمنی مسلسل ایک ہی سمت میں سفر کر رہا ہے اور جنگ عظیم اوّل و ثانی ایسے شدید تباہ کن زلزلے بھی اس کی سمت تبدیل نہیں کر سکے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر دریا ایک سمت میں بہ رہا ہو تو اس کے بہاؤ کے خلاف تیرنا ممکن تو ہے مگر صرف محدود وقت تک! آخر دریا تیرنے والے کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ چنانچہ دریا کی ہلکی مگر مسلسل حرکت ہمیشہ وقتی حرکت پر غالب آجاتی ہے خواہ وہ وقتی حرکت کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ ایسی ہلکی مگر مسلسل حرکت کو پہچاننے کی ضرورت ہے تاکہ وقتی حالات اور انقلابات سے بالا ہو کر ان کا اثر دیکھا جا سکے۔
ہر قوم کے کچھ ایسے مفادات ہیں جو کہ اس کی صدیوں پرانی تاریخ کے نتیجہ میں تشکیل پاتے ہیں۔ انتہائی گہرے خوف ہیں جو کسی قوم کی اجتماعی سوچ پر اثر چھوڑ چکے ہوتے ہیں اور ان سے مفر ممکن نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر قوم فیصلے کرتے وقت اپنی تاریخ، اپنے خوف، اپنے مفادات کی اسیر ہوتی ہے۔ یہ بات جہاں ہر انسان پر انفرادی طور پر اطلاق پاتی ہے وہیں قوموں پر بھی۔
اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ہو گا؟ بلکہ یہ ہے کہ کیوں ہو گا؟ بار بار تباہ ہونے کے باوجود آخر جرمنی ہی کیوں یورپ کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرتا ہے؟ کیوں جرمنی جنگ میں پہل کرتا ہے؟
کسی ملک کے ایسے گہرے، طویل المدتی مفادات کی بنیاد کیسے دریافت کی جائے؟ اس سلسلے میں ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ طویل المدتی اور مسلسل اثر دکھانے والے مفادات جغرافیہ پر مبنی ہوتے ہیں۔ جغرافیہ وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا اور یہ کسی بھی قوم کے مزاج، اس کی تاریخ اور اس کی صلاحیتوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ ایک بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ مثلاً پہاڑی قوموں کا مزاج، کھیتی باڑی کرنے والی قوموں کے مزاج سے مختلف ہوتا ہے۔ صحرائی قوموں کی عادات، جنگلوں میں رہنے والوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ وغیرہ۔ لیکن جغرافیہ تاریخ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، اقتصادیات پر بھی حتیٰ کہ کسی قوم کی عددی طاقت پر بھی۔
جرمنی کی طاقت کا راز
جرمنی یورپ کے وسط میں واقع ہے۔ چنانچہ اکثر یورپی اقوام اپنا تجارتی سامان یورپ کے دوسرے حصوں میں منتقل کرنے کے لیے جرمنی پر منحصر ہیں اور یوں جرمنی کو ان پر تجارتی سبقت حاصل ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جرمنی میں ایسے دریا موجود ہیں جو نقل و حمل کے سستے ترین طریقے یعنی جہاز رانی کے لیے موزوں ہیں یعنی ان میں ایسے آبشار اور دیگر قدرتی رکاوٹیں نہیں ہیں جو جہاز رانی کی راہ میں حائل ہوں۔ پھر یہ بھی کہ کچھ دریا جنوب سے شمال کی طرف اور کچھ مغرب سے مشرق کی طرف بہنے والے ہیں۔ چنانچہ صنعتی انقلاب کے بعد جب کارخانوں میں بہت بڑے پیمانے پر چیزیں تیار ہونے لگیں تو ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے یا ان کے لیے خام مال اور ایندھن پہنچانے کے سستے ذرائع میں بھی جرمنی کو کئی ممالک پر برتری حاصل رہی۔
مگر کسی قوم کو طاقتور بنانے کے لیے محض تجارتی سبقت کافی نہیں۔ اس کے لیے افرادی قوت بھی درکار ہے۔ اور اس کے لیے پھر جغرافیہ اہم ہے کیونکہ آبادی وہیں زیادہ ہو سکتی ہے جہاں غذائی ضروریات پورا کرنے کے لیے زرعی وسائل وافر ہوں۔ جرمنی کی آب و ہوا نہ تو اتنی سرد ہے نہ اتنی گرم کہ زرعی پیداوار میں نقصان ہو۔ بارشوں کی بہتات کی وجہ سے آب رسانی کے کم خرچ ذرائع بھی موجود ہیں۔ زمین کاشت کاری کے قابل بھی ہے۔ پس جرمنی کا یورپ کی سب سے بڑی، متمول اور طاقتور قوم بننا ایک طبعی امر ہے جسے وقتی حادثات تبدیل نہیں کر سکتے خواہ وہ جنگ عظیم ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار مکمل طور پر تباہ ہونے کے باوجود جرمنی ہی یورپ کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرتا ہے۔
تمام قومیں یہ فطری خواہش رکھتی ہیں کہ ان کی طاقت و ثروت میں اضافہ اور زوال کا امکان کم از کم ہو۔ اس کے لیے وہ اپنی تجارت اور اپنے ملک کو ہر ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھنا اور اپنے تجارتی اور سیاسی مفادات کی ہر جگہ حفاظت کرنا چاہتی ہیں۔ یہ بنیاد ہے دنیا پر حکمرانی، یا رعب قائم رکھنے کے مقابلہ کی۔ اسی مقصد کی خاطرہزاروں سال سے قومیں فوجی چھاؤنیاں اور نو آبادیات قائم کرتی آئی ہیں۔ ورنہ نہ امریکہ کو سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کر کے ہزاروں کلومیٹر دور بحری بیڑے رکھنے کی ضرورت ہے نہ برطانیہ یا فرانس کو بھاری قیمت پر دور دراز جزائر پر عسکری اڈے قائم کرنے کی۔
جدید دنیا پر حکومت کی بنیاد: بحری برتری
دنیا کی بڑھتی آبادی، سائنسی ترقی اور ذخائر پر دسترس میں اضافےکے ساتھ عالمی تجارت میں ترقی اور اس کی شکل تبدیل ہوتی رہی ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے صنعتی انقلاب کے بعد جب کارخانوں میں مشینوں کی مدد سے بڑے پیمانے پر چیزیں تیار کی جانے لگیں تو ان کو فروخت کرنے کے لیے دور دراز منڈیوں میں لے جانے کا سب سے سستا طریقہ بحری جہازوں کا استعمال تھا۔ دریاؤں اور سمندروں کی اہمیت اس بات سے واضح ہو سکتی ہے کہ بحری جہازوں سے سامان کی نقل و حرکت ریل یا ٹرکوں کی نسبت دس تا تیس گنا سستی ہوتی ہے۔ اسی طرح صنعتی پیداوار کے لیے درکار خام مال دور دراز ممالک میں مہیا تھا۔ اس کو کارخانوں تک پہنچانے کے لیے بھی بحری جہاز ضروری تھے۔ اور ان جہازوں کی حفاظت یا قدرتی ذخائر پر قبضہ کے لیے دور دراز ملکوں تک حفاظتی دستے پہنچانے کا اہم ترین ذریعہ بھی بحری جہاز ہی ہیں۔ آج بھی، جبکہ فضائی سفر میں بہت کچھ ترقی ہو چکی ہے، زمین پر فوجیں اتارے بغیر کوئی عسکری کارروائی دیر پا ثابت نہیں ہو سکی۔ اس لیے امریکی ریئر ایڈمرل ماہان (rear admiral Mahan)نے ۱۸۹۰ءمیں یہ خیال پیش کیا کہ دنیا پر حکمرانی کا مرکزی نقطہ سمندروں پر حکمرانی ہے۔ اور یہ حکمرانی قدرتی طور پر صرف ان ممالک کو حاصل ہو سکتی ہے جن کا جغرافیہ انہیں کھلے سمندروں تک رسائی، گہری بندرگاہوں کی تعمیر، اور بحری سفر کا تجربہ رکھنے والی آبادی مہیا کرے۔
مثلاً۱۸۹۰ء میں برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھا، جس پر سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ اس طاقت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ برطانیہ ایک جزیرہ ہے جس کا کوئی بھی شہر سمندر سے زیادہ دور واقع نہیں۔ جنگلات کی بہتات کی وجہ سے بحری جہاز بنانے کا سامان بھی میسر ہے۔ چنانچہ برطانوی قوم کو جہاز رانی، بحری تجارت اور بحری جنگوں کا صدیوں پر محیط تجربہ ہے۔ فرانس، سپین، بلکہ پرتگال جیسے چھوٹے ممالک نے بھی دور دراز علاقوں کو فتح کیا لیکن ان کے مقابل پر جرمنی، ہنگری، آسٹریا، روس جو کہ کئی لحاظ سے ان سے زیادہ طاقتور تھے، ایسا نہ کر سکے (روس کی فتوحات اس کے زمینی سرحدی ممالک تک محدود رہیں )۔ سرسری جائزہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ برطانیہ، سپین وغیرہ ساحلِ سمندر پر واقع ہیں اور انہیں بحر اوقیانوس (atlantic ocean) جیسے کھلے سمندر تک رسائی حاصل ہے۔ اسی لیے انہیں بحری بیڑے بنانے اور بحری جنگوں کا لمبا تجربہ حاصل ہے۔ جبکہ آسٹریا، ہنگری، جرمنی کو یہ موقع میسر نہیں تھا اور اسی لیے ان کے پاس قابل ذکر بحری بیڑے تھے نہ ہی بحری جنگوں کا تجربہ۔ ایک عالمی طاقت ہونے اور وسائل رکھنے کے باوجود روس بھی امریکہ کے مقابل پر کبھی بھی قابل ذکر بحری طاقت نہیں بن سکا۔
برطانیہ نے جو دنیا پر حکمرانی کی ہے اس کی بنیاد یہ تھی کہ اس نے ان چھوٹے سے چھوٹے مگر اہم ترین مقامات پر قبضہ کر لیا تھا جو بحری تجارت اور بحری قوت کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھیں۔ مثلاً جبرالٹر پر قبضہ سے اس نے جنوبی یورپ، ترکی اور مشرق وسطیٰ کے تمام بحری جہازوں کو بحر متوسط (Mediterranean sea) میں روکنے کی صلاحیت حاصل کر لی کیونکہ اس جگہ پر چند کلومیٹر چوڑے سمندری راستہ سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اور نہر سویز پر قبضہ سے ایشیا اور مشرقی افریقہ سے تجارت میں سارے یورپ پر سبقت مل گئی۔ گویا چند کلومیٹر کے دو ٹکڑوں پر قبضہ نصف یورپ کو بے دست و پا کرنے کے لیے کافی ہے۔ مزید اطمینان کے لیے مالٹا پر قبضہ سے بحر متوسط کو دو نیم بھی کر دیا۔ یہ تو تھا جنوبی نصف یورپ کا حال۔ شمالی یورپ پر بھی برطانیہ کو بالادستی حاصل ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔
یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی چین و جاپان سے تمام تر تجارت کا سب سے مختصر بحری راستہ ملائیشیا کے پاس ایک چند کلومیٹر چوڑی سمندر ی راہداری سے گزرتا ہے۔ عین اس جگہ پر سنگاپور کی کالونی قائم کر کے اس تجارتی راستے پر بھی تسلط حاصل کر لیا گیا۔ پھر مشرقی افریقہ اور ایشیا کی یورپ سے تجارت جو طویل راستہ ہے جنوبی افریقہ پر قبضہ کے ذریعہ وہ بھی برطانیہ کے زیر تسلط آ گیا۔ یوں برطانیہ کو یہ صلاحیت حاصل ہو گئی کہ جب چاہے کسی ملک کے بحری جہازوں کو تجارت سے روک دے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک برطانیہ جبرالٹر پر قبضہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔
اگلا سوال یہ ہے کہ پھر برطانیہ کا زوال کیوں ہوا؟ اور امریکہ اس سے آگے کیسے نکل گیا؟ اس کے لیے یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ مشرق میں بحر اوقیانوس اور مغرب میں بحر الکاہل (Pacific Ocean) دونوں سمندروں تک رسائی رکھتا ہے۔ جبکہ یورپی اور افریقی ممالک کو بحر الکاہل تک اور ایشیائی ممالک کو بحر اوقیانوس تک براہِ راست رسائی حاصل نہیں۔ چنانچہ امریکہ کو اس لحاظ سے تمام یورپی، افریقی، اور ایشیائی ممالک پر سبقت حاصل ہے۔ جوں جوں عالمی تجارت کا ایک حصہ بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل کی طرف منتقل ہوتا گیا، یورپ اور ایشیا پر امریکہ کی یہ سبقت بڑھتی گئی۔ اس وقت بحر الکاہل میں تجارت، بحر اوقیانوس کی تجارت سے زیادہ ہے۔ میکسیکو کو بھی ان سمندروں تک رسائی حاصل تھی لیکن میکسیکو کی بجائے امریکہ کیوں عالمی طاقت بنا، اس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ ریئرایڈمرل ماہان کے مشوروں پر عمل کر کے امریکہ آج یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی سمندر میں اپنے تجارتی بیڑوں کو تحفظ دے اور بصورت تصادم کسی بھی دوسرے ملک کی بحری تجارت کو روک دے۔ چنانچہ دنیا پر اس وقت امریکہ کی حکمرانی ہے۔ اور یہ حکمرانی اس وقت تک قائم رہے گی جب تک امریکہ سمندروں پر حکمران ہے، یا تجارت کا مرکز سمندر سے دیگر ذرائع کی طرف منتقل نہیں ہو جاتا یا پھر تجارت کا مرکز ان دونوں بڑے سمندروں، بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس سے دور نہیں چلا جاتا، یا پھر امریکہ کا وفاقی اتحاد ٹوٹ نہیں جاتا۔
جدید دنیا پر حکومت کی بنیاد : محور کا نظریہ
دوسرااہم نظریہ انگریزماہرہالفورڈمیک کنڈر (Halford Mackinder)نے ۱۹۰۴ء میں پیش کیا۔ اس کے مطابق دنیا ایک مرتبہ پھر زمینی تجارت کی طرف لوٹنے والی ہے۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ریلوے وغیرہ کی ایجاد کی وجہ سے زمینی راستہ سے تجارت سستی، بحری خطرات سے محفوظ اور زیادہ آسان ہو گی۔ چنانچہ اس کے مطابق دنیا پر حکمرانی قدرتی طور پر اس قوم کی ہو گی جو دنیا کے محور یا دل پر قابض ہو گی۔ میک کنڈرکے مطابق یہ محور وسطی ایشیا ہے جو کہ مغرب میں دریائے وولگا (Volga)کے علاقہ سے لے کر مشرق میں جھیل بیکال(Lake Baikal)اور جنوب میں ایران کی سرحد تک ممتدہے۔ یہ علاقہ سمندر سے اتنا دور ہے کہ اس پر سمندری راہ سے حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں طویل و عریض ذرخیززمین اورمعدنی ذخائر موجود ہیں۔ یورپ و مشرق بعید کے مابین زمینی تجارت، افریقہ کی ایشیا اور یورپ سے زمینی تجارت، سب اس علاقہ کے زیر اثر ہو گی۔
تاہم عالمی تجارت اب تک نہ صرف بدستور بحری راستوں پر منحصر ہے بلکہ اس کی اہمیت اور ضرورت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ Mackinderکا نظریہ غلط ہے۔ نظریہ اپنی جگہ نہ صرف درست ہے بلکہ اب مزید اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد ہنری کیسنجر (Henry Kissinger)اور برزیزنسکی(Brzezinski)جیسے مشہور امریکی ماہرین نے امریکہ کو میک کنڈر کی تھیوری کی روشنی میں پالیسیاں بنانے اور اس محور پر روس کا اثر ختم کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اور ماہرین کے نزدیک امریکہ نے بہت بڑی غلطی یہ کی کہ اس وقت روس کے حصے بخرے نہیں کیے۔ اب اس نظریہ پر ایک اور زاویے سے غور ہو رہا ہے۔ خلا میں بھی ہر مقام برابر نہیں۔ جس طرح زمین پر بعض اہم علاقے ہیں جن پر قبضہ سے بالا دستی حاصل کی جا سکتی ہے، اسی طرح جو قومیں خلا میں خاص مقامات پر قبضہ کر لیں گی وہ خلائی دوڑ میں بالا دستی حاصل کر لیں گی۔ چنانچہ میک کنڈرکےنظریہ کی روشنی میں خلائی بالادستی کے لیے تیاری کی جا رہی ہے۔ پس یہ نظریات محض دیوانوں کی بڑ نہیں بلکہ بہت دور رس اثرات رکھنے والے ہیں۔ ترقی یافتہ قومیں اپنی طویل المدتی پالیسیاں بناتے ہوئے ایسے نظریات کو مدنظر رکھتی ہیں۔
ذیل میں مندرجہ بالا نظریات کی بنا پر چند اہم ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ان کی پالیسیاں کن امور پر مبنی ہیں اور وہ آئندہ کیا روش اختیار کرنے والی ہیں۔
یورپ کا مسئلہ: جرمنی
مختصر اً بیان کیا جائے تو ’’یورپ کا مسئلہ‘‘جرمنی ہے۔ کئی صدیوں سے یورپ اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکا اور نہ ہی اس کا مستقبل قریب میں کوئی امکان ہے۔
اگر یورپ کا نقشہ دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ فرانس سے لے کر روس تک قوس بناتا ایک میدان بچھا ہوا ہے۔ اس میدان کو شمالی یورپی میدان کہتے ہیں۔ اس میدان میں کوئی ناقابل عبور رکاوٹ نہیں۔ نہ وسیع برفانی میدان ہیں، نہ دشوار گزار جنگل نہ ہی بلند و بالا پہاڑی سلسلے۔ یعنی عسکری نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کوئی فوج فرانس سے بلا روک ٹوک روس تک جا سکتی ہے۔ اور تاریخ میں ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے۔ نپولین سے ہٹلر تک متعدد فوجیں اسی میدان کو عبور کرتے ہوئے جرمنی اور روس پر حملہ آور ہوئیں۔ جرمنی اس میدان کے عین وسط میں واقع ہے اس بنا پر جرمنی کو بہت سے فوائد بھی حاصل ہیں، جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، لیکن دوسری طرف جرمنی مسلسل اندیشوں کا شکار بھی رہتا ہے۔ کیونکہ اس پر مشرق و مغرب دونوں طرف سے حملہ ہو تا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی جب اپنے قریب کسی طاقت کو ابھرتا دیکھتا ہے تو حفظ ما تقدم کے طور پر جنگ شروع کر دیتا ہے کیونکہ اس کے لیے بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا ممکن نہیں۔
کارپیتھی پہاڑ
(Carpathian Mountains) اور جرمنی و روس کے مفاد میں اختلاف
چونکہ شمالی یورپی میدان فوجوں کی آماجگاہ رہا ہے اس لیے روس کے لیے یہ سوال بہت اہم ہے کہ کسی بھی مغربی فوجی قوت کو روکنے کے لیے اس میدان میں سب سے موزوں مقام کون سا ہے؟ جرمنی سے مشرق میں ماسکو تک ایک جگہ پر، جو کہ پولینڈ میں واقع ہے، کارپیتھی پہاڑی سلسلہ اس میدان کو کاٹ کر ۵۰۰؍کلومیٹر چوڑائی تک محدود کر دیتا ہے۔ یہ مقام عسکری لحاظ سے روس کے لیے سب سے اہم ہے۔ اور جرمنی کے لیے بھی۔ روس کا مفاد یہ ہے کہ یہ جگہ اس کے زیر تسلط رہے تاکہ وہ مغرب سے کسی بھی حملہ آور کو یہاں روک سکے۔ اور تاریخ کی روشنی میں یہ اندیشہ بالکل بجا ہے۔ سویڈن، فرانس، جرمنی وغیرہ اس جانب سے متعدد بار روس پر حملہ کر چکے ہیں۔ لیکن مغرب کا مفاد یہ ہے کہ یہ جگہ اس کے قبضہ میں رہے تاکہ ممکنہ طور پر روس کی یورپ کی طرف پیش قدمی کو یہاں روکا جا سکے۔ پولینڈاور جرمنی وغیرہ پر روس بھی حملے کر چکا ہے۔ ۲۰۲۱ءکے آغاز میں پولینڈ نے بڑے وسیع پیمانے پر فوجی مشقیں کیں جن کا ایک مقصد یہ دیکھنا تھا کہ اگر روس پولینڈ پر حملہ کر دے تو کیا ہو گا۔ مشقوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ روسی افواج محض پانچ دن میں وارسا پہنچ گئیں اور پولینڈ کا جدید نیٹو اسلحہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ پولینڈ کی سرحد سے برلن محض ۹۰؍ کلومیٹر ہے۔ چنانچہ جرمنی کا مفاد یہ ہے کہ روس کو اپنے سے جس حد تک ممکن ہو دور رکھے اور بیچ میں دیگر ممالک ہوں۔
مشرقی یورپی ممالک کا خوف
روس اور جرمنی کی چکی میں پسنے والے مشرقی یورپی ممالک ہیں۔ بحر بالٹک (Baltic)سے بالقان(Balkan) تک ان ممالک کی ایک لڑی ہے جن میں سے قریباً ہرچھوٹا ملک ہاتھیوں کی اس لڑائی میں روندا جا چکا ہے۔ بعض تو متعدد بار۔ یہ ممالک کارپیتھی (Carpathian Mountains)پہاڑی سلسلہ پر واقع ہیں یا اس سے متصل ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے روس کسی صورت کارپیتھی پہاڑوں کے مشرق میں کوئی قابل ذکر فوجی طاقت برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کا ایک مظہر یوکرائن کا مسئلہ ہے۔ مغربی ممالک یوکرائن میں اپوزیشن کی حمایت کر رہے ہیں تاکہ یوکرائن پر مغربی تسلط قائم ہو جائے۔ اور روسی اثر کو مزید مشرق کی جانب دھکیل دیا جائے۔ یہ بات روس کے بنیادی قومی مفاد کے خلاف ہے۔ چنانچہ روس نے کسی بات کی پروا نہ کرتے ہوئے یوکرائن میں کریمیا پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہی کہانی اب بیلا روس میں دہرائی جا رہی ہے۔ یہاں بھی مغربی ممالک اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں جبکہ روس کسی قیمت پر یہ بات برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ بیلا روس ماسکو سے محض ۴۵۰؍کلومیٹر دور واقع ہے اور راستہ میں صاف میدان۔
مغرب جس قدر روس پر دباؤ بڑھائے گا اور روس اور جرمنی اپنے اپنے ملکی مفاد پر جس قدر زور دیتے جائیں گے، اسی قدر یورپی مسئلہ اجاگر ہوتا جائے گا۔ مشرقی یورپی ممالک بار بار کے تلخ تجربات کی روشنی میں مجبور ہیں کہ برطانیہ اور امریکہ کی طرف دیکھیں۔ ان کا سرخیل پولینڈ ہے جو کہ تاریخی تجربات کی روشنی میں سب سے زیادہ خوف کا شکار ہے۔ چنانچہ ان ممالک، خصوصاً پولینڈ، کا آئندہ سالوں میں برطانیہ اور امریکہ کی جانب جھکاؤ بڑھے گا۔ یاد رہے کہ بعض مقامات جو تاریخی طور پر جرمنی کا حصہ تھے اس وقت پولینڈ میں شامل ہیں۔ اور پولینڈ کو یہ اندیشہ بھی ہے کہ جرمنی کسی وقت ان پر حق جتائے گا۔
یورپی یونین کا انجام
اس وقت یورپی یونین میں امن و ہم آہنگی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ جرمنی محفوظ ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد سے جرمنی کی یہ کوشش رہی ہے کہ دیگر یورپی ممالک کے ساتھ اتنے وسیع اور گہرے تجارتی تعلقات بنا لیے جائیں کہ اپنے مالی مفادات کی خاطر وہ جرمنی کے ساتھ امن سے رہنے پر مجبور ہیں۔ چنانچہ جرمنی نے بالخصوص فرانس کو اپنے ساتھ اقتصادی اور سیاسی طور پر منسلک کر لیا ہے۔ یوں اس کی مغربی سرحد محفوظ ہے۔ روس کے ساتھ بھی جرمنی کے گہرے تجارتی مراسم قائم ہیں۔ سابق چانسلر شروڈر(Schroeder) روس کی تیل و گیس کی سب سے بڑی کمپنی، جو کہ روس سے جرمنی تک گیس پائپ لائن تعمیر کر رہی ہے، کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تاہم جونہی جرمنی کو اپنے قریب خطرہ محسوس ہوا، اس کے تیور بدلنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے۔ چنانچہ یورپی ممالک کی قومی یادداشت میں جرمنی سے موجود خوف نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ کئی مرتبہ اس کا کھل کر اظہار کیا جا چکا ہے۔
پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ جرمنی کا جغرافیہ ایسا ہے کہ یہ یورپ میں طاقتور ترین ملک بن کر رہتا ہے۔ مگر توازن کا فقدان بھی ایک مسئلہ ہے اور یورپی یونین میں یہ توازن بگڑ رہا ہے۔ برطانیہ کے نکل جانے کے بعد سے بقیہ یونین میں جرمنی کا رسوخ مزید بڑھ گیا ہے۔ یہ عدم توازن ایک حد تک ہی جاری رہ سکتا ہے۔ چنانچہ راقم کے نزدیک یورپی یونین کو دونوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہے: یا تو جرمنی کی بالا دستی قبول کر کے یونائٹد سٹیٹس آف یورپ قائم کرلیں، جو کہ خلاف فطرت بات ہے اور کسی دوسری قوم کو قبول نہیں ہو گی، یا اس اتحاد کو ٹوٹنے دیا جائےجو زیادہ قرین قیاس ہے۔
برطانیہ
برطانیہ یورپ کے کنارے پر واقع ایک جزیرہ ہے۔ کھلے سمندروں تک رسائی، جنگلات کی موجودگی کی وجہ سے بحری تجارت و بحری جنگوں کا تجربہ رکھنے والی آبادی موجود رہی ہے۔ یورپ میں ہونے والے معاملات کا برطانیہ پر اس وقت تک براہ راست اثر نہیں پڑتا جب تک کوئی ایک طاقت یورپ پر حاوی نہ ہو جائے۔ گذشتہ صدیوں میں جب بھی سپین، فرانس یا جرمنی یورپ پر حاوی ہوئے، انجام کار برطانیہ پر بھی حملہ آور ہوئے۔ اسی لیے برطانیہ کی پالیسی یہ ہے کہ یورپ سے الگ تھلگ رہے مگر یورپی ممالک میں توازن برقرار رکھے اور کسی ایک ملک کو یورپ پر حاوی نہ ہونے دے۔ جب بھی اس کا خطرہ پیدا ہو، برطانیہ یورپی جنگوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔
اس سے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سویز اور جبرالٹر کے ذریعہ برطانیہ نصف یورپ کی بحری طاقت کو جب چاہے بحر متوسط میں محدود کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بقیہ نصف یورپ کی طاقت کو محدود کرنے کی صلاحیت بھی برطانیہ کے پاس ہے۔ اس کی وجہ شمالی بحر اوقیانوس میں موجود GIUKرخنہ ہے۔ یہ برطانیہ کے شمال میں واقع سمندری گزرگاہ ہے جس سے گزرے بغیر روس اور جرمنی سمیت کسی بھی شمالی یورپی ملک کے بحری جہاز کھلے سمندروں تک نہیں جا سکتے ہیں۔ برطانیہ بہت کم خرچ پر آسانی سے اس کی نگرانی کر سکتا اور بوقت ضرورت جہازوں کو روک سکتا ہے۔
بریگزٹ (Brexit)اور سکاٹ لینڈ کا مسئلہ
یورپی یونین سے علیحدگی یعنی بریگزٹ درحقیقت برطانوی قومی مفادات کا ایک اظہار ہے جو روز اوّل سے نوشتہ دیوار تھا۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ بریگزٹ کیوں ہوا، حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کا ممبر بنا کیوں تھا۔ بریگزٹ کی وجہ یورپ سے الگ رہنے کی پالیسی ہے۔ برطانیہ بخوبی جانتا ہے کہ جلد یا بدیر یورپ پر جرمنی کی بالا دستی ضرور قائم ہوگی۔ فرانس کے مقابل پر مگر برطانیہ ایک حد تک یورپ سے الگ رہنے کی گنجائش کا متحمل ہے۔ چنانچہ آئندہ سالوں میں برطانیہ کی پالیسیاں مشرقی یورپ کی طرفدار ہوں گی۔ اس کا امریکہ کی طرف جھکاؤ مزید بڑھے گا۔ جرمنی کے مقابل پر توازن قائم کرنے کے لیے دیگر یورپی ممالک کے ساتھ معاہدے کرے گا۔
لیکن قریباً ایک صدی سے جاری سلطنت متحدہ برطانیہ کے ٹوٹنے کا عمل ابھی رکا نہیں۔ اندرونی طور پر برطانیہ عملاً انگلستان ہے۔ اور انگلستان، راقم الحروف کے خیال میں، برطانوی قومی اتحاد کا سنہری موقع گذشتہ صدی میں ضائع کر چکا ہے۔ سکاٹ لینڈ میں آزادی کی تحریک اس کا ایک واضح اظہار ہے۔ انگلستان ہر ممکن کوشش کرے گا کہ سکاٹ لینڈ الگ نہ ہو تاکہ برطانیہ کو شمالی یورپ پر حاصل تزویراتی برتری قائم رہے۔ لیکن قوی امکان ہے کہ سکاٹ لینڈ خود مختار ہو جائے گا۔ یہ گویا نوشتہ دیوارہے۔
چین
اس وقت بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ صدی چین کی صدی ہے۔ بعض لوگ سمجھ رہے ہیں کہ چین امریکہ کے مقابل پر بڑی طاقت بن کا ابھرے گا۔ بعض کا خیال ہے کہ چین شاید امریکہ کو اپنی ایک ارب آبادی کے بل بوتے پر پیچھے چھوڑ دے گا۔ تاہم بظاہریہ ممکن نہیں۔ کیونکہ چین کے دو بڑے جغرافیائی مسائل ہیں جو اس کی تقدیر کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
اوّل یہ کہ چین کی آب و ہوا اس کی آبادی کو مشرق میں رہنے پر مجبور کرتی ہے جہاں زراعت ممکن ہے۔ اسی لیے چین کی ۹۴؍فیصد آبادی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے جو کہ نقشہ میں سرخ رنگ میں دکھائے گئے ہیں۔ جبکہ مغرب میں نصف سے زائد رقبے پر محض ۶؍فیصد آبادی ہے۔ چین کے جنوب میں کوہ ہمالیہ اس کے اثر کو جنوب کی طرف پیش قدمی سے روکتا ہے تو شمال میں سائبیریا کے برفانی علاقے اسے روس سے الگ کرتے ہیں۔ دوسرا چین سمندر کی طرف بھی پیش قدمی نہیں کر سکتا۔ جاپان سے تائیوان تک چین کے سامنے مسلسل جزائر کی ایک لڑی موجود ہے جو جاپان کے زیر انتظام ہے۔ پھر تائیوان سے فلپائن تک اسی طرح جزائر موجود ہیں۔ چنانچہ جاپان اور تائیوان اور فلپائن مل کر، بالفاظ دیگر امریکہ، جب چاہے چین کی راہیں مسدود کر سکتا ہے۔ اگر کسی حیلہ سے چین اس حصار کو توڑ بھی لے تو آگے بحر الکاہل میں موجود جزائر کی دوسری لڑی ہے جو امریکہ کے براہ راست قبضہ میں ہے۔ چنانچہ چین کے عالمی بحری طاقت بننے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بحری طاقت بننے کے لیے جو تجربہ درکار ہے وہ بھی چین کے پاس نہیں۔ امریکہ کے مقابل پر چین دو مزید علاقائی طاقتوں، یعنی جاپان اور ہندوستان، کے درمیان گھرا ہوا بھی ہے۔ چنانچہ امکان ہے کہ آئندہ تیس سال میں چین اسی طرح ایک علاقائی طاقت تک محدود ہو چکا ہو گا جس طرح اس سے پہلے جاپان ۱۹۷۰ءاور۱۹۸۰ءکی دہائی میں ایک عظیم معاشی طاقت کے طور پر اٹھا تھا مگر اب اپنی اصل کی طرف واپس لوٹ چکا ہے۔
امریکہ
امریکہ جو اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور کہلاتا ہے تو اس کی کیا بنیاد ہے؟ محض بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل تک رسائی کافی نہیں۔ وہ تو میکسیکو کو بھی حاصل ہے پھرامریکہ ہی کیوں سپر پاور بنا؟سمندروں تک رسائی عالمی طاقت ہونے کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اندرونی طور پر امریکہ میں جہاز رانی کے قابل دریاؤں کی لمبائی باقی ساری دنیا کے دریاؤں کی مجموعی لمبائی سے بھی زیادہ ہے۔ پس امریکہ میں زرعی یا صنعتی مال کی نقل و حرکت کا ایک وسیع قدرتی نظام موجود ہے۔ اندرونی تجارت اور مختلف شہروں کا آپس میں رابطہ نہایت آسان اور تجارت کو فروغ دینے والا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ امریکہ کا وسطی علاقہ زرعی زمین کا دنیا میں سب سے بڑا اور زرخیز ترین ٹکڑا ہے جوکثیر زرعی پیداوار دے سکتا ہے۔ دریائے مسیسیپی (Mississippi River) کا یہ علاقہ ۱۴۰؍ارب ایکڑ زرعی زمین پر مشتمل ہے۔ اس کے مقابل پر مثلاً ہندوستان کے دریائے گنگا کا زرعی علاقہ، جو کہ ہمالیہ اور دہلی سے برما تک ممتد ہے، محض پینتالیس ارب ایکڑ ہے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ دریائے مسیسیپی (Mississippi River) کا دریائی نظام ایک مسلسل اور مربوط نظام ہے جس میں سب دریا ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ چنانچہ پیداوار کو دریا تک پہنچانا اور پھر بحری جہاز کے ذریعہ منڈی میں بھیجنا نہایت آسان ہے۔ نیز ایک دوسرے سے جڑے ہونے کی وجہ سے ایک ہی معاشی نظام ہے اور اس میں اتحاد پایا جاتا ہے۔
مشرق و مغرب میں ہزاروں کلومیٹر پر پھیلے بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل امریکہ کو یورپ و ایشیا سے کسی بھی حملے سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ جنوب میں میکسیکو(Mexico) کی سرحد پر صحراہے اور شمال میں کینیڈا سے جھیلوں، جنگلوں اور برفانی میدانوں کا ایک وسیع سلسلہ محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ کو حقیقی خطرہ اس وقت لاحق ہو سکتا ہےجب اس کی جنوبی اور مغربی ریاستوں مثلاً Taxas اور California کی Mexican نژاد آبادی سر اٹھائے اور آزادی کا مطالبہ کرے۔ یہ فی الحال دور کی بات ہے۔
قرآن کریم کی قوموں کی تقدیر کے متعلق تعلیم
کیا یہ سب کچھ اسی طرح ہونا ضروری ہے؟ کیا واقعی قوموں کی کوئی معین تقدیر ہے؟ کیا یہ تقدیر بدلی جا سکتی ہے؟ قرآن کریم اس بارے میں کیا رہ نمائی فرماتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس ضمن میں مختلف رہ نما اصول بیان فرمائے ہیں۔ یہ اصول ایک طرف اٹل تقدیر کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں تو دوسری طرف مسائل کا حل بھی بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم اصول یہ ہیں :
1…وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ۔ (الاعراف:۳۵)
ہر قوم کا ایک آخری ممکنہ وقت مقرر ہے۔ جس طرح انسان کتنا ہی صحت مند یا نیک کیوں نہ ہو اسے آخر ایک دن مرنا ہے۔ اسی طرح قومیں اپنی آخری حد سے آگے نہیں جا سکتیں خواہ کیسی ہی نیک یا طاقتور کیوں نہ ہوں۔ اگر کوئی قوم ظلم و ستم سے کام لے تو جس طرح انسان بیماری یا حادثہ یا نادانی میں کیے گئے کسی اقدام سے نوجوانی میں بھی فوت ہو سکتا ہے اسی طرح قوم بھی وقت سے پہلے تباہ ہو سکتی ہے۔
2…وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ…۔ (البقرۃ:۲۵۲)
بعض قومیں ظلم اور فساد پھیلاتی ہیں تو بعض دوسری قوموں کے ذریعہ ان کو بدل دیا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب امریکہ کے قدیم مقامی لوگ زندہ انسانوں کا دھڑکتا دل نکال کر دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والے مظالم کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی جگہ یورپی اقوام کو بسا دیا گیا۔ ایسا کرنا اس ظلم کو مٹانے کے لیے ضروری تھا۔
3…وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ (الرعد:۱۸)
جو بھی انسانیت کی خدمت کرے گا، وہ باقی رکھا جائے گا۔ میڈیکل سائنس ہو یا خلائی فتوحات، انٹرنیٹ کی آسانی ہو یا موبائل کی سہولت۔ گاڑی، جہاز، چھاپہ خانہ،فزکس، کیمسٹری، حساب، ہر میدان میں یورپی اقوام نے لازوال اور بے مثل کام کیا ہے۔ کسی اور قوم کو گذشتہ پانچ سو سال میں اس کا ہزارواں حصہ بھی خدمت کی توفیق نہیں ملی۔ چنانچہ جب تک مغربی اقوام انسانیت کو فائدہ پہنچاتی رہیں گی باقی رہیں گی۔ خواہ تیسری جنگ عظیم ہی کیوں نہ ہو جائے۔
4…اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا… (الحجرات:۱۴)
انسانیت ہمیشہ اقوام اور نسلوں میں تقسیم رہے گی۔ جس کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ قوموں کی امنگیں، خوف، تاریخ، رقابت، مقابلہ، بھی باقی رہیں گے۔
5…یّٰۤاَیُّہَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمۡ ۚ لَا یَحۡطِمَنَّکُمۡ سُلَیۡمٰنُ وَ جُنُوۡدُہٗ ۙ وَ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ۔ (النمل:۱۹)
خواہ کوئی قوم کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ غیر شعوری طور پر بھی اس پر ظلم نہیں ہونا چاہیے نہ ہی اس کی امنگوں کا گلا گھونٹنا چاہیے۔ اس وقت سپین، فرانس، برطانیہ وغیرہ میں جو آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں ان کی وجہ یہی ہے کہ چھوٹی اقوام کے حقوق کا خیال نہیں رکھاگیا۔
6…فَقَالُوۡا رَبَّنَا بٰعِدۡ بَیۡنَ اَسۡفَارِنَا وَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ وَ مَزَّقۡنٰہُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ (سبا:۲۰)
شہروں اور قصبوں میں لمبے فاصلے تفریق اور عدم اتحاد کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ قومی اتحاد کے لیے آپس کے روابط اور تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر آبادی ضروری ہے۔
قرآنی حل
قوموں کے ایک دوسرے پر حملے اور ایک دوسرے سے خوف کا حل قرآن نے یوں بیان فرمایا ہے:
لَا تَخَفۡ ۚ خَصۡمٰنِ بَغٰی بَعۡضُنَا عَلٰی بَعۡضٍ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَنَا بِالۡحَقِّ وَ لَا تُشۡطِطۡ وَ اہۡدِنَاۤ اِلٰی سَوَآءِ الصِّرَاطِ (ص:۲۳)
خوف نہ کر۔ (ہم) دو جھگڑنے والے (ہیں ) ہم میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کر رہا ہے۔ پس ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر اور کوئی زیادتی نہ کر اور ہمیں سیدھے رستے کی طرف ہدایت دے۔
پھر فرمایا:
وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا (المائدہ:۹)
اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ نیز فرمایا:
وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ (المائدہ:۳)
نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں ) میں تعاون نہ کرو۔
پھر فرمایا:
وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔ (الحجرات:۱۰)
اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کررہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
یعنی ہر قسم کے جھگڑوں کا فیصلہ انصاف کے مطابق کیا جائے۔ جو فریق ظلم و زیادتی کرے، اس کے خلاف باقی سب مل کر کارروائی کریں مگر صرف اتنی کہ جو اس کو ظلم سے روک دے۔ الٹا اس پر ظلم نہ کیا جائے۔ تمام بین الاقوامی معاہدے باہمی فائدہ پر مبنی ہوں، کوئی معاہدہ کسی تیسرے کے خلاف نہ ہو۔ بالخصوص کوئی معاہدہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے نہ ہو۔
اگر درحقیقت اس قرآنی تعلیم پر عمل ہو اور ایک بین الاقوامی ادارہ اس بات کا ضامن ہو کہ کسی کو کسی پر ظلم کی اجازت نہ دی جائے گی تو پھر نہ پولینڈ کو روس سے ڈرنے کی ضرورت رہے، نہ روس کو جرمنی سے حملے کا خوف۔ مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ قوم تو ایک طرف رہی، انفرادی طور پر بھی جس کو طاقت ملتی ہے وہ چاہتا ہے کہ اپنے مخالف کو کلیتاً نیست و نابود کر دے۔ اگر کسی سے زیادتی ہوئی ہو تو پھر تو ’’نسلوں کو سبق سکھانے‘‘سے نیچے بات کرنا توہین سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں دنیا پر انصاف کیسے قائم ہو؟ ایں خیال است کہ محال است و جنوں !
تبصرے کے لیے:
کتابیات:
G. Friedman, The Next 100 Years, 2010.
T Marshall, Prisoners of Geography, 2016
Z. Brzezinski, The Grand Chessboard, 2016
BW Blouet, Global Geostrategy, 2005
RD Kaplan, The Revenge of Geography, 2012
٭…٭…٭