مسلمان اور حقوق اللہ، حقوق العباد
مَیں خوب جانتاہوں کہ ابھی بہت سی کمزوریاں اس میں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتاہے
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا(الشمس:10-11)
جس کا مطلب یہ ہے کہ نجات پاگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا اور خائب اور خاسر ہو گیاوہ شخص جو اس سے محروم رہا۔ اس لئے اب تم لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ تزکیہ ٔ نفس کس کو کہا جاتاہے۔
تزکیۂ نفس کی حقیقت
سو یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہئے اور جیسے زبان سے خداتعالیٰ کو اس کی ذات اورصفات میں وحدہٗ لاشریک سمجھتاہے ایسے ہی عملی طورپر اس کودکھانا چاہئے اور اس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آناچاہئے اور اپنے بھائیوں سے کسی قسم کا بھی بغض، حسد اورکینہ نہیں رکھناچاہئے اور دوسروں کی غیبت کرنے سے بالکل الگ ہوجاناچاہئے۔ لیکن مَیں دیکھتاہوں کہ یہ معاملہ تو ابھی دُورہے کہ تم لوگ خداتعالیٰ کے ساتھ ایسے ازخود رفتہ اورمحو ہوجائو کہ بس اُسی کے ہو جائو اور جیسے زبان سے اس کا اقرار کرتے ہو عمل سے بھی کر کے دکھائو۔ ابھی توتم لوگ مخلوق کے حقوق کو بھی کما حقہٗ ادا نہیں کرتے۔ بہت سے ا یسے ہیں جو آپس میں فساد اور دشمنی رکھتے ہیں اور اپنے سے کمزور اور غریب شخصوں کو نظرِحقارت سے دیکھتے ہیں اور بد سلوکی سے پیش آتے ہیں اور ایک دوسرے کی غیبتیں کرتے اور اپنے دلوں میں بغض اور کینہ رکھتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ فرماتاہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جائو۔ اور جب تم ایک وجود کی طرح ہوجائو گے اس وقت کہہ سکیں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکیہ کرلیا۔ کیونکہ جب تک تمہارا آپس میں معاملہ صاف نہیں ہوگا اس وقت تک خداتعالیٰ سے بھی معاملہ صاف نہیں ہو سکتا۔ [بدر سے:’’تزکیۂ نفس اسے کہتے ہیں کہ خالق و مخلوق دونو طرف کے حقوق کی رعایت کرنے والا ہو۔‘‘ بدر جلد 7 نمبر 1صفحہ 12]گو ان دونوں قسم کے حقوق میں بڑا حق خداتعالیٰ کا ہے مگر اس کی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنا یہ بطور آئینہ کے ہے۔ جو شخص اپنے بھائیوں سے صاف صاف معاملہ نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتا۔
یاد رکھواپنے بھائیوں کے ساتھ بکلّی صاف ہوجانا یہ آسان کام نہیں بلکہ نہایت مشکل کام ہے۔ منافقانہ طورپر آپس میں ملنا جُلنا اور بات ہے مگر سچی محبت اور ہمدردی سے پیش آنا اور چیزہے۔ یاد رکھو اگر اس جماعت میں سچی ہمدردی نہ ہوگی تو پھریہ تباہ ہو جائے گی اورخدا اس کی جگہ کوئی اور جماعت پیدا کرلے گا۔
[بدر سے: ’’پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جب تک تم ایک وجود کی طرح بھائی بھائی نہ بن جاؤ گے اور آپس میں بمنزلہ اعضاء نہ ہو جاؤ گے تو فلاح نہ پاؤ گے۔ انسان کا جب بھائیوں سے معاملہ صاف نہیں تو خدا سے بھی نہیں۔ بیشک خدا تعالیٰ کا حق بڑا ہے مگر اس بات کو پہچاننے کا آئینہ کہ خدا کا حق ادا کیا جا رہا ہے یہ ہے کہ مخلوق کا حق بھی ادا کر رہا ہے یا نہیں؟ جو شخص اپنے بھائیوں سے معاملہ صاف نہیں رکھ سکتا وہ خدا سے بھی صاف نہیں رکھتا۔ یہ بات سہل نہیں یہ مشکل بات ہے۔ سچی محبت اور چیز ہے اور منافقانہ اور۔ دیکھو مومن کے مومن پر بڑے حقوق ہیں۔ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کو جائے اور جب مرے تو اس کے جنازہ پر جائے۔ ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر جھگڑا نہ کرے بلکہ درگذر سے کام لے۔ خدا کا یہ منشاء نہیں کہ تم ایسے رہو۔ اگر سچی اخوت نہیں تو جماعت تباہ ہو جائے گی۔ ‘‘ (بدر جلد 7 نمبر 1 صفحہ 12 مورخہ 9 جنوری 1908ء)]
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ407-408 ایڈیشن 2003ء)