درودشریف کی اہمیت و برکات
اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہ بڑا احسان ہے کہ اس کی ذات پاک نے ہمیں اپنے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی بنایا اور ہمارے دلوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا شرف بخشا۔ الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا سلسلہ نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے منسلک فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت آج ہم مسلمان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی بدولت دین اسلام دنیا میں پھیلا۔ بحیثیت امتی ہر مسلمان کا یہ دینی اور ایمانی فریضہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کثرت سے درود و سلام بھیجیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو درود و سلام کا تحفہ پیش کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود و سلام کی فضیلت اور اہمیت تو اتنی زیادہ ہے کہ اس مختصر سے مضمون میں اسے بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔ (الاحزاب:57)
یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اپنی رحمتیں نازل فرما رہا ہے۔ اس کے فرشتے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعائیں دے رہے ہیں، اس کے لیے رحمت مانگ رہے ہیں۔
ایک احمدی کا ایک بہت بڑا کام اس طریق پر چلنا بھی ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا
کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس نبی پر درود اور سلام ایک جوش کے ساتھ بھیجو۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر ایک مومن کو حتی المقدور عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جُوں جُوں کسی کا ایمان اور دینی معاملات کا علم اور دعاؤں کا فہم بڑھتا ہے ہرحکم کی حکمت اور فوائد بھی نظر آنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن کچھ علم حاصل کر کے سیکھنا بھی اسلامی تعلیم کا ایک خوبصورت حصہ ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہوگا جو ان میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔
(ترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما جا ء فی فضل الصلوٰۃ علی النبی)
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ مَامِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ اِلَّا رَدَّاللّٰہُ عَلَیَّ رُوْحِیْ اَرُدُّ عَلَیْہِ السَّلَامَ (ابوداؤد کتاب المناس باب زیارۃ القبور)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو شخص بھی مجھ پر سلام بھیجے گا اس کا جواب دینے کے لیے اللہ تعالیٰ میری روح کو واپس لوٹا دےگا تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دے سکوں۔ (یعنی آنحضرتﷺ پر سلام بھیجنے والے کو اس درود کا ایسا اجر اور ثواب ملے گا جیسے خود حضورؐ سلام و درود کا جواب مرحمت فرما رہے ہوں۔ )
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز اس دن کے خطرات سے اور ہولناک مواقع سے تم میں سے سب سے زیادہ محفوظ اور نجات یافتہ وہ شخص ہو گا جو دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔ فرمایا کہ میرے لیے تو اللہ تعالیٰ کا اور اس کے فرشتوں کا درود ہی کافی تھا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ثواب پانے کا ایک موقع بخشا ہے کہ تم درود بھیجو۔
(کنزالعمال جزء اول صفحہ 254 کتاب الاذکار / قسم الاقوال حدیث نمبر 2225 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
دعا کرنے کے صحیح طریق کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت فضالہ بن عبید روایت کرتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور دعا کرتے ہوئے کہا۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے نماز پڑھنے والے تُو نے جلدی کی۔ چاہیے کہ جب تُو نماز پڑھے اور بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور ثنا کرے۔ پھر مجھ پر درود بھیجے۔ پھر جو بھی دعا تو چاہتا ہے مانگے۔ راوی کہتے ہیں پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَیُّھَا الْمُصَلِّی اُدْعُ تُجَبْ۔ کہ اے نماز پڑھنے والے دعا کر، قبول کی جائے گی۔
(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء فی جامع الصلوٰات عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیث نمبر3476)
پس یہ درود جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں اضافہ کرتا ہے وہاں قبولیت دعا اور اپنی بخشش کے لیے بھی ضروری ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی لیے فرمایا ہے کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تم درودنہ بھیجو اس میں سے کوئی حصہ بھی خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لیے اوپر نہیں جاتا۔
(سنن الترمذ ی کتاب الصلوٰۃ ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ علی النبیﷺ حدیث نمبر486)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
‘‘وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرہ گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑگئے اور ا ٓنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دُنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھی جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمّی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اللّٰھم صل و سلم و بارک علیہ و اٰلہ بعدد ھمہ و غمہ و حزنہ لھٰذہ الامۃ و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد۔
(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 10-11)
درود پڑھنے کے لیے کس طرح کوشش ہونی چاہیے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک مرید کو لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
‘‘آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کہ کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں … اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو (ذاتی غرض کوئی نہ ہو)۔ اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔’’
(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 534-535مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر18شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
حضرت مسیح موعودؑ ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:
‘‘وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا…
وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہوگیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمدمصطفیٰﷺ ہیں۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبیؐ پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔’’
(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ 308)
حضرت مسیح موعودؑ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
‘‘درود شریف اس طور پر نہ پڑھا کریں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ ان کو جناب حضرت رسول اللہﷺ سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور ِتام سے اپنے رسول مقبولؐ کے لئے برکاتِ الٰہی مانگتے ہیں۔ بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطۂ محبت آنحضرتﷺ اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہر گز اپنا دل تجویز نہ کرسکے کہ ابتدائے زمانہ سے انتہاء تک کوئی ایسا فرد بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جواس سے ترقی کرے گا۔ اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ جو کچھ محبانِ صادق آنحضرتﷺ کی محبت میں مصائب اور شدائد اٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کرسکتی ہے وہ سب کچھ اٹھانے کے لئے دلی صدق سے حاضر ہو۔ اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوّتِ واہمہ پیش نہ کرسکے کہ جس کے اٹھانے سے دل رک جائے اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کرسکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو…پس جب اس طور پر یہ درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلا شبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے۔
اور حضور تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گر یہ و بکاساتھ شامل ہو اور یہاں تک یہ توجہ رگ اور ریشہ میں تاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہوجائے۔’’
(مکتوبات جلد 1صفحہ13)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام براہین احمدیہ میں اپنے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘جو الہام ہے وہ یہ ہے
صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْن۔
اور درود بھیج محمدؐ اور آل محمدؐ پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم’’
آپؑ فرماتے ہیں کہ
‘‘یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضّلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ سبحان اللہ اُس سرور کائنات کے حضرت احدیّت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قُرب ہے کہ اُس کا مُحب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بن جاتا ہے۔
ہیچ محبوبے نماند ہمچو یار دلبرم
مہر و مہ را نیست قدرے در دیارِ دلبرم
آں کجا رُوئے کہ دارد ہمچو رُویش آب و تاب
واں کُجا باغے کہ مے دارد بہارِ دلبرم’’
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 597-598حاشیہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کےلیے کتنا رویا کرتے تھے اور پریشان رہتے تھے تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا حق ادا کرنا ہوگا۔ اپنی روح کو پاک صاف کرنا ہو گا اور اپنی زندگیوں کو اس درود پاک کے تابع کرنا ہو گا تاکہ اس دنیا سے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں چلے جائیں ۔ اس شخص نے اپنی زندگی سنوار لی جس نے اپنی زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درود کے تابع کر لی تو اس کی تو دنیا بھی سنور گئی اور اس کی آخرت بھی سنور گئی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے آمین ثم آمین۔
درود شریف کی اہمیت کے پیش نظر حضرت مسیح موعودؑ نے اس کا ذکر اپنی دس شرائط بیعت میں بھی کیا ہے چنانچہ تیسری شرط کے الفاظ یہ ہیں۔
“یہ کہ بلا ناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریمﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا۔’’
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کی روایت ہےکہ جب میں نے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو حضورؑ نے مجھے درود شریف اور استغفار کثرت سے پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔
اسی طرح اور دوستوں کو بھی حضورؑ درود شریف اور استغفار کی تاکید فرماتے ایک دوست نے کوئی وظیفہ پوچھا تو فرمایا۔ ہمارے ہاں تو کوئی ایسا وظیفہ نہیں ہے ہاں استغفار بہت کیا کریں اور حضرت نبی کریمﷺ کے احسانات کو یاد کرکے آپ پر کثرت سے درود بھیجا کریں بس یہی وظیفہ ہے۔
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ نے بھی آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ کوئی وظیفہ بتائیں تو آپؑ نے فرمایا کہ آپ درود شریف پڑھاکریں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے کیا خوب فرمایا:
اس نور پر فداہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیاہوں بس فیصلہ یہی ہے
مصطفٰیٰ پر تیرا بےحد ہو سلام اور رحمت
اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتےہیں کہ ایک مرتبہ خواب میں بتایا گیا کہ جس شخص کے سر میں درد ہو اس کے لیے یوں عمل کیا جائے کہ اس کی پیشانی پر لاکا حرف لکھتے جائیں اور درود شریف پڑھتے جائیں تو انشاء اللہ درد دور ہو جائے گا۔ آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے اس خواب کا ذکر ایک مرتبہ موضع پٹی مغلاں میں کیا تو وہاں کے ایک احمدی دوست مرزا فضل بیگ صاحب نے اس کا بارہا تجربہ کیا اور لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
(حیات قدسی حصہ دوم صفحہ 45تا47)
درودشریف ایک دعا بھی ہے جس سے اﷲ تعالیٰ کے پیارے رسولﷺ پر رحمت طلب کی جاتی ہے اور سلامتی بھی طلب کی جاتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع، اطاعت اور محبت کے علاوہ، وہ حقوق جو اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی امت پر مشروع کیے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍دسمبر2016ءمیں فرمایا:
‘‘پس دشمن ہمیں جو چاہے کہتا رہے۔ ہم پر جو بھی الزام لگاتے ہیں لگاتے رہیں۔ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے اور ہمیں سب سے بڑھ کر آپ کے خاتم النبیین ہونے کا اِدراک ہے اور یہ سب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دشمن کے ہر حملے اور ہر ظلم کے بعد پہلے سے بڑھ کر اپنے ایمان میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پہلے سے بڑھ کر بھیجنے والے ہوں تا کہ مسلمانوں کو بھی آپ کے اس مقام کا صحیح اِدراک حاصل ہو اور یہ بھٹکے ہوئے مسلمان بھی صحیح رستے پر آ جائیں اور دنیا میں بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلے۔’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍دسمبر2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍جنوری2017ءصفحہ8)
پس آج درود شریف کو کثرت سے پڑھنا ہر احمدی کے لیے ضروری ہے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو بھی ہم پورا کرنے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ کی آواز پر ہم لبیک کہنے والے ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے دعوے پر پورے اترنے والے ہوں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں درود پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس درود کی وجہ سے ہم جہاں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے ہوں وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ہمیشہ ترقی کرتے چلے جانے والے بھی ہوں اور آپ کی شریعت کے پھیلانے کے کام میں اپنی صلاحیّتوں کو صَرف کرنے والے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق دنیا سے فتنہ و فساد کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
بھیج درود اُس محسن پر تُو دن میں سوسو بار
پاک محمد مُصطفیٰ نبیوں کا سردار
٭…٭…٭