احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
محمداعظم عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ(حصہ ہفتم)
عبداللہ غزنوی صاحب کے متعلق
(حصہ سوم۔ آخری)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :
’’عرصہ قریباً پچیس برس کا گذرا ہے کہ مجھے گورداسپور میں ایک رؤیا ہوا کہ میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اسی چارپائی پر بائیں طرف مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم بیٹھے ہیں اتنے میں میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ میں مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتار دوں۔ چنانچہ میں نے ان کی طرف کھسکنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ چارپائی سے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں تین فرشتے آسمان کی طرف سے ظاہر ہو گئے جن میں سے ایک کا نام خیرائتی تھا۔ وہ تینوں بھی زمین پر بیٹھ گئے اور مولوی عبداللہ بھی زمین پر تھے۔ اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔ تب میں نے ان سب سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں تم سب آمین کہو تب میں نے یہ دعا کی
ربِّ أَذْھِبْ عَنِّی الرِّجْسَ وَطَھِّرْنِیْ تَطْھِیْرًا۔
اس دعا پر تینوں فرشتوں اور مولوی عبداللہ نے آمین کہی اس کے بعد وہ تینوں فرشتے اور مولوی عبداللہ آسمان کی طرف اُڑ گئے اور میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ مولوی عبداللہ کی وفات قریب ہے اور میرے لئے آسمان پر ایک خاص فضل کا ارادہ ہے اور پھر میں ہر وقت محسوس کرتا رہا کہ ایک آسمانی کشش میرے اندر کام کر رہی ہے یہاں تک کہ وحی الٰہی کا سلسلہ جاری ہو گیا وہی ایک ہی رات تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے بتمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہو گئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہو سکتی تھی۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبداللہ غزنوی اس نور کی گواہی کے لئے پنجاب کی طرف کھنچا تھا۔ اور اس نے میری نسبت گواہی دی اور اس گواہی کو حافظ محمد یوسف اور ان کے بھائی محمد یعقوب نے بیان بھی کیا مگر پھر دنیا کی محبت ان پر غالب آ گئی اورمیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے کہ مولوی عبداللہ نے میرے خواب میں دعویٰ کی تصدیق کی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اگر یہ قسم جھوٹی ہے تو اے قادر خدا مجھے ان لوگوں کی ہی زندگی میں جو مولوی عبداللہ صاحب کی اولاد یا ان کے مرید یا شاگرد ہیں سخت عذاب سے مار ورنہ مجھے غالب کر اور ان کو شرمندہ یا ہدایت یافتہ۔ مولوی عبداللہ صاحب کے اپنے مونہہ کے یہ لفظ تھے کہ آپ کو آسمانی نشانوں اور دوسرے دلائل کی تلوار دی گئی ہے اور جب میں دنیا پر تھا تو امید رکھتا تھا کہ ایسا انسان خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا جائے گا یہ میری خواب ہے۔ العن من کذب وایّد من صدق۔
جب مولوی صاحب غزنوی ہماری مذکورہ بالا خواب کے مطابق فوت ہو گئے تو جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے تھوڑے دنوں کے بعد میں نے ان کو خواب میں دیکھا کہ میں اپنا ایک خواب ان کے آگے بیان کر رہا ہوں اور وہ ایک بازار میں کھڑے ہیں جو ایک بڑے شہر کا بازار ہے اور پھر میں ان کے ساتھ ایک مسجد میں آ گیا ہوں اور ان کے ساتھ ایک گروہ کثیر ہے اور سب سپاہیانہ شکل پر نہایت جسیم مضبوط وردیاں کسے ہوئے اور مسلح ہیں اور انہیں میں سے ایک مولوی عبداللہ صاحب ہیں کہ جو ایک قوی اور جسیم جوان نظر آتے ہیں۔ وردی کسے ہوئے ہتھیار پہنے ہوئے اور تلوار میان میں لٹک رہی ہے اور میں دل میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ لوگ ایک عظیم الشان حکم کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ باقی سب فرشتے ہیں مگر تیاری ہولناک ہے تب میں نے مولوی عبداللہ صاحب کو اپنا ایک خواب سنایا میں نے انہیں کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک نہایت چمکیلی اور روشن تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کی نوک آسمان میں ہے اور قبضہ میرے پنجہ میں اور اس تلوار میں سے ایک نہایت تیز چمک نکلتی ہے جیسا کہ آفتاب کی چمک ہوتی ہے اور میں اسے کبھی اپنے دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف چلاتا ہوں اور ہر ایک وار سے ہزارہا آدمی کٹ جاتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ تلوار اپنی لمبائی کی وجہ سے دنیا کے کناروں تک کام کرتی ہے اور وہ ایک بجلی کی طرح ہے جو ایک دم میں ہزاروں کوس چلی جاتی ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ہاتھ تو میرا ہی ہے مگر قوت آسمان سے اور میں ہر ایک دفعہ اپنے دائیں اور بائیں طرف اس تلوار کو چلاتا ہوں اور ایک مخلوق ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتی جاتی ہے۔ یہ خواب تھی جو میں نے مولوی عبداللہ کے پاس بیان کی اور جب میں خواب کو بیان کرچکا اور ان سے تعبیر پوچھی تب مولوی عبداللہ نے اس کی تعبیر یہ بتلائی کہ تلوار سے مراد اتمام حجت اور تکمیل تبلیغ ہے اور میرے دلائل قاطعہ کی تلوار ہے اور یہ جو دیکھا کہ وہ تلوار دائیں طرف زمین کے کناروں تک مار کرتی ہے اس سے مراد دلائل روحانیہ ہیں جو از قسم خوارق اورآسمانی نشانوں کے ہوں گے۔ اور یہ جو دیکھا کہ وہ بائیں طرف زمین کے کناروں تک مار کرتی ہے اس سے مراد دلائل عقلیہ وغیرہ ہیں جن سے ہر ایک فرقہ پر اتمام حجت ہو گا۔ پر انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو امیدوار تھا کہ ایسا انسان خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا جائے گا۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کے ایک حصہ کے حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے بھائی محمد یعقوب نے بھی تصدیق کی ہے شائد میں نے اس خواب کو سو سے زیادہ لوگوں کو سنایا ہو گا۔ چنانچہ وہ پیشگوئی آج پوری ہو رہی ہے اور روحانی تلوار نے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو فتح کر لیا ہے اور کرتی جاتی ہے۔ ‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ614.- 618)
’’وہ میرے خیال میں ایک صالح آدمی تھا یعنی مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم غزنوی اور اگر میرے زمانہ کو وہ پاتا تو میں یقین کرتا ہوں کہ وہ مجھے میرے دعوے کے ساتھ قبول کرتا اورردّ نہ کرتا مگروہ مرد صالح میری دعوت سے پہلے ہی وفات پاگیا اور جو کچھ عقیدہ میں غلطی تھی وہ قابل مؤاخذہ نہیں کیونکہ اجتہادی غلطی معاف ہے۔ مؤاخذہ دعوت اور اتمام حجت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ وہ متقی اورراستباز تھا اور تبتل اور انقطاع اس پر غالب تھا اور عباد صالحین میں سے تھا۔ میں نے اُس کی وفات کے بعد ایک دفعہ اُس کو خواب میں دیکھا اور میں نے اُس کو کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کا قبضہ میرے ہاتھ میں اور نوک آسمان میں ہے اور میں یمین و یسار میں اُس تلوار کو چلاتاہوں اور ہر ایک ضرب سے ہزار ہا مخالف مرتے ہیں اِس کی تعبیر کیا ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ یہ اتمام حجت کی تلوار ہے ایسی حجت کہ جو زمین سے آسمان تک پہنچے گی اور کوئی اُس کو روک نہیں سکے گا۔ اور یہ جو دیکھا کہ کبھی دہنی طرف تلوار چلائی جاتی ہے اور کبھی بائیں طرف اِس سے مراد دونوں قسم کے دلائل ہیں جو آپ کو دئے جائیں گے یعنی ایک عقل اور نقل کے دلائل دوسرے خدا تعالیٰ کے تازہ نشانوں کے دلائل۔ سو اِن دونوں طریق سے دنیا پر حجت پوری ہوگی اور مخالف لوگ ان دلائل کے سامنے انجام کار ساکت ہو جائیں گے گویا مر جائیں گے۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 250-251)
’’جب وہ زندہ تھے ایک دفعہ مقام خیردی میں اور دوسری دفعہ مقام امرت سر میں ان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ ملہم ہیں ہمارا ایک مدعا ہے اس کے لئے آپ دعا کرو۔ مگر میں آپ کو نہیں بتلاؤں گا کہ کیا مدعا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درپوشیدہ داشتن برکت است ومن انشاء اللہ دعا خواہم کر دو الہام امر اختیاری نیست۔ اور میرا مدعا یہ تھا کہ دین محمدی علیہ الصلوٰة والسلام روز بروز تنزل میں ہے خدا اس کا مددگار ہو۔ بعد اس کے میں قادیان میں چلا آیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد بذریعہ ڈاک ان کا خط مجھے ملا جس میں یہ لکھا تھا کہ ’’ایں عاجز برائے شما دعا کردہ بود القاشد
وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔
فقیر راکم اتفاق مے افتد کہ بدیں جلدی القا شود ایں از اخلاص شما مے بینم۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 251)
(باقی آئندہ)