چند خوبصورت یادیں
قانون قدرت کے مطابق زندگی اور موت کا سلسلہ ازل سے جاری و ساری ہے کروڑہا انسان اس دُنیا میں آئے اور وقت مقررہ پراپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے لیکن بعض وجود ایسے ہوتے ہیں جن سے جُدائی کا تصور ہی روح کو لرزاں دیتا ہے۔ اور دل اس حقیقت کو قبول نہیں کرپاتا۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح مو عود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے :
؎ دُنیا بھی اک سر ا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے
گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جُدا ہے
حضرت سیدہ صا حبزادی نا صرہ بیگم صاحبہ تاریخ احمدیت کی وہ عظیم خاتون تھیں۔جنہیں خُدا ئے ذوالجلال نے پانچ پیاری نسبتیں عطا کیں تھیں۔ اور انہوں نے نہ صرف خلافت کے سائے تلے تمام زندگی بِتانے کی توفیق پائی بلکہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفقتیں اور محبتیں بھی سمیٹیں۔ بلاشبہ آپ کی ذات بابرکت میں اُن تمام خوبیوں کی چھاپ نمایاں تھی۔آپ انتہائی دین دار، متقی،دُعاگو، خو د دار، فرض شناس،غم خوا، غریب پرور، مہمان نواز،سلیقہ شعار ،معا ملہ فہم اور مضبوط قوت ارادی کی مالک ہستی تھیں۔خلافت سے آپ کو بے پناہ محبت اور عقیدت تھی۔
اللہ تعا لیٰ نے آپ کو ایک تقریباً39 سال بطور صدر لجنہ اماء اللہ مقامی ربوہ خدمت کی توفیق عطا فر مائی۔ اور آپ نے لجنہ اماء اللہ ربوہ کی تربیت بہت فعال رہ کر کی آپ کی شاندار قیادت میں لجنہ اماء اللہ ربوہ نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی اور کامیابیوں کامرانیوں کی شا ہراہ پر گامزن ہوئی۔
عا جزہ کو بھی آپ کی بابرکت صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا اور بلاشبہ بہت کچھ حاصل کرنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔آپ کی راہنمائی میں سیکھے ہوئے وہ ذریں اصول آج بھی خدمت دین بجالانے میںنہ صرف خاکسار کے لیے بلکہ اُن ہزاروں خواتین کے لیے کا میابی کی کلید ہیں جنہیں آپ کی شاگردی میں فیض پانے کا شرف حا صل ہوا۔خُدا کرے کہ ان کے ذریعہ آپ کے کام جاری رہیں اور دیے سے دیا جلتا رہے۔آمین۔اس وقت تحدیث نعمت کے طور پر چند یادیں پیش خدمت ہیں ۔
غالباً 1983ء کی بات ہے ۔خاکسا ر کو اُس وقت بطور حلقہ جنرل سیکرٹری دارلصدر شرقی 2اپنی صدر صا حبہ کے ساتھ آپ کے ہاں متعدد عا ملہ میٹنگز میں شرکت کاموقع ملا ۔ مجھے یاد ہے اس زمانے میں فضل عمر ہسپتا ل اور صدر انجمن کے کواٹرز سے ہوکر بلا ڈر وخوف قصر خلافت کے راستے سے ہوتے ہوئے آپ کی اقامت گاہ تک پہنچتے تھے کیونکہ عا ملہ میٹنگ کا ا نعقاد عموماً آپ اپنے گھر پر ہی کروایا کرتی تھیں۔سر سبز شاداب لان سے آگے گزرتے ہوئے بر آمدے میں داخل ہو جاتے تھے جہاں مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے خصوصی تیاری کی جاتی تھی۔ اُس وقت ربوہ کے تمام حلقہ جات سے آئی ہوئیں کثیر تعداد میں صدرات و سیکر ٹریان اس چھوٹی سی جگہ پر یوں سما جاتیں تھیں کہ تنگی کا احساس ہی نہ ہوتا تھا۔ اس دوران تواضح کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اورمہمانوں کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جاتی تھی۔
حضرت آپا جان وقار سے قدم اُٹھاتے ہوئے مجلس میں تشریف لاتیں۔سادگی اور حیا کے رنگوں سے مزین بابرکت اور پرنور وجود کرسی صدارت پر رونق افروز ہوتا۔ اپنی دائیں جانب فرشی نشست پر بلا تفریق و امتیاز عاملہ ممبرات کو بٹھاتیں۔ تلاوت قر آن کریم اور دُعا کے بعد دھیمے لہجے میں صدرات سے انفرادی طور پر شعبہ اصلاح وارشاد کے ضمن میں کارکردگی دریافت کرتیں۔مکمل بشاشت اورتحمل کے ساتھ بات سُنتیں پھر علم و آگہی کے در کھلتے۔ ہدایات دی جاتیں جو اُس وقت ہم نوٹ کرلیا کرتے تھے۔پھر ایک دوسرے کے تجربات سے بہرہ ور ہونے کا مو قع ملتا۔ بالخصوص اصلاح و ارشاد ، تربیت ، خدمت خلق کے شعبہ جات زیر گفتگو ہوتے۔شعبہ صنعت و دستکاری بھی آپ کی خصوصی توجہ کا حامل ہوتا۔ اُس مجلس میںآپ کا پاک نمونہ خاکسار اور دوسری نو جوان لڑ کیوں کے لیے قا بل رشک تھا۔ سا لہاسال گزرنے کے باوجود آج بھی وہ روحانی ماحول ذہن کے نہاں پردوں پر نقش ہے۔میٹنگ کے اختتام پر دوستانہ ماحول میں حال واحوال دریافت کرتیں۔ہر ایک سے ادب و احترام سے ملتیں۔ غرضیکہ اپنی ذات میں سر اپا انجمن تھیں۔
آپ کی سیرت کا نمایاں وصف یہ بھی تھا کہ عہدیداران کی بہت عزت کیا کرتی تھیں اور ہر دم ان کی اصلاح او راہنمائی کے لیے کوشاں رہتیں ۔ ہر حلقہ صدر سے ذاتی تعلق اور رابطہ رکھتی تھیں۔اور دورہ جات کے دورا ن اُن کی کار کردگی کا جا ئزہ لیتی رہتیں۔جبکہ مقامی عا ملہ ممبران کی تربیت کے لیے ہر ماہ دفتر لجنہ اماء اللہ مقامی میں اہم شعبہ جات کی سیکر ٹریان کو بُلوا کر عاملہ سیکرٹریان کی زیر نگرانی رپورٹس فارم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا اورغلطیوں کی نشاندہی کی جا تی۔ اور کارکردگی کی رپورٹس دینے کا طریق کار بتایا جاتا۔تا مجموعی طور پربہترین نتائج حاصل ہوں۔
صاحبزادی صاحبہ کی بطور صدر لجنہ اماء اللہ مقامی ربوہ خواتین اور بچیوں کو پردہ کی پابندی کے سلسلہ میں کاوشیں قابل تحسین ہیں۔آپ کی زیر ہدایت ربوہ میں میٹرک کے بعدنوجوان بچیوں کو صدر حلقہ کے توسط سے برقع پہننے کی یاددہانی کروائی جاتی تھی اور بسا اوقات توبا قاعدہ برقع مہیا بھی کیا جاتا تھا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت سیدہ موصوفہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے تربیتی معاملات پر خصوصی توجہ دیتی تھیں۔
دفتر لجنہ اماء اللہ مقامی میں بھی خاکسار کو اکثر اوقات جانے کا موقع ملتا رہتا تھا۔وہاں پر جُملہ کارکنات سے آپ کا محبت اور شفقت و پیار کا تعلق تھا۔اس بات کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پر موجود کارکنات کی ہر بات کی تان ’’بی بی‘‘ پر آکرٹوٹتی تھی۔اوریہ حضرت سیدہ موصوفہ کے تربیت کے انداز ہی تھے کہ ہر ایک آپ کا گرویدہ نظر آتا تھا۔
خُدا وند کریم اس نا فع الناس وجود پر ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فر مائے۔اور انہیں اپنے اعلیٰ اعلیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
؎ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام ان کو ملے
مغفرت کا سایہ بخشے ان کو رب العا لمین