اطاعت و ادب خلافت از روئے ارشادات حضرت مصلح موعودؓ (قسط اوّل)
اَلطَّاعَۃُ عربی زبان کا لفظ ہے جو طَوْع سے نکلا ہے جس کے معنی محض فرمانبرداری کے نہیں بلکہ ایسی فرمانبرداری کے ہیں جس میں بشاشت قلبی پائی جائے اور اس اطاعت میں اپنی مرضی اور پسندیدگی بھی شامل ہو۔گویا اطاعت کا مطلب یہ ہوا کہ انسان بشاشت قلبی سے اللہ تعالیٰ کے احکام بجالائے اور ان احکامات کو بجالاتے ہوئے اُسے لذت اور سرور محسوس ہو۔ کراہت اور بے رغبتی سے کی گئی فرمانبرداری اطاعت کی روح کے منافی ہے۔دراصل اطاعت ہر نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اطاعت کے بغیر دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا۔کسی بھی قوم یا جماعت کی ترقی اوراُس کی بقا کا راز اطاعت میں مضمر ہے۔جو قومیںاور جماعتیں اس راز کو جان لیتی ہیں اور اسے حرز ِجان بناکر اطاعت کے جذبے سے سرشار ہوجاتی ہیںوہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوکر ترقی کی منازل طے کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ پس اطاعت ِخلافت کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی طرف سے اۤنے والی ہر اۤواز پر لبیک کہا جائے اور اُس کام کی تکمیل کے لیے دل وجان سے بھرپور کوشش کی جائے۔ خلیفہ وقت کےکسی ارشا د کی طرف توجہ نہ دینا ایک احمدی کی شان نہیں ۔ قراۤن کریم اور احادیث رسولؐ میں کثرت سے اطاعت امام کی تاکید وتلقین فرمائی گئی ہے کیونکہ کوئی جماعت اطاعت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی اور نہ اُس کا شیرازہ قائم ر ہ سکتا ہے ۔
اطاعت کے لیے خلافت کی عظمت واہمیت کا جاننا بھی بہت ضروری ہے۔خلافت وہ حبل اللہ ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ سے ملانے کااہم ترین ذریعہ ہے۔خلافت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑاانعام ہے ۔ خلافت جماعتِ مومنین کو ہر تفرقہ اور فساد سے بچاتی ہے اور ان میں اتحادو یکجہتی قائم رکھتی ہے۔اس مقام پر فائز ہونے والا وجود خدا تعالیٰ کے جلال اور اقبال کا پرتَو ہوتا ہے۔خلیفہ چونکہ رسول کا جانشین ہوتا ہے اس لیے وہ ظلّی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہے۔ پس خلافت وہ شجرۂ طیبہ ہے جس کے ساتھ وابستہ رہنے سے ہی ہم سرسبزو شاداب رہ سکتے ہیں اور جو اس سے جدا ہوتا ہے وہ خشک اور بے ثمر شاخ بن کر رہ جاتا ہے جو کاٹ پھینکنے کے لائق ہے ۔ایمان کی ترقی اوراعمال کی قبولیت کے لیے بھی خلافت سے وابستہ رہنا ناگزیر ہے ۔ خلیفہ وقت کواللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت دعا کا نشان دیا جاتا ہے اور اس کے انفاخِ قدسیہ اورانفاسِ روحانیہ سے بہتوں کوروحانی اور جسمانی بیماریوں سے شفا ملتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ خلیفہ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’نبوت کے بعد سب سے بڑا عہدہ یہ (خلافت) ہے ایک شخص نے مجھے کہا کہ ہم کوشش کرتے ہیں تا گورنمنٹ اۤپ کو کوئی خطاب دے میں نے کہا یہ خطاب تو ایک معمولی بات ہے۔ میں شہنشاہ عالم کے عہدہ کو بھی خلافت کے مقابلہ میں ادنیٰ سمجھتا ہوں۔‘‘
(تقاریر جلسہ سالانہ 1926ء،انوارالعلوم جلد9صفحہ 425)
ایک اور موقع پر اۤپ نے خلیفۃ المسیح کا مقام ومرتبہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی حیثیت دنیا کے تمام بادشاہوں اور شہنشاہوں سے زیادہ ہے، وہ دنیا میں خدا اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمائندہ ہے ۔‘‘
(الفضل 27؍اگست 1937ءصفحہ8)
جب خدا اور رسول ؐکے نمائندے کی اقتداکی جائے گی اور خلافت کی کامل اطاعت اور اُس کا ادب ملحوظ رکھاجائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فرشتے مدد کو اۤئیں گے اور جماعت کو ترقیات اور فتوحات نصیب ہوں گی ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
’’قراۤن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اۤپ کو کلی طور پر خدا کی تدبیر کے ماتحت کردیں ۔ مگر وہ مُردہ نہیں ہوتے ۔ ان کے اندر جوش اور اخلاص ہوتا ہے ۔ وہ قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ مگر قربانی کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اذن ہو اور جس رنگ میں ہو ، وہ اُسی وقت اور اسی رنگ میں قربانی کرتے ہیں ۔اور ایسے لوگوں کی فوقیت اور عظمت کی بڑی علامت فرمانبرداری اور اطاعت کا ایسا نمونہ ہی ہوتا ہے ۔ جو دوسری قوموں میں نظر نہیں اۤتا۔ جو چیز دوسروں کی نگاہ میں ذلت ہو ، وہ اُن کی نگاہ میں عزت ہوتی ہے ۔ اور جو دوسروں کی عزت نظر اۤئے وہ اسے ذلت سمجھتے ہیں ۔ لوگ عزت اس میں سمجھتے ہیں کہ اپنے نفس کا غصہ نکال لیں اور مومن اس میں کہ خدا تعالیٰ کا حکم پورا ہو ۔نفس کا غصہ بے شک نہ نکلے۔ جب کوئی شخص ایسا ہوجائے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ اۤسمان سے فرشتے نازل کرتا ہے جو اس کی مدد کرتے ہیں اور یہی کامیابی کا ذریعہ ہے ۔
تم سوچو تو سہی کیا ہماری اتنی طاقت ہے کہ ساری دنیا کو فتح کرسکیں ۔ ہمیں تو جو کامیابی ہوگی فرشتوں کے ذریعہ ہوگی۔اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب مومن اپنے نفسوں پر قابو رکھیں۔اور دل میں اس کے لیے بالکل تیار رہیں کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اۤواز اۤئے گی اپنے نفسوں کو قربان کردیں گے مگر اپنے ہاتھوں اور زبانوں کو قابُو میں رکھیں اور کوئی بات ایسی نہ کریں جو خلاف شریعت اور خلافِ اۤداب ہو ۔ شریعت وہ ہے جو قراۤن کریم میں بیان ہے ۔ اور اۤداب وہ ہیں جو خلفاء کی زبان سے نکلیں پس ضروری ہے کہ اۤپ لوگ ایک طرف تو شریعت کا احترام قائم کریں۔ اور دوسری طرف خلفاء کا ادب واحترام قائم کریں ۔ اور یہی چیز ہے جو مومنوں کو کامیاب کرتی ہے۔‘‘
(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان 4؍ستمبر 1937ء صفحہ 5تا6)
پس جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نمائندگی میں منتخب کیا ہو اُس کی اقتدامیںاپنے تمام معاملات طے کرنا اور اُس کا تابع فرمان ہوکر اپنی زندگی بسر کرنا کس قدر اعزاز کی بات ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہرفرد شاگرد۔ جو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کئے بغیر نہیں چھوڑنا۔‘‘
(روزنامہ الفضل قادیان 2؍مارچ1946ء)
سورت نور کی اۤیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے جماعت مومنین سے خلافت کا وعدہ فرمایا ہے اس سے اگلی اۤیت میں فرماتاہے :
وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ۔ (النور:57)
اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس اۤیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’جب خلافت کا نظام جاری کیا جائے تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ تم نمازیں قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو۔ گویا خلفاء کے ساتھ دین کی تمکین کرکے وہ اطاعتِ رسول کرنے والے ہی قرار پائیں گے۔ یہ وہی نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ
مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِی فَقَدْ عَصَانِیْ
یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی ۔ اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی ۔ اُس نے میری نافرمانی کی۔
پسوَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَوَاٰتُواالزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ
فرماکر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اُس وقت رسول کی اطاعت اسی رنگ میں ہوگی کہ اشاعت وتمکین دین کے لیے نمازیں قائم کی جائیں ۔ زکوٰتیں دی جائیں اور خلفاء کی پورے طور پر اطاعت کی جائے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی ۔ اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی خلافت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 367)
حضورؓنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اُس طرح کی اطاعت تبھی ممکن ہے جب خلافت ہو کیونکہ اطاعت کا مادہ خلافت اور نظام کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا ۔ حضور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اطاعتِ رسول بھی جس کا اِس اۤیت میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہوسکتی کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرو دیا جائے ۔ یُوں تو صحابہؓ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور اۤج کل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں۔ صحابہ ؓبھی حج کرتے تھے اور اۤج کل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں ۔پھر صحابہؓ اور اۤج کل کے مسلمانوں میں فرق کیا ہے ۔ یہی ہے کہ صحابہؓ میں ایک نظام کا تابع ہونے کی وجہ سے اطاعت کی رُوح حدِ کمال کو پہنچی ہوئی تھی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جب بھی کوئی حکم دیتے صحابہؓ اُسی وقت اُس پر عمل کرنے کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے ۔ لیکن یہ اطاعت کی رُوح اۤج کل کے مسلمانوں میں نہیں ۔ مسلمان نمازیں بھی پڑھیں گے ۔ روزے بھی رکھیں گے ، حج بھی کریں گے مگر ان کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں ہوگا کیونکہ اطاعت کا مادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔ پس جب بھی خلافت ہوگی اطاعتِ رسول بھی ہوگی ۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 369)
خلیفہ وقت کی ہر اۤواز کا جواب دینا ضروری ہے
قراۤن کریم نے مومنوں کی ایک خوبی سَمِعْنَاوَاَطَعْنَا کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے یعنی وہ اولی الامر کی باتوں کونہ صرف سنتے ہیں بلکہ ان پر دل وجان سے عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سورت نو رمیںمومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا (النور:64)
تمہارے درمیان رسول کا (تمہیں) بلانا اس طرح نہ بناؤ جیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔
گویا ِخلافت اور اس اہم منصب کے ادب کا تقاضا ہے کہ خلیفہ وقت کے تمام ارشادت کو نہ صرف غور سے سنا جائے بلکہ ہرفرد جماعت ا پنا دھیان ہروقت خلیفہ وقت کی طرف لگائے رکھے اور اۤپ کی طرف سے اۤنے والی ہر اۤواز پر لبیک کہے اور اۤپ کی زبان مبارک سے نکلنے والے ہر لفظ کو حرزِ جان بنا کر اُس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظریںاُس پر پڑیں ۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اس اۤیت کریمہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں :
’’تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانو ںمیں خدا تعالیٰ کے رسول کی اۤواز اۤئے ۔ تم فوراً اس پر لبیک کہو اور اس کی تعمیل کے لئے دوڑ پڑو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے۔ بلکہ اگر انسان اس وقت نماز پڑھ رہا ہو تب بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نماز توڑ کر خدا تعالیٰ کے رسول کی اۤواز کا جواب دے …یہی حکم اپنے درجہ کے مطابق خلیفۂ رسول اللہ پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور اس کی اۤواز پر جمع ہوجانا بھی ضروری ہوتا ہے اور اُس کی مجلس سے بھی چپکے سے نکل جانا بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 408تا409)
اسلامی عبادات میں نماز کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ دن میں پانچ مرتبہ مقتدی ایک امام کی اقتدا میں قیام اور رکوع وسجود کرتے ہیں۔وہ ایک اۤواز پر اُٹھتے اور ایک اۤواز پر بیٹھتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کو نماز کے ذریعہ امام کی اطاعت کا سبق سکھایا گیا ہے۔پس غور طلب بات یہ ہے کہ جب چند مقتدیوں کے امام کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ دوران نماز وہ اُس کے اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے ہیں ، رکوع اور سجدہ کرتے ہیں، اتنی دیر تشہد میں بیٹھتے ہیں جب تک وہ سلام نہ پھیر دے تو پھر وہ امام جسے خدا تعالیٰ نے خود کھڑا کیا ہو اور اُسے تمام دنیا کا امام بنایا ہو، اُس کی اطاعت کتنی ضروری ہے اور اُس کی نافرمانی کس قدر گناہ کا باعث بن سکتی ہے ۔
اطاعت خلافت واقعات کی روشنی میں
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اۤیت کریمہ
لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا۔(النور:64)
کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند دیگر صحابہ کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اۤواز پر لبیک کہا اور اپنی نماز توڑ کر اۤپ کے حضور حاضر ہوگئے ۔ اۤپؓ فرماتے ہیں :
’’امام کی اۤواز کے مقابلہ میں افراد کی اۤواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی ۔ تمہارا فرض ہے کہ جب بھی تمہارے کانوں میں خدا تعالیٰ کے رسول کی اۤواز اۤئے ۔ تم فوراً اُس پر لبیک کہو اور اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑو کہ اسی میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے ۔ بلکہ اگر انسان اُس وقت نماز پڑھ رہا ہو تب بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نماز توڑ کر خدا تعالیٰ کے رسول کی اۤواز کا جواب دے۔ ہمارے ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے اِس قسم کی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں ۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ ایسا ہی کیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اۤواز دینے پر فوراً نماز توڑ دی اور اۤپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور غالباً میر مہدی حسین صاحب ؓ اور میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ نے بھی ایسا ہی کیا تھا بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہی اۤیت پڑھ کر انہیں جواب دیاتھا ۔ بہرحال نبی کی اۤواز پر فوراً لبیک کہنا ایک ضروری امر ہے بلکہ ایمان کی علامتوں میں سے ایک بڑی بھاری علامت ہے ۔ چونکہ پچھلی اۤیات سے خلافتِ اسلامیہ کے متعلق مضمون بیان کیا جارہا ہے اور تمام احکام نظام اسلام کی مضبوطی کے متعلق دیئے گئے ہیں اس لیے اس اۤیت میں بھی اسی مضمون کو جاری رکھا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ مومنوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے مومنو! اگر کبھی خدا تعالیٰ کا رسول تمہیں بلائے تو اس کے بلانے کو دوسروں کے بلانے جیسا مت سمجھو۔بلکہ فوراً اُس کی اۤواز پر لبیک کہا کرو۔ گویا بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو الگ الگ حیثیتیں ہیں ۔ ایک افسرِ دنیوی ہونے کی اور ایک نبی ہونے کی ۔ دنیوی رئیس ہونے کے لحاظ سے بھی اُس کے احکام کو ماننا ضروری ہے مگر رئیس دینی ہونے کے لحاظ سے تو اُس کی اۤواز پر لبیک کہنا اَور بھی مقدم ہے ۔ یہی حکم اپنے درجہ کے مطابق خلیفۂ رسول اللہ ؐ پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور اُس کی اۤواز پر جمع ہوجانا بھی ضروری ہوتا ہے اور اُس کی مجلس سے بھی چپکے سے نکل جانا بھاری گناہ ہوتا ہے ۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 409)
اس ضمن میں اۤپ ؓ نے جنگ حنین میں پیش اۤنے والا واقعہ بھی بیان فرمایا ہے کہ کس طرح اطاعت رسول ؐکے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی شکست کو فتح میں بدل دیا تھا۔ اۤپؓ فرماتے ہیں :
’’دیکھو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جنگِ حنین کے موقعہ پر جب مکہ کے کافر لشکرِ اسلام میں یہ کہتے ہوئے شامل ہوگئے کہ اۤج ہم اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گے اور پھر بنو ثقیف کے حملہ کی تاب نہ لاکر میدانِ جنگ سے بھاگے تو ایک وقت ایسا اۤیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد صرف بارہ صحابی رہ گئے۔ اسلامی لشکر جو دس ہزار کی تعداد میں تھا اس میں بھاگڑ مچ گئی اور کفار کا لشکر جو تین ہزار تیر اندازوں پر مشتمل تھا اۤپ کے دائیں بائیں پہاڑوں پر چڑھا ہوا اۤپ پر تیر برسا رہا تھا۔ مگر اُس وقت بھی اۤپ پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے تھے بلکہ اۤگے جانا چاہتے تھے۔حضرت ابوبکر ؓنے گھبرا کر اۤپ کی سوار ی کی لگام پکڑ لی اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میری جان اۤپ پر قربان ہو۔ یہ اۤگے بڑھنے کا وقت نہیں۔ ابھی لشکرِ اسلام جمع ہوجائے گا تو پھر ہم اۤگے بڑھیں گے۔مگر اۤپ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ میری سواری کی باگ چھوڑ دو اور پھر ایڑی لگاتے ہوئے اۤگے بڑھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ ؎
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
یعنی میں موعود نبی ہوں جس کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے جھوٹا نہیں ہوں۔ اِس لیے تم تین ہزار تیر انداز ہو یا تیس ہزار مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں ۔ اور اے مشرکو ! میری اس دلیری کو دیکھ کر کہیں مجھے خدا نہ سمجھ لینا ۔ مَیں ایک انسان ہوں اور تمہارے سردار عبدالمطلب کا بیٹا(یعنی پوتا) ہوں۔ اۤپ کے چچا حضرت عباسؓ کی اۤواز بہت اونچی تھی ۔اۤپ نے اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا: عباسؓ! اۤگے بڑھو اور اۤواز دو اور بلند اۤواز سے پکارو کہ اے سورہ ٔبقرہ کے صحابیو! (یعنی جنہوں نے سورۂ بقرہ یاد کی ہوئی ہے ) اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ مکہ کے تازہ نو مسلموں کی بُزدلی کی وجہ سے جب اسلامی لشکر کا اگلا حصہ پیچھے کی طرف بھاگا تو ہماری سواریاں بھی دوڑ پڑیں اور جتنا ہم روکتے تھے اتنا ہی وہ پیچھے کی طرف بھاگتی تھیں۔ یہاں تک کہ عباسؓ کی اۤواز میدان میں گونجنے لگی کہ’’اے سورۂ بقرہ کے صحابیو! اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے ۔‘‘ یہ اۤواز جب میرے کان میں پڑی تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ مَیں زندہ نہیں بلکہ مُردہ ہوں ۔ اور اسرافیل کا صور فضا میں گونج رہا ۔ مَیں نے اپنے اونٹ کی لگام زور سے کھینچی اور اُس کا سر پیٹھ سے لگ گیا۔ لیکن وہ اتنا بِدکا ہوا تھا کہ جونہی مَیں نے لگام ڈھیلی کی وہ پھر پیچھے کی طرف دوڑا۔ اِس پر مَیں نے اور میرے بہت سے ساتھیوں نے تلواریں نکال لیں اور کئی تو اونٹوں پر سے کود گئے اور کئی نے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیںاور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑنا شروع کردیا۔ اور چند لمحوں میں ہی وہ دس ہزار صحابہؓ کا لشکر جو بے اختیار مکہ کی طرف بھاگا جارہا تھا اۤپ کے گرد جمع ہوگیا اور تھوڑی دیر میں پہاڑیوں پر چڑھ کر اُس نے دشمن کا تہس نہس کردیا۔ اور یہ خطرناک شکست ایک عظیم الشان فتح کی صورت میں بدل گئی ۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 409تا410)
جنگ اُحد میں رسول کریم ؐنے ایک پہاڑی درّے کی حفاظت پر ایک دستہ مقرر کرکے اُنہیں فرمایا کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم نے اس درّہ کو نہیں چھوڑنا مگر جب انہوں نے دیکھا کہ فتح ہوگئی ہے انہوں نے وہ پہاڑی درّہ چھوڑ دیا۔ دشمن نے پہاڑی درّے کو خالی دیکھا تو واپس پلٹ کر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا یہاں تک کہ رسول کریم ؐکو بھی زخم اۤئے اور اۤپ کے کچھ دندان مبارک بھی شہید ہوگئے تو گویا رسول کریمؐ کے ایک حکم کی خلاف ورزی سے مسلمانوں کو کس قدر نقصان اُٹھانا پڑا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اسلامی لشکر کو کفار پر فتح حاصل کرنے کے بعد ایک عارضی شکست کا چرکہ اس لیے لگا کہ اُن میں سے چند اۤدمیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور اۤپ کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اپنے اجتہاد سے کام لینا شروع کردیا۔ اگر وہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسی طرح چلتے جس طرح نبض حرکتِ قلب کے پیچھے چلتی ہے ۔اگر وہ سمجھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کے نتیجہ میں اگر ساری دنیا کو بھی اپنی جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں تو وہ ایک بے حقیقت شے ہیں ۔ اگر وہ ذاتی اجتہاد سے کام لے کر اس پہاڑی درّہ کو نہ چھوڑتے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس ہدایت کے ساتھ کھڑا کیا تھا کہ خواہ ہم فتح حاصل کریں یا مارے جائیں تم نے اس مقام سے نہیں ہلنا تو نہ دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کا موقع ملتا۔اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اۤپؐ کے صحابہ ؓکو کوئی نقصان پہنچتا۔ اللہ تعالیٰ اس اۤیت میں مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی پوری اطاعت نہیں بجالاتے اور ذاتی اجتہادات کو اۤپ کے احکام پر مقدم سمجھتے ہیں۔انہیں ڈرنا چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں کہیں ان پر کوئی اۤفت نہ اۤجائے یا وہ کسی شدید عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔گویا بتایا کہ اگر تم کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھو اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جاؤ۔جب تک یہ روح زندہ رہے گی مسلمان بھی زندہ رہیں گے اور جس دن یہ رُوح مٹ جائے گی اُس دن اسلام تو پھر بھی زندہ رہے گا مگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ اُن لوگوں کا گلا گھونٹ کر رکھ دے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انحراف کرنے والے ہوں گے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ411تا412)
(جاری ہے)
٭…٭…٭