حقیقی پاکی تب حاصل ہوتی ہے جب انسان گندی زندگی سےتوبہ کر کے ایک پاک زندگی کا خواہاں ہو
اِس جگہ مجھے بہت درد دل سے یہ کہنے کی بھی ضرورت پڑی ہے کہ یوں تو اکثر حضرات آریہ صاحبان اور مسیحی صاحبوں کو اسلام کے سچے اور کامل اصولوں پر بے جا حملہ کرنے کی بہت عادت ہے۔ مگر وہ اپنے مذہب میں روحانیت پیدا کرنے سے بہت غافل ہیں ۔مذہب اس بات کا نام نہیں ہے کہ انسان دنیا کے تمام اکابر اور نبیوں اور رسولوں کو بدگوئی سے یاد کرے۔ ایسا کرنا تو مذہب کی اصل غرض سے مخالف ہے بلکہ مذہب سے غرض یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ہر ایک بدی سے پاک کر کے اِس لائق بنا وے کہ اس کی رُوح ہر وقت خداتعالیٰ کے آستانہ پر گِری رہے اور یقین اور محبت اور معرفت اور صدق اور وفا سے بھر جائے اور اس میں ایک خالص تبدیلی پیدا ہو جائے تا اِ سی دنیا میں بہشتی زندگی اُس کو حاصل ہو۔ لیکن ایسے عقیدوں سے حقیقی نیکی کب اور کس طر ح حاصل ہو سکتی ہے جس میں انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ صرف خونِ مسیح پر ایمان لاؤ اور پھر اپنے دلوں میں سمجھ لو کہ گناہوں سے پاک ہو گئے۔ یہ کس قسم کا پاک ہونا ہے جس میں تزکیہ نفس کی کچھ بھی ضرورت نہیں۔ بلکہ حقیقی پاکی تب حاصل ہوتی ہے جب انسان گندی زندگی سے توبہ کر کے ایک پاک زندگی کا خواہاں ہو۔ اور اس کے حصول کے لئے صرف تین باتیں ضروری ہیں۔ ایک۔۱ تدبیر اور مجاہدہ کہ جہاں تک ممکن ہو گندی زندگی سے باہر آنے کے لئے کوشش کرے۔ اور دوسری۔۲ دعا کہ ہر وقت جنابِ الٰہی میں نالاں رہے۔ تا وہ گندی زندگی سے اپنے ہاتھ سے اس کو باہر نکالے اور ایک ایسی آگ اس میں پیدا کرے جو بدی کے خس و خاشاک کو بھسم کر دے اور ایک ایسی قوت عنایت کرے جو نفسانی جذبات پر غالب آ جاوے۔ اور چاہئے کہ اسی طرح دُعا میں لگا رہے جب تک کہ وہ وقت آ جاوے کہ ایک الٰہی نور اس کے دل پر نازل ہو۔ اور ایک ایسا چمکتا ہوا شعاع اُس کے نفس پر گِرے کہ تمام تاریکیوں کو دور کر دے اور اس کی کمزوریاں دور فرمائے اور اس میں پاک تبدیلی پیداکرے۔کیونکہ دعاؤں میں بلاشبہ تاثیر ہے۔ اگرُ مردے زندہ ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے۔ اور اگر اسیر رہائی پا سکتے ہیں تو دعاؤں سے۔ اور اگر گندے پاک ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے۔ مگر دعا کرنا اور مرنا قریب قریب ہے۔ تیسرا۳۔ طریق صحبت کا ملین اور صالحین ہے۔ کیونکہ ایک چراغ کے ذریعہ سے دوسرا چراغ روشن ہو سکتا ہے۔ غرض یہ تین طریق ہی گناہوں سے نجات پانے کے ہیں۔ جن کے اجتماع سے آخر کار فضل شاملِ حال ہو جاتا ہے۔ نہ یہ کہ خونِ مسیح کا عقیدہ قبول کر کے آپ ہی اپنے دل میں سمجھ لیں کہ ہم گناہوں سے نجات پا گئے۔یہ تو اپنے تئیں آپ دھوکا دینا ہے۔ انسان ایک بڑے مطلب کے لئےپیدا کیا گیا ہے اور اس کا کمال صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ گناہوں کو چھوڑ دے۔ بہت سے جانور کچھ بھی گناہ نہیں کرتے تو کیا وہ کامل کہلا سکتے ہیں؟ اور کیا ہم کسی سے اس طرح پر کوئی انعام حاصل کر سکتے ہیں کہ ہم نے تیرا کوئی گناہ نہیں کیا۔بلکہ مخلصانہ خدمات سے انعام حاصل ہوتے ہیں اور وہ خدمت خدا کی راہ میں یہ ہے کہ انسان صرف اسی کا ہو جائے اور اس کی محبت سے تمام محبتوں کو توڑ دے اور اس کی رضا کے لئے اپنی رضا چھوڑ دے۔ اس جگہ قرآن شریف نے خوب مثال دی ہے اور وہ یہ کہ کوئی مومن کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ دو شربت نہ پی لے۔ پہلا شربت گناہ کی محبت ٹھنڈی ہونے کا جس کا نام قرآن شریف نے شربت کا فوری رکھا ہے۔ اور دوسرا شربت خدا کی محبت دل میں بھرنے کا جس کا نام قرآن شریف نے شربت زنجبیلی رکھا ہے۔ لیکن افسوس کہ عیسائی صاحبوں اور آریہ صاحبوں نے اس راہ کو اختیار نہ کیا۔ آریہ صاحبان تو اس طرف جُھک گئے ہیں کہ گناہ بہر حالت خواہ توبہ ہو یا نہ ہو قابلِ سزا ہے جس سے بے شمار جونیں بھگتنی پڑیں گی۔ اور عیسائی صاحبان گناہ سے نجات پانے کی وہ راہ بیان فرماتے ہیں جو ابھی مَیں ذکر کر چکا ہوں۔ دونوں فریق اصل مطلب سے دُور پڑ گئے ہیں اور جس دروازہ سے داخل ہونا تھا اس کو چھوڑ کر دُور دُور جنگلوں میں سرگردان ہیں۔
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ233تا 235)
٭…٭…٭