الحق مباحثہ لدھیانہ اوردہلی کا انٹروڈکشن (قسط ہفتم)
(مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ)
حضرت اقدسؑ و مولوی محمد بشیر بھوپالوی بمقام دہلی مباحثہ بذریعہ مراسلت مابین مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی و مولوی محمد بشیر مذکور
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے جماعت احمدیہ کے قیام کا اعلان فرماتے ہوئے اپنے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کا اظہار فرمایاتو معاصر مولویوں کا طبقہ شدید ترین مخالفت ومخاصمت پر اترآیا۔اس پس منظر میں مباحثہ لدھیانہ جولائی 1891ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور ابوسعید مولوی محمد حسین بٹالوی کے مابین ہوا تھاجبکہ مباحثہ دہلی اکتوبر 1891ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مولوی محمد بشیر صاحب سہسوانی ثم بھوپالی کے مابین ہوا تھا۔ اسی طرح ماہ نومبر1891ء میں مولوی محمد احسن امروہوی صاحب اور مولوی محمد بشیر بھوپالی کے مابین اس مباحثے کے متعلق جو مراسلت ہوئی تھی اسےپہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق اور سلطان نصیر حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ نے اپنے رسالہ الحق میں سیالکوٹ سے شائع کیاتھا۔
اس ماہواررسالہ الحق کادراصل پراسپکٹس ہی تصدیق اصول اسلام اور تحقیق ملت قدیمہ حضرت خیر الانام علیہ الصلوٰۃ والسلام تھا، جو اس رسالہ کے سرورق پر نمایاں کرکے لکھا ہواتھا، مذکورہ بالا مباحثہ لدھیانہ کی روئیداد رسالہ کی جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر 1891عیسوی بمطابق ذی الحجہ، محرم، صفر، ربیع الاول 1309 ہجری المقدس کے شماروں کی زینت بنی۔ یہ رسالہ پنجاب پریس سیالکوٹ سے منشی غلام قادرصاحب فصیح کے زیر اہتمام طبع ہوتا تھا۔ رسالہ الحق کی تفصیل اور خریداران کے لیے شرائط بھی شمارہ اول میں درج کی گئی ہیں۔
حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ نے اپنے اس انٹروڈکشن کے شروع میں بطور تمہید بتایا ہےکہ ’’مباحثات و مناظرات نفس الامر میں بہت ہی مفید امور ہیں۔ فطرتِ انسانی کی ترقی جسے طبعاًکورانہ تقلید سے کراہت ہے اور جسے ہر وقت جدید تحقیقات کی دھن لگی رہتی ہے اسی پر موقوف ہے…‘‘
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے ضروری تاریخی امور کے بیان کے بعد لکھاکہ’’الغرض مباحثہ کوئی بدعت اور دراصل فساد انگیز شے نہ تھی۔ مگر مغضوب الغضب۔بہائم سیرت متنازعین کی بے اندامیوں نے اسے بدعت و طغیان سے کہیں پرے کر دیا ہے۔‘‘
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رب جلیل کے القا و اعلام سے کردہ دعاوی کا تعارف کرواکر آپؑ کی مخالفت کرنے والوں کا احوال درج کیااور بتایا کہ کس طرح مولوی محمد حسین بٹالوی اس زمرہ مخالفین کے وکیل مطلق ٹھہرے اور اوّل اوّل ان کی لاہور میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ سے بحث ہونا قرار پائی لیکن مولوی بٹالوی کے طرز عمل اور ہٹ دھرمی سے معاملہ جوں کا توں رہ گیااور علمی و تحقیقی بحث کے شائق مایوس رہ گئے۔ادھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے قائم کردہ سلسلہ کی ترقیات میں روز افزوں اضافہ دیکھ کر ان مخالفین کی سیخ پائی بھی بڑھنے لگی اور حسب عادت تکفیر بازی کے حربے چلانے لگے۔پھراسی بے چینی کے ایام میں بعض زبردست احباب کی ناقابل تردید انگیخت اوران کے بار بار کے شرم دلانے سے پھر مولوی محمد حسین بٹالوی نے کروٹ لی۔ اور آخر کار زور آوردھکوں سے لدھیانہ میں پہنچے۔ یوں اس مباحثہ کی بنا پڑی جو الحق کے ان چاروں نمبروں میں درج ہے۔
اس انٹروڈکشن میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے اپنے مکرم و معزز دوست منشی غلام قادر صاحب فصیح کےگرامی پرچہ پنجاب گزٹ کے ضمیمہ مورخہ 12؍اگست کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اس مذکورہ بالا مباحثہ لدھیانہ کے حالات اوراس پر ریمارکس محفوظ کیے گئے تھے۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے اول لاہور میں ہونے والی بحث میں اور پھر مباحثہ لدھیانہ کے دوران مولوی محمد حسین بٹالوی کی طرف سے قرآن کریم کی آیات و اصولوں کو طریق فیصلہ نہ بنانے اور احادیث متعلق قصص، ایام و اخبار کی طرف بکلی جھکاؤ پر اپنی حیرت کا اظہار کرکے سوچنے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی صداقت پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔نیز مولوی محمد حسین بٹالوی کو تکفیر اور مخاصمت میں بڑھنے پر ان کے وہ پہلے بیانات کی یاددہانی کروائی ہے جس میں انہوں نے مولف براہین احمدیہ کی خدمات اسلامیہ پر ان کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔
مباحثہ لدھیانہ کا انٹروڈکشن کروانے کے بعد لکھا کہ’’ناظرین پر مخفی نہ رہے کہ الحق آئندہ ان شاء اللہ اپنے پراسپکٹس کے موافق مضامین شائع کیا کرے گا۔درحقیقت یہ ایک صورت میں حضرت اقدس مرزا صاحب کی کارروائیوں کو جوسراسر صدق و اصلاح پر مبنی ہیں ہر قسم کی ممکن اور محتمل غلط فہمیوں اور ناجائز نکتہ چینیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بڑی وضاحت سے بیان کیا کرے گا۔
وَمَا تَوْفِيْقِي إِلَّا بِاللّٰهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيْبُ۔‘‘
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کے رسالہ الحق سیالکوٹ میں شائع کردہ اس قیمتی مواد کو 4؍ستمبر 1903ء میں مطبع ضیاء الاسلام پریس قادیان سے حضرت حکیم مولوی فضل دین صاحب ؓنے 400کی تعداد میں شائع کیا تو اس کا عنوان ’’الحق‘‘ قائم رکھا۔
الحق مباحثہ دہلی
حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ نے مباحثہ لدھیانہ کے بعد مباحثہ دہلی پر بھی اپنا ریویو اور انٹروڈکشن تحریر فرمایا تھاجو روحانی خزائن جلد 4 کے صفحہ 129 پر موجود ہے۔ جو رسالہ الحق کی جلد اول کےنمبر 5 سے 10پر مشتمل ہے۔جو بابت ماہ ربیع الآخر، جمادی الاول، جمادی الآخر،رجب، شعبان، رمضان 1309 ہجری مطابق نومبر، دسمبر 1891ء، جنوری، فروری، مارچ ، اپریل 1892ء کے شمارے تھے۔
حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ نے دہلی کے مباحثہ کی روئیدا د کی طبع میں ہونے والی تاخیر کے باعث ظاہر ہونے والی حکمتوں اور معاملات سے انٹروڈکشن شروع کرکے ہندوستان میں دہلی اور اس کے علماء و فضلاء کی ظاہری حالت کا معروف و مروج نقشہ بتایا، اور 28؍ستمبر کو مع اہل خیر دہلی جانے کا احوال بتاتے ہوئے اہل دہلی اور اہل طائف کے سلوک کا مقارنہ پیش کیا اور عوام کالانعام کی ایذا رسانیوں، ان کے تکبر اور نخوت کے مقابل پر باامن، رحیم ، مہذب اور پکی بےطرف دار برطانوی حکومت وقت کے طرز عمل کی تعریف کی اور بتایا کہ منشی غلام قادر فصیح نے ضمیمہ پنجاب گزٹ مورخہ14؍نومبر میں مباحثہ دہلی کی کارروائی کے جزوی اور کلی حالات شائع کردیے تھے۔
مباحثہ دہلی کے وقت شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین دہلوی اوران کے لشکر کی طرف سے بنیادی مکارم اخلاق اور حقوق العباد کے اساسی تقاضوں کی عدم رعایت کا بتاکر مولوی محمد بشیر صاحب کے مزعومہ حیات مسیح کے اعتقاد پر دلائل کی قلعی کھلنے کی تفصیل اور فیصلہ قارئین پر چھوڑدیا۔اور بتایا کہ کس طرح مسئلہ حیات و وفات مسیح کی بحث کی حجت قطعا ًو حکماً تمام ہوگئی۔
اپنے انٹروڈکشن میں مزید آگے بڑھتے ہوئے حضر ت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے اہل دہلی اور اہل پنجاب کو ضد، ہٹ دھرمی ترک کرکے نوشتہ دیوار پڑھنے کی نصیحت کی اور مامورمن اللہ کے مقابل پر کھڑے ہونے کے خطرناک انجام سے ڈراتے ہوئے لکھا کہ’’ میں کانپتے ہوئے دل سے انہیں اتنا کہنے سے رک نہیں سکتا کہ ان کا جامع مسجد دہلی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے برخلاف چھ سات ہزار آدمی کا مجمع کرکے طرح طرح کی ناسازحرکات کا مرتکب ہونا دیکھ کر مجھے یاد آگیا کہ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃا للہ علیہ کا وہ واقعہ جو کمالات عزیزی مطبوعہ دہلی میں لکھا ہے ’’جناب مولانا شاہ عبدالعزیز جو واسطے نماز جمعہ کے جامع مسجد میں تشریف لے جاتے تو عمامہ آنکھوں پر رکھتے۔ ایک شخص فصیح الدین نام جواکثر حضور میں حاضر رہتے تھے انہوں نے عرض کیا کہ حضرت اس کی کیا وجہ ہے جو آپ اس طرح رہتے ہیں۔آپ نے کلاہ اتار کر ان کے سر پر رکھ دی ایک دفعہ ہی بے ہوش ہوگئے جب دیر میں افاقہ ہوا عرض کیا کہ سو سواسو کی شکل آدمی کی تھی اور کوئی ریچھ اور کوئی بندراور کوئی خنزیر کی شکل تھا اوراس وقت مسجد میں پانچ چھ ہزار آدمی تھے۔ حضرت نے فرمایا میں کس کی طرف دیکھوں اس باعث سے تو نہیں دیکھتا‘‘
مباحثہ دہلی کا پس منظر یہ تھا
ان مباحثات کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالامراسلت کےمطالعہ سے جہاں عوام الناس کی حالت کا نقشہ سامنے آتا ہے، وہاں اُس زمانے کے مولویوں کی طرز مناظرہ اور ان کی علوم رسمیہ سے وابستگی اور علم قرآن سے بیگانگی اور بے رغبتی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوجاتا ہے۔
یاد رہے کہ الحق سیالکوٹ میں پہلی دفعہ شائع ہونے والے اس قیمتی مواد کو سال 1905ء کے ماہ جنوری میں ضیاء الاسلام پریس قادیان سے حضرت حافظ حکیم فضل دین صاحبؓ مالک مطبع مذکور نے 400کی تعداد میں مباحثہ دہلی کو دوبارہ کتابی شکل طبع کروایا تو اس کا عنوان ’’الحق ‘‘ قائم رکھاتھا۔مباحثہ دہلی اور مراسلت کا انٹروڈکشن کروانے کے بعد یہاں حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ نے تکفیر بازوں کو حضرت علامہ ابن قیم کے گیارہ اشعار مع اردو ترجمہ کی بھی یاددہانی کروائی ہے۔ اس کا پہلا اور آخری شعر یوں ہے:
ومن العجائب انکم کفرتم
اھل الحدیث و شیعۃ القرآن
بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے اہل حدیث اور اہل قرآن کی تکفیر کی۔
یا قوم فانتبھوا لانفسکم و خل
خلوا الجھل والدعوی بلا برھان
اے لوگو! اپنی جان بچانے کے لیے بیدار ہو جاؤ۔ اوراس جہل اور دعویٰ بلادلیل کو چھوڑ دو۔
اس انٹروڈکشن کے بیرونی سر ورق پر پنجاب پریس کی مفید اور کارآمددرج ذیل کتب کی فہرست مع مختصر تعارف بھی درج کی گئی ہے:تصدیق براہین احمدیہ۔ مسلمانوں کا خدا اور اس کے حضور دعا۔ نماز اورا س کی حقیقت۔ تفسیر فیروزی۔ پنج ارکان اسلام۔ دعوت دہلی۔ اعلام الناس۔ ازالۃ الاوہام۔ ردتناسخ۔ قصیدہ الہامیہ۔ طب روحانی۔
٭…٭…٭