خطبہ عید

خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ21؍جولائی 2021ء

ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے ہر عمل میں تقویٰ کو سامنے رکھیں

’’ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تاکہ
قبولیت دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتیٔ ایمان کا حصہ لے۔‘‘(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)

اللہ تعالیٰ متقی کو کبھی بے سہارا نہیں چھوڑتا۔ اگر اس بات کو ہم سمجھ جائیں تو ہم بھی اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن جائیں گے

تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں

اگرہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے رہے اور جھکے رہےتو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہو گی، ان شاء اللہ

اسیران راہِ مولیٰ، دین کی خاطر تکالیف برداشت کرنے والوں، پاکستانی احمدیوںنیز تمام مظلوموں اور محروموں اور بنی نوع انسان کے لیے خصوصی دعا کی تحریک

خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ21؍جولائی 2021ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے) یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآ ؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ (الحج:38)

ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا۔ اسی طرح اس نے تمہارے لیے انہیں مسخر کر دیا ہے تا کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بنا پر کہ جو اس نے تمہیں ہدایت عطا کی اور احسان کرنے و الوں کو خوش خبری دے دے۔

آج عیدِ قربان ہے جسے ہم عید الاضحی بھی کہتے ہیں۔ اس عید پر مسلمان بڑے ذوق شوق سے قربانیاں کرتے ہیں۔ بکروں، بھیڑوں، گائے، اونٹ کی قربانیاں کی جاتی ہیں۔ ہزاروں لاکھوں جانور اس عید کے موقع پر مسلمان دنیا میں ذبح ہوتے ہیں۔ حج کے موقع پر مکہ میں ہی لاکھوں جانور ذبح ہو جاتے ہیں۔ دو سال سے تو کووِڈ کی وجہ سے حج کی عام اجازت نہیں ہے اور صرف محدود تعداد کو حج کی اجازت ہے۔ اس لیے محدود تعداد میں حج کی وجہ سے قربانیاں بھی محدود ہو رہی ہیں لیکن عام حالات میں لاکھوں جانوروں کی قربانیاں مکہ میں ہوتی ہیں جنہیں سنبھالنا ہی مشکل ہے۔ جو قربانیاں سنبھالی جاتی ہیں کہتے ہیں کہ ان کا گوشت حکومت کی طرف سے غریب ممالک کو بھجوا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض دفعہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے تو یہ گوشت ضائع چلا جاتا ہے، اس کی بھی خبریں آتی رہتی ہیں۔ پھر عمومی طور پر جیسا کہ میں نے کہا مسلمان دنیا میں ہم دیکھتے ہیں لاکھوں بلکہ کروڑوں جانور قربان کیے جاتے ہیں، ذبح کیے جاتے ہیں۔ پھر ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض جگہ تو دکھاوے کے لیے اس طرح کوشش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بڑے جانور اَور مہنگے جانور خریدے جائیں اور پھر اپنے ماحول میں اس قسم کا اظہار ہو کہ ہم نے اتنی بڑی قربانی کی ہے اور پھر اس پر بڑا فخر ہوتا ہے اور پاکستان میں تو اب اس بات پر بھی فخر ہونے لگ گیا ہے کہ ہم نے احمدیوں کو عید قربان پر قربانی نہیں کرنے دی کیونکہ یہ مسلمان نہیں ہیں۔ یعنی ان مذہب کے ٹھیکیداروں کے نزدیک احمدی مسلمان نہیں ہیں اور عید کے تین دنوں میں جانوروں کی قربانی یا اسے ذبح کرنے کا حق صرف مسلمان کو ہے۔ کوئی احمدی کوئی جانور ذبح نہیں کر سکتا اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ حکومت کے افسران اور انصاف قائم کرنے والے ادارے، قانون نافذ کرنے والے ادارے ان مفاد پرست نام نہاد علماء کی باتوں کی وجہ سے احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکتے ہیں۔ بہرحال جہاں بعض شریف افسران ہیں وہ اتنی رعایت کر بھی دیتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ چھپ کر قربانی کر لو ظاہر نہ ہو ورنہ ان علماء کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں اور ایک فتنہ و فساد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ تو ملک کی حالت ہو چکی ہے۔ اسلام کے نام پر نام نہاد ملّاں کا دین نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور حکومت ان کا ساتھ دیتی ہے یا مجبور ہوتی ہے کہ خاموش رہے۔ اس تعلیم کا اسلام کی تعلیم سے کچھ بھی واسطہ نہیں ہے۔ بہرحال جماعت احمدیہ کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مخالفین احمدیت کا یہ طریق ہے۔ جو بھی طریقہ وہ بروئے کار لا سکیں، جو طریقہ بھی اختیار کر سکیں وہ طریق اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کسی طرح احمدیوں کوتنگ کیا جائے۔ اور یہ طریق ان میں اس لیے رائج ہے اور بڑھتا جا رہا ہے اور ہمیشہ سے یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں میں تقویٰ نہیں ہے۔ اسلام کے نام پر خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ظلم کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کی بہت خدمت کر رہے ہیں اور نیکی کے اعلیٰ معیار حاصل کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ تو ایک دن خدا تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا کہ تقویٰ کیا ہے اور تقویٰ پر چلنے والے کون لوگ ہیں، نیکی کے معیار کیا ہیں، خداتعالیٰ کے نزدیک صحیح کون ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک غلط کون ہے۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں اوراسی سے مانگتے ہیں۔ اگر ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے رہے اور جھکے رہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہو گی ،ان شاء اللہ۔

یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ اگر تقویٰ نہیں ہے توصرف تمہارے بڑے اور مہنگے جانوروں کی قربانیاں خدا تعالیٰ قبول نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ کو تمہارے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو ان حاجتوں سے پاک ہے۔ پس ہمیں ان باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں قربانی سے روکا گیا یا مولوی یا حکومتی کارندے ہمارے جانور اٹھا کر لے گئے۔ بعض جگہ تو یہ ذبح کیے ہوئے جانوروں کا گوشت اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اگر کسی کو موقع مل گیا کہ جانور ذبح کر لیا اور ان کو پتہ لگے تو وہ کہتے ہیں یہ تمہارے لیے حرام ہے، جائز نہیں، اور اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ یہ گوشت ان کے ہاں جا کر حلال ہو جاتا ہے چاہے وہ احمدی نے ذبح کیا ہو۔ بہرحال اگر ہم نے تقویٰ پر چلتے ہوئے اس قربانی کا ارادہ کیا اور قربانی کی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ہاں مقبول ہے اور اگر یہ تقویٰ سے خالی قربانی ہے تو پھر بے فائدہ صرف ایک جانور کاذبح کرنا ہی ہے۔

پس ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے ہر عمل میں تقویٰ کو سامنے رکھیں۔ ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اور مہدی معہود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں تقویٰ کی حقیقت سمجھائی۔ ہمیں اس بات پر پریشان یا افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں قربانی کا موقع نہیں ملا۔ اگر ہم زمانے کے امام کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرتے رہیں گے اور تقویٰ پر قائم رہیں گے تو ہماری قربانیوں کے ارادے جو نیک نیتی سے کیے گئے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوں گے، ان شاء اللہ۔ جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ تقویٰ پر قائم رہنے والے ایک شخص کا حج صرف اس کے ارادے کی وجہ سے قبول ہوا اور وہ خرچ اس نے کسی وجہ سےکہیں اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کرلیا اور عملاً حج کرنے والوں کے حج کو اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں فرمایا۔

(ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء صفحہ 165 ممتاز اکیڈیمی اردو بازار لاہور)

پس اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل چیز تقویٰ ہے۔ ظاہری اعمال تقویٰ کے بغیر کچھ چیز نہیں ہیں۔ اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ماننے والوں میں کس قسم کا تقویٰ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم یہ پیدا کر لیں تو ہم خوش قسمت ہیں ورنہ اگر ہماری قربانی ہو بھی جاتی ہے اور وہ تقویٰ کے بغیر ہے اور اس سوچ کے ساتھ نہیں کہ ہم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر قربانی کر رہے ہیں تو پھر یہ قربانی بے فائدہ ہے۔ قرآن کریم میں بےشمار مرتبہ، بےشمار جگہوں پر تقویٰ کا ذکر آیا ہے اور اس تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی مختلف مواقع پر، مختلف زاویوں سے ہمیں تقویٰ کی حقیقت سمجھائی ہے کہ اگر ہم یہ کچھ سمجھ جائیں تو ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ تمہارے گوشت اور تمہارے خون اللہ کو نہیں پہنچتے بلکہ تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں’’خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں۔ چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَاؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ ۔

یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ99 حاشیہ)

پس یہ معیار ہے اور اصل تقویٰ یہ ہے کہ ہر قربانی ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے والی ہو کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مکمل پیروی کرنی ہے۔

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:’’ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔ جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھا دیتے ہیں ۔‘‘ ایک جگہ کھڑا رکھا ہاتھ اور دنوں تک کھڑا رکھا۔ وہاں خون کی سرکولیشن ختم ہو گئی اور سوکھ گیا۔ ’’اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے ہیں اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیںلیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں۔‘‘ کوئی نور ان کو حاصل نہیں ہوتا، کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوتی۔ کوئی روحانیت میں ترقی نہیں ہوتی۔ ’’اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے۔ وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا۔ اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ۔

یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ حقیقت میں خد اتعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے۔‘‘ اصل چیز کیا ہے؟ اس کی روح کیا ہے؟ تمہارے دل کی اندرونی خواہشات کیا ہیں؟ اصل چیز تو یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ ظاہری عبادتیں اور عمل کوئی چیز نہیں۔ آپ نے سوال اٹھایا کہ ’’اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اصل مقصد ہے۔‘‘ ظاہری طور پر اگر جسم کو استعمال نہیں کرو گے تو روح پہ بھی اثر نہیں ہوتا۔ روح اور جسم کا ایک تعلق ہے ’’اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں۔‘‘ صرف جسم سے کام لیتے ہیں۔ روح کا کوئی تعلق نہیں۔’’روح اور جسم کا باہم خد اتعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے …… غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونو برابر چلتے ہیں۔ روح میں جب عاجزی پیدا ہو جاتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ انسان کے دل کے اندر ایک عاجزی کی کیفیت پیدا ہو تو پھر جسم میںبھی اس کا اظہار ہو جاتا ہے ’’اس لئے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد4 صفحہ420-421)ظاہری طور پر کرو گے اور یہ سامنے رکھ کے کروگے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہم نے کرنا ہے تو وہ ظاہر بھی روح پر اثر انداز ہو جاتا ہے۔ اس بات پہ توجہ دلاتے ہوئے کہ جماعت کو خاص طور پر تقویٰ کی ضرورت ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ خواہ کسی قسم کے بغضوں ،کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رُو بہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اگر اس بیماری کے لئے دوا نہ کی جاوے اور علاج کے لئے دکھ نہ اٹھایا جاوے بیمار اچھا نہیں ہو سکتا۔ ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے۔‘‘ کسی کے منہ پر سیاہ چٹاک پڑ جائے تو بڑی فکر پیدا ہو جاتی ہے ’’کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کُل منہ کو کالا نہ کر دے۔ اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے۔‘‘ گناہوں کا دل پر ایک داغ ہوتا ہے اور اگر وہ بڑھنا شروع ہو تو پھر وہ دل کو سیاہ کر دیتا ہے۔ پس اس سیاہ داغ کو دھونے کے لیے ہمیں تقویٰ کی ضرورت ہے۔ استغفار کی ضرورت ہے اور اس طرف بہت توجہ کرنی چاہیے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’صغائر سہل انگاری سے کبائر ہو جاتے ہیں۔‘‘ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر، چھوٹے چھوٹے گناہوں پر، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر توجہ نہیں دوگے تو پھر وہ بڑھتے بڑھتے بڑے گناہ بن جاتے ہیں۔ ’’صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کار کُل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے ویسا ہی قَہَّار اور منتقم بھی ہے۔ ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ ان کا دعویٰ اور لاف وگزاف تو بہت کچھ ہے۔‘‘بہت دعوے کرتے ہیں کہ ہم نے یہ کر دیا، ہم نے وہ کر دیا ہے۔ ہم یہ کر دیں گے ’’اور ان کی عملی حالت ایسی نہیں تو اُس کا غیض و غضب بڑھ جاتا ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ کی رحیمیت اور کریمیت کام نہیں آتی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا غیض و غضب بڑھتا ہے کہ دعویٰ کچھ اور عمل کچھ۔ ’’پھر ایسی جماعت کی سزا دہی کے لئے وہ کفار کو ہی تجویز کرتا ہے۔‘‘ کفار کے ذریعہ سے پھر سزا بھی دلوا دیتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کئی دفعہ مسلمان کافروں سے تہ تیغ کیے گئے۔‘‘جنگیں ہوئیں، مسلمان تباہ ہوئے۔ ’’جیسے چنگیز خاں اور ہلاکوخاں نے مسلمانوں کو تباہ کیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدہ کیا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا کہ میری راہ میں جہاد کرو گے، لڑو گے تو میں تمہاری مدد کروں گا لیکن یہاں تو الٹا ہو رہا ہے۔ مسلمانوں نے تو شکستیں کھائیں اور بڑی ہزیمت اٹھائی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’لیکن پھر بھی مسلمان مغلوب ہوئے۔ اس قسم کے واقعات بسا اوقات پیش آئے۔ اس کا باعث یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ‘‘ زبان ’’لاالہ الا اللہ تو پکارتی ہے لیکن اس کا دل اَور طرف ہے اور اپنے افعال سے وہ بالکل رُو بدنیا ہے تو پھر اس کا قہراپنا رنگ دکھاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ10-11)

پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہم نے جب مسیح موعود ؑکو ماننے کا اعلان کیا ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے تو پھر ہمیں ہر وقت اپنے دل کو ٹٹولنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہر موقع پر ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے دل حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر ہمارے عمل اس کی پیروی کر رہے ہیں۔

پھر اس بات کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ متقی کی علامات کیا ہیں، حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: پس ہمیشہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے۔ یعنی دیکھیں کہ قرآن کریم نے کیا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا بےشمار احکامات دیے ہیں ان کو دیکھو۔ اس معیار کو اپنے سامنے رکھو کہ اس پر کس حد تک ہم عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہاتِ دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کاخود متکفل ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا۔

وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا ۙ﴿۳﴾ وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ (الطلاق:3-4)

جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لیے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لیے ایسی روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم وگمان میں نہ ہوں۔ یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔ مثلاً ایک دکان دار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اس کا کام نہیں چل سکتا۔‘جب تک وہ جھوٹ بول کے، اپنی چیز کی تعریف کر کے غلط رنگ میں اس کو بیچنے کی کوشش نہ کرے کام نہیں چلے گا۔ اس لیے وہ دروغ گوئی سے باز نہیں آتا۔‘‘ چیز بیچنے کے لیے جھوٹ بولتا چلا جاتا ہے۔ اور جھوٹ بولنے کے لیے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں۔ خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اسے ایسے مواقع سے بچا لیتا ہے جو خلاف ِحق پر مجبور کرنے والے ہوں۔ یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو (پھر) خدا تعالیٰ نے (بھی) اسے چھوڑ دیا۔ تم اللہ کو چھوڑو گے اللہ تمہیں چھوڑ دے گا اور جب رحمان چھوڑ دے۔ رحمان خدا نے جب چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔پھر شیطان بڑھ بڑھ کر قریب آئے گا اور دوست بنے گا۔ فرمایا یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے۔ وہ بڑی طاقت والا ہے۔ جب اس پر کسی امر میں بھروساکرو گے تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔

وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ۔

لیکن جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے وہ اہل دین تھے۔ ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لیے تھیں اور دنیوی امور حوالہ بخدا تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ غرض برکات تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مصائب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امور میں حارج ہوں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ12)

پس اللہ تعالیٰ متقی کو کبھی بے سہارا نہیں چھوڑتا۔ اگر اس بات کو ہم سمجھ جائیں تو ہم بھی اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن جائیں گے۔

پھر اس بات کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ’’خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں۔ وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے۔ ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے۔ ہم کو ہر حال میں وہ کرنا چاہیے جس سے ہماری فلاح ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں۔ وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ پہ کوئی اجارہ داری نہیں ہو سکتی وہ تو تقویٰ کو چاہتا ہے جس میں تقویٰ ہو گا اللہ تعالیٰ اس کا ہو جائے گا۔ ’’جو تقویٰ کرے گا وہ مقام اعلیٰ کو پہنچے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت ابراہیم علیہ السلام میں سے کسی نے وراثت میں تو عزت نہیں پائی گو ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد عبداللہ مشرک نہ تھے لیکن اس نے نبوت تو نہیں دی۔ یہ تو فضل الٰہی تھا ان صِدقوں کے باعث جو ان کی فطرت میں تھے‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت میں جو صِدق الٰہی تھا، صدق تھا اس کی وجہ سے فضل ہوا۔ ’’یہی فضل کے محرک تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ابوالانبیاء تھے انھوں نے اپنے صدق وتقویٰ سے ہی بیٹے کو قربان کرنے میں دریغ نہ کیا۔ خود آگ میں ڈالے گئے‘‘ اور قربانی کی۔ ’’ہمارے سیدومولیٰ حضرت محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صِدق ووفا دیکھئے۔ آپؐ نے ہر ایک قسم کی بَد تحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب وتکالیف اٹھائے لیکن پروا نہ کی۔ یہی صدق ووفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔(الاحزاب:57)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسولؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم درود وسلام بھیجو نبیؐ پر۔

اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اَوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ نہ ہو سکے لیکن اللہ تعالیٰ نے خود استعمال نہیں کیے ’’یعنی آپؐ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اعمال صالحہ کی تعریف ایسی کی جو اس کی کوئی حدیں مقرر نہیں تھیں اور نہ اللہ تعالیٰ مقرر کرنا چاہتا تھا۔ ’’…… اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔ آپؐ کی ہمت وصدق وہ تھا کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ کریں تو اس کی نظیر نہیں ملتی۔ خود حضرت مسیحؑ کے وقت کو دیکھ لیا جاوے کہ ان کی ہمت یا روحانی صدق ووفا کا کہاں تک اثر ان کے پیروؤں پر ہوا۔ ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایک بَد روش کو درست کرناکس قدر مشکل ہے۔ عاداتِ راسخہ کا گنوانا کیسا محالات سے ہے۔‘‘ جو عادتیں پکّی ہو جائیں ان کو کسی سے چھڑوانا بڑا مشکل کام ہے ’’لیکن ہمارے مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہزاروں انسانوں کو درست کیا‘‘ ہزاروں لوگوں کی بری عادتیں چھڑوائیں ’’جو حیوانوں سے بد تر تھے ۔‘‘ صرف بُری عادتیں نہیں تھیں بلکہ حیوانوں سے بھی بدترتھے۔ ’’بعض ماؤں اور بہنوں میں حیوانوں کی طرح فرق نہ کرتے تھے۔ یتیموں کا مال کھاتے۔ مُردوں کا مال کھاتے۔ بعض ستارہ پرست، بعض دہریہ، بعض عناصر پرست تھے۔ جزیرہ عرب کیا تھا۔ ایک مجموعہ مذاہب اپنے اندر رکھتا تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ37-38)

مختلف قسم کے مذہب اس میں موجود تھے۔ مختلف قسم کے لوگ موجود تھے لیکن آپؐ نے ان سب میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وہ مقام ہے جس کا ادراک ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے عطا فرمایا۔ پھر بھی یہ نام نہاد علماء کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں لہٰذا احمدیوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسلامی طریق پر عبادات بجا لائیں اور رسومات ادا کریں اور اس سنت پرعمل کریں جس پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا۔ یہ لاکھ کوششیں کر لیں پھر بھی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؐ کا مقام جو ہمارے دلوں میں ہے اسے ہمارے دلوں سے چھین نہیں سکتے۔

اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی شکر گزاری کے لیے تقویٰ شرط ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اس کا پاس بھی رکھتا ہے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے۔ مسلمان پوچھنے پر الحمد للہ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے۔‘‘ اتنی بات کافی نہیں ہو جاتی کہ کہہ دیا الحمد للہ میں مسلمان ہوں۔’’اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں۔‘‘ حقیقی سپاس گزاری کیا ہے حقیقی شکر گزاری کیاہے طہارت اور تقویٰ۔ اگر اس کی راہیں اختیار کر لیں ’’تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ78)

پھر اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ تقویٰ کی راہیں اختیار کرو کیونکہ یہی شریعت کا خلاصہ ہے آپؑ فرماتے ہیں’’چاہئے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغز شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت سے ہیں لیکن اگر طالبِ صادق ہو کر ابتدائی مراتب اورمراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اورطلبِ صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پا لیتا ہے۔‘‘ چھوٹی چھوٹی باتوں میں تقویٰ پر چلو گے تو بڑے مرتبے بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ بڑی نیکیاں کرنے کی بھی توفیق ملے گی۔ کبھی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے اور یہی حقیقی رنگ میں تقویٰ پر چلنے والوںکا کام ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ۔ (المائدۃ:28)

گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا۔‘‘کبھی اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا۔ ’’جیسا کہ فرمایا ہے

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۔(الرعد:32)

پس جس حالت میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لیے ایک غیر مُنفک شرط ہے۔‘‘ ایک ضروری شرط ہے ’’تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے۔ لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تاکہ قبولیت دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے۔‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ108-109)

تقویٰ کی اہمیت اور اپنے آنے کی غرض بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے تقویٰ ہونا چاہئے نہ یہ کہ تلوار اٹھاؤ۔‘‘ تلواروں سے جنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ تقویٰ اپنے اندر پیدا کرو تو فتوحات ہی ملیں گی۔ ’’یہ حرام ہے۔‘‘ یعنی تلوار اٹھانا اب حرام ہے۔ ’’اگر تم تقویٰ کرنے والے ہو گے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہو گی۔ پس تقویٰ پیدا کرو۔ جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جزو اعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں۔ پس اگر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ سب سے بڑی کامیابی جماعت کی یہی ہے کہ تقویٰ کے میدان میں ترقی کرو ’’اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اس وقت کل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض ‘‘جو’’تقویٰ ‘‘ہے’’مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔‘‘ تقویٰ کی طرف تو کوئی توجہ نہیں۔ دنیا کی وجاہتوں کی طرف توجہ زیادہ ہے۔ انہی کو خدا سمجھتے ہیں اور اسی لیے دین سے بھی ہٹ رہے ہیں۔ ’’حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے مگر اب خد اچاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکّل نہیں ہو سکتے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ357-358)

پس اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ کر ہم نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں۔ تقویٰ پر چلنا ہے اور یہی ہماری کامیابی کا راز ہے۔

پھر آپؑ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’جو لوگ نری بیعت کر کے چاہتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں وہ غلطی کرتے ہیں۔ ان کو نفس نے دھوکا دیا ہے۔ دیکھو! طبیب جس وزن تک مریض کو دوا پلانی چاہتا ہے اگر وہ اس حدتک نہ پیوے تو شفا کی امید رکھنی فضول ہے۔ مثلاً وہ چاہتا ہے کہ دس تولہ استعمال کرے اور یہ صرف ایک ہی قطرہ کافی سمجھتا ہے یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ کوئی اثر نہیں ہو گا پھر دوائی کا۔ ’’پس اس حد تک صفائی کرو اور تقویٰ اختیار کرو جو خدا کے غضب سے بچانے والا ہوتا ہے۔‘‘ وہ تقویٰ اختیار کرو، اتنی صفائی کرو جو خدا کے غضب سے بچانے والی ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر رحم کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔ انسان جب متقی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے غیر میں فرقان رکھ دیتا ہے۔‘‘ متقی انسان کے اور غیر متقی کے ایک فرق ظاہر کر دیتا ہے، ایک روشن فرق ظاہر کر دیتا ہے، واضح فرق ظاہر کر دیتا ہے۔ ’’اور پھر اس کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے نہ صرف نجات بلکہ‘‘ فرماتا ہے کہ

’’يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۔(الطلاق: 4)

پس یاد رکھو جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے خدا تعالیٰ اس کو مشکلات سے رہائی دیتا ہے اور انعام و اکرام بھی کرتا ہے اور پھر متقی خد اکے ولی ہو جاتے ہیں۔ تقویٰ ہی اکرام کا باعث ہے۔ کوئی خواہ کتنا ہی لکھا پڑھا ہوا ہو وہ اس کی عزت و تکریم کا باعث نہیں اگر متقی نہ ہو لیکن اگر ادنیٰ درجہ کا آدمی بالکل اُمّی ہو‘‘ اَن پڑھ ہو ’’مگر متقی ہو وہ معزز ہوگا۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ361-362)

اسلام میں تو وہی معزز ہو گا جس میں تقویٰ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی وہی معزز ہے جس میں تقویٰ ہے۔

متقی کون ہے ؟متقی بننے کی کیا شرائط ہیں؟ پھر متقی سے اللہ تعالیٰ کا کیا سلوک ہوتا ہے؟ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلف حقوق، ریا، عجب (یعنی تکبر وغیرہ)، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو ۔‘‘ (یہ چیزیں، ساری برائیاں چھوڑے) ’’تو اخلاقِ رذیلہ سے پرہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔‘‘ (سب برے اخلاق سے صرف بچنا کافی نہیں بلکہ پھر اخلاق فاضلہ میں ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔) ’’لوگوں سے مروّت، خوشی خُلقی، ہمدردی سے پیش آوے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقامِ محمود تلاش کرے۔‘‘ (خدمات کے مقامِ محمود سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق اور اس کے بندوں کے حق ادا کرے جس کی خدا تعالیٰ بھی تعریف کرے اور بندے بھی۔ بندوں کو بھی یہ نظر آئے کہ ہاں یہ شخص ہے جو ہمارے حق ادا کرنے والا ہے اور اگر تقویٰ ہو گا تو پھر ہی ایسا معیار حاصل ہو سکتا ہے جس کے لیے ہر مومن کو کوشش کرنی چاہیے۔) ’’خدمات کے مقام ِمحمود تلاش کرے۔ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں‘‘ (جن میں یہ باتیں پیدا ہو جائیں) ’’وہی اصل متقی ہوتے ہیں۔ یعنی اگر ایک ایک خلق فرداً فرداً کسی میں ہو تو اسے متقی نہ کہیں گے۔‘‘ (تمام بُری باتوں سے پرہیز، ان سے بچنا، ان کو چھوڑنا اور نیک اخلاق کا اختیار کرنا۔ یہ جب ہو گا تبھی تقویٰ پیدا ہو گا ۔یہ نہیں کہ ایک اچھا اخلاق ہمارے اندر ہے یا ایک برائی ہمارے اندر نہیں ہے اس سے انسان متقی نہیں بن جاتا۔ ’’جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں‘‘ (وہ متقی نہیں کہلا سکتا) ’’اور ایسے ہی شخصوں کے لئے

لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرۃ:63)

ہے۔ کوئی خوف نہیں ان کو ہو گا نہ وہ غمگین ہوں گے۔ فرمایا کہ ’’اس کے بعد ان کو کیا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہےکہ

وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ۔ (الاعراف:197)۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں۔ ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں۔ اور ایک اَور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لیے تیار رہو۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے۔‘‘

(ماخوذ از ملفوظات جلد4 صفحہ400-401)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حِصنِ حصین ہے۔‘‘ ایک محفوظ قلعہ ہے تقویٰ۔ اگر اس میں تقویٰ پیدا ہو جائے تو قلعہ میں محفوظ ہو گئے۔ ہر قسم کے فتنے سے بچو گے۔ ہر قسم کے فساد سے بچو گے۔ ہر قسم کی برائی سے بچو گے۔ ’’ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی جلد بازیوں اور بدگمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقعہ دیتے ہیں۔‘‘

(ایام الصلح روحانی خزائن جلد14 صفحہ342)

پس یہ ہیں وہ باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے تحریرات میں، اپنے ارشادات میں بیان فرمائیں۔ آپؑ نے تقویٰ کے مضمون کو بےشمار جگہ کھول کر بیان فرمایا ہے۔ اپنے ماننے والوں کو بار بار تاکید فرمائی ہے کہ میرے ماننے سے تمہیں اسی وقت فائدہ ہو سکتا ہے جب تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ارشادات کے مطابق اپنی حالتوں کو تقویٰ کے معیار پر لاؤ گے ورنہ نری بیعت کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔

پس آج اس عید پر جس کے خاص حوالے سے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ تمہارے ظاہری عمل اگر وہ تقویٰ سے خالی ہیں تمہیں اللہ کا مقرب نہیں بنا سکتے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم نے اس معیار کے مطابق اپنے آپ کو لانا ہے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنی ہے جہاں ہمارا ہر قول و فعل اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو۔ اگر ہم اس پر عمل کرنے کا عہد کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ضرور ہمیں وہ کچھ عطا فرمائے گا جس کا اس نے تقویٰ پر چلنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے اور مخالفین کی مخالفتیں ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں اور ہمارے لیے کوئی افسوس کی بات نہیں ہو گی کہ ہمیں جانوروں کی قربانی سے روکا گیا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں تو پھر قربانی کر کے بھی ہمارے لیے کوئی حقیقی خوشی کا مقام نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اب ہم دعا بھی کریں گے۔ دعا میں اسیران راہ مولیٰ کو خاص طور پہ یاد رکھیں جو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ پھر ان لوگوں کو بھی یاد رکھیں جو مختلف تکلیفوں سے اپنے دین اور ایمان کی وجہ سے گزر رہے ہیں۔ احمدی ہونے کی وجہ سے ان کے کاروباروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں عموماً افرادِ جماعت پر تنگی اور ظلم وارد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے حق دار ہونے کے باوجود انہیں بعض جگہ ملازمتوں سے نکالا جاتا ہے۔ اسی طرح تمام مظلوموں اور محروموں کے لیے دعا کریں۔ بنی نوع انسان کے لیے دعا کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ سکیں۔ دنیا جس تباہی کی طرف جا رہی ہے اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے کہ اس تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچ سکیں اور اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں اور اپنی حالتوں کو بدلنے والے ہوں ورنہ ایک بہت بڑی تباہی منہ پھاڑے کھڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔

اللہ تعالیٰ تمام احمدیوں کے لیے یہ عید ہر لحاظ سے بہت بابرکت اور مبارک فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button