متفرق مضامین

ایک یادگارہائیکنگ کی روئیداد اورایک ناقابل فراموش واقعہ

(’م۔ الف۔ شاد‘)

اللہ نےجب کسی کی مد د کرنی ہوتی ہے تو وسیلہ پیدا کر دیتا ہے

یہ واقعہ 2007ءکا ہےایک دن میرے پاس جامعہ کی خامسہ کلاس کےآٹھ طلباء آئے اور کہا کہ ہم ہائیکنگ کا پروگرام بنا رہے ہیں اور آپ کو بطور نگران ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔میں نے ٹریک کا جائزہ لیتے ہوئےطلباء کی صحت کو دیکھ کرحامی بھر لی۔پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تین میٹنگز بھی اُن کے ساتھ کیں۔ہائیکنگ ٹریک میں ردوبدل بھی کیا اور زائد سامان جس کی ضرورت ہوتی ہے اُس کی لسٹ ہر طالبعلم کو دے دی۔کمبائنڈ سامان جوسب کے حصے میں آیا اُس کو سب کے حوالے کرکے رَک سیک تیار کرالیے۔صدقہ اور دعا کے ساتھ سفر کا آغاز کیا۔ربوہ سے راولپنڈی سے ہوتے ہوئے مانسہرہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعہ ناران پہنچ گئے۔مطلوبہ ایک دن کا ٹریک کرنے کے بعدایک جگہ بیٹھ کراگلے پروگرام پربات ہونے لگی۔ پھر دوبارہ ہائیکنگ شروع کردی۔ساتھ گپ شپ بھی جاری تھی۔

جب ہائیکنگ کرتے ہوئے تھک گئے تو رات کو آرام کرنے کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا وہ تھی لالہ زار (وادی ناران)۔یہ اونچائی پر الگ تھلگ جگہ ہے۔کوئی شور نہیں۔بہت ہی پُرسکون جگہ ہے۔بہت ہی خوبصورت نظارےہیں۔ اونچے اونچے چیڑ کے درخت بڑے پیارے لگتے ہیں۔سر سبز جگہ ہے۔ایک جیپ پر لالہ زار جاکر اترے اور رات بسر کرنے کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب کیا۔خیمہ لگایا۔کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا اور خیمہ بھی ہمیں نظرآیا۔ شاید وہ بھی کوئی ہائیکر تھے جو ہمارے سے پہلےوہاں خیمہ زن تھے۔ہم رات کے لیے طرح طرح کے پرو گرام بنا رہے تھے۔کوئی ڈرائی فروٹ کو صاف کرکے پلیٹ میں رکھ رہا تھا۔کوئی کھانا پکانے کے لیے موزوں جگہ کی تلاش میں تھا۔کچھ ساتھی چشمے سے پانی لانے کے لیے گئے۔سورج غروب ہوتے ہی نمازیں اداکرکے فارغ ہوکرکھانا پکایا۔خیمے کےباہر رین کوٹ بچھا کر کھانا لگایا گیا۔ سب نے مل کر ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھایا اور کیمپ فائر کا بندوبست کیا گیا۔آگ روشن کی گئی اور خوب گپ شپ ہوتی رہی۔تازہ دم ہونے کے لیے خوب ہنسی مذاق اوردن میں پیش آنے والے واقعات کو دہراتے رہے۔ساتھ ڈرائی فروٹ کا بھی دور شروع تھا۔اچانک مشرق کی جانب پہاڑی کی اوٹ سے چاند نمودار ہو ا جو بڑا پیارالگ رہا تھا۔میں نے جلدی سے اپنے رَکسیک سے دوربین نکال کر اسے دیکھنا شروع کیا۔پھر باری باری سب نے یہ نظارہ دیکھا۔لگتا تھا کہ آج رات چاند بھی ہمارے ساتھ خوش ہوکر ہر طرف چاندنی بکھیر رہاتھا۔شاید چودھویں کی رات تھی۔میرے ایک ساتھی ہائیکر نے کہا سرجی کیا ہی اچھا ہوتا کہ آج چاندنی رات ہم جھیل سیف الملوک پر ہوتے۔وہاں سنا ہے چودھویں کی رات کو پریاں جھیل پر آتی ہیں۔جو مقامی لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا۔میں نے سب کی رائے کا احترام کرتے ہوئےاگلی رات جھیل پر گزارنے کا پروگرام بھی طے کر لیا۔رات کا بڑا حسین نظارہ تھا۔کچھ ساتھیوں نے کیمرہ نکال کر فوٹو گرافی بھی کر لی۔جب تھکاوٹ نے اپنا اثر دکھایاتو نیند کا غلبہ شروع ہونے لگا۔جلد ہی سب سو گئے۔

صبح سویرے اُٹھ کر تیاری کی نماز فجر ادا کرکے ناشتہ بنانے میں مصروف تھےکہ میری نظر تھوڑے ہی فاصلے پر موجود دوسرے خیمے پر پڑیجس میں سےدو ہائیکر باہر نکل کر صبح کے ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔وہ بھی شاید ناشتہ بنانے میں لگ گئے تھے۔اچانک میں نے دیکھا تودوسرے خیمے والے ہائیکر اپنا سامان اور خیمہ سمیٹ رہے تھے۔شاید اُن کا بھی کہیں اور جلد جانے کا پروگرام تھا۔ہم بھی ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔میرے ایک ساتھی نے اُن کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ کہیں جارہے ہیں۔میں نے دیکھا تو وہ اگلےٹریک ہانس گلی کی طرف جانے لگے۔جب میں نے اُن کو روانہ ہوتے ہوئے دیکھا تو نہ جانے کیوں میرا دل کرتا تھا کہ اُن کو وہسل بجاکر واپس بلا لوںکہ آپ یہ ٹریک نہ کریں۔میں نےدو دفعہ یہ ٹریک کیا ہوا تھا۔بہت ہی مشکل اور خطرناک تھا جس کا رستہ بہت دشوار اور چڑھائی کے علاوہ رستے میں جا بجا گلیشیر بھی آتے تھے۔دوسرا سب سے بڑا مسئلہ خوراک اور پانی کا تھا۔یہ کافی مقدار میں نہ ہو توبڑی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔اگر خدانخواستہ بارش آ جائے تو بہت مشکل پیش آسکتی ہے۔سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں ملتی۔وہ دیکھتے ہی دیکھتے میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ ہم نےبھی ناشتے سے فارغ ہوکر اپنا سامان اور خیمہ سمیٹا۔ہمارا پروگرام بٹہ کنڈی تک ہائیک کرنے کا تھا۔ ہم اپنی پہلی منزل پر پہنچے اور سڑک کنارے جیپ کا انتظار کرنے لگے۔ دور بیسل (بیسر)کی طرف سے ایک جیپ آتی ہوئی دکھائی دی توسب کے چہرے پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے۔جیپ ہمارے سامنےآکر رُکی تو بار گین کے لیے جن دو طلبہ کی ڈیوٹی لگائی تھی وہ آگے بڑے اور کرایہ طے کرنے لگے۔ طلبہ کی ڈیوٹی اس لیے لگائی جاتی ہے تاکہ اِن کو بھاؤ کرنے کا تجربہ ہو جائےاور آئندہ زندگی میں کام آ سکے۔

شہرناران پہنچ کر جیپ کو ایک جگہ کھڑی کرکے ضرورت کا سامان خریدا۔ صاف پانی ساتھ لے لیا۔پھر دوبارہ جھیل سیف الملوک کا سفر شروع کیا۔ میں اس جھیل پر کئی دفعہ آچکا تھا۔میری بتائی ہوئی جگہ پر سب راضی ہو گئے۔اُس وقت جھیل پر سیرکرنے والےبھی آنا شروع ہوگئے۔ہم نے الگ اونچی جگہ پر اپنا خیمہ لگایا۔اگر بارش آبھی جائے تواُس سے بچاؤ کے لیے پانی کے لیے رستہ بھی بنایا۔ خیمے کے اندر اپنا سامان رکھ کرطلباء کو ایک طالبعلم کی نگرانی میں جھیل کی سیر کرنے کو روانہ کیا۔خود دوپہر کا کھانا پکانے لگا۔جب کھانا تیار ہوگیا۔طلباء بھی پوری جھیل کا ایک راؤنڈ کرکے واپس خیمے میں تھک ہارکرآکر بیٹھ گئے۔ کھاناپکا ہوا تھا اُس کی خوشبو سےلطف اندوزہو رہے تھے،وہ بھی مرغی کا گوشت، سب بڑے خوش ہوئے۔جلدی سے جو نان ناران سے لے کرآئے تھے نکالے۔رین کوٹ بچھاکر کھانا لگایا اور سب بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔بھوک کی وجہ سےجلدی بیٹھ گئے۔جب ضرورت پڑی تو ایک طالبِ علم نے پانی مانگا۔سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔پانی ساتھ رکھنا بھی بھول گئے تھے۔جلدی سے ایک طالب علم اُٹھ کر پانی کی دو بوتلیں اور پانی والے مگ اُٹھا لایا۔کھانے سے فارغ ہوتے ہی میں نے نمازوں کی طرف توجہ دلائی۔ظہراور عصر سے فارغ ہوکر آرام کرنے طلباء خیمہ میں جانے لگے۔میں اپنے رَک سیک سے دُور بین نکال کر بار بار چوٹی کی طرف دیکھتا کہ ان دو ہائیکرز نےجو صبح ہم سے جدا ہوکرہانس گلی کے راستے اسی چوٹی پر آنا تھا۔کوئی اُن کا نام و نشان نظر نہ آتا تھا۔عصر کے وقت دو آدمیوں کا سایہ چوٹی پر نظر آیا۔میں نے دور بین سے سب طلباء کو باری باری دکھایا۔اُن دوہائیکروں کے لیے اگلا مرحلہ بہت مشکل تھا۔رستہ بالکل نہیں تھا اور اترائی بہت زیادہ مشکل تھی۔پتھروں کی سلائیڈنگ کافی شروع ہو جاتی تھی۔دوسرا ایک بڑا گلیشیربھی پار کرنا ہوتا ہے۔وہ کچھ وقت کے بعدہماری نظروں سے غائب ہوگئے۔سورج غروب ہونے لگا اُن کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا تھا۔ نمازوں سے فارغ ہوکر ہماراچائے اور حلوہ بنانے کا پروگرام طے ہوا۔جس کو بنانے میں مصروف تھے۔کچھ طالبعلموں نے دن والے سالن اورنان کے ساتھ گزارا کیا۔اتنے میں بڑے شور کے ساتھ بڑ بڑانے کی ایک آواز نےہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔جو کہہ رہا تھا کوئی ہے جو ہماری مدد کرے۔میں نےجلدی سےاپنے خیمہ سے باہر نکل کر پہاڑ کی طرف دیکھا اندھیرا ہونے کی وجہ سے کوئی چیز نہ دکھائی دی۔میں اُسی وقت سمجھ گیایہ وہی دو ہائیکر تھے جو صبح ہمارے سے جدا ہوکر ہانس گلی کےرستے نیچے اتر رہے تھے۔وہ بےبس ہوکر مدد کے لیے پکار رہے تھے۔سورج غروب ہونے سے پہلے سیر کرنے والے جا چکے تھے۔اِکّا دُکّا کوئی خیمہ جھیل کے کنارے پر نظر آتا تھا۔مقامی لوگوں کے گھرجو عارضی ہوتے ہیں جہاں بھیڑ بکریاں رکھتے ہیں وہ بھی جھیل سےکافی دور تھے۔

جلدی سے دو طالبعلم میرے پاس آئے اور اُن کی مدد کے لیے جانے کی اجازت چاہی۔میں نے فرسٹ ایڈ کا ضروری سامان دیا اور ٹارچ اور سٹک کے ساتھ روانہ کیااور تاکیدکی کہ ٹارچ جلاکر جانا وہ خود آپ کو اپنے پاس بلائیں گے۔ یہ بھی کہا کہ اُن کوسیدھا میرے خیمہ میں لاناجہاں اُن کے آنے سےپہلےحلوہ اور چائے تیار کر کے رکھی ہوئی تھی۔جب خیریت سے واپس آگئےتو دیکھاکہ ایک مقامی باشندہ بھی ان کی مدد کے لیے پہنچ چکا تھا۔منہ دھلوا کر حلوہ اور گرم چائے دی تو اُن کی جان میں جان آئی۔طلباء کو اُن کاخیمہ لگانے کو کہا۔چائے پینے کے بعد ان میں سے ایک جو میرے پاس رہ گیا تھا اُ س سے میں نے پوچھا کہ آپ کس جگہ کے رہنے والے ہیں۔میری حیرت کی حد نہ رہی جب اس نے بتایا کہ مَیں اس آدمی (یعنی اُس کے ساتھی) کا مزارع ہوں اور یہ میرا مالک ہے۔ ہمارا تعلق،مظفر گڑھ سے ہے کانجو فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔میں نے دل میں سوچا کہ ہائیکنگ اُس وقت تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک اونچ اور نیچ کا فرق ختم نہ کیا جائے۔ہائیکنگ میں سب مل کر ایک جان ہوکر دوسرے کی مدد کرتے ہیں اپنے سے بڑھ کر دوسرے کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔

مزید اُس نے بتایا کہ جب صبح سفر شروع کیاتوہمارے پاس پورے دن کے لیے کھانے پینے کا سامان ناکافی تھا۔ جب چڑھائی شروع کی تو کھانے کا جو سامان تھا کھاتے اور چلتے جاتے تھے۔جب تھک جاتے تو پانی پینے کے بہانے تھوڑی دیر کے لیے رُک جاتے۔چڑھائی پر نہ کچھ کھانے کو رہا اورنہ پینے کے لیے۔سب ختم ہو گیا۔ چوٹی پر آکر نیچے جھیل ہمیں ایسے معلوم ہوتی تھی جیسے ہم آسمان پر کھڑے ہیں۔نیچے اترنے کی ہمت نہیں تھی۔میرے مالک کو بہت پیاس لگی تو اُس نے پانی لانے کے لیے مجھے کہا۔ میں خود بھی تھک کر چور ہو چکا تھا۔حکم سمجھ کر چل پڑا۔تھوڑی دیر پانی کی تلاش میں پھرا کہیں پانی نظر نہ آیا۔ آخرتھک کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ نیند نے مجھے آلیا۔ میرا مالک کچھ انتظار کے بعد چل پڑا۔پیاس کی وجہ سے وہ بھی نڈھال ہو چکا تھا دوسرامیں بھی اُسے نظر نہیں آرہا تھا۔ شام ہونے لگی تھی۔ وہ کچھ گھبرا سا گیا تھا۔جب اُس نے مدد کے لیے پکارا تومیں بھی آواز سن کر اُٹھ گیااور آواز دی میں یہاں ہوں۔اتنے میں آپ کے جوان آگئے اور سامان کے سمیت ہمیں نیچےبا حفاظت لے آئے۔آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے ہماری مدد کی۔ مَیں اُس کے مالک کےیہ لفظ سن کر سوچ میں پڑ گیا۔اللہ نےجب کسی کی مد د کرنی ہوتی ہے تو وسیلہ پیدا کر دیتا ہے۔میں اس واقعہ کو آج تک نہیں بھول پایا۔ اللہ ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button