سلام مصطفیٰﷺ
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کونبی کریمﷺ کا سلام پہنچانے والے خوش نصیب صحابہؓ
تمام نبيو ں اور رسولوں پر اللہ کا سلام
اللہ تعا ليٰ کے انبياء اور رسل ہدايت کے امام ہيں۔ ان کي بعثت اللہ تعا ليٰ کي ربوبيت، رحمت اور حکمت کا تقاضا ہے اوران کا ظہورانسانو ں کے لیے رحمت، نعمت اور مخلوق پر اللہ تعا ليٰ کا احسان عظيم ہے۔ قرآن کريم ميں اللہ تعا ليٰ نے اپنے انبياءؑ کا ذکر اصطفاء و اجتباء کے الفاظ ميں فرمايا ہے۔ يعني يہ انبياءؑ اللہ تعا ليٰ کے منتخب اور چنيدہ افراد ہو تے ہيں، جنہيں اللہ تعاليٰ کي طرف سے علمي، عملي، اخلاقي و عقلي صلاحيتوں ميں کمال حاصل ہو تا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ وہ مخلوق کي ہدايت کي ذمہ داري اٹھانے کے قابل ہو تے ہيں۔ جب اللہ تعا ليٰ کي طرف سے انہيں مخلوق کي ہدايت کی عظيم الشان ذمہ داري سپرد کي جاتي ہے تو وہ اس خدمت کو سرانجام ديتے ہيں جس کے لیے وہ مبعوث کیے گئے ہيں۔
حضرت عيسيٰ عليہ السلام کے متعلق فرمايا:
وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا (مريم: 34)
اور سلامتي ہے مجھ پر جس دن مجھے جنم ديا گيا اور جس دن ميں مروں گا اور جس دن ميں زندہ کر کے مبعوث کيا جاؤں گا۔
حضرت نوحؑ کے بارے ميں فرمايا:
سَلٰمٌ عَليٰ نُوْحٍ فِي الْعٰلَمِيْنَ(الصَّفّٰت: 80)
سلام ہو نوح پر تمام جہانو ں ميں۔
حضرت ابراہيمؑ کے بارے ميں فرمايا:
سلٰمٌ عَلٰي اِبْرٰہِيْمَ (الصَّفّٰت: 110)
ابراہيم پر سلام ہو۔
حضرت موسيٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے بارے ميں فرمايا:
سَلٰمٌ عَلٰي مُوْسٰي وَ ہَارُوْنَ(الصَّفّٰت: 121)
سلام ہو موسيٰ اور ہارون پر۔
حضرت الياسؑ کے بارے ميں فرمايا:
سَلٰمٌ عَلٰي اِلْ يَا سِيْنَ( الصَّفّٰت: 131)
سلام ہو الياسين پر۔
اورتمام رسولوں کے بارےمیں فرمايا:
وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ (الصَّفّٰت: 182)
اور سلام ہو سب مرسلين پر۔
سيدنا حضرت مسيح موعود عليہ السلام اس تعلق ميں سورت يٰس کي آيت: 59
سَلٰمٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِيْمٍ
کي تفسير ميں فرماتے ہيں کہ ’’سلام تو وہ ہے جو خدا تعاليٰ کي طرف سے ہو۔ خدا (تعا ليٰ) کا سلام وہ ہے جس نے ابراہيمؑ کو آگ سے سلامت رکھا۔ جس کو خدا کي طرف سے سلام نہ ہو بندے اس پر ہزار سلام کريں اس کے واسطے کسي کام نہيں آسکتے۔ قرآن شريف ميں آيا ہے
سَلٰمٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِيْمٍ۔ ‘‘
(تفسير حضرت مسيح موعودؑ جلد 3صفحہ 776)
نبيو ں پر سلام بھيجنے کا حکم رباني
قرآن کريم ميں جہاں اللہ تعا ليٰ نے خود اپنے انبياءؑ اور رسلؑ کے لیے سلامتي چاہي ہے وہيں اللہ تعاليٰ نے مومنين کو بھي يہ حکم ديا ہے وہ بھي اللہ تعا ليٰ کے انبياءؑ اور اس کو رسولوں پر ہميشہ سلامتي بھيجتے رہا کريں جيسے فرمايا
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلٰي عِبَادِہِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰي (النمل: 60)
کہہ دے کہ سب تعريف اللہ ہي کے لیے ہے اور سلام ہو اس کے ان بندوں پر جنہيں اس نے چن ليا ہے۔
مذکورہ بالا آيت کے آغاز ميں اللہ تعا ليٰ نے قُلْ(يعني توکہہ دے) کے الفاظ رکھ کر مومنوں کو اپنے ان بندو ں کے لیے سلامتي طلب کرنے کا حکم ديا ہے جن کو خود اللہ تعا ليٰ نے اپني رسالت اور نبوت کے لیے منتخب فرمايا ہے اوريہ حکم ديا ہے کہ وہ اللہ تعا ليٰ کے نبيو ں اور رسولوں پر سلامتي بھيجتے رہا کريں۔
حضرت مرزا بشير الدين محمود احمد خليفة المسيح الثانيؓ اس آيت کي تفسير ميں تحرير فرماتے ہيں کہ’’سلٰمٌ عَلٰي عِبَادِہِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰي سے ظاہر ہے کہ اللہ تعا ليٰ کے برگزيدہ بندوں پر ہميشہ اُس کي طرف سے سلامتي نازل ہو تي رہتي ہے اس لئے مومنوں کو ہدايت کي گئي ہے کہ وہ جب بھي کسي نبي کا نام ليں تو اس کے ساتھ عليہ السلام کے الفاظ ضرور کہا کريں۔ ‘‘( تفسير کبير جلد 7صفحہ 409)
يہاں يہ بات بھي قابل ذکر ہے کہ قرآن کريم ميں اللہ تعا ليٰ نے اپنے تمام نبيو ں اور رسولوں پر سلامتي بھيجنے کا حکم ديا، جس ميں نبي کريمؐ بھي شامل ہيں، ليکن نبي کريمؐ پر خصوصي طور پر سلام بھيجنے کا حکم پورے قرآن کريم ميں صرف ايک مقام پر ديا گيا ہے۔ جيسا کہ اللہ تعا ليٰ نے فرمايا:
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔ ( الاحزاب: 57)
یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔
مذکورہ بالاآيت ميں مومنوں کو وقت اور جگہ کي قيد کے بغير ايک مطلق حکم ديا گيا ہے کہ وہ نبي کريمؐ پر دروداور سلام بھيجيں جيسا کہ سلام بھيجنے کا حق ہے۔ درود اور سلام پڑھنے کے لیے اس حکم ميں نہ وقت کي قيد ہے نہ جگہ کي اور نہ ہي تعداد کي۔ يعني جب چاہيں جہاں چاہيں اور جتني تعداد ميں چاہيں نبي کريمؐ کے لیے يہ درود اورسلام پڑھا جاسکتا ہے۔
اس تعلق ميں امام حافظ محمد بن عبد الرحمان السخاويؒ، المتوفي 902 ہجري، نے اپني تصنيف’’ القول البديع ‘‘ميں يہ لکھا ہے کہ
’’وَلْيَعْلَمْ أَنَّہُ قَدْ ترتقي دَرَجَةَ التَّسْلِيْمِ عَلَيْہِ اِلَي الْوُجُوْبِ فِيْ مَوَاضِعٍ: اَلْأَوَّلُ: فِي التَّشَہُّدِ الْأَخِيْرِ، نَصَّ عَلَيْہِ الشَّافِعِيُّ۔
اَلثَّانِي: مَا نَقَلَہُ الْحَلِيْمِيُّ أَنَّہ، يَجِبُ التَّسْلِيْمُ عَلَي النَّبِيِّؐ کُلَّمَا ذُکِرَ۔ وَ فِيْ ’’الشِّفَا‘‘نَقَلاً عَنِ الْقَاضِيِّ أَبِيْ بَکْرِ بْنِ بُکَيْرٍ: نَزَلَتْ ھٰذِہِ الاۤيَة عَلَي النَّبِيِّؐ فَأَمَرَ اللّٰہُ اَصْحَابَہ، اَنْ يُّسَلِّمُوا عَلَيْہِ، وَکَذٰلِکَ مَنْ بَعْدَ ہُمْ أُمِرُوْا اَنْ يُّسَلِّمُوْا عَلَي النَّبِيِّؐ عِنْدَ حُضُورِ ہِمْ قَبْرِہِ، وَ عِنْدَ ذِکْرِہِ۔ اِنْتَہَي۔
وَاسْتَقَرَّ رَأْيُ الطُّرْطُوشِيِّ مِنَ الْمَالِکِيَّةِ عَلَي الْوُجُوبِ، وَسَوَّي ابْنُ فَارِسِ اللُّغْوِيِّ بَيْنَہ، وَ بَيْنَ الصَّلاَةِ فِيْ الْفَرْضِيَّةِ، حَيْثُ قَالَ: فَالصَّلاَةُ عَلَيْہِ فَرْضٌ، وَکَذٰلِکَ التَّسْلِيْمُ لِقَوْلِہِ جَلَّ ثَنَاؤُہ،: وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْماً۔
اَلثَّالِثُ: يَجِبُ بِالنَّذْرِ، لِأَنَّہ، مِنَ الْعِبَادَاتِ الْعَظِيْمَةِ وَالْقُرُبَاتِ الْجَلِيْلَةِ، وَلَمْ يَتَعَرَّضَ اَحَدٌ مِّنَ الْمَالِکِيَّةِ وَالْحَنَفِيَّةِ لِذٰلِکَ۔
وَرُوِيَ ابْنُ وَھَبٍ ؛فِيْمَا ذَکَرَہُ صَاحِبُ الشِّفَا؛ أَنّ النَّبِيَّؐ قَالَ: مَنْ سَلَّمَ عَلَيَّ عَشْرًا فَکَأَنَّمَا أَعْتَقَ رَقَبَةً۔ ( اَلْقَوْلُ الْبَدِيْعِ فِيْ الصَّلٰوةِ عَلَي الْحَبِيْبِ الشَّفِيْعِ لامام الحافظ المورخ محمد بن عبد الرحمان السخاويؒ المتوفي902 ہجري صفحہ161تا162، شائع کردہ مو سسة الريان مدينہ منورہ 2002ء)
جاننا چاہیےکہ بعض مواقع پر نبي کريمؐ پر سلام بھيجنا واجب ہے؛ اوّل: آخري تشہد ميں جيسا کہ امام شافعيؒ نے اس پر نص قائم کي ہے۔
دوم: جيسا کہ حليمي نے نقل کيا ہے کہ جب بھي نبي کريمؐ کا ذکر کيا جائے تو آپؐ پر سلام بھيجنا واجب ہے۔ ’’الشفا‘‘ميں قاضي ابوبکر ابن بکير سے منقول ہے کہ اللہ تعا ليٰ نےآيت:
صَلُّوْا عَلَيْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۔ (الاحزاب: 57)
نازل فرماکر نبي کريمؐ کے صحابہؓ کو يہ حکم ديا ہے کہ وہ نبي کريمؐ پر سلام بھيجيں۔ اسي طرح ان لوگو ں کو بھي حکم ديا ہے جو ان کے بعد ہوں گے کہ وہ جب بھي نبي کريمؐ کي قبر (مبارک) پر حاضر ہو ں يا آپؐ کا ذکر خير ہو توآپؐ پر سلام بھيجيں۔
الطرطوشي مالکي کي رائے ميں بھي سلام بھيجنا واجب ہے۔ اور ابن فارس اللغوي نے درود اور سلام کو فرضيت کے حوالہ سے برابر قرارديا ہے جيسا کہ وہ کہتے ہيں کہ’’جس طرح (نبي کريمؐ پر) درود بھيجنا فرض ہے اسي طرح اللہ تعا ليٰ کے فرمان:
وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا
کے مطابق آپؐ پرسلام بھيجنا بھي فرض ہے۔ ‘‘
سوم: (نبي کريمؐ پر) سلام عرض کرنے کي نذر ماننے سے(بھي آپؐ پر)سلام بھيجنا واجب ہو جاتا ہے۔ کيونکہ(آپؐ پر سلام بھيجنا ) عبادات عظيمہ اور قربات جليلہ ميں سے ہے۔ اور مالکيوں اور حنفيوں ميں سے کسي نے بھي اس قول پر کوئي اعتراض نہيں کيا ہے۔
’’الشفا ‘‘کے مصنف نے ذکر کيا ہے کہ ابن وہب سے مروي ہے کہ نبي کريمؐ نے فرماياکہ جس نے مجھ پر دس مرتبہ سلام بھيجا اسے ايسا ثواب ملے گا جيسا کہ اس نے ايک گردن آزاد کي ہو۔
سلام اور سلامتي کا مفہوم کيا ہے؟
سلام کي تشريح
سلام کے معني ہيں ہر قسم کے شرّو عيب سے نجات پانااور محفوظ ہوجا نايعني ہر قسم کے شر سے سلامتي کا نام سلام ہے۔ يا اس سے مراد ظاہري و باطني آفات سے پاک و محفوظ ہونے کے ہيں۔ لفظ سلام ميں سلامت رہنے يا سلامت رکھنے کے معني ہيں۔ سلام بمعني رحمت بھي ہے۔ سَلاَمٌ عَلٰي کے ساتھ دعا کرنا اللہ تعاليٰ سے سلامتي بالفعل طلب کرنا ہے يعني اللہ وہ جنت عطا فرمائے جو دارالسلام ہے جہاں حقيقي سلامتي حاصل ہو گي۔ دشمنوں اور حاسدوں کے شر سے سلامتي کي دعا کرنا۔ (مفردات امام راغب الاصفہانيؒ، زير حروف: س ل م)
ان معنوں کي رو سے انبياءؑ کو سلامتي ان معنوں ميں حاصل ہوتي ہے کہ يہ انبياؑ ء ہر جھوٹ سے پاک ہيں۔ اور ان تمام الزامات اور تہمتوں سے پاک ہيں جو نبي کے مخالفين کي طرف سے اُن پر لگائے جاتے ہيں۔
اللہ تعا ليٰ کے اس حکم کي تعميل ميں نماز کے دوران تشہد کے مقام ميں جب ہم
اَلسّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّھَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
کے کلمات ميں نبي کريمؐ کے لیے دعا کرتے ہيں تو مذکورہ بالا تمام معني اس سلام ميں شامل ہو تے ہيں۔ يعني نبي کريمؐ کے لیےہم اللہ تعا ليٰ کي رحمت بھي طلب کرتے ہيں اور اللہ تعا ليٰ کي طرف سے نبي کريمؐ کے لیے ہر قسم کي سلامتي بھي چاہتے ہيں۔
پس جب اللہ تعا ليٰ نے مومنوں کو يہ حکم فرماياکہ
وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۔ (الاحزاب: 57)
تو اس کا عام مفہوم يہي ہے کہ اہل ايمان نبي کريمؐ کے لیے ہميشہ اور کثرت سے سلامتي کي دعا کرتے رہا کريں۔ اور چونکہ
سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا
کے الفاظ عربي حروف س ل اور ميم پر مشتمل ہيں اور سلم کا ايک معني فرمانبرداري اور اطاعت کے بھي ہيں اس لیے
سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا
کا ايک اَور مفہوم يہ بھي ہو گا کہ نبي کريمؐ کي خوب اطاعت کرو اور خوب فرمانبرداري کرو۔ اور آپؐ کي تعليمات پر اورآپؐ کي اطاعت ميں سر تسليم خم کردو، جيسا کہ اللہ تعا ليٰ نے ايک دوسرے مقام پر فرمايا ہے:
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔ (النساء: 66)
پس تیرے رب کی قسم ہے کہ جب تک وہ (ہر) اس بات میں جس کے متعلق ان میں جھگڑا ہو جائے تجھے حکم نہ بنائیں (اور) پھر جو فیصلہ تو کرے اس سے اپنے نفوس میں کسی قسم کی تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر فرمانبردار (نہ) ہو جائیں ہرگز ایمان دار نہ ہوں گے۔
سيدنا حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اس مذکورہ بالا سورت النساء کي آيت: 66کا ترجمہ اس طرح تحرير فرمايا ہے کہ ’’يعني اے پيغمبر تمہارے ہي پروردگار کي قسم ہے کہ جب تک يہ لوگ اپنے باہمي جھگڑے تم ہي سے فيصلہ نہ کرائیں اور صرف فيصلہ ہي نہيں بلکہ جو کچھ تم فيصلہ کر دواس سے کسي طرح دلگير بھي نہ ہو ں بلکہ کمال اطاعت اور دلي رضامندي اور شرح صدر سے اس کو قبول کر ليں تب تک يہ لوگ ايمان سے بےبہرہ ہيں ‘‘۔ ( تریا ق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 320)
امام حافظ محمد بن عبد الرحمان السخاويؒ المتوفي 902 ہجري نے اپني تصنيف ’’القول البديع ‘‘ميں لفظ سلام کے معني کي بحث ميں يہ لکھا ہے کہ
وَاخْتُلِفَ فِيْ مَعْنَاہُ، فَقِيْلَ: اَلسَّلاَمُ الَّذِيْ ھُوَ اِسْمٌ مِّنْ ائَسْمَاءِاللّٰہِ۔ عَلَيْکَ، وَتَأْوِيْلُہ،: لاَ خَلَوْتَ مِنَ الْخَيْرَاتِ وَالْبَرَکَاتِ، وَ سَلَّمْتَ مِنَ الْمَکَارِہِ وَالْاٰفَاتِ، اِذْ کَانَ اِسْمُ اللّٰہِ اِنَّمَا يَذْکُرُ عَلَي الْاُمُوْرِ تَوَقُّعًا لِاِجْتِمَاعِ مَعَانِي الْخَيْرِ وَالْبَرَکَةِ فِيْہَا، وَانْتِفَاأِ عَوَارِضِ الْخَلَلِ وَالْفَسَادِ عَنْہَا۔ وَ يَحْتَمِلُ اَنْ يَکُوْنَ بِمَعْنَي السَّلاَمَةِ، اَيْ لِيَکُنْ قَضَاءَ اللّٰہِ عَلَيْکَ السَّلاَ مَ، وَہُوَ السَّلاَمَةُ، کَالْمُقَامِ وَالْمُقَامَةِ وَالْمَلاَمِ وَالْمَلاَ مَةِ، أَيْ يُسَلِّمُکَ اللّٰہُ مِنْ الْمَذَامِّ وَالنَّقَائِصِ۔ فَاِذَا قُلْتَ: اَللّٰہُمَّ سَلِّمْ عَلٰي مُحَمَّدٍ، فَاِنَّمَا تُرِيْدُ بِہِ: اَللّٰہُمَّ اکْتُبْ لِمُحَمَّدٍ فِيْ دَعْوَتِہِ وَاُمَّتِہِ وَ ذِکْرِہِ السَّلاَمَةَ مِنْ کُلِّ نَقْصٍ، فَتَزْدَادَ دَعْوَتَہُ عَلٰي مُمِرِّ الْاَ يَّامِ عُلُوًّا وَ اُمَّتَہ، تَکَاثُرًا وَ ذِکْرَہ، اِرْتِفَاعًا۔ قَالَہُمَا اَلْبَيْہِقِيُّ۔ قَالَ: وَلاَ يُعَارِضُہُ مَا يُوْھِنُ لَہ، اَمْرًا بِوَجْہٍ مِّنَ الْوُجُوْہِ۔ (اَلْقَوْلُ الْبَدِيْعِ فِيْ الصَّلٰوةِ عَلَي الْحَبِيْبِ الشَّفِيْعِ لامام الحافظ المورخ محمد بن عبد الرحمان السخاويؒ المتوفي: 902 ہجري صفحہ162تا163شائع کردہ مو سسة الريان مدينہ منورہ 2002ء)
سلام کے معني ميں اختلاف پايا جاتا ہے۔ يہ بھي کہا گيا ہے کہ سلام اللہ تعا ليٰ کے ناموں ميں سے ايک نام ہے، عَلَيْکَ کا مطلب ہے کہ آپ ثمرات اور برکات سے خالي نہ رہيں اورآفات و مصائب سے محفوظ وسلامت رہيں۔ کيونکہ اللہ تعا ليٰ کا اسم مبارک کامو ں ميں خير و برکت جمع کرنے اور فتنہ و فساد کو دور کرنے کی توقع اور اميد کے ساتھ ذکر کيا جاتا ہے۔ يہ بھي احتمال ہے کہ سلام بمعني ايسي سلامتي ہو جس سے مراديہ ہوتي ہے کہ تم پر اللہ کا فيصلہ سلامتي والا ہو۔ (يعني )سلام بمعني: السلامۃ ہے، جيسے مقام اور مقامہ ہے يا ملام اور ملامہ ہے۔ يعني اللہ تعا ليٰ تمہيں قابل مذمت امور اور نقائص سے محفوظ رکھے۔ اور جب آپ يہ کہيں کہ
اَللّٰہُمَّ سَلِّمْ عَلٰي مُحَمَّدٍ،
تو آپ کي اس سے مراد يہ ہو گي کہ اے اللہ ! تو حضرت محمدؐ کي دعوت(تبليغ)، آپؐ کي امت اور آپؐ کے ذکر کو ہر نقص اور عيب سے سلامتي عطا فرما اور آپؐ کي دعوت ميں وقت گزرنے کے ساتھ مزيد اضافہ فرما۔ آپؐ کي امت کو مزيد بڑھااور آپؐ کے ذکر کو بلند سے بلند تر فرما۔ يہ دونوں معني امام بيہقيؒ نے ذکر فرمائے ہيں۔ پھر فرماتے ہيں کہ کوئي ايسا امر لاحق نہ ہو جو کسي وجہ سے بھي کمزوري وکمي کا باعث ہو۔
انبياءؑ اور رسولوں پر سلامتي کيوں بھيجي جاتي ہے؟
جيسا کہ گذشتہ سطور ميں يہ ذکر کيا جاچکا ہے کہ انبياءؑ پر سلام اس لیے بھيجا جاتا ہے کہ (اوّل) اس سلام کے ذريعہ انبياءؑ کے فضائل اور ان کي اللہ تعا ليٰ کے دين کو پھيلانے کي کوششوں کے اعتراف کے طور پر ان کے لیے اللہ تعا ليٰ سے سلامتي طلب کي جاتي ہے۔ (دوم) اس سلام کے ذريعہ اللہ تعاليٰ سے يہ دعا کي جاتي ہے کہ اللہ تعا ليٰ ان انبياءؑ کو ان تمام الزامات اور تہمتوں سے پاک اور محفوظ رکھے جو انبياءؑ کے مخالفين کي طرف سے اُن پر لگائے جاتے ہيں۔ اس تعلق ميں حضرت خليفة المسيح الثانيؓ انبياءؑ اور رسولوں پر سلامتي بھيجنے کي حکمت بيان کرتے ہو ئے تحرير فرماتے ہيں کہ’’وہ لوگ جو حقيقت سے نا آشنا ہو تے ہيں بعض دفعہ ان دعائيہ کلمات کے متعلق سوال کرديا کرتے ہيں کہ انبياءؑ کے لئےسلامتي کي خاص طور پر دعا کيوں کي جاتي ہے جبکہ ان کا خدا تعا ليٰ کے سایۂ رحمت ميں ہونا ايک قطعي اور يقيني امر ہے۔ وہ يہ نہيں سمجھتے کہ يہ سلامتي تو ان کو بےشک حاصل ہے کہ وہ وفات پا کر اللہ تعاليٰ کے سایۂ رحمت ميں چلے گئے ليکن ايک اَور بات ايسي ہے جس کے لحاظ سے ان کے مرنے کے بعد بھي ہميشہ سلامتي کي دعا کرتے رہنا ضروري ہوتا ہےاور وہ يہ کہ انبياءؑ دنيا ميں ايک بہت بڑي روحاني جائداد چھوڑ کر جاتے ہيں۔ دنيوي جائداد يں تو اگر نا اہل ہاتھوں ميں چلي جائيں تب بھي ان کي تباہي کا اثر بہت محدود ہوتا ہے۔ ليکن انبياءؑ جو جائداديں چھوڑ جاتے ہيں اگر اس کو گمراہي کا ذريعہ بنا ليا جائے تو صديوں تک لوگ گمراہ ہوتے چلے جاتے ہيں۔ اس لئے ضروري ہوتا ہے کہ ان کے لئے دعا ؤں کے سلسلہ کو ہميشہ جاري رکھا جائے۔ انہوں نے تو وہ جائداد اس لیے چھوڑي ہو تي ہے کہ لوگ اس سے روشني اور نور حاصل کريں۔ مگر پيچھےآنے والے روشني اور نور حاصل کرنے کي بجائے خود بھي گمراہ ہوتے ہيں اور دوسروں کو بھي گمراہ کرنے کي کوشش کرتے ہيں۔ چنانچہ ديکھ لو کئي قسم کے گناہ ہيں جو بني اسرائيل نے حضرت موسيٰؑ اور حضرت داؤدؑ اور حضرت سليمانؑ اور حضرت لوطؑ کي طرف منسوب کر ديئے۔ لوگ جب ان واقعات کو پڑھتے ہيں تو کمزور طبع لوگ ان سے متاثر ہو تے ہيں اور وہ خيال کرتے ہيں کہ جب انبياءؑ نے اس طرح کر ليا تھا تو ہم کيوں نہ کريں۔ عيسائی تو منہ سے دعويٰ کرتے ہيں کہ حضرت عيسيٰؑ بالکل معصوم اور بے گناہ تھے مگر تفصيلات ميں وہ ان پر بھي الزام لگانے سے باز نہيں آئے۔ چنانچہ وہ کہتے ہيں کہ ايک دفعہ وہ کسي کا گدھا بے پوچھے لے گئے اور اس پرپر سواري کرتے پھرے۔ (مرقس باب: 11ومتي باب: 21) پھر يہ بھي کہتے ہيں کہ وہ لوگو ں کو گالياں ديتے اور انہيں کتے اور زنا کار وغيرہ کہتے تھے۔ (متي باب: 7 آيت: 6 ومتي باب: 25آيت: 26 و متي باب: 12آيت: 39) اسي طرح کہتے ہيں کہ وہ لوگوں کے گناہ اٹھا کر صليب پر لٹک گئے۔ اور اس طرح نعوذ باللہ لعنتي بنے۔ اور تين دن تک دوزخ ميں رہے۔ (پطرس باب1: 3 آيت: 18تا20) پھر کہتے ہيں کہ وہ لوگوں کے سؤروں کے گلے بغير ان کے مالکوں کو کوئي قيمت دينے کے تباہ کر ديا کرتے تھے۔ (متي باب: 8آيت: 28تا32و مرقس باب: 5آيت: 12تا16) اسي طرح ہندوؤں کو لو تو وہ حضرت کرشنؑ اور حضرت رامچندر جي کو اپنا اَوتار مانتے ہيں مگر رامچندر جي کا سيتا سے جو سلوک بيان کرتے ہيں وہ اگر ايک طرف رکھ ليا جائے اور دوسري طرف ان کي بزرگي اور نيکي ديکھي جائے تو يہ تصور بھي نہيں کيا جاسکتا کہ انہوں نے ايسا فعل کيا ہو گا۔ مگر وہ حضرت رامچندر جي کي طرف بغير کسي جھجک کے يہ ظلم منسوب کرتے ہيں۔ پھر حضرت کرشنؑ کے متعلق کہتے ہيں کہ وہ مکھن چرا چرا کر کھايا کرتے تھے۔ حالانکہ وہ خدا تعا ليٰ کے نبي تھے۔ پس انبياءؑ، جہاں ہدايت پھيلانے کا ذريعہ ہوتے ہيں، وہاں شيطاني لوگ ان کو ايک قسم کي گمراہي اور شيطنت پھيلانے کا بھي ذريعہ بنا ليتے ہيں۔ اس لئے اللہ تعا ليٰ نے قرآن کريم ميں انبياءؑ پر سلام کا خصوصيت سے ذکر کيا ہے تاکہ ہم جب بھي ان انبياءؑ کا نام ليں ساتھ ہي يہ دعا بھي کيا کريں کہ اللہ تعا ليٰ ان فتنہ گروں کو تباہ کرے جو ان کا نام لے لے کر دنيا ميں گمراہي پھيلاتے ہيں تاکہ ان کي کوششيں اکارت نہ چلي جائيں۔ حديثوں ميں آتا ہے کہ رسول کريمﷺ جب مرض الموت سے بيمار ہو ئے تو آپؐ اپني آخري گھڑيو ں ميں بڑے اضطراب کے ساتھ کروٹيں بدلتے اور بار بار فرماتے کہ خدا يہود اور نصاريٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبياءؑ کي قبروں کو سجدہ گاہ بنا ليا۔ آخر يہ لازمي بات ہے کہ جب نبيوں کي قبروں کو سجدہ گاہ بنا ليا جائے گا تو لو گو ں ميں توحيد نہيں رہے گي اور شرک روز بروز بڑھتا چلا جائے گا۔ پس انبياءؑ پر سلام اسي حکمت کي وجہ سے آيا ہے کہ اللہ تعا ليٰ ان کے انوار اور برکات کے سلسلہ کو وسيع کر ے اور وہ فتنہ گر تباہ ہو ں جو ان کي رو حاني جائداد کو غارت کرنے والے ہيں۔ (تفسير کبير، جلد 7صفحہ 410 تا 411)
سلام مصطفي ٰؐ بنام مسيح و مہدي
امت محمديہ کي اصلاح کے لیےآخري زمانہ ميں ظاہر ہونے والے وجود، جنہيں رسول اللہؐ نے عيسيٰ ابن مريم کا نام اور امام مہدي کا لقب عطا فرمايا تھا، ان کا مقام و مرتبہ احاديث ميں بيان ہوا ہے۔ نبي کريمؐ نے آنے والے مسيح موعود کو حَکَم و عدل، الامام المہدي، خليفة اللہ، نبي اللہ و رسول اللہ اور خليفة الرسول کے القابات سے ياد فرمايا تھا۔ حضرت مرزا غلام احمد قادياني عليہ السلام انہي پيش خبريوں کے مطابق اللہ تعاليٰ کي طرف سے مسيح موعود اور مثيل عيسٰي عليہ السلام کے طور پر مبعوث ہوئے اور آپؑ نے اللہ تعا ليٰ سے الہام پا کر يہ دعويٰ فرمايا تھا کہ ميں وہي مسيح اور مہدي ہو ں جس کے ہاتھ پر بالآخر عيسائيت کے باطل عقائد کو شکست ہو گي اور اسلام کو تمام اديان پر غلبہ نصيب ہو گا۔
حضرت مسيح موعود عليہ السلام کس شان کے وجود تھے اور آپؑ کا مقام کس قدر بلند ہے اس کا اظہا ر خود رسول اللہؐ نے فرما يا ہے:
عَنْ اَنَسٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: مَنْ اَدْرَکَ مِنْکُمْ عِيْسَي ابْنَ مَرْيَمَ فَلْيَقْرَأہُ مِنِّي السَّلاَمَ۔
(مستدرک للحاکم کتاب الفتن باب ذکر نفخ الصور۔ امام جلال الدين سيوطيؒ نے بھي اپني تفسير درمنثور ميں يہ روايت درج فرمائي ہے) خادم رسول حضرت انس بن مالکؓ بيان فرماتے تھے کہ رسول اللہؐ نے فرماياکہ تم ميں سے جو عيسيٰ ابن مريم کو پائے وہ اسے ميرا سلام پہنچا دے۔
ايک دوسري روايت ميں ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمايا:
اَلاَ مَنْ اَدْرَکَہ، فَلْيَقْرَائ عَلَيْہِ السَّلاَ مَ
يعني سنو!تم ميں سے جو عيسٰي ابن مريمؑ کوپائے وہ انہيں ميرا سلام پہنچا دے۔ (طبراني الاوسط و الصغير)
مذکورہ بالا حديث ميں نبي کريمؐ نے اپني امت ميں ظاہر ہونے والے عيسيٰ ابن مريم عليہ السلام کے ظہور کي خبرکے ساتھ ان کي عظمت شان کے اظہار کے لیے اور بوجہ ان سے محبت اور تعلق قرب کے يہ بھي فرمايا ہے کہ جو بھي ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرے وہ انہيں ميرا سلام پہنچا دے۔
اس حديث کے مطابق ہر احمدي جب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادياني مسيح موعودؑ و مہدي معہودؑ کو آپؑ کے تمام دعووں کے ساتھ قبول کرتا ہے تو اُس پراللہ تعا ليٰ کے حکم کے بموجب حضرت مسيح موعودؑ پر سلامتي بھيجنا فرض ہو جاتا ہے اور وہ عليہ السلام کے الفاظ کے ساتھ سلامتي بھيجتا ہے۔ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کو جن خوش نصيب افراد نے سب سے پہلے قبول کيا اور اصحاب احمدؓ کے پاک گروہ ميں شامل ہو ئے وہ سب ہي آپؑ پر سلامتي بھيجتے رہے ليکن ان ميں سے بعض ايسے خوش نصيب بھي تھے جنہو ں نے رسول اللہؐ کے اس فرمان کے مطابق اور اس حديث پر عمل کرتے ہو ئے خاص طور پر حضرت مسيح موعود عليہ السلام کو اس حديث کا حوالہ دے کر نبي کريمؐ کا سلام پہنچانے کا شرف پايا۔ قارئين کي دلچسپي اور علم ميں اضافہ کي غرض سے انہي اصحاب ميں سے دو صحابہؓ کا ذکردرج ذیل سطور ميں کيا جا رہا ہے:
(1)حضرت مولوي غلام نبي صاحب خوشابي رضي اللہ عنہ
حضرت مولوي غلام نبي صاحب خوشابي رضي اللہ عنہ قبول احمديت سے قبل ايک متقي اور پرہيزگار ہونے کے علاوہ ايک جيد عالم دين بھي تھے۔ جولائی 1891ء ميں حضرت مسيح موعود عليہ السلام اہل حديث علماء کے ساتھ مباحثہ کي غرض سے لدھيانہ تشريف لے گئے تھے۔ جہاں پہلے 7؍جولائي کو مولوي محمد حسين صاحب بٹالوي کے شاگرد اور مولوي ثناء اللہ صاحب امرتسري کے استاد مولوي احمد اللہ صاحب سے تحريري مناظرہ تجويز ہوا جو بوجوہ منعقدنہ ہوسکا البتہ مولوي احمد اللہ کي جماعت کے چند افراد حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي بيعت کر کے سلسلہ احمديہ ميں داخل ہو گئے۔ اس واقعہ کے بعد 20؍ جولائي کو مولوي محمد حسين صاحب بٹالوي کے ساتھ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کا تحريري مباحثہ ہوا تھا۔ اس مباحثے کے دوران اور بعد ميں حضرت مولوي محمد اسماعيل صاحبؓ، حضرت مولوي عنايت اللہ صاحبؓ، حضرت مولوي نظام الدين صاحبؓ اور حضرت مولوي غلام نبي صاحب خوشابي رضي اللہ عنہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي بيعت کر کے سلسلہ احمديہ ميں شامل ہو گئے۔ (ماخوذ ازحيات طيبہ از شیخ عبد القادر صاحب (سابق سوداگرمل)، صفحہ 105تا115)
حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے جليل القدر صحابي حضرت صاحبزادہ پير سراج الحق نعمانيؓ حضرت مولوي غلام نبي صاحب خوشابي رضي اللہ عنہ کے قبول احمديت کاواقعہ بيان کرتے ہوئے تحرير فرماتے ہيں: ’’الغرض لودھيانہ شہر ميں مولوي غلام نبي صاحب خوشابي کي دھوم مچ گئي اور جا بجا ان کے علم و فضل کا چرچا ہو نے لگا….۔
ايک روز اتفاق سے اسي محلہ ميں کہ جس محلہ ميں حضرتؑ تشريف فرما تھے مولوي(غلام نبي خوشابي)صاحب کا وعظ تھا۔ ہزاروں آدمي جمع تھے اوراس وعظ ميں انہيں جتنا علم تھا وہ سب ختم کر ديا اور لوگوں کے تحسين و آفرين کے نعرے لگنے لگے۔ اور مرحبا، صلِّ عليٰ کا چارو ں طرف سے شور اٹھا۔ اس وعظ ميں لدھيانہ کے تمام مولوي موجود تھے اور ان کے حسن بيان اور علم کي بار بار داد ديتے تھے اور مولوي محمد حسن اور مولوي شاہ دين اور مولوي عبد العزيز اور مولوي محمد اور مولوي عبداللہ اور دو چار اور مولوي جو بيرون جات سے مولوي غلام نبي صاحب کے علم کي شہرت اور علمي لياقت اور خداداد قابليت کو ديکھنے کے شوق ميں آئےہوئے تھے، حاضر تھے۔ کيونکہ يہ خاص وعظ تھا، يہ سب نعرے اور شور ہمارے کانو ں تک پہنچ رہا تھا اور ہم پانچ چارآدمي چپکے چپکے بيٹھے تھے اور دل اندر سے کڑھتا تھا اور کچھ ہمارا بس نہ چلتا تھا۔ حضرت اقدس عليہ السلام زنانہ ميں تھے اور کتاب’ ازالہ اوہام‘ کا مسودہ تيار کر رہے تھے۔ مولوي صاحب وعظ کہہ کر اور پوري مخالفت کا زور لگا کر چلے اور ساتھ ساتھ ايک جم غفير اور مولوي صاحبان تھے اور ادھر سے حضرت اقدس عليہ السلام زنانہ مکان سے باہر مردانہ مکان ميں جانے کے لیے نکلے تو مولوي صاحب سے مڈھ بھڑ ہو گئي اور خود حضرت اقدس عليہ الصلوٰة والسلام نے السلام عليکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھايا اور مولوي صاحب نے وعليکم السلام جواب ميں کہہ کر مصافحہ کيا۔ خدا جانے اس مصافحہ ميں کيا برقي قوت تھي اور کيسي مقناطيسي طاقت، کيا روحاني کشش تھي کہ يد اللہ سے ہاتھ ملاتے ہي مولوي صاحب ايسے از خود رفتہ ہوئے کہ کچھ چون وچرا نہ کر سکے اور سيدھے ہاتھ ميں ہاتھ ديئے حضرت اقدس عليہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ مردانہ مکان ميں چلے آئے اور حضرت اقدس عليہ السلام کے سامنے دو زانوبيٹھ گئے …..۔
مولوي صاحب: حضرت! آپؑ نے وفات مسيحؑ کا مسئلہ کہاں سے ليا ہے۔ حضرت اقدس: قرآن شريف سے اور حديث شريف سے اور علماء ربانيين کے اقوال سے۔ مولوي صاحب: کوئی آيت قرآن مجيد ميں وفات مسيح کے بارہ ميں ہو تو بتلايئے۔ حضرت اقدس: لو يہ قرآن شريف رکھا ہے۔ آپؑ نے قرآن شريف دو جگہ سے کھول کر اور نشان کاغذ رکھ کر مولوي صاحب کے ہاتھ ميں ديا۔ ايک مقام تو سورة آل عمران يعني تيسرے پارہ کا تيسرا پاؤ، دوسرا مقام سورة مائدہ کا آخري رکوع جو ساتويں پارہ ميں ہے۔ اول ميں آيت:
يٰعِيْسٰيۤ اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ
اور دوسرے ميں:
فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْہِمْ
تھا۔ مولوي صاحب دونوں مقاموں کي دونوں آیتیں ديکھ کر حيران اور ششدر رہ گئے اور کہنے لگے:
يُوَفِّيْہِمْ اُجُوْرَہُمْ
بھي تو قرآن شريف ميں ہے۔ اس کے کيا معني ہو ں گے۔ حضرت اقدس: ان آيتوں کے جو ہم نے پيش کي ہيں اُن کے اَور معني ہيں اور جو آيتيں آپ نے پيش کي ہيں ان کے اَور معني ہيں۔ بات يہ ہے کہ يہ اَور باب ہے اور وہ اَور باب ہے، ذرا غور کريں اور سوچيں۔ مولوي صاحب دو چار منٹ سوچ کر کہنے لگے: معاف فرمايئے! ميري غلطي تھي جو آپؑ نے فرمايا وہ صحيح ہے، قرآن مجيدآپؑ کے ساتھ ہے۔ حضرت اقدس عليہ السلام نے فرمايا: ’جب قرآن مجيد ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کے ساتھ ہيں ‘۔ مولوي صاحب رو پڑے اور آنکھوں سے آنسو جاري ہو گئے۔ اور ہچکي بندھ گئي اور عرض کيا کہ يہ خطا کار اور گناہگار بھي حضورؑ کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد مولوي صاحب روتے رہے اور سامنے مؤدب بيٹھے رہے۔
جب دير ہو گئي تو لوگوں نے فرياد کرني شروع کردي اور لگے آواز پر آواز دينے کہ جناب مولوي صاحب! باہر تشريف لايئے۔ مولوي صاحب نے ان کي ايک بات کا بھي جواب نہ ديا۔ جب زيادہ دير ہو ئي تو وہ بہت چلّائے۔ مولوي صاحب نے کہلا بھيجا کہ تم جاؤ، ميں نے حق ديکھ ليا اور حق پاليا۔ اب ميرا تم سے کچھ کام نہيں۔ تم اگر چاہواور اپنا ايمان سلامت رکھنا چاہتے ہو توآجاؤ اور تائب ہو کر اللہ تعا ليٰ سے سرخرو ہو جاؤ اور اس امام کو مان لو۔
ياد گار لمحات اور تاريخي الفاظ
ميں اس امام صادق سے کس طرح الگ ہو سکتا ہو ں جو اللہ تعا ليٰ کا موعود اور آنحضرتؐ کا موعود ہے۔ جس کوآنحضرتؐ نے سلام بھيجا چنانچہ وہ حديث شريف يہ ہے:
مَنْ اَدْرَکَ مِنْکُمْ عِيْسَي ابْنَ مَرْيَمَ فَلْيَقْرَائہُ مِنِّي السَّلاَمَ۔
مولوي صاحب يہ حديث پڑھ کر حضرت اقدسؑ کي طرف متوجہ ہو گئے اور آپؑ کے سامنے يہ حديث دوبارہ بڑے زور سے پڑھي اور عرض کيا کہ ميں اس وقت بموجب حکم آنحضرتﷺ، آنحضرتؐ کا سلام کہتا ہو ں۔ اور ميں بھي اپني طرف سے اس حيثيت کا جو سلام کہنے والے نے سلام کہا اور جس کو جس حيثيت سے کہا گيا، سلام کہتا ہو ں۔ حضرت اقدس عليہ السلام نے اس وقت ايک عجيب لہجہ ميں اور عجيب آواز سے وعليکم السلام فرمايا کہ دل سننے کي تاب نہ لائے اور مولوي صاحب مرغ بسمل کي طرح تڑپنے لگے۔ اس وقت حضرت اقدسؑ کے چہرہ مبارک کا بھي اَور ہي نقشہ تھاجس کو ميں پورے طور سے تحرير ميں بيان نہيں کر سکتا۔ حاضرين و سامعين کا بھي عجيب سرور سے پُر حال تھا۔ پھر مولوي صاحب نے کہا کہ اوليا ء و علماء امت نے سلام کہلا بھيجا اور اس کے انتظار ميں چل بسے۔ آج اللہ تعا ليٰ کا نوشتہ اور وعدہ پورا ہو ا، يہ غلام نبي اس کو کيسے چھوڑے، يہ مسيح موعودؑ ہيں اور يہي امام مہدي موعود ہيں۔ يہي ہيں وہ، يہي ہيں وہ، اور مسيح ابن مريمؑ موسوي مر گئے، مر گئے، مر گئے، بلا شک مر گئے وہ نہيں آئيں گے، آنے والےآگئے، آگئے، آگئے، بے شک و شبہ آگئے۔ ‘‘(بحوالہ حيا ت طيبہ از شیخ عبد القادر صاحب (سابق سوداگرمل)، صفحہ 106تا 109)
( 2) حضرت مولوي رحيم اللہ صاحب لاہوري رضي اللہ عنہ
لاہور ميں حضرت مسيح موعود عليہ السلام پر سب سے پہلے ايمان لانے کا فخر حضرت مولوي رحيم اللہ صاحب رضي اللہ عنہ کو حاصل ہے۔ حضرت مولوي صاحبؓ موصوف مسجد کوچہ سيٹھاں بالمقابل تالاب آب رساني لنگے منڈي بازار کے امام الصلوٰة تھے۔ آپؓ کي پيدائش اندازاً 1823ء1824ء کي ہے۔ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے دعويٰ کے ابتدائي ايام ميں بيعت کي توفيق و سعادت پائي اور آپؓ کي وفات 1893ء يا 1894ء ميں ہوئي تھي۔
پا پيادہ قاديان جا کرنبي کريمؐ کا سلام پہنچانا
حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے جب بيعت لينے کا اعلان فرمايا تو حضورؑ کے ساتھ عقيدت رکھنے کي وجہ سے بيعت پرآمادہ ہو گئے۔ مگر بيعت کرنے سے قبل پرانے وفات يافتہ بزرگوں کے مزاروں پر جا کر کشف القبور کے ذريعہ حضرت اقدسؑ کي صداقت دريافت کي۔ ان کي تصديق پر فوراً قاديان جاکر بيعت کر لي۔ حضرت مياں عبد الرشيد صاحب ابن حضرت مياں چراغ دين صاحبؓ کي بيان کردہ روايت کے مطابق جب حضرت مولوي صاحبؓ کو حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے دعويٰ کا علم ہوا تو آپ پا پيادہ قاديان پہنچے اور جا کرآنحضرتؐ کا سلام پہنچايا۔ (ماخوذازلاہور تاريخ احمديت از شیخ عبد القادر صاحب (سابق سوداگرمل)، صفحہ 81تا 83)
رجسٹر بيعت ميں 26؍اگست 1891ء کي تاريخ ميں حضرت مولوي صاحبؓ کي بيعت کا يہ ا ندراج پايا جاتا ہے: ’’مولوي رحيم اللہ صاحب ولد حبيب اللہ صاحب قوم راجپوت ساکن لاہور محلہ لنگے منڈي پيشہ وعظ‘‘۔ ( اصحاب احمد، جلد اول حصہ اول صفحہ 63)
حضرت مسيح موعود عليہ السلام جب جنوري 1892ء کے تيسرے ہفتے ميں لاہور تشريف لے گئے تھے تو قيام لاہور کے دوران حضور عليہ السلام حضرت مولوي رحيم اللہ صاحبؓ کي مسجد واقع لنگے منڈي ميں نمازيں ادا فرماتے تھے۔ (حيا ت طيبہ از شیخ عبد القادر صاحب (سابق سوداگرمل)، صفحہ141)
حضرت مولوي رحيم اللہ صاحبؓ نے پہلے جلسہ سالانہ منعقدہ دسمبر 1891ء اور دوسرے جلسہ سالانہ منعقدہ 1892ء ميں شرکت کي سعادت و توفيق بھي پائی۔ (اصحاب احمد، جلد اول حصہ اول صفحہ 68 تا 71)
حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اپني تصنيف ’’آئينہ کمالات اسلام ‘‘ ميں جلسہ سالانہ 1892ء ميں شامل ہونے والو ں کي فہرست ميں حضرت مولوي رحيم اللہ صاحبؓ کا نام بھي درج فرمايا ہے اور ساتھ ’’لنگے منڈي لاہور‘‘ لکھا ہے۔ ’’انجام آتھم ‘‘کے ضميمہ ميں جو 313 اصحاب کي فہرست درج ہے اس ميں آپؓ کے نام کے ساتھ حضورؑ نے مرحوم لکھا ہے۔ اس سے بھي ظاہر ہے کہ ’’انجام آتھم ‘‘ کي تصنيف سے قبل آپؓ وفات پا چکے تھے۔ 313 اصحابؓ کي فہرست ميں آپ کا نام 132 پر درج ہے۔ ( لاہور تاريخ احمديت از شیخ عبد القادر صاحب (سابق سوداگرمل)، صفحہ82)
خدا رحمت کنند ايں عاشقانِ پاک طينت را
وَ اۤخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ، وَ صَلّي اللّٰہ تَعَا ليٰ عَليٰ حَبِيْبِہِ الْکَرِيْمِ۔