نظامِ شوریٰ (قسط نمبر4)
از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
مشورہ دیتے وقت کن امور کا خیال رکھا جائے
’’(۱) ہم لوگ یہاں کسی دنیاوی بادشاہت اور حکومت کی تلاش کے لئے جمع نہیں ہوئے، نہ عہدوں کے لئے اور نہ شہرت کے لئے آئے ہیں ہم میں سے اکثر وہ ہیں جن کا آنا ان کے لئے مشکلات بھی رکھتا ہے۔ مخالف ان پر ہنسی اڑاتے اور اعتراض کرتے ہیں۔ پس ان کا یہاں آنا خدا کے لئے ہے اس لئے ضروری ہے کہ سب احباب ان نصائح پر عمل کریں۔ اپنے عمل کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ اور دعائیں کریں، اخلاص سے مشورہ دیں، درد کے ساتھ مشورہ دیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مشورہ میں برکت ڈالے۔
(۲) دعا بغیر عمل کے قبول نہیں ہوتی جب تک انسان اس کے لئے سامان نہ کرے۔ اگر انسان کو خواہش ہوتی ہے تو سامان کرتاہے اگر سامان نہیں کرتا تو دعا کرنا غلط ہے۔ یہ دھوکا ہے کہ خدا سے اس بات کی دعا مانگی جائے جس کے لئے خود کچھ تیاری نہ کی جائے اور ظاہر نہ کیا جائے کہ جس کام میں خدا سے دعا مانگتا ہے اس کا محتاج ہے۔
(۳) جو لوگ مشورہ کے لئے اٹھیں یہ نیت کریں کہ جو بات وہ کہتے ہیں وہ دین کے لئے مفید ہو گی یا یہ کہ جس بات کے لئے مشورہ کیا جاتا ہے کون سی بات دین کے لئے مفید ہو گی۔
(۴) جو مشورہ دیں وہ آپ کا ہو کسی کی خاطر مشورہ نہ دیں۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مشاورت بھی ہو اور آپ مشورہ طلب کریں تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے علم کے مطابق مشورہ دیں۔ ہاں آپؐ کو یہ حق تھا کہ ہمارے مشورہ کو ردّ کر دیں۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی مشورہ دیا جا سکتا ہے تو خلیفہ کی مجلس میں بدرجہ اولیٰ دیا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک جو سچے طور پر خلیفہ ہے اس کا فرض ہے کہ وہ مشورہ سنے اور جو بات خواہ وہ کسی کی ہو اس کو قبول کرے۔ یہ نہیں کہ وہ پہلے سے فیصلہ کرے کہ یونہی کرنا ہے بلکہ اس کی یہ حالت ہونی چاہئے کہ وہ اس ارادے سے بیٹھے کہ جو مشورہ ہو گا وہ درست ہو گا۔ اگر درست ہو تو مان لے ورنہ ردّ کر دے۔ جب تک یہ حالت نہ ہو خطرہ ہے کہ لوگوں میں منافقت پیدا ہو جائے۔ خلیفہ کی رائے کے لئے رائے دینا اس سے غداری ہے اور خدا سے بھی غداری ہے۔
(۵) حکمتوں کے ماتحت رائے نہ دیں کہ اگر اس رائے کو مان لیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا بلکہ یہ بتائیں کہ اس کا نتیجہ اِس وقت کیا ہو گا۔ بعض لوگ ایک کام کو مفید سمجھتے ہیں مگر اس کی مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ فلاں شخص اس کام کا انچارج ہو گا گو کام مفید ہے لیکن وہ شخص درست نہیں ان کے ذہن میں اس لئے وہ اس کام کی ہی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ یہ درست نہیں۔ بجائے اس کے چاہئے یہ کہ وہ اس کام کی تائید کریں اگر مفید ہے۔ اور جب انچارج کا سوال پیدا ہو تو اس کی مخالفت کریں۔
(۶) جو بات بھی سچی معلوم ہو اس کو قبول کرنا چاہئے خواہ دشمن کی طرف سے ہو۔
(۷) کبھی رائے قائم کرتے ہوئے جلد بازی نہ کرنا چاہئے۔ رائے دینے سے پہلے بات کے مَالَہٗ اور مَاعَلَیْہِ پر غور کر لینا چاہئے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھو کہ جو تم بول رہے ہو وہ درست ہے۔ یہ مت سمجھو چونکہ دوسرے کہتے ہیں اس لئے درست ہے۔ سوچنے کے یہ معنے نہیں کہ دوسروں کی بات کا موازنہ نہ کرو۔
(۸) جب رائے قائم کرو تو یہ مت خیال کرو کہ جو تم نے رائے قائم کی ہے وہ بے خطا ہے۔ بہت لوگ ہوتے ہیں جو اپنی رائے پر ہی عمل کرنا اور کرانا چاہتے ہیں یہ غلط ہے۔ اگر ان کی رائے کے خلاف فیصلہ ہو تو چاہئے کہ اپنی رائے کو قربان کر دیں۔
(۹) ہمیشہ واقعات کو مدنظررکھیں احساسات کو مدنظر نہ رکھیں۔ بعض لوگ ہوشیار ہوتے ہیں کہ سنجیدہ معاملات میں بھی احساسات کو ابھار کر واقعات پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔
(۱۰) بعض دفعہ دین و دنیا ٹکرا جاتے ہیں ایسی حالت میں دنیا کو قربان کر دینا چاہئے۔
(۱۱) ہمیشہ یہی خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری تجاویز غلط نہ ہوں بلکہ چاہئے یہ کہ سوچا جائے کہ نہ صرف یہ کہ ہماری تجاویز غلط نہ ہوں بلکہ یہ کہ ہماری تجاویز ان سے بڑھی ہوئی ہوں جن سے مقابلہ ہے۔ بخارا کے علماء کے متعلق آتا ہے کہ جب روس نے ان پر چڑھائی کی تو وہ اپنے تیرو تفنگ لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے گئے اور خیال کیا کہ ان ہتھیاروں سے دشمن کا مقابلہ کر لیں گے۔ مگر جب دشمن نے توپوں سے کام لیا تو علماء سحر سحر کہتے ہوئے پیچھے کو دَوڑے۔ پس نہ صر ف یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری تجاویز درست ہیں بلکہ یہ بھی کہ اس کے مقابلہ میں بڑھی رہیں۔
(۱۲) رائے دیتے ہوئے اس قسم کے معاملات پر بحث کرنا کہ اس کے لئے مثلاً پانچ سَو روپیہ کی ضرورت ہے یا سَوا پانچ سَو کی، اس پر بحث کرنا درست نہیں ڈاکٹر دوائی دیتے ہیں۔ ایک دوائی تجویز کرے کہ ایک گرین دینی چاہئے اور دوسرا ڈاکٹر سَوا گرین۔ اور اس پر بحث کریں تو ان کی یہ بحث لاحاصل ہو گی۔ کیونکہ کوئی ایسا پیمانہ نہیں جو بتا سکے کہ ایک اور سَوا گرین میں سے کسی بیماری کی حالت میں کتنی مفید ہو گی۔ بہر حال دونوں میں سے ایک کی رائے اور قیاس کو تسلیم کرنا چاہئے۔
(۱۳) سوائے نئی بات بیان کرنے کے محض کسی ایک بات کے دہرانے کے لئے کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے وقت ضائع ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ طرزِ بیان کا اثر ہوتا ہے لیکن رائے دینے میں تکرارِ دلائل سے احتراز کریں۔
(۱۴) یہ خیال کہ مکمل طریق پر کام ہو غلط ہے بعض باتیں رہ جاتی ہیں اس لئے ہمیشہ ان باتوں کو لینا چاہئے جن کا بیان کرنا ضروری ہے۔‘‘
( خطاب31مارچ 1923ء خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ48-51)
رائے دینے کا ظاہری طریق
’’بولنے کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو پہلے کھڑا ہو وہ پہلے بولے گا پھر دوسرا۔ اسی طرح ترتیب کے ساتھ ایک شخص کو مقرر کر دیا جائے گا کہ وہ دیکھتا رہے گا کہ کون پہلے کھڑا ہوتا ہے اسی کو اجازت پہلے بولنے کی ملے گی دوسرے کو بعد میں۔ اگر ایک ساتھ دو شخص کھڑے ہوں تو جس کو وہ کہے وہ بولے گا۔ یا اگر کوئی شخص پہلے کھڑا ہو مگر اس پر نگران کی نظر نہ پڑے بلکہ وہ بعد میں کھڑے ہونے والے کو پہلے خیال کرے تو ہمیں اس کی نظر کی اتباع کرنی ہو گی۔ کیونکہ وہ انسان ہے اور انسان ایک جیسا ہر وقت ہر طرف نہیں دیکھ سکتا۔ دو دفعہ سے زیادہ کسی شخص کو بولنے کی اجازت نہ ہو گی کیونکہ دو دفعہ میں ایک شخص اپنا مطلب بیان کرسکتا ہے اور سننے والے اس کے مَافِی الضمیرکو سمجھ سکتے ہیں۔‘‘
(خطاب31مارچ 1923ء خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ51)
مشورے کا طریق کیا ہونا چاہیے
’’ہماری جماعت کے لوگوں کوکھڑے ہونے اور بیٹھنے میں خاص آداب مدنظررکھنے چاہئیں جو ہماری جماعت سے مخصوص ہیں۔
اِس وقت ایک شخص کو اِس لئے مقرر کروں گا کہ وہ یہ دیکھ کر باری باری تقریر کرنے کی اجازت دے کہ کون پہلے کھڑا ہوا اور کون پیچھے۔ اگر اس کو دیکھنے میں غلطی لگے تو بھی جو فیصلہ وہ کرے گا وہ ماننا ہو گا۔
دوسرے مشورے دیتے وقت کوئی بات کسی کی تردید کے طور پر نہ ہو اور نہ اعتراض کے طور پر ہو کیونکہ یہ طریق محبت کو قطع کرتا ہے۔
تیسرے بار بار ایک بات کو بیان نہ کریں اگر نئی بات کوئی بیان کرنی ہو تو کریں۔ رائے دیتے وقت ہر ایک کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع مِل جائے گا۔ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک دوست ایک بات کی اچھی طرح وضاحت نہ کر سکے تو دوسرا کر دے۔ مگر اس سے تقریر کرنے کی اجازت دینے کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔
چوتھے جو شخص بولنے کے لئے کھڑا ہو وہ دعا کر کے کھڑا ہو۔ پہلی قومیں طاقت، اتحاد اور قوت میں کم نہ تھیں۔ وہ ہر بات میں ہم سے زیادہ تھیں مگر انہوں نے کیسی کیسی ٹھوکریں کھائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰؑ کی قوموں کا کیا حال ہوا۔ پھر دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے زمانے کے لوگوں کا کیاحال ہے۔ ان سے عبرت حاصل کرو اور قدم قدم پر دعا کرو۔ ان کی تباہی کی ایک ہی وجہ تھی کہ انہوں نے خدا کو چھوڑ دیا اور جب انہوں نے خدا کو چھوڑا تو خدا نے بھی ان کو چھوڑ دیا۔ ان کی عقلیں ماری گئیں اور وہ تباہی کے گڑھے میں جا گرے۔ اِس وقت چونکہ ہم ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے محافظ ہیں اس لئے ہماری ٹھوکر بہت خطرناک ہو گی۔ ہم آخری جماعت ہیں اِس لحاظ سے کہ آئندہ نبی ہم میں سے ہی ہوں گے۔ یا اس لحاظ سے کہ اب قیامت قریب ہے اس لئے ہماری ذمہ داری بہت بڑھی ہوئی ہے۔‘‘
( خطاب20مارچ 1924ء خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 91-92)
مجلسِ شوریٰ کے انعقاد کے بعض فوائد کا ذکر
’’میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوست جو اس مجلس شوریٰ میں تشریف لائے اور لاتے رہے ہیں، ان کی آہستہ آہستہ ایک قسم کی تربیت ہو رہی ہے۔ اور علاوہ ان فوائد کے جو ہم اس مجلس سے حاصل کرتے ہیں چونکہ احباب کو مشورہ دینے کا موقع ملتا ہے اس لئے ان کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ کا کیا طریق ہوتا ہے اور یہ بھی کہ خرچ کا اندازہ اور طریق معلوم ہوتا ہے۔ پھر بات سے بات نکالنا آتا ہے کیوں کہ بعض دفعہ تو بال کی کھال بھی نکالی جاتی ہے۔
پھر یہ بھی فائدہ ہے کہ اس موقع پر جو دوست ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں ان کی جان پہچان ہو جاتی ہے، یہ جلسہ پر نہیں ہو سکتا۔ کل شیخ یعقوب علی صاحب نے آپس میں تعارف کرایا ہے لیکن اس سے بھی عمدہ طریق پر یہ کام ہو سکتا ہے۔
پس مجلس شوریٰ کے اور فوائد کے علاوہ یہ بھی ہے کہ احباب کی تربیت اور تعلیم ہو۔ آپس میں تعلقات قائم ہوں۔ جو دوست یہاں یہ فوائد دیکھتے ہیں وہ دوسرو ں کو واقف کریں اور شوریٰ میں آنے کی ممکن سے ممکن اور زیادہ کوشش کریں۔ اب بھی سارے قائمقام نہیں آئے۔ 300 کے قریب انجمنیں ہیں۔ کم از کم تین سَو آنے چاہئیں۔ گو اب پہلے سے زیادتی ہے مگر ضرور یہ تحریک ہونی چاہئے کہ سب احباب آئیں۔ کیونکہ اس موقع پر بہت سے فوائد ایسے حاصل ہوتے ہیں جو سالانہ جلسہ پر نہیں ہوسکتے اور جوجلسہ کے فوائد ہیں وہ اِس وقت نہیں حاصل ہو سکتے اس لئے دونوں موقعوں پر آنا چاہئے۔‘‘
(خطاب22مارچ 1924ء خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 112-113)
(جاری ہے)
٭…٭…٭