الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

سیدنا حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن برائے مئی جون 2013ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرت کے بارے میں مکرم چودھری احمد علی صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

حضرت امام آخرالزمان علیہ السلام نے فرمایا:

چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امّت نورِ دیں بودے

ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نورِ یقیں بودے

حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنے دعویٰ ماموریت سے پہلے یہ دعا کیا کرتے تھے: ’’خدا تعالیٰ مجھے کوئی ایسا مدد گار عطا فرمائے جو میرا دست و بازو ہو کر کام کرسکے۔‘‘ چنانچہ جب حضرت مولانا حافظ حکیم نورالدینؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کیا تو انہیں دیکھتے ہی حضور علیہ السلام کے دل سے یہ صدا نکلی ’’ھذا دعائییعنی یہ مرد مومن میری دعاؤں کی قبولیت کا نتیجہ ہے۔‘‘

٭…حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدینؓ بھی کوئی معمولی اور عام آدمی نہ تھے بلکہ ایک علم دوست باپ کے بیٹے اور عاشق قرآن ماں کی گود کے پالے تھے۔ آپؓ نے اپنے والد ماجد کی علم دوستی کا واقعہ یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’میرے باپ کو اپنی اولاد کی تعلیم کا بہت شوق تھا۔مدن چند ایک ہندو عالم تھا ، وہ کوڑھی ہو گیا۔ لوگوں نے اسے باہر شہر سے الگ مکان بنا دیا۔ میرے باپ نے اس کے پاس میرے بڑے بھائی کو پڑھنے کے لیے بھیجا۔ لوگوں نے کہا، کیسا خوبصورت بچہ ہے؟ کیوں اس کی زندگی کو ہلاکت میں ڈالتے ہو؟ میرے باپ نے کہا :’’مدن چند جتنا علم پڑھ کر اگر میرا بیٹا کوڑھی ہوا تو پھر کچھ پروا نہیں۔‘‘

ایک اَور واقعہ اپنے والد کی علم دوستی کے ضمن میں یوں بیان فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ رحم فرمائے میرے باپ پر، انہوں نے مجھ کو اس وقت جب کہ میں تحصیل علم کے لیے پردیس جانے لگا، فرمایا: اتنی دور جاکر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے اور تم اس بات کی اپنی والدہ کو خبر نہ کرنا۔کیونکہ والدہ آپ سے اتنی محبت کرتی ہیں کہ وہ وطن سے باہر جانے کی اجازت ہر گز نہیں دیں گی۔ یقیناًجو لوگ اپنی اولاد کے حقیقی خیر خواہ ہوتے ہیں وہ جذبات کی قربانی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے کیونکہ اس قربانی کے پس پردہ انہیں وہ کچھ نظر آتا ہے جس سے دوسرے قطعاً بے خبر ہوتے ہیں۔‘‘

٭… اپنی والدہ ماجدہ کا بیان فرمودہ ایک علمی نکتہ یوں بیان فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ رحم فرمائے میری والدہ پر، انہوں نے اپنی زبان میں عجیب عجیب طرح کے نکاتِ قرآن مجید مجھ کو بتائے، ان میں سے ایک یوں ہے: ’تم اللہ تعالیٰ کی جس قسم کی فرمانبرداری کرو گے اسی قسم کے انعامات پاؤگے اور جس قسم کی نافرمانی کروگے اسی قسم کی سزا پاؤ گے۔ ھَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الِْاحْسَان‘۔

میری والدہ کو قرآن کریم پڑھانے کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے تیرہ برس کی عمر میں قرآن مجید پڑھانا شروع کیا۔ چنانچہ ان کا یہ اثر ہے کہ سب بہن بھائیوںکو قرآن کریم سے بڑا ہی شوق رہا۔میری ماں کبھی نماز قضا نہ کرتیں۔ قرآن مجید کا پڑھنا کبھی قضا نہ کیا بلکہ میں نے اپنی ماں کے پیٹ میں قرآن مجید سنا، پھر گود میں سنا، پھر ان ہی سے پڑھا۔‘‘

حضورؓ اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

1۔ میرے سامنے میرے ساتھ کھیلنے والے لڑکوں نے کبھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ مجھ کو دیکھ کر دُور سے آپس میں کہا کرتے تھے کہ یارو سنبھل کر بولنا۔

2۔ مَیں بچپن میں دریائے جہلم پر،جو ہمارے شہربھیرہ کے قریب ہے، جا کر تیرتا تھا۔

3۔مجھ کو اپنے سن تمیز سے بھی پہلے کتابوں کا شوق تھا۔ اس زمانے میں مفید کتابوں کے جمع کرنے کی بڑی کوشش کی۔

4۔ جب مَیں بچہ تھاتو تعجب کے ساتھ عربی کا ایک شعر پڑھا کرتا تھا جس میں قرآن کریم کی ایک آیت (یعنی البقرۃ:244) کا مضمون بیان ہوا ہے: ’’اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے رات کو بنایا تاکہ تم اس میں تسکین حاصل کرو اور دن کو دیکھنے کا ذریعہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر بہت ہی فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔‘‘

پس رات کے وقت بھی دنیا کے تفکرات کو نہ چھوڑنا فضول ہے۔ مومن کو چاہیے رات کو سکون کرے۔

٭… فرمایا: میں سفر میں جانے لگا تو ایک بزرگ کی بات یاد آئی جس نے کہا کہ ’’جس شہر میں جاؤ وہاں چار شخصوں یعنی ایک وہاں کے پولیس آفیسر، ایک طبیب، ایک اہل دل اور ایک امیر سے ضرور ملاقات رکھنا اور جس شہر میں چاروں نہ ہوں، وہاں جانا نہ چاہیے۔‘‘

٭… حضورؓ نے ایک طالبعلم کی ترغیب پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے رام پور جانے کا ارادہ کر لیا تھا۔ لاہور سے تین طالبعلموں کا مختصر سا قافلہ، ایک کو امیر بنا کر، پیدل عازم سفر ہوا اور صعوباتِ سفر برداشت کرتا ہوا کافی دنوں کے بعد رام پور پہنچا۔ وہاں کوئی واقفیت تو تھی نہیں۔ ایک ویران سی مسجد میں تینوں نے جا کر ڈیرا لگا لیا۔ایک سات آٹھ سال کی لڑکی دو دن صبح وشام کھانا لائی، تیسرے دن کھانا لاتے ہی کہا ’’میری ماں کہتی ہے کہ آپ دعا کریں ، میرا خاوند میری طرف توجہ کرے‘‘۔ آپؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے اس کے خاوند کے پاس پہنچ کر اپنی طاقت کے موافق اسے خوب سمجھایا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو رعائت سے بلایا اور مجھ کو جناب الٰہی کے حضور شکر کا موقع ملا۔‘‘

رامپور میں مناسب قیام اور حصول تعلیم کے انتظام کا ذکر یوں فرماتے ہیں : ’’شام کے قریب میں اکیلا پنجابیوں کے محلہ کی ایک گلی میں ہوکر گذرا۔ وہاں ایک شخص حافظ عبدالحق صاحب راستہ میں مجھے ملے۔ انہوں نے فرمایا۔ آپ میری مسجد میں آکر رہیں۔ میں نے کہا:میں اکیلا نہیں، ہم تین آدمی ہیں۔ انہوں نے تینوں کی ذمہ داری اٹھا لی۔ تب میں نے کہا: ہم پڑھنے آئے ہیں، یہ نہ ہو کہ لوگوں کے گھر سے روٹیاں مانگتے پھریں۔ انہوں نے کہا: ایسا نہ ہوگا۔ پھر میں نے کہا : ایسا نہ ہو کہ آپ اپنے محلہ کے لڑکے ہمارے سپرد کر دیں۔ انہوں نے کہا : یہ بھی نہ ہوگا۔ پھر میں نے کہا، ہم کو کتابوں اور استادوں کی فکر ہے۔ انہوں نے کہا ، میں مدد دوں گا۔ فجزاہ اللّٰہ خیرًا۔انہوں نے ایک سال اپنے معاہدہ پر بڑی عمدگی سے گزارا۔رحمہ اللہ تعالیٰ۔‘‘

٭… ایک دن بہت سے طالبعلم اکٹھے ہو کر آپس میں مباحثہ کر رہے تھے۔ جو سوال زیر بحث تھا۔ آپؓ نے جب اس پر غور کیا تو ذہن میں ایک ایسا جواب آیا، جسے آپ کافی سمجھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے بلند آواز سے کہا کہ میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں۔ اس پر آپ کی سادہ وضع قطع کو دیکھ کر بہت سے طالبعلموں نے یہ سمجھ کر کہ یہ کیا جواب دے گا، آپ کی ہنسی اڑائی۔ مگر پنجابی طالبعلموں نے کہا، جواب سن لینے میں کیا حرج ہے۔ جب وہ جواب سننے پر آمادہ ہو گئے تو آپ نے فرمایا: کسی مشہور نجومی کو حَکَم مقرر کرو۔چنانچہ ایک بزرگ مولوی غلام نبی صاحب حکَم مقرر کئے گئے۔انہوں نے جب آپ کا جواب سنا تو بہت خوش ہوئے اور آپ کو ’’مولوی‘‘ کے لفظ سے خطاب فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھ کو اپنے متعلق ’’مولوی جی‘‘ سننے سے بہت خوشی ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے ملا حسن، مشکوٰۃ ، اصول شاشی، شرح وقایہ، و دیگر کتب مختلف استادوں سے پڑھنا شروع کیں۔ یہ اس وقت کے بہت بڑے علمی خزائن تھے۔

٭… رامپور میں ایک بزرگ شاہ جی عبدالرزاق صاحب رہا کرتے تھے۔ آپؓ اکثر ان کے ہاں جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ چند دن وقفہ کے بعد گئے تو فرمایا کہ ’’نورالدین! آپ اتنے دن کہاں رہے؟‘‘ عرض کیا: حضرت! ہم طالبعلموں کو اپنے درس و تدریس کے اشغال سے فرصت نہیں ملتی۔ کچھ مجھ سے سستی بھی ہوئی۔ فرمایا:کبھی تم نے قصاب کی دکان بھی دیکھی ہے؟ عرض کیا، اکثر اتفاق ہوا ہے۔ فرمایا، تم نے دیکھا ہوگا کہ گوشت کاٹتے کاٹتے جب چھریاں کند ہو جاتی ہیں تو وہ ان کو تیز کرنے اور ان کی چربی اتارنے کے لیے انہیں آپس میں رگڑتا ہے۔ عرض کیا کہ حضرت اس سے آپ کا کیا مطلب؟ فرمایا: ’’بس یہی کہ عدم ملاقات سے کچھ غفلت تم پر طاری ہو جاتی ہے اور کچھ ہم پر۔ ملاقات کے موقعہ پر ہم پھر تیز ہو جاتے ہیں‘‘۔ ان کی اس بات نے مجھے بہت ہی بڑے فائدے پہنچائے اور ہمیشہ مجھ کو یہ خواہش رہی کہ نیک لوگوں کے پاس آدمی کو جا کر ضرور بیٹھنا چاہیے اس سے سستیاں دُور ہو جاتی ہیں۔

٭… حضورؓ نے 16جون1912ءکو لاہور میں دو پبلک لیکچر دیے۔ ان معر کہ آرا لیکچروں میں منکرینِ خلافت کے اعتراضات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ اسی روز تین بجے بعد دوپہر حضور لاہور سے امرتسر تشریف لائے اور بابو صفدر جنگ صاحب پنشنر کے مکان پر چند گھنٹے قیام رہا۔ جہاں آپ نے سورۃ العصر کی ایک لطیف تفسیر کی۔ اس سے اگلے روز احباب بٹالہ کے اصرار کی وجہ سے بٹالہ میں گذارا۔ بٹالہ میں بھی آپ نے ایک تقریر فرمائی جس میں قرآن کریم سیکھنے اور اس کی تبلیغ کی طرف توجہ دلائی۔ اس سے اگلی صبح 19جون1912ء کو قادیان واپس تشریف لائے اور باوجود سفر کی تکالیف کے درس کا سلسلہ پھر شروع فرما دیا کیونکہ یہی آپ کی روحانی غذا تھی۔ کیا خوب کہا سیف کشمیری نے:

چو داد درس کلام مجید صبح و شام

ہماری غذا وہماں شدہ طعام نورالدین

ترجمہ: صبح و شام اس طرح کلام مجید کا درس دیتے ہیں کہ یہی نورالدین کی غذا اور روٹی پانی ہے۔

٭… محترم ڈاکٹر عبیداللہ خان بٹالوی کا بیان ہے کہ قریشی عبدالمجید صاحب گجراتی فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ لاہور تشریف لائے۔ میرے والد صاحب، مَیں اورمحمد خان صاحب آپ کے درس میں شامل ہوا کرتے تھے۔ ایک دن دونوں نے انارکلی میں جاتے ہوئے کہا کہ پتا نہیں حضرت مولوی صاحب درس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ اگرچہ کسی نے اس بات چیت کا ذکر حضورؓ سے نہیں کیا۔ لیکن دوسرے دن ہی حضورؓ نے دورانِ درس فرمایا: ’’بھیرہ میں نور الدین کے کچھ مکانات تھے اور کچھ زمین۔ اسے یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ مکانات کس کے پاس ہیں؟ موجود بھی ہیں یا گر گئے ہیں اور زمین کے متعلق بھی علم نہیں کہ کس کے استعمال میں ہے؟کیا اس کے بعد یہ کہنا بجا ہے کہ میں مرزا صاحب کا ذکر نہیں کرتا؟ میرا تو سب کچھ ہی مرزا صاحب کا ہے۔‘‘

٭… احمدیہ بلڈنگ لاہور میں خلافت کے موضوع پر آپؓ کی معرکہ آرا تقریر جو 17,16جون 1912ء کو تھی جس میں منکرینِ خلافت کے ہر اعتراض کا مکمل اور مدلّل جواب دیا گیا ہے۔اس تقریر کے بعض اہم نکات درج ذیل ہیں:

1۔ تم کو بھی خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد میرے ہاتھ پر تفرقہ سے بچایا۔ اس نعمت کی قدر کرو، نکمی بحثوں میں نہ پڑو۔ میں نے دیکھا ہے کہ آج بھی کسی نے کہا کہ خلافت کے متعلق بڑا اختلاف ہے۔ حق کس کا تھا اور دی گئی کسی کو۔ میں نے کہا ، کسی رافضی سے جا کر کہہ دو کہ علی ؓکا حق تھا، ابوبکرؓ نے لے لیا۔

2۔مَیں نہیں سمجھتا کہ اس قسم کی بحثوں سے تمہیں کیا اخلاقی یا روحانی فائدہ پہنچتا ہے۔ جس کو خدا تعالیٰ نے چاہا ، خلیفہ بنادیا اور تمہاری گردنیں اس کے سامنے جھکا دیں۔ خدا تعالیٰ کے فعل کے بعد بھی تم اس پر اعتراض کرو تو سخت حماقت ہے۔ میں نے تمہیں بار بار کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں، بلکہ خدا کا کام ہے۔ آدم کو خلیفہ بنایا کس نے؟ اللہ تعالیٰ نے۔ اس خلافت آدم پر فرشتوں نے اعتراض کیاکہ حضور وہ مفسد فی الارض اور مفسک الدم ہوگا۔ مگر انہوں نے اعتراض کر کے کیا پھل پایا؟

3۔ تم قرآن مجید میں پڑھ لو کہ آخر انہیں آدم کے لیے سجدہ کرنا پڑا۔ پس کوئی مجھ پر اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو میں اسے کہہ دوں گا کہ آدم کی خلافت کے سامنے مسجود ہو جاؤ تو بہتر۔ اور اگر وہ ابیٰ اور استکبار کو اپنا شعار بنا کر ابلیس بنتا ہے تو پھر یاد رکھے کہ ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا؟ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر و عمر ؓ کو خلیفہ بنایا۔ رافضی اس خلافت کا ماتم کر رہے ہیں۔ مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ کروڑوں انسان ہیں جو ابوبکر و عمر ؓ پر درود پڑھتے ہیں۔مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے۔

٭… حضرت مولوی شیر علی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ راولپنڈی سے ایک غیرازجماعت آئے جو اچھے متموّل آدمی تھے اور انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے درخواست کی کہ میرا ایک بیمار ہے۔ حضور مولوی حکیم نورالدین کو اجازت دیں کہ آپ میرے ساتھ راولپنڈی تشریف لے چلیں اور اس کا علاج کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ’’ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم مولوی صاحب کو یہ کہیں کہ آگ میں گھس جاؤ یا پانی میں کود جاؤ تو اُن کوکوئی عذر نہیں ہوگا۔ لیکن ہمیں بھی تو مولوی صاحب کے آرام کا خیال چاہئے۔ ان کے گھر میں آج کل میں بچہ ہونے والا ہے۔ اس لیے مَیں ان کو راولپنڈی جانے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔‘‘

حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بیان کر تے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد حضرت حکیم مولوی نورالدین ؓ حضور علیہ السلام کا یہ فقرہ بیان کرتے تھے اور اس بات پر خوش ہوتے تھے کہ حضرت صاحب نے مجھ پر اس درجہ اعتماد ظاہر کیا ہے۔

٭… یہی واقعہ مکرم ماسٹر اللہ دتہ سیالکوٹی یوں بیان کرتے ہیں کہ 1900ء یا 1901ء کا واقعہ ہے کہ میں دارالامان میں موجود تھا ان دنوں ایک نواب صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں علاج کے لیے آئے ہوئے تھے، جن کے لیے ایک الگ مکان تھا، ایک دن نواب صاحب کے اہلکار (ایک مسلمان اور ایک سکھ) حضرت مولوی صاحب کے پاس آئے اور عرض کیا کہ نواب صاحب کے علاقہ میں لاٹ صاحب آنے والے ہیں (ان دنوں وائسرائے ہندکو لاٹ صاحب کہا جاتا تھا) آپ ان لوگوں کے تعلقات کو جانتے ہیں۔ اس لیے نواب صاحب کا منشا ہے کہ آپ ان کے ہمراہ وہاں تشریف لے چلیں۔حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ مَیں اپنی جان کا مالک نہیں۔ میرا ایک آقا ہے۔ اگر وہ مجھے بھیج دے تو مجھے کیا انکار ہے۔ پھر ظہر کے وقت وہ اہلکار مسجد میں بیٹھ گئے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ حضورؑ نے فرمایا: ’’اس میں شک نہیں کہ اگر مولوی صاحب کو ہم آگ میں کودنے یا پانی میں چھلانگ لگانے کے لیے کہیں تو وہ انکار نہ کریں گے۔ لیکن مولوی صاحب کے وجود سے ہزاروں لوگوں کو ہر وقت فیض پہنچتا ہے۔ قرآن و حدیث کادرس دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں بیماروں کا ہر روز علاج کرتے ہیں۔ ایک دنیا داری کے کام کے لیے ہم اتنا فیض بند نہیں کرسکتے۔‘‘

اس دن جب عصر کے بعد حضرت مولوی صاحب درس قرآن شریف دینے لگے تو خوشی کی وجہ سے منہ سے الفاظ نہ نکلتے تھے۔ فرمایا: مجھے آج اس قدر خوشی ہے کہ بولنا محال ہے اور وہ یہ کہ میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہو جائے۔ آج میرے لیے کس قدر خوشی کا مقام ہے۔ میرے آقا نے میری نسبت اس قسم کا خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبو دیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کرے گا۔

٭… حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے جس قدر آدمی ہیں سب کو حضور علیہ السلام سے اپنے اپنے طریق پر محبت تھی مگر جس قدر محبت حضورؑ سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو تھی اس کی نظیر تلاش کرنی مشکل ہے چنانچہ ایک دن میں حضرت مولوی صاحب کے پاس بیٹھا تھا وہاں ذکر ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کردینے کے لیے فرمایامگر وہ دوست راضی نہ ہوا۔ اتفاقاً آپؓ کی بیٹی امۃالحیٔ صاحبہ جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں، کھیلتی ہوئی سامنے آ گئیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ بڑے جوش سے فرمانے لگے کہ مجھے تو اگر مرزا کہے کہ اپنی لڑکی نہالی (مہترانی) کے لڑکے کو دے دو تو میں بغیر کسی انقباض کے فوراً دے دوں گا۔

یہ کلمہ انتہائی عشق و محبت کا ہے۔ مگر نتیجہ دیکھو کہ بالآخر وہی لڑکی حضور علیہ السلام کی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی جو حضرت مسیح موعودؑ کا حسن و احسان میں نظیر ہے۔

٭… حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’جن دنوں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار تھا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ کو اُن کے دیکھنے کے لیے گھر میں بلایا۔ اس وقت حضور علیہ السلام صحن میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ بھی نہیں تھا۔ مولوی صاحب آتے ہی آپؑ کی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے۔ حضرت نے فرمایا: مولوی صاحب چارپائی پر بیٹھیں۔ مولوی صاحب نے عرض کیا: حضور مَیں بیٹھا ہوں اور کچھ اونچے ہو گئے اور ہاتھ چارپائی پر رکھ لیا۔ مگر حضرت صاحبؑ نے دوبارہ یہی فرمایا تو مولوی صاحب اٹھ کر چارپائی کے ایک کنارہ پر پائینتی کے اوپر بیٹھ گئے‘‘۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے اس روایت کے نیچے نوٹ ان الفاظ میں درج کیا ہے کہ ’’مولوی صاحب میں اطاعت اور ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا۔‘‘

غرض آپ کی زندگی فدائیت کے واقعات سے معمور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی حیات کا لمحہ لمحہ سلسلۂ حقہبھی کے لیے وقف تھا۔ آپ عموماً سارا دن ایک نمدے کے اوپر بیٹھے رہتے تھے۔ آگے ایک ڈیسک ہوتا تھا اس پر بیٹھ کر طلب علم کرتے۔ اس پر بیٹھے بیٹھے قرآن و حدیث اور طب پڑھاتے تھے اور بعض دفعہ کھانا بھی وہیں منگوا لیتے تھے۔

٭… محترم شیخ عبداللطیف صاحب بٹالوی فرمایا کرتے تھے کہ جب میں قادیان جاتا تھا تو اکثر سارا سارا دن آپ کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ عصر کی نماز کے بعد آپ مسجد اقصیٰ میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ ایک دن درس سے واپس آتے ہوئے مہندئے ڈپٹی صاحب کے مکان (جہاں اب صدر انجمن کے دفاتر ہیں)کے پاس مجھے بازو سے پکڑ کر فرمایا کہ عبداللطیف تم وہ وقت دیکھو گے کہ جب تم خلیفہ کو دیکھنے کے لیے ترسا کرو گے۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں ، اس وقت تو میں آپ کی بات کا مطلب نہ سمجھا۔ لیکن اب جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو دیکھنے کے لیے ترسنے لگے ہیں، تو بات سمجھ میں آئی ہے۔

قارئین کرام! اگر شیخ عبداللطیف صاحب مرحوم آج زندہ ہوتے تو اس قول کی صداقت کو یوں دیکھتے کہ اب خلیفہ کو دیکھنے کے لیے سالوں گزر جاتے ہیں۔ اب تک جماعت بفضلہ تعالیٰ اتنی تعداد میں ہے کہ ملاقات کے لیے پیشگی وقت لیا جاتا ہے اور خلیفۂ وقت جس ملک کے دورہ کے لیے تشریف لے جاتے ہیں وہاں کے احمدیوں کا جلسوں ہی میں زیارت ہوجانا غنیمت سمجھا جاتا ہے۔

٭… مکرم حکیم محمد صدیق صاحب آف میانی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مطب میں بیٹھے تھے۔ ارد گرد لوگوں کا حلقہ تھا۔ ایک شخص نے آکر کہا کہ مولوی صاحب ! حضور یاد فرماتے ہیں۔ یہ سنتے ہی اس طرح گھبراہٹ سے اٹھے کہ پگڑی باندھتے جاتے تھے اور جوتا گھسیٹتے جاتے تھے تاکہ حضور کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔

آپ کے اپنے آقا و مطاع کے عشق کا یہ عالم تھا کہ جب خلیفہ ہو گئے تو اکثر فرمایا کرتے تھے۔ تم جانتے ہو نور الدین کا یہاں ایک معشوق ہوتا تھا۔ نورالدین اس کے پیچھے یوں دیوانہ وار پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

………٭………٭………٭………

خلافت احمدیہ کا تعلق باللہ

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً مَیں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے‘‘۔

حضرت سلیمانؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بڑے حیا واالا، بڑا کریم اور سخی ہے۔ جب بندہ اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ اُن کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد ہے: ’’یاد رہے کہ خدا کے بندوں کی مقبولیت پہچاننے کے لیے دعا کا قبول ہونا بھی ایک بڑا نشان ہوتا ہے بلکہ استجابتِ دعا کی مانند اَور کوئی بھی نشان نہیں کیونکہ استجابتِ دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بندہ کو جناب الٰہی میں قدر اور عزت ہے۔ اگرچہ دعا کا قبول ہوجانا ہر جگہ لازمی امر نہیں، کبھی کبھی خدائے عزوجل اپنی مرضی بھی اختیار کرتا ہے لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ مقبولین حضرت عزت کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے کثرت سے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کوئی استجابتِ دعا کے مرتبہ میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔‘‘ (حقیقۃالوحی صفحہ 334)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ14؍مارچ2013ءمیں شامل اشاعت مکرم فہیم احمد ناگی صاحب کے مضمون میں خلیفہ وقت کی قبولیتِ دعا کا ایک عظیم الشان نشان بیان کیا گیاہے۔

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ غالباً مارچ 1984ء میں مکرم محمد عثمان چوچنگ شی صاحب کے ارشاد پر میرے بڑے بھائی مکرم مقبول احمد ناگی صاحب چین سے آئے ہوئے ایک سرکاری وفد کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے ملانے کے لیے ربوہ گئے۔ حضورؒ سے وفد کی پچپن منٹ کی ملاقات میں حضورؒ نے خداتعالیٰ کی ہستی اور قرآن کریم کی روشنی میں ارتقاء کے فلسفے پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس ملاقات کا وفد پر گہرا اثر تھا۔ رات کو گیسٹ ہاؤس میں کھانے کے بعد دیگر لوگ تو اپنے کمروں میں چلے گئے لیکن وفد کے اراکین محترم عثمان چینی صاحب کے ساتھ تبلیغی گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ کچھ دیر بعد اُن میں سے ایک چینی خاتون شاہینہ صاحبہ نے اُس کمرے کے دروازے پر دستک دی جس میں مقبول ناصر صاحب اپنی اہلیہ کے ہمراہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ شاہینہ صاحبہ نے معذرت کے بعد پوچھا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں؟ جواب ملا: دو لڑکیاں ہیں اور چھوٹی بیٹی کی عمر پانچ سال ہے۔آدھ گھنٹے بعد وہی خاتون دوبارہ تشریف لائیں اور معذرت کے بعد حضورؒ کی ملاقات کا حوالہ دے کر کہا کہ اگر آپ کے حضور یہ کہہ دیں کہ آپ کے ہاں اب لڑکا پیدا ہوگا تو کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ مقبول صاحب نے جواب دیا کہ دو سال قبل میری اہلیہ کا چھ ماہ کا حمل ضائع ہوگیا تھا اور اگر حضور فرمادیں تو پھر ان شاءاللہ تعالیٰ بیٹا پیدا ہوگا۔ اس پر انہوں نے حیرت سے کہا: ’’واقعی!‘‘۔

نماز فجر کے بعد محترم عثمان چینی صاحب نے مقبول صاحب کو بتایا کہ رات کی تبلیغی نشست میں جب ہستی باری تعالیٰ اور خلیفۃالمسیح کے خداتعالیٰ سے خاص تعلق اور دعاؤں کی قبولیت پر بات ہورہی تھی تو چینی وفد نے یہ نشان مانگا ہے کہ اگر مقبول صاحب کی اہلیہ کے ہاں اب لڑکا پیدا ہوجائے تو ہم مان جائیں گے کہ حضور کا تعلق واقعی خداتعالیٰ سے ہے۔ چنانچہ اُسی دن محترم چینی صاحب نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا واقعہ بیان کیا۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ ان شاءاللہ ایسا ہی ہوگا۔ چنانچہ محترم چینی صاحب نے واپس آکر یہ خبر خوشی کے ساتھ سب کو سنادی۔

چند ہفتوں کے بعد ہی حضورؒ ہجرت کرکے لندن تشریف لے گئے۔ تاہم چینی وفد میں شامل خواتین وقتاً فوقتاً مقبول صاحب کی اہلیہ سے لاہور میں ملتی رہیں جو حضورؒ کی دعاؤں سے امید سے ہوگئی تھیں۔ بعض احمدی جنہیں اس واقعے سے اطلاع تھی انہوں نے مشورہ دیا کہ حکیم نظام جان صاحب کا نسخہ برائے اولاد نرینہ استعمال کروایا جائے۔ ایک بزرگ تو یہ دوا لے بھی آئے۔ لیکن مقبول صاحب کی اہلیہ رفعت پروین صاحبہ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ بچہ حضورانور کی دعاؤں کے طفیل ہی پیدا ہوگا، کوئی دوا استعمال نہیں کروں گی۔

خداتعالیٰ نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف عطا فرمایا اور 6؍فروری 1985ء کو یہ بیٹا پیدا ہوا۔ حضورؒ کو اطلاع دی گئی تو جواباً مبارکباد کے خط میں حضورؒ نے دعائیں دیتے ہوئے چینی وفد کے لیے یہ پیغام بھی دیا کہ: ’’الحمدللہ، یہ تو خداتعالیٰ نے China کے لیے محبت بتائی ہے۔ ان سے کہو کہ زندہ خداتعالیٰ کا زندہ نشان ہے۔ لیکن ہمیں ڈر ہے کہ تمہارا نفس اب بھی بہانے بنائے گا۔ لیکن اب خدا کے سامنے جواب دہ ہوگے۔‘‘ بچے کی دادی جان کی درخواست پر حضورؒ نے بچے کا نام محترم عثمان چینی صاحب کے نام پر عثمان مقبول تجویز فرمایا۔ یہ بچہ اس وقت لندن میں NHS میں بطور مینیجر ملازمت کررہا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button