بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں
جو شخص اپنی اہلیہ اور اُس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19)
عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے وَلَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ (البقرہ: 229) کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاوٴں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں۔ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کردیتے ہیں۔
چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ ا گر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَ ھْلِہٖ۔تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 417-418، ایڈیشن 1984ء)
بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کرسکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔ نہ یہ کہ ہر ادنیٰ بات پر زد و کوب کرے … ہاں اگر وہ بیجا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز ہے۔
انسان کو چاہئے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جمادے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کرسکتا اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کرسکتا۔
خاوند عورت کے لئے اللہ تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ پس مرد میں جلالی اور جمالی رنگ دونو موجود ہونے چاہئیں۔ اگر خاوند عورت کو کہے کہ تو اینٹوں کا ڈھیر ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دے تو اس کا حق نہیں ہے کہ اعتراض کرے۔
(ملفوظات جلد 2صفحہ 148، ایڈیشن 1984ء)