خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 27؍مئی2022ء
’’مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
یومِ خلافت کی مناسبت سے خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کی اہمیت و برکات نیز خلافت کے ساتھ الٰہی تائیدات کے نظاروں کا مختصر تذکرہ
یہ بھی واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنے کے بعد پھر خاموش ہونا کہ تم میں خلافت علیٰ منہاجِ نبوت آخری زمانے میں قائم ہو گی اس بات کا اظہار ہے کہ یہ ایک لمبا عرصہ چلنے والا نظام ہے
خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ لوگ جو خلافت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ جڑے رہیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہیں اور بد قسمت ہیں وہ جو خلافت احمدیہ کو کسی دور تک محدود کرنا چاہتے ہیں یا یہ سوچ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ کی طرح ناکامی اور نامرادی دیکھیں گے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جو پیشگوئیاں فرمائی ہیں، اللہ تعالیٰ کے جن وعدوں کا ذکر فرمایا ہے انہوں نے اپنے کمال تک پہنچنا ہے اور یہ آپؑ کے بعد جو جاری نظامِ خلافت ہے اس کے ذریعہ سے ہی پہنچنا ہے
ہر احمدی کا خلافت سے بھی اخلاص و وفا کا تعلق ہونا چاہیے اور وہی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے جو اس معیار کو حاصل کرنے والے ہوں گے اور جب یہ ہو گا تبھی ہم آج یوم خلافت منانے کے حق کو ادا کرنے والے ہوں گے۔
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍مئی2022ء بمطابق 27؍ہجرت1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج 27؍مئی ہے۔ یہ دن جماعت احمدیہ میں
یوم خلافت
کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم ہر سال یوم خلافت کے جلسے اس دن یا اس دن کے آگے پیچھے کرتے ہیں لیکن کیوں؟ اس سوال کا جواب ہمیں ہر وقت سامنے رکھنا چاہیے اور اپنی نسلوں، اپنے بچوں کو بھی اس پر غور کرنے اور سوچنے کے لیے کہنا چاہیے۔ اس دن کا آغاز 27؍مئی 1908ء کو ہوا تھا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق ہم پر فضل فرماتے ہوئے جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام جاری فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے آپ کی جماعت کی ترقی کے لیے جو وعدہ فرمایا تھا اسے اس دن پورا فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک عرصہ سے اپنی جماعت کو اس بات پر تیار فرما رہے تھے کہ کوئی شخص موت سے باہر نہیں۔ انبیاء بھی جب وہ اپنا کام پورا کر لیتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں بھی اٹھا لیتا ہے۔ آپؑ بار بار جماعت کو اس بات پر تیار فرما رہے تھے کہ آپ علیہ السلام کی واپسی کا وقت قریب ہے لیکن ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دیتے تھے کہ
آپ علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت نے پھولنا ہے، پھلنا ہے اور پھیلنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جو آپؑ سے وعدے ہیں وہ یقیناً پورے ہونے ہیں۔ جماعت کی ترقی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہونی ہے اور کوئی نہیں جو اس ترقی کو روک سکے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ارشاد میں اپنے زمانے سے لے کر آخرین کے زمانے تک یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام اور پھر بعد میں آپ کے جاری نظام خلافت کا نقشہ کھینچاہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی مجلس میں بیان فرماتے ہیں: تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود صحابہ میں موجود رہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ یعنی وہ خلافت راشدہ قائم ہو گی جو مکمل طور پر نبوت کے قدموں پر چلنے والی ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے مَیں بدری صحابہ کے سلسلہ میں خلفائے راشدین کا بھی ذکر کر رہا ہوں۔ آج کل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہو رہا ہے۔ تمام خلفاء کے ذکر میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ سب نے بڑے بے نفس ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلتے ہوئے اور قرآن کریم کو اپنا دستور العمل بناتے ہوئے اپنا عرصہ خلافت گزارا۔ گویا قدم قدم پر منہاج نبوت پر قائم رہنے کی کوشش کی۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارشاد کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔
اور تاریخ نے یہ بھی دیکھا بلکہ آج تک مسلمانوں کے دین سے ہٹے ہوئے جو حکمران ہیں اپنی رعایا سے یہی کچھ کر رہے ہیں چاہے سیاسی حکومتیں ہوں یا بادشاہت ۔ ایک گروہ ہو یا دوسرا۔ جس کے ہاتھ میں بھی حکومت آئے اس پر دنیا غالب رہتی ہے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب یہ سب کچھ امت کے ساتھ ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا۔
پھر خلافت علیٰ منہاجِ نبوت قائم ہو گی۔ یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ285 حدیث النعمان بن بشیر حدیث نمبر18596 عالم الکتب بیروت 1998ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم و ستم کے دَور کو ختم کرنے کی جو پیشگوئی فرمائی تھی وہ ان لوگوں کے لیے تھی جو خاتم الخلفاء مسیح موعود اور مہدی معہود کی بیعت میں آئیں گے اور اس کی تعلیم کے مطابق اس پر عمل کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے تو انتظام فرما دیاہے۔ اگر لوگ اس انتظام کے تحت نہ آئیں، اپنی ضد پر قائم رہیں تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے اور نکلا ہے جو آج کل مسلمان دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی عقل اور سمجھ دے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی پہچان کرنے والے ہوں نہ کہ انکار کر کے مسیح موعود کی جماعت پر ظلم اور تعدی میں بڑھنے والے ہوں۔ بہرحال
یہ بھی واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنے کے بعد پھر خاموش ہونا کہ تم میں خلافت علیٰ منہاجِ نبوت آخری زمانے میں قائم ہو گی اس بات کا اظہار ہے کہ یہ ایک لمبا عرصہ چلنے والا نظام ہے۔
یہ جو بعض لوگ بعض باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ باتیں کرتے ہیں کہ اس خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ یہ نظام بھی جلد ختم ہو جائے گا یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جو نظام خلافت ہے۔ یہ سب لوگ غلطی خوردہ ہیں۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی وضاحت فرما دی ہے کہ یہ نظام جاری رہنے والا نظام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے ہیں وہ پورے ہونے والے ہیں اور زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن خدائی وعدوں کو پورا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بہرحال اس بات کی وضاحت کہ
یہ نظامِ خلافت جاری رہنے والا نظام ہے
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے۔ سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو‘‘ یعنی اپنی وفات کی خبر جو دی ۔ ’’اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ
تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔
اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دےگا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔‘‘
(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد20صفحہ305)
پس آپ کے یہ الفاظ کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور وہ دوسری قدرت یعنی خلافت تم میں قیامت تک قائم رہے گی۔ ایسے لوگ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے جو خلافتِ احمدیہ کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ پس
خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ لوگ جو خلافت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ جڑے رہیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہیں اور بد قسمت ہیں وہ جو خلافت احمدیہ کو کسی دَور تک محدود کرنا چاہتے ہیں یا یہ سوچ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ کی طرح ناکامی اور نامرادی دیکھیں گے۔
جیساکہ جماعت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔ جو مخالفین تھے انہوں نے خلافتِ اولیٰ یا خلافتِ ثانیہ کے انتخاب کے وقت ناکامیاں دیکھیں۔
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلافت کے قائم رہنے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ ’’وہ وعدہ‘‘ (یعنی خلافت کے قائم رہنے کا وعدہ) ’’میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیساکہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفا دار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔‘‘ ابھی تو اللہ تعالیٰ کے آپ سے بےشمار وعدے ہیں جو پورے ہونے والے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا:
’’مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔‘‘
(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد20صفحہ306،305)
پس اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ اور ترقی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کیے ہوئے ہیں، جن باتوں کے پورا ہونے کا اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بتایا ہوا ہے وہ ان شاءاللہ تعالیٰ ضرور پوری ہوں گی، وہ وعدے ضرور پورے ہوں گے۔ اسلام کے غلبہ کے دن جماعت ان شاء اللہ دیکھے گی۔ جماعت کی ترقی کے دن جماعت دیکھے گی۔ ان شاء اللہ۔ جو لوگ خلافت سے جڑے رہیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔
جماعت احمدیہ نے دنیامیں پھیلنا ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام نے فرمایا ہے۔ چنانچہ آپؑ اپنی جماعت کے غلبہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیساکہ وہ فرماتا ہے كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ (المجادلۃ:22) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیساکہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ…… ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔‘‘
(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد20صفحہ304)
پس
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ پیشگوئیاں فرمائی ہیں، اللہ تعالیٰ کے جن وعدوں کا ذکر فرمایا ہے انہوں نے اپنے کمال تک پہنچنا ہے اور یہ آپؑ کے بعد جو جاری نظامِ خلافت ہے اس کے ذریعہ سے ہی پہنچنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ترقی دینی ہے اور دے رہا ہے۔ خود لوگوں کی راہنمائی فرماتا ہے۔ خلافت کے ساتھ ان کو جوڑتا ہے اور جوڑ رہا ہے ورنہ یہ انسانی بس کی بات نہیں ہے۔ افرادِ جماعت اور خلیفۂ وقت کو ایک ایسے مضبوط بندھن میں باندھنا جس کی مثال ممکن نہ ہو، یہ انسان کے بس کی بات نہیں اور نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دل خلافت کے ساتھ جوڑتا ہے جو پہلے احمدی ہیں بلکہ ان کے بھی دل خلافت کے ساتھ جوڑتا ہے کہ جو خود بعد میں شامل ہو رہے ہیں اور بالکل نئے آنے والے ہیں جن کی پوری طرح تربیت بھی نہیں ہے۔ یہ صرف خدا تعالیٰ کا ہی کام ہے۔ وہی اخلاص و وفا بیعت کے بعد لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دکھاتے ہیں۔ وہی اخلاص ووفا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے اور آپ علیہ السلام کے نام پر خلافتِ احمدیہ سے دکھاتے ہیں اور دکھا رہے ہیں۔
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی بیعت جس طرح لوگوں نے کی وہ اللہ تعالیٰ کی خالص تائید و نصرت نہیں تھی تو اَور کیا تھا۔
سوائے چند منافق طبع لوگوں کے جو ہر جماعت میں ہوتے ہیں خلافت کے فدائی اور شیدائی بڑھتے چلے گئے اور جو منافق تھے ان کی آپؓ نے اچھی طرح سرزنش کی اور ان کو ان کے مقام پر رکھا۔ ان کو سر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ پھر
خلافتِ ثانیہ
کے انتخاب کے وقت انہی مخالفوں کے شور مچانے کے باوجود جو خلافتِ اولیٰ میں منافقت کرتے ہوئے جماعت میں رہ رہے تھے۔ انہوں نے مخالفت کی۔ لیکن جماعت نے باوجود ان لوگوں کے ورغلانے کے، شور مچانے کے، فتنہ اور فساد پیدا کرنے کے حضرت میاں صاحبؓ ، حضرت مرزا محمود احمد صاحبؓ کہہ کر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی بیعت کر لی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح تیزی سے جماعت ترقی کرتی چلی گئی۔ دنیا میں مشن ہاؤس کھلے، مساجد بنیں، لٹریچر کی اشاعت ہوئی۔ وہ کام جن کے کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے آگے بڑھتے رہے۔
پھر
خلافتِ ثالثہ
میں اللہ تعالیٰ نے باوجود حکومتِ وقت کے بہت سخت حملے کے جماعت کو ترقیات سے نوازا۔ کشکول جماعت کے ہاتھ میں پکڑانے والے خود بُری حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
پھر
خلافتِ رابعہ
میں ترقیات کا ایک اَور باب کھلا۔ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت کے نئے نظارے ہم نےدیکھے۔ اشاعتِ اسلام کے نئے نئے رستے کھلے۔ خلیفۂ وقت کے ہاتھ کاٹنے کا سوچنے والوں کے اپنے ہاتھ کٹ گئے اور فضا میں ان کے جسم بکھر گئے لیکن جماعت کی ترقی کے قدم نہیں رکے۔ تبلیغ کے میدان میں وسعت پیدا ہوئی۔ ایم ٹی اے کا آغاز ہوا جس سے ہر گھر میں جماعت کا پیغام پہنچنا شروع ہوا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا تکمیل کی طرف بڑھنا ہے اور یہی چیز ہے اگر کوئی سمجھے تو۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا پورا ہونا نہیں تو اَور کیا تھا۔
پھر
خلافتِ خامسہ
میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات و نصرت کے نظارے دکھائے۔ ایم ٹی اے میں ہی اسلام کا پیغام پہنچانے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے کے لیے نئے نئے راستے کھلنے کا انتظام ہوا۔ ایک کے بجائے ایم ٹی اے کے سات آٹھ چینل مختلف زبانوں میں جاری ہوئے۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں مختلف پروگراموں کے ترجمے ہونے شروع ہو گئے۔ دنیا کے ہر کونے تک جہاں پہلے ایم ٹی اے نہیں جا رہا تھا وہاں بھی ایم ٹی اے پہنچ گیا اور وہاں کی اپنی زبان میں ان لوگوں، ان ملکوں اور ان علاقوں کے رہنے والوں کو احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچنے لگ گیا جس سے لاکھوں سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے اور ریڈیو پروگراموں کے علاوہ خود بھی لوگوں کی راہنمائی فرمائی اور لوگوں کو خوابوں کے ذریعہ اور مختلف لٹریچر کے ذریعہ احمدیت کے پیغام کو قبول کرنے کی توفیق دی۔ ہم جب احمدیت کی تاریخ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام کو ماننے کی طرف آپ کے زمانے میں بھی راہنمائی فرماتا تھا۔ پھر یہی سلسلہ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے زمانے میں بھی جاری رہا۔ اللہ تعالیٰ خود راہنمائی فرماتا رہا۔ پھر اَور سعید روحیں جو تھیں وہ جماعت میں شامل ہوتی رہیں۔ پھر خلافتِ ثانیہ میں بھی بہت سے ایسے واقعات ہیں۔ پرانے خاندانوں میں، ان کے گھروں میں یہ روایات چل رہی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے بڑوں کو حق قبول کرنے کی توفیق دی۔ پھر خلافتِ ثالثہ میں بھی یہ سلسلہ نظر آتا ہے۔ خلافتِ رابعہ میں بھی سعید روحوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے احمدیت کے قبول کرنے کی طرف راہنمائی ہوئی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام سے وعدوں کا نتیجہ تھا۔ اس طرح ہر خلافت کے دور میں جماعت بڑھتی رہی۔ خلافت خامسہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے یہی سلوک ہیں۔ اللہ تعالیٰ تبلیغ کے نئے نئے راستے بھی کھولتا جا رہا ہے اور لوگوں کے دلوں کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو جو اسلام کا حقیقی پیغام ہے سننے اور قبول کرنے کی طرف مائل کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے ایسے واقعات ہوتے ہیں جو خالص تائیدِ الٰہی کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں ورنہ صرف انسانی کوششوں سے کبھی اس طرح لوگ قبول نہ کریں۔ مَیں
چند واقعات
بیان کر دیتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں کو اسلام اور احمدیت کی طرف پھیرنے کے سامان فرمائے اور خلافت احمدیہ کی بھی سچائی جو ہے ان پر کھولی اور کس طرح لوگوں کے دلوں میں خلافت سے محبت پیدا کی۔
گنی بساؤ
افریقہ کا ایک دُور دراز کا ملک ہے وہاں عبداللہ صاحب پہلے ایک عیسائی دوست تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے خواب دیکھی کہ ایک شخص ہے جس کی سفید داڑھی ہے اور اس نے پگڑی پہنی ہوئی ہے اور لوگوں سے خطاب کر رہا ہے اور مکمل خاموشی کے ساتھ لوگ یہ خطاب سن رہے ہیں۔ کہتے ہیںاس شخص کا خطاب کرنے کا انداز بالکل سادہ اور ہمارے لوگوں سے مختلف تھا۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو ان کو کچھ سمجھ نہیں آئی پھر وہ بھول گئے۔ کچھ دنوں کے بعد پھر ان کو دوبارہ اسی طرح سے ملتی جلتی خواب آئی اور اس سے ان کے ذہن میں وہ چہرہ بیٹھ گیا۔ پھر تیسری مرتبہ ان کو خواب آئی اور وہ کوشش کرتے رہے کہ پتہ چلے کہ یہ کون شخص ہے لیکن پتہ نہیں کر سکے۔ ایک دن اتفاق سے گاؤں کے قریبی شہر فرین (Farin) میں واقع ہماری مسجد میں گئے۔ اس دن جمعہ تھا۔ احباب جماعت ایم ٹی اے پر میرا خطبہ جمعہ سن رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں مجھے دیکھ کر انہوںنے فوراً معلم صاحب سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جو خطبہ دے رہا ہے؟ انہوں نے کہا یہ ہمارے خلیفہ ہیں۔ بہرحال وہ اس پر خاموشی سے بیٹھے خطبہ سنتے رہے اور خطبہ جمعہ کے بعد احباب کے ساتھ نماز ادا کی۔ نماز ختم ہونے کے فوراً بعد کھڑے ہو گئے اور سب احباب کے سامنے کہنے لگے کہ
مَیں آج اسلام قبول کرتا ہوں اور بتانے لگے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے تین بار خواب میں یہ شخص دکھایا ہے
جس کا میری روح پر بڑا اثر تھا اور مَیں ایک عرصہ سے اس تلاش میں تھا مگر آج اتفاق سے آپ کی مسجد میں آیا ہوں تو آپ کے خلیفہ کو دیکھا ہے۔ وہی چہرہ ہے جو مَیں نے خواب میں دیکھا تھا اور اسی طرح نظارہ تھا جو مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ لوگ خاموشی سے بیٹھے خطاب سن رہے ہیں اور مَیں اسلام احمدیت میں داخل ہوتا ہوں۔
ایک دور دراز علاقے کے شخص کی اس طرح راہنمائی کہ پہلے خواب میں دیکھتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسے سامان بھی کر دیتا ہے کہ اسی طرح کانظارہ بھی نظرآ جائے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
تو یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی چاہے راہنمائی فرمائے لیکن اس کے لیے نیک فطرت ہونا بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا بھی ضروری ہے۔ یقیناً انسان کی ، اس شخص کی کوئی نیکی ہو گی جو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ان کی راہنمائی فرمائی۔
پھر
گیمبیا
کے امیر صاحب نے لکھا کہ وہاں ایک خاتون سسٹر فاٹو صاحبہ ہیں۔ ساٹھ سال کے قریب ان کی عمر ہے۔ وہ کہتی ہیں ہمارے علاقے میں ایک اسلامی گروپ کے افراد آئے اور جماعت کے خلاف باتیں کرنے لگے کہ احمدی کافر ہیں۔ وہ کبھی جنت میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ان سے کسی قسم کا لین دین نہیں رکھنا چاہیے۔ گاؤں کے اکثر لوگوں نے ان کی باتوں کو مان لیا لیکن یہ خاتون کہتی ہیں کہ وہ پریشان ہو گئیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی کے لیے دعا کرنی شروع کر دی۔ کچھ دن کے بعد انہیں خواب آئی کہ اسی اسلامی گروپ کے افراد جنہوں نے اس گاؤں کا دورہ کیا تھا ان کی آنکھیں گو تاروں کی طرح چمک رہی ہیں اور انہوں نے ہاتھ میں قرآن مجید بھی پکڑا ہوا ہے لیکن وہ یہ شکایت کر رہے ہیں کہ قرآنِ مجید کی تحریر کو دیکھ نہیں سکتے۔ اس پر وہ شور مچانے لگ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھا کر دیا ہے اور اس طرح وہ اپنی روزی بھی نہیں کما سکتے اور ذلیل و خوار اور تباہ ہو گئے۔ کہتی ہیں کہ مَیں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ اس گروپ کے ممبران جماعتِ احمدیہ کے خلیفہ کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہتے ہیں پر اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے اوروہ یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ احمدیت تو بےشک سچ ہے مگر اگر ہم مان لیں تو پھر ہمارے مرید ہم سے پِھر جائیں گے۔ بہرحال ان خاتون نے اپنے گھر والوں کو صبح یہ خواب سنائی۔ لوگ کہتے ہیں کہ افریقنوں میں سوچ سمجھ کم ہے لیکن بہرحال انہوں نے اپنی تعبیر بھی یہ کی کہ جس طرح روشن آنکھیں تھیں اس کے باوجود قرآن کی تحریر نہیں پہچان رہے اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ حق سے مکمل طور پر گمراہ ہو چکے ہیں۔ تو ایسے عجیب واقعات بعض لوگوں کے قبول احمدیت کے ہوتے ہیں کہ ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید ان لوگوں کو یہ نظارے دکھا رہی ہے۔
گوئٹے مالا ساؤتھ امریکہ
کے ملکوں میں سے ہے۔ یہاں جو ہماری مسجد ہے وہاں سے اڑھائی سو کلو میٹر دور میکسیکو کے بارڈر پر ایک جگہ سان مارکوس (San Marcos) ہے، وہاں کی ایک خاتون ویرونیکا (Veronica) صاحبہ کہتی ہیں
مَیں نے دس سال پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص خواب میں آئے ہیں اور انہوں نے کہا سچائی کا راستہ اسلام ہے۔
قرآنِ مجید پڑھنے کو کہا لیکن انہوں نے کہا کہ مَیں تو قرآن پڑھنا نہیں جانتی۔ مگر اس شخص نے کہا تم پڑھ سکتی ہو۔ صبح اٹھ کر انہوں نے اپنے خاوند اور باپ سے اس خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اسلام کوئی سچائی کا راستہ نہیں ہے یہ تو دہشت گردی کا مذہب ہے۔ اب یہ سارے عیسائی لوگ ہیں۔ لیکن کہتی ہیں میرے دل کو سکون نہیں ہوا۔ مَیں نے انٹرنیٹ پر اسلام کے بارے میں تحقیق شروع کر دی اور خود ہی انٹرنیٹ سے اسلام کے بارے میں سیکھ رہی تھی۔ ایک دن بازار میں جا رہی تھیں کہ ایک پردہ دار خاتون ان کو مل گئیں۔ بہرحال ان کا پردہ دیکھ کے ان کو تجسس پیدا ہوا کہ اس کو جا کے ملیں اور اس سے پوچھا تمہارا یہ لباس کیسا ہے؟ اس نے کہا مَیں مسلمان ہوں۔ اس لیے مَیں نے پردہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ ان سے ان کا رابطہ ہو گیا اور اس نے اسلام کے بارے میں تفصیل بتائی۔ وہ خاتون احمدی تھیں۔ کہتی ہیں مَیں نے تو ان کی یہ باتیں سن کے، اسلام کی تعلیم کو سن کے بیعت کر لی لیکن گھر والے راضی نہیں ہوتے تھے، کوئی نہ کوئی اعتراض کر دیتے تھے۔ ان کا جواب کہتی ہیں مَیں نہیں دے سکتی تھی تو پھر انہوں نے ان کو کہا کہ آپ ہمارے گھر آئیں۔ رشتہ داروں کو اکٹھا کروں گی۔ اعتراضات کا جواب دیں۔ چنانچہ ہماری بےشمار تبلیغی نشستیں ہوئیں، تبلیغ بھی کرنے لگ گئیں۔ صرف بیعت نہیں کی بلکہ پیغام بھی آگے پہنچانے لگ گئیں۔ دوستوں کو اکٹھا کیا اور پھر ان کے لیے ریفریشمنٹ کا انتظام بھی کیا۔ ان کا ایک بیٹا ہے جو وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا ہے، یونیورسٹی کے آخری سال میں ہے۔ اس نے بھی بیعت کر لی اور ان کو اتنا جوش اور شوق ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ انہوں نے ناظرہ قرآن کریم خود سیکھا۔ بہت ساری سورتیں زبانی یاد کیں اور پھر آڈیو سن کے اپنی زبان میں، عربی تو نہیں لکھ سکتی تھیں، رومن میں قرآن کریم پورے کا پورا لکھا۔ امیر صاحب کہتے ہیں کہ جب مَیں دورے پر گیا ہوں تو ان کی نوٹ بک دیکھی۔ سارا قرآن کریم انہوں نے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا اور اب عربی بھی سیکھ رہی ہیں اور اسے عربی میں لکھ رہی ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نہ صرف سعید روحوں کو جماعت میں لا رہا ہے بلکہ آپ کے بعد جو آپ سے وعدے تھے ان کو بھی پورا فرما رہا ہے۔
انڈونیشیا،
ایک اَور دُور دراز کا علاقہ، وہاں ایک نوجوان کو تبلیغ کی گئی تو اس نے فوراً بیعت کر لی۔ اس جماعت کے صدر جماعت نور صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے اس کو واپس جانے سے پہلے کچھ کتابیں دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصاویر والے بروشر بھی دیے۔ جب وہ نوجوان گھر پہنچا تو اس کے والد نے ایک بروشر دیکھ کے پوچھا کہ یہ تصویر کس کی ہے؟ اس لڑکے نے جواب دیا کہ یہ امام مہدی کی تصویر ہے۔ کل رات مَیں نے ایک خواب دیکھی تھی کہ امام مہدی تشریف لے آئے ہیں۔ اس لیے کچھ جماعتِ احمدیہ کا تعارف پہلے تھا تو مَیں نے فوراً بیعت کر لی ہے۔ اس پر اس کے والد کہنے لگے پھر تو مَیں بھی اب بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ شامل کر رہا ہے۔
برکینا فاسو
کے معلم زیلا کریم صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے کے ایک رہائشی حمید صاحب ہیں۔ باقاعدہ ریڈیو سنتے تھے۔ جماعت سے ہمدردی بھی رکھتے تھے۔ چندہ بھی کبھی آ کے دے دیتے تھے بلکہ بعض دفعہ باقاعدگی سے دینے لگ گئے تھے لیکن بیعت کرنے کو کہا جاتا تو کسی نہ کسی طرح ٹال دیتے۔ عام چندہ تو نہیں دیتے ہوں گے تحریکِ جدید، وقف جدید میں دے دیتے ہوں گے یا کسی اَور مد میں، صدقات میں، بہرحال یہ چندہ دیتے تھے۔ جو مالی قربانی ہے وہ دے دیا کرتے تھے۔ گھانا میں بھی مَیں نے دیکھا ہے، جب مَیں وہاں تھا تو بہت سارے لوگ جو زمیندار تھے آکے اپنی زکوٰة دے جایا کرتے تھے کہ اپنے مولویوں کو دیں تو وہ کھا جائیں گے۔ جماعتِ احمدیہ اس کا صحیح استعمال کرے گی۔ بہرحال اس طرح لوگ وہاں دیتے ہیں۔ ایک دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اجتماع ہو رہا ہے جس میں لوگ ایک چار دیواری کے اندر ہیں اور کچھ چار دیواری سے باہر ہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے دیکھا اس چار دیواری کے اندر تمام احمدی احباب ہیں۔ اس پر مَیں کہتا ہوں مَیں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ مجھے بھی اندر داخل کیا جائے۔ تو یہ آواز آتی ہے کہ اس چاردیواری میں وہی داخل ہو سکتے ہیں جنہوں نے بیعت کی ہے اور آپ نے چونکہ بیعت نہیں کی اس لیے آپ اس کے اندر نہیں جا سکتے۔ چنانچہ اس خواب کے بعد اگلے دن ہی انہوں نے آ کے بیعت کر لی۔ انسانی کوششیں تو انہیں جماعت میں شامل نہیں کر سکیں لیکن نیک فطرت تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے اس طرح ان کی راہنمائی فرمائی۔ یہ بھی ان لوگوں کے اعتراض کا جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو خواب نہیں آتی۔
پہلے پاک فطرت بنیں، ذہن کو خالی کریں، دعا کریں تو پھر ہی اللہ تعالیٰ راہنمائی بھی کرتا ہے۔
مالی
کے ایک دوست محمد کونے صاحب ہیں۔ انہوں نے جماعت کے ریڈیو کو سنا اور لوگ جو جماعت کے خلاف بولتے ہیں ان کی باتیں بھی سنیں۔ اس کے بعد انہوں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اللہ تعالیٰ انہیں سیدھی راہ دکھائے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا جو کہہ رہا تھا، بزرگ تھے جو یہ کہہ رہے تھے کہ ہر بندہ احمدیت میں آئے گا خواہ ابھی آئے یا بعد میں۔تو یہ تو اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ خلافتِ احمدیہ کی جاری نعمت جو ہے اس کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل ہو گی۔ بہرحال اس بات پر انہوں نے بیعت کی۔
پھر
گنی بساؤ
کے مبلغ نے لکھا کہ عثمان صاحب ہمارے نومبائع ہیں۔ انہیں علم ہوا کہ ان کے رشتےدار کثرت سے احمدیت قبول کر رہے ہیں تو بعض مولویوں کو اکٹھا کر کے اس علاقے میں لے کر آ گئے تاکہ جماعت کی مخالفت کر سکیں۔ تو ہمارے معلم نے انہیں کہا کہ آپ ضرور مخالفت کریں آپ کو روکا نہیں جاتا مگر ہمارا پیغام ایک مرتبہ سن لیں، بات سن لیں۔ پھر جو مخالفت کرنی ہے دلیل کے ساتھ کریں۔ مولوی صاحبان نے تو پیغام سننے کے لیے آنے سے انکار کیا مگر عثمان صاحب نے دعوت قبول کی اور جماعت کا پیغام سننے آ گئے۔ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے متعلق بتایا گیا۔ جس دن وہ آئے جمعہ کا دن تھا اور وہاں اس دن ایم ٹی اے پر میرا خطبہ آ رہا تھا تو ہم نے انہیں کہا کہ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو کچھ دیر خطبہ سن لیں تو انہوں نے کہا تھوڑا سا وقت ہے مَیں تھوڑی دیر کے لیے خطبہ سن لیتا ہوں لیکن جب خطبہ سننا شروع کیا تو بھول گئے کہ کتنا وقت لگ گیا ہے اور مکمل خطبہ سنا۔ بعد میں کہنے لگے کہ
احمدیہ جماعت کافر نہیں ہو سکتی جیساکہ مَیں نے سنا ہے کیونکہ آپ کے خلیفہ تو صحابی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پیش کر رہے ہیں
اور کوئی کافر جماعت یہ کام نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد جماعت کی مخالفت انہوں نے ختم کر دی اور کچھ عرصہ بعد اپنی فیملی کے ساتھ جماعت میں شامل بھی ہو گئے اور نہ صرف شامل ہوئے بلکہ اب تبلیغ بھی کر رہے ہیں۔ اپنے چندے بھی یہ باقاعدگی سے دیتے ہیں۔ اب یہ بھی خطبات کا اثر ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت کے خطبات میں ڈالتا ہے۔
کونگو کنشاسا کے لوکل مشنری کہتے ہیں کہ وہاں ایک علاقے میں تبلیغی مہم شروع کی۔ غیر از جماعت نے منظّم طور پر مخالفت کا آغاز کر دیا۔ تین ماہ کے بعد ایک دن انہی مخالفین میں سے ایک دوست عثمان صاحب نے مشن میں رابطہ کیا اور کہا کہ اپنی ساری فیملی کے ساتھ جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے کہ ایک دن میری بیوی سیٹلائٹ چینل دیکھ رہی تھی تو آپ کا چینل ایم ٹی اے لگ گیا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ مَیں احمدیت کی مخالفت میں پیش پیش تھا اس نے مجھے بھی بلا لیا اور جب مَیں جماعت کے بارے میں کچھ غلط بولنے لگا تو میری بیوی نے کہا کہ پہلے پورا پروگرام سنو پھر بولنا۔ اس وقت بھی وہاں ایم ٹی اے پر میرا خطبہ نشر ہو رہا تھا۔
کہتے ہیں کہ خطبہ سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا جو آواز آج میرے کانوں میں پڑی ہے یہی اسلام کی حقیقی تصویر ہے اور خلیفہ کو سننے کے بعد جماعت کی سچائی میں مجھے کوئی شک نہیں رہ گیا۔
اب یہ میری ذات کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کا جو وعدہ فرمایا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور ان کا اظہار ہے۔
گنی بساؤ
کے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں تبلیغ کی۔ اکثر احباب نے احمدیت قبول کر لی۔ چار خاندانوں نے احمدیت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جب ہماری ٹیم وہاں ایم ٹی اے انسٹال کرنے گئی تو معلم صاحب نے ان تمام خاندانوں کو بھی جو انکاری تھے مسجد میں مدعو کیا اور کہا کہ ہمارا مسلم چینل ہے اسے دیکھیں جہاں آپ تصویر بھی دیکھ لیں گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی اور خلیفۂ وقت کی بھی۔ تو بہرحال کہتے ہیں جب انسٹالیشن مکمل ہو گئی۔ نماز کی ادائیگی کرنے کے بعد جب دوبارہ ٹی وی آن کیا گیا تو اس وقت میرا خطبہ ایم ٹی اے پہ چل رہا تھا۔ جو غیر از جماعت تھے انہوں نے بڑے غور سے خطبہ سنا،مجھے دیکھتے رہے اور انگلش زبان میں کیونکہ آ رہا تھا تو معلم نے کہا مَیں آپ کے لیے ترجمہ کر دیتا ہوں تو کہنے لگے کہ
مجھے سمجھ نہیں آرہی مگر مَیں خدا کی قسم کھا کرکہہ سکتا ہوں کہ یہ شخص جو بول رہا ہے یہ جھوٹ نہیں بول سکتا اور اگر یہ جماعتِ احمدیہ کا خلیفہ ہے تو جماعت کبھی جھوٹی نہیں ہو سکتی
اور انہوں نے اسی وقت پھر احمدیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔
مالی
سے وہاں کے معلم لکھتے ہیں کہ ایک شخص ہمارے مشن آیا اور بتایا کہ مَیں باقاعدگی کے ساتھ آپ کا ریڈیو سنتا ہوں اور بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ موصوف نے بیعت فارم پُر کر لیا۔ چونکہ یہ پڑھے لکھے تھے اس لیے کہنے لگے کہ اگر کوئی لٹریچر فرنچ زبان میں ہے تو مجھے دیں تا کہ مَیں اس سے بھی استفادہ کروں اور اپنے ساتھیوں کو بھی دوں۔ معلم نے انہیں وہ کتاب دی جو مختلف لیکچر ہیں۔ امن کے اوپر میرے ایڈریس ہیں۔ ورلڈ کرائسز اینڈ پاتھ وے ٹو پیس (World Crisis and the Pathway to Peace)۔ اس کا فرنچ ترجمہ ان کو دیا۔ انہوں نے وہیں کتاب کھولی۔ جب انہوں نے تصویر دیکھی تو رونے لگ گئے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ پہلے میں گابون میں تھا اور خدا سے ہمیشہ سیدھے رستے کی ہدایت مانگتا تھا۔ اس وقت میں نے بےشمار دفعہ خلیفۃ المسیح کو خواب میں دیکھا ہے اور مجھے پتہ تونہیں چلتا تھا کہ یہ کون شخص ہے۔ آج مجھے سمجھ آئی ہے کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے میری راہنمائی فرمائی۔
نَسْمَہ صاحبہ ہیں
عرب
عورت ہیں۔ کہتی ہیں کہ بیعت سے دو سال قبل مَیں نے پہلی دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی تو مخاطب کر کے عرض کیا، عرب ہیں ناں تو کہتی ہیں کہ تصویر کو مخاطب کر کے کہا۔ اس سے پہلے وہ ذکر کر رہی ہیں کہ آپ نے بچے کا ذکر کیا تھا جس نے ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچی ہوئی تھیں اور یہ لکھا تھا کہ حضور مجھے آپ سے پیار ہے۔ بہرحال کہتی ہیں بچے جھوٹ نہیں بولتے اور میرے دل پہ اس کا بڑا اثر تھا۔ انہوں نے بھی بیعت کر لی۔ کہتی ہیں کہ لیکن مَیں نےکچھ عرصہ کے بعد تصویر دیکھی توحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ کے خدو خال تو بتاتے ہیں کہ آپ نیک آدمی ہیں اور جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس کے باوجود میں آپ کی اس بات پہ تصدیق نہیں کر سکتی کہ آپ آسمانی مبعوث ہیں۔ کہتی ہیں میں نے مطالعہ کیا اور اس کے دو سال کے بعد 2016ء کے شروع میں بیعت کر لی۔ اس کے باوجود خلافت کے بارے میں دل میں شک تھا۔ میرے نفس کا شیطان کہتا تھا کہ خلافت کے دعوےدار کو میں کیسے اپنی زندگی کا کنٹرول دے دوں۔ کیوں مَیں ایسے شخص کو خط لکھوں اور اپنے حالات بتاؤں۔ خلافت کا کیا فائدہ ہے؟ کہتی ہیں لیکن یہ شک حضرت مصلح موعود ؓکی کتاب ’خلافتِ راشدہ‘ اور آپ کی کتاب
’نظامِ خلافت اور اطاعت‘ کے مطالعہ سے زائل ہو گیا۔ مجھے ساری باتوں کی وضاحت ہو گئی۔ پھر مَیں نے خط لکھا اور جو آپ کا جواب آیا اس سے وہ شک کلیةً ختم ہو گیا اور یقین ہو گیا کہ خلافت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں پر چلنے والی ہے۔ پھر لکھتی ہیں کہ جو محبت خدا تعالیٰ خود دلوں میں ڈالتا ہے وہ خوب مضبوطی سے ڈالتا ہے اور ہمیں اس کا سبب معلوم نہیں ہوتا۔ پھر کہتی ہیں اسی لیے اکثر احمدیوں کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے محبت اور آپ کے خلفاء سے عموماً اور آپ سے خصوصاً بچوں کی سی محبت ہے۔ بیعت سے قبل ہمیں اس قسم کی محبت کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔
نائیجیریا
سے سرکٹ مشنری کہتے ہیں کہ ایک مجلس سوال و جواب کے دوران لوگوں کی اس بات پہ بحث چلی کہ بچوں کو باپ کے نام کی مناسبت کے ساتھ پکارنے کی بجائے ان کے فیملی نام جو ان کے آباؤ اجداد کے چلے آ رہے ہیں اس کے ساتھ پکارا جائے۔ اس پر انہیں بتایا گیا قرآنِ کریم کی تعلیم ہے کہ بچوں کو ان کے اپنے باپوں کے نام کے ساتھ پکارو جس پر بعض بالخصوص غیر احمدی اور نومبائع حضرات ابھی پوری طرح مطمئن نہیں تھے مگر دو دن کے بعد کہتے ہیں جب آپ صحابہ پر خطبہ دے رہے تھے تو حضرت زید بن ثابتؓ کے واقعات بیان کیے اور یہ بتایا کہ عرب زید کو زید بن محمد کہنے لگےتھے تو اللہ تعالیٰ کا حکم آیا کہ انہیں ان کے باپ کے نام سے یاد کیا جائے۔ یہ خطبہ سن کر ساری جماعت اور وہ احباب بھی بہت خوش ہوئے جو دو دن پہلے یہ بحث کر رہے تھے کہ اب خلیفۂ وقت نے ہماری راہنمائی کر دی ہے۔ بعض لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ ان دو دنوں میں مبلغ نے شاید وہاں خلیفۂ وقت کو خبر پہنچائی ہو تب انہوں نے ذکر کر دیاہے لیکن اس نے کہا مَیں نے تو کچھ نہیں بتایا۔ تو پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے اللہ تعالیٰ نے خود ہی ہمارے سوال کا جواب دلوا دیا اور اس خوشی میں جماعت کے ایک فرد نے، امیر آدمی نے ایک اَور بڑا ٹی وی ایم ٹی اے دیکھنے کے لیے خریدا کہ مسجد کے اس حصہ میں لگوایا جائے جہاںلجنہ ہیں اور عورتیں بیٹھی ہیں تا کہ وہ بھی خلافت کی برکات سے محروم نہ ہوں۔ کہنے لگے
خلافت تو دلوں میں بولتی ہے۔
اب ان دُور دراز علاقوں میں مختلف ممالک میں رہنے والے جو احمدی ہیں مختلف قوموں کے ہیں، نسلوں کے ہیں ان میں خلافت سے یہ تعلق کون پیدا کر رہا ہے! یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہے ورنہ انسانی سوچ اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔
پھر
ناروے
سے ایک خاتون بریفان صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں کہ ہر سچا احمدی کہتا ہے کہ ہمارے پیارے حضور ہمارے دلوں اور آنکھوں میں بستے ہیں اور ہم ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔
اس دنیا میں ہمارا کوئی ہم و غم نہیں سوائے اس کے کہ آپ کو خوش کرنے اور آپ کا بوجھ بانٹنے کے طریقے سوچیں۔
آپ نے خطبات میں بیان فرمایا کہ کیسے صحابہ کرامؓ نے اپنے جسموں پر تیر لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی اور حملوں کے سامنے ڈٹے رہے۔ اس نظارے کو سوچ کر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور سوچتی ہوں کہ اگر مَیں ایسے موقع پر ہوتی تو کیا کرتی۔ یہ عرب عورت ہیں۔ کیا ڈٹی رہتی؟ پھر دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ان صحابہ ؓکی طرح خلیفۂ وقت اور خلافت کی اپنے دل و جان اور مال اور اولاد کو قربان کر کے بھی حفاظت کریں۔ کئی سال سے مَیں نماز میں دعا کرتی ہوں کہ جتنے آپ کے ہمّ و غم اور جتنی ذمہ داریاں ہیں اللہ تعالیٰ آپ پر ان سب کی تعداد کے برابر فرشتے نازل فرمائے جو آپ کو اپنے گھیرے میں رکھیں۔
پس یہ ہے وہ اخلاص و وفا کا تعلق جو اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں پیدا کر رہا ہے اور ان شاءاللہ تعالیٰ قیامت تک اللہ تعالیٰ یہ وفا واخلاص میں بڑھنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت کو عطا فرماتا رہے گا۔ خلافت احمدیہ کو عطا فرماتا رہے گا۔ دنیا دار اس کو نہیں سمجھ سکتے۔
جرمنی
میں ایک عرب نے بیعت کی تو اس کے واقف کار نے اسے کہا کہ کیا تم قادیانی ہو گئے ہو؟ اس نومبائع نے جواب دیا ، یہ عرب تھا،کہ تم لوگ یہاں سو عرب ہو۔ تم لوگ کسی بات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے ہو۔
جماعتِ احمدیہ میں ایک امام ہے اوراس کے کہنے پر جماعت اٹھتی ہے اور بیٹھتی ہے اور اسی لیے اس کے کاموں میں برکت ہے۔
تو اب بتاؤ تمہارے میں کیا خوبی ہے جو مَیں تمہارے ساتھ مل جاؤں اور ان کو چھوڑ دوں؟
پس جب تک خلافت سے ہر احمدی چمٹا رہے گا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا رہے گا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے عملوں کو بھی خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہو گا تبھی یہ نعمت فائدہ دے گی۔ یہی
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ ایمان لانے کے ساتھ اپنے عمل اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق رکھیں گے وہ خلافت کی برکات سے فیض پاتے رہیں گے۔
یعنی ہم اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان لاتے ہوئے اس کی عبادت کا حق بجا لانے والے بھی ہوں اور ہمارا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش کرنے والا ہو تبھی ہم یہ فیض پائیں گے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام فرماتے ہیں:’’قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے۔ عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرّہ بھر فسادنہ ہو۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں ’’… اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عملِ صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔ سمجھ لو کہ جب تک تم میں عمل صالح نہ ہو۔ صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 274-275)
پس ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے کہ کسی وقت بھی شیطان ہم پر حملہ نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے باپ دادا کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کی توفیق دی یا ہمیں آپ کو ماننے کی توفیق دی یہ اس کا احسان ہے اور اس احسان کے فیض کو جاری رکھنے کے لیے ہمیں مستقل اپنے ایمان کو بڑھانے اور ایمان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم میں سے ہر ایک اس فیض سے بھی حصہ پاتا رہے جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام سے بھی فرمایا یعنی خلافت کا نظام۔
پس اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے کہ کس قدر ہم خلافت سے اپنے آپ کو جوڑنے والے ہیں تاکہ ہم خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو ایک ہو کر دنیا میں قائم کرنےوالے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ اس کی طرف بڑھنے کا میدان خالی ہے۔ ’’ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔‘‘ خدا کی طرف آنے کی طرف دنیا کی توجہ نہیں۔ ’’وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے والے دروازے کی طرف سے داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ’’ان کے لئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں
یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔‘‘
(رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد20صفحہ308-309)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 309)
یہ سب باتیں آپؑ نے رسالہ الوصیت میں فرمائی ہیں جس میں خلافت کے جاری ہونے کی بھی آپ نے خوشخبری فرمائی تھی۔ پس آپؑ کا یہ فرمان اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ
ہر احمدی کا خلافت سے بھی اخلاص و وفا کا تعلق ہونا چاہیے اور وہی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے جو اس معیار کو حاصل کرنے والے ہوں گے اور جب یہ ہو گا تبھی ہم آج یوم خلافت منانے کے حق کو ادا کرنے والے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ خلافت سے بیعت کے حق کو بھی ادا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی حاصل کرنے والے ہوں۔
آج یہ تھوڑا سا مختلف اعلان بھی ہے کہ
آج گھانا جماعت اپنا جلسہ کر رہی ہے
دو روزہ جلسہ ہے۔ 27، 28کو اور بستان احمد میں جلسہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ملک بھر میں 119 سینٹرز بنائے ہیں ان میں بھی پانچ بڑے اجتماعی سینٹر ہیں اور ان کا رابطہ آپس میں آڈیو ویڈیو کے ذریعہ سے ہے۔ گھانا جماعت کی ابتدا فروری 1921ء میں ہوئی تھی۔ مولانا عبدالرحیم نیر صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں لندن سے روانہ ہو کر گھانا پہنچے تھے گذشتہ سال گھانا جماعت اپنی سو سالہ تقریبات منعقد کرنا چاہتی تھی لیکن کووڈ کی وجہ سے کوئی پروگرام منعقد نہیں ہو سکا۔ اس لیے اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 22ءاور 23ءدو سال یہ پروگرام جاری رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا جلسہ بھی ہر لحاظ سے بابرکت کرے اور ان کو، سب احمدیوں کو اخلاص و وفا میں بڑھاتا چلا جائے۔
اسی طرح
گیمبیا کا بھی جلسہ سالانہ آج ہو رہا ہے
یہ بھی تین دن کا جلسہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 17؍جون2022ءصفحہ5تا10)