یادِ رفتگاں

خالدِ احمدیت حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری کی پیاری یادیں

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

پیارے ابا جان مرحوم و مغفور

میرے پیارے ابا جان مرحوم و مغفور، حضرت خالدِاحمدیت مولانا ابو العطاء جالندھری رحمہ اللہ تعالیٰ کے وصال پر45سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان کی محبت بھری دلکش اور حسین یادیں ہمیشہ کی طرح تروتازہ ہیں ۔ اپنے ذاتی مشاہدات پر مبنی چند ایک واقعات اور تاثرات بیان کرتا ہوں اور قارئین سے عاجزانہ درخواست ہے کہ حضرت ابا جان ؒ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجاتِ قربِ الٰہی کو بڑھاتا چلا جائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں عطا ءً غیر مجذوذ سےنواز ے آمین۔

تعلق باللہ

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت اباجانؒ مرحوم و مغفور صاحبِ کشوف و الہام بزرگ تھے۔رؤیائے صادقہ بہت کثرت سے دیکھتے لیکن طبیعت میں ایسی انکساری اور خاکساری تھی کہ ان عظیم انعامات کا بہت ہی کم ذکر فرماتے۔اکثر اس ذاتی تعلق باری تعالیٰ کا اخفاء ہی پسند فرماتے اور یہی اللہ تعالیٰ کے سچے مومن بندوں کا عام طریق ہوتا ہے۔بعض موقعوں پر ان انعامات کا ذکر آپ کی زبان سے میں نے سنا ہے لیکن ہر بار یہ ذکر اللہ تعالیٰ کے شکر اور اس کی حمد سے لبریز جذبات کے ساتھ ہوتا نہ کہ اپنی ذات کو نمایاں کرنے یا تفاخر کی غرض سے۔

1953ء کے خطرناک حالات میں ہر احمدی مجسم دعا بنا ہوا تھا۔حضرت اباجانؒ نے ان حالات کا ذکرکرتے ہوئے ایک بار فرمایا کہ ان دنوں میں دشمنوں کے خطرناک منصوبوں کی خبریں ہر روز موصول ہوتی تھیں۔ان اطلاعات پر ایک مرکزی کمیٹی میں غور و فکر کیا جاتا ، مشورے ہوتے اور ضروری تدابیر اختیار کی جاتیں۔ آپ فرماتے تھے کہ ان پریشان کر دینے والی خوفناک اطلاعات سے طبیعت بہت فکر مند رہتی اور دعاؤں کی طرف خصوصی توجہ ہوتی۔ ایک روز خاص طور پربہت فکر مندی کا عالم تھا۔ خوب دعا کا موقع ملا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ تسلی دی کہ ان ساری مشکلات کے بادل چھٹ جائیں گے اور ان مشکل حالات میں اللہ تعالیٰ جماعت کی حفاظت فرمائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت اباجان نے اپنے اس الہام کا ذکر فرمایا کہاِنَّا نُنَفِّسُ کُلَّ کُرْبَۃٍ مِنْ کُرُبَا تِ الدُّنْیَاکہ دنیا کی سب مشکلات اور آزمائشوں کو ہم پھونک سے اڑا کر رکھ دیں گے۔تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خدائی وعدہ بڑی شان سے پورا ہوا اور ہوتا چلا جارہا ہے۔

معجزانہ حفاظت

تعلق با للہ اور تائید الٰہی کے حوالے سے مجھے ایک اور ایمان افروز واقعہ یاد آیا جو آپ کے قیامِ فلسطین کے زمانےکا ہے۔ میرے والد محترم حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری رحمہ اللہ بیان فرما یا کرتے تھے کہ میں ایک بار ایک احمدی دوست کے ساتھ ایک تبلیغی پروگرام سے فارغ ہونے کے بعدرات کے وقت پیدل واپس کبابیر آرہا تھا کہ جنگل میں سے گزرتے ہوئے یہ محسوس ہوا کہ جیسے جھاڑیوں میں کچھ حرکت ہے لیکن یہ خیال کر تے ہوئے کہ شاید کوئی جانور ہو، زیادہ توجہ نہ دی ۔ آگے گزر گئے تو تھوڑی دیر بعدپیچھے سے یکے بعد دیگرے دو بندوقوں کے چلنے کی آوازیں سنا ئی دیں۔ لیکن انہیں بھی اتفاقی واقعہ سمجھ کر کچھ توجہ نہ دی گئی۔ بظاہر بہت معمولی سا واقعہ تھا جو یاد بھی نہ رہا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو گویا موت کا سفر تھا جو اللہ تعالیٰ کی تائید کے سایہ میں حفاظت سے طے ہوگیا۔

کافی عرصے بعد اس واقعہ کی اصل حقیقت معلوم ہوئی کہ کچھ معاندینِ احمدیت عرصے سے مجھے قتل کرنے کی کوشش میں تھے۔ اس رات ان میں سے دو نوجوان نئی بندوقوں سے مسلح ہو کر اور پوری تیاری کے ساتھ میری تاک میں جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں اور میرا ساتھی باتیں کرتے ہوئے جب ان کے پاس سے گزرے تو پہلے ان میں سے ایک نے مجھ پر بندوق چلائی لیکن نہیں چلی۔ پھردوسرے نوجوان نے بندوق چلانے کی کوشش کی لیکن اس کی بندوق بھی نہ چل سکی۔ ہم دونوں ان کی قاتلانہ کوششوں سے کلیۃً بے خبر، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور حفاظت کے سایہ میں آگے بڑھ گئے۔ ہمارے گزر جانے کے بعد جب ان دونوں نوجوانوں نے اپنی اپنی نئی بندوقوں کو چلا یا تو انہوں نے بالکل ٹھیک کام کیا۔ ان میں قطعاً کوئی خرابی نہ تھی ۔ بات صرف یہ تھی کہ جب ان بندوقوں کا رخ دو مجاہدینِ اسلام کی طرف تھا تو اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر نے انہیں چلنے سے روک دیا!

توکل علی اللہ

مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب مرحوم نے ایک مجلس میں مجھ سے ذکر فرمایا کہ حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھریؒ نے ان سے ایک موقع پر ذکر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس الہام سے نوازا ہے۔ سَمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّل کہ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابا جانؒ کی زندگی میں توکّل علیٰ اللہ کا پہلو بہت نمایاں طور پر ساری زندگی جلوہ گر رہا۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر زندہ یقین ایک میخ کی طرح آپ کے دل میں گڑا ہوا تھا۔ ہمیشہ اسی قادر و توانا خدا کو اوّل و آخر اپنا معین ومددگار یقین کرتے اور ایک سچے موحد کی طرح ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے اور اسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ غیر اللہ کو پر کاہ کے برابر بھی حیثیت نہ دیتے تھے۔واقعی ایک سچے اور کامل متوکل بندۂ خدا تھے۔

گھر میں ہم بہن بھائی اپنی تعلیمی ضروریات کے لیے رقم لینے کے لیے آپ کے پاس جاتے۔ جا کر ابا جان سے کہتے کہ ہمیں اتنی رقم کی ضرورت ہے تو آپ جیب میں ہاتھ ڈالتے۔ رقم ہوتی تو فوراً دے دیتے اور اگر نہ ہوتی ۔ اورایسے مواقع بہت کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تو فرمایا کرتے تھے کہ اچھا کل رقم لے لینا ۔ ہمارے ابا جان واقف زندگی تھے۔ دنیاوی لحاظ سے مال دار نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ پریقین اور توکل کی دولت سے بھر پور تھے۔ اگلے روز ہم جاتے تو اسی طرح جیب میں ہاتھ ڈالتے اور ہماری مطلوبہ رقم بڑی خوشی سے ہمیں دے دیتے۔ ہم بہن بھائی اکثر آپس میں یہ بات کرتے کہ یہ کیا بات ہے کہ ابا جان کے پاس آج رقم نہیں ہے تو کل کہاں سے آجائے گی۔ ہم سوچتے اور آپس میں اظہار بھی کرتے کہ شاید ابا جان کے پاس پیسے بنانے کی کوئی مشین ہے جو آپ رات کو چلاتے ہیں اور صبح ہوتی ہے تو رقم تیار مل جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی ایسی مادی مشین تو آپ کے پاس نہ تھی البتہ رات کی تاریکی میں چلنے والی دعا ، یقین اور توکل کی مشین ضرور تھی اور یہی آپ کی سب سے قیمتی متاع تھی۔

محبتِ الٰہی سے بھرپور زندگی

حضرت اباجانؒ نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک مکمل اور کامیاب زندگی گزاری۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے سایہ میں، خدمت دین سے بھرپور اور خدائی تائیدات سے معمور ایسی پر سکون اور روحانی زندگی گزاری جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک نفس مطمئنہ عطا فرمادیا تھا۔آپ دنیا میں رہے لیکن دنیا سے الگ رہے۔دنیا کی محبت کلیۃً سرد ہو چکی تھی اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہر چیز پر غالب تھی۔ اس کیفیت میں زندگی کی ہر مشکل اور مصیبت آسان ہو جاتی اور دل ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے شکر سے بھرا رہتا۔یہ پُر سکون زندگی خوشیوں کی آماجگاہ تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا جیتا جاگتا نمونہ۔

آپ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہر چیز پر مقدم تھی۔آپ زندگی بھر اس بات کا قولاً اور عملاً درس دیتے رہے کہ ایک ہی ہے جس کی ذات اور جس کی وفا بھروسا کے لائق ہے۔اللہ تعالیٰ پر زندہ یقین آپ کی زندگی کا مرکزی نقطہ تھا۔اس حیّ و قیوم خدا پر کامل بھروسہ آپ کا شعار تھا۔ ہمیشہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط رکھو کہ وہی ہے جو سب سے زیادہ وفا کرنے والا اور ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دینے والا ہے۔دنیا اور اہل دنیا پر کبھی بھروسا نہ کرو۔

نمازوں کا اہتمام

ہر سچا احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمازوں کا اہتمام کرنے والا ہوتا ہے۔ حضرت اباجان کی زندگی میں یہ وصف بہت ہی نمایاں طور پر نظر آتا تھا۔ دارالرحمت وسطی میں ہمارا مکان ’’بیت العطاء‘‘ایسی جگہ پر واقع تھا کہ دو محلوں کی مسجدوں کے درمیان میں پڑتا تھا۔ دارالرحمت وسطی کی مسجدنصرت ایک طرف اور دارالرحمت غربی کی مسجد ناصر دوسری طرف۔ اباجان کا اور ہم سب کا طریق یہی تھا کہ ہم دونوں مسجدو ں میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ سہولت کے لیے اباجان کی ہدایت پر ہم نے گھر کے برآمدہ میں ایک بورڈ بنا کر لگایا ہوا تھا جس میں دونوں مسجدوں میں نمازوں کے اوقات لکھے ہوتے تھے تاکہ وقت کے لحاظ سے جہاں سہولت ہو نماز ادا کر لی جائے اور نماز باجماعت مل جائے۔ حضرت اباجان کے نمازوں کے اہتمام کو دیکھ کر ہمیشہ وہ حدیث یاد آتی کہ مومن کا دل تو گویا مسجد میں اٹکا رہتا ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری کا انتظار رہتا ہے۔آپ بڑی محبت اور چاہت سے مسجد جاکر نمازیں ادا فرماتے۔ مجھے یاد ہے کہ موسم گرما میں بعض اوقات اتنی شدید گرمی ہوجاتی تھی کہ بسا اوقات دل کرتا تھا کہ نماز گھر پہ ہی ادا کرلی جائے۔ایسی شدید گرمی میں بھی حضرت اباجان سر پر تولیہ لپیٹ کر پانی کا گلاس پی کر نماز کے لیے مسجد تشریف لے جاتے اور کئی بار میں نے سنا کہ آپ سخت گرمی کے حوالے سے ایسے موقعوں پر اس آیت کریمہ کا ذکر فرماتے نَارُجَھَنَّمَ اَشَدُّحَرّاً کہ جہنم کی آگ اپنی حرارت میں بہت ہی شدید ہے۔ جن لوگوں کو ربوہ یا کسی اور علاقےکی شدید گرمی کا تجربہ ہوا ہو وہ صحیح اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایسی شدیدگرمی میں نماز کے لیے مسجد جانا کتنا مشکل ہوتا ہے اورایسی گرمی میں مسجد جاکر نماز ادا کرنے کا کتنا ثواب ہوتا ہوگا۔

درس القرآن

حضرت اباجانؒ کا درس القرآن بہت مقبول تھا۔ بہت معلوماتی اور دلچسپ ہوتا تھا۔تلاوت قرآن مجید کا بھی ایک خاص دلربا انداز تھا۔ترجمہ اور تفسیر بھی وقت کی رعایت سے بہت جامعیت سے بیان فرماتے تھے۔بہت پرانی بات ہے ایک رمضان المبارک میں آپ کے درس کے دن آنے والے تھے مجھے خیال آیا کہ اباجان کا درس ریکارڈ کروالیا جائے(ان دنوں ابھی ریکارڈنگ کا طریق اس قدر رائج نہیں تھا)اس خیا ل سے کہ اباجان کو اس ریکارڈنگ کا پتا نہ چلے اور درس اپنے اصل معروف انداز میں ہی ریکارڈ ہو جائے میں نے مکرم قاضی عزیز احمد صاحب انچارج لاؤڈ سپیکرسے درخواست کی کہ سارا درس ایک ٹیپ پر ریکارڈ کر دیں اور اس طریق پر کریں کہ حضرت اباجانؒ کو اس کا علم نہ ہو سکے۔میں نے ٹیپ ان کو خرید کر دی اور انہوں نے ایمپلی فائر سے براہ راست سارا درس جو تین یا چار دن کا تھا ریکارڈ کر دیا۔درس کے آخری روزگھر آنے پر میں نے اباجان کو بتایا کہ آپ کا سارا درس میں نے ریکارڈ کروالیا ہے تو فرمانے لگے کہ بتا تو دینا تھا کہ ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔ میں نے تودرس میں چند لطائف بھی سنا دیے ہیں۔ میں نے کہا کہ اسی لیے تو آپ کو پہلے سے بتایا نہیں تھا کہ آپ کے اصلی انداز میں ریکارڈنگ ہو سکے۔ سو الحمدللہ کہ یہ ریکارڈنگ ہمارے پاس محفوظ ہے ۔ اسی ریکارڈنگ سے لے کر صرف تلاوت کی ایک الگ آڈیو ٹیپ بھی تیار کر لی گئی ہے۔

عربی زبان کی مہارت

حضرت ابا جان مرحوم و مغفور کو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان بولنے کا خوب ملکہ عطا فرمایا تھا۔میں نے آپ کو بعض موقعوں پر مختصر خطاب کرتے اور بعض عرب دوستوں سے عربی میں گفتگو کرتے سنا ہے۔ آپ بہت روانی اور بے تکلفی سے گفتگو فرماتے تھے۔ لندن میں قیام کے دوران فلسطین ، شام ، مصر اور اردن سے آنے والے پرانے عرب احمدیوں نے دیگر امور کے علاوہ حضرت ابا جان کی عربی دانی اور زور دار تقریر کا بہت کثرت سے مجھ سے ذکر فرمایاہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کواس میدان میں جو غیر معمولی استعداد عطا فرمائی تھی۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ میں نے بار ہا آپ کی زبانی سنا۔

آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بار لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ وہاں ایک بڑے ہال میں اس موضوع پر پبلک جلسہ ہو رہا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی سلطنت ہے، اس ملک میں عربی زبان کو فروغ دینا چاہیے ۔ میں نے چند دوستوں کو ساتھ لیا اور فوراً اس جلسے میں جا شامل ہوا۔ جلسہ کی کارروائی سن کرمجھے سخت تعجب ہوا کہ بات تو عربی زبان کے فروغ کی ہو رہی ہے لیکن عرب مہمانوں کے سوا باقی سب پاکستانی مقررین تقاریر اردو میں کر رہے ہیں۔ خیر میں کارروائی سنتا رہا۔ بہت زور دار تقاریر ہوئیں۔ تقاریر کے آخر میں صاحب صدر کے خطاب سے قبل یہ اعلان ہوا کہ سامعین میں سے اگر کوئی شخص کوئی بات کہناچاہتا ہے تو موقع دیا جا سکتا ہے ۔ میں نے جھٹ اپنے نام کی چٹ بھجواد ی۔ فوراً ہی مجھے بلا لیا گیا۔ میں سٹیج پر گیا اور میں نے عربی زبان میں فی البدیہ تقریر کی۔ میں نے کہا کہ واقعی پاکستان میں عربی زبان کو فروغ دینا چاہیے۔ آیات اور احادیث کے حوالوں کے علاوہ عربی کے ام الالسنہ ہونے کا بھی ذکر کیا ۔ چند منٹ کی تقریر تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص توفیق عطا فرمائی۔

میری تقریر کے بعدآخر میں صاحب صدر کا خطاب تھا جو کسی عرب ملک کے تھے۔ انہوں نے میری تقریر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ تقریر سن کراتنی خوشی ہوئی ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ پاکستانی شخص (جس کو میں نہیں جانتا)سٹیج پر آیا اور بجائے اردو کے عربی میں تقریر شروع کر دی تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ پاکستانی شخص کیسے عربی بول سکے گا۔ میں نے دل میں ارادہ کیا کہ کاغذ قلم لے کر اس کی تقریر میں عربی زبان کی غلطیاں نوٹ کرتا جاؤں ۔ چنانچہ میں نے بہت غور سے اس کی تقریر سننی شروع کی اور مجھے یہ کہتے ہوئے بہت ہی خوشی ہو رہی ہے کہ میں اس غیر عرب پاکستانی کی ساری عربی تقریر میں ایک غلطی بھی نہیں ڈھونڈ سکا اور میں اپنی اس کوشش میں بری طرح ناکام ہو گیا ہوں۔ ایک پاکستانی کی زبان سے ایسی شاندار عربی سن کر میں حیران ہو گیا ہوں اور صمیم قلب سے سارے پاکستانیوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ان میں اس لیاقت اورقابلیت کے افراد موجود ہیں۔

حضرت ابا جان مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ اجلاس ختم ہوا تو حاضرین جلسہ نے مجھے گھیر لیا اور پرتپاک مصافحوں اور معانقوں کے ساتھ ہر طرف سے مبارکباد اور شکریہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں ۔ہر ایک کی زبان پر یہ فقرہ تھا کہ مولانا! آج تو آپ نے اسلام کی اور ہم پاکستانیوں کی لاج رکھ لی ہے ۔ آپ کی نوازش ، آپ کا شکریہ۔ اس کے بعد یہ لوگ مجھ سے پوچھتے کہ مولانا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ میں ربوہ کا ذکر کرتا تو کھسیانے ہو کر وہاں سے کھسک جاتے ۔ یہ منظر دیکھنے والا تھا کہ بڑے تپاک سے آتے اور مبارک باد دیتے لیکن ربوہ کا نام سنتے ہی تعصب کے مارے الٹے پاؤں پھر جاتے !

عرب احمدیوں کے تاثرات

ماہ اپریل2000ء میں جماعت احمدیہ کبابیر(فلسطین) نے اپنا جلسہ سالانہ منعقد کیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر خاکسار نے مرکزی نمائندہ کے طور پر اس جلسے میں شمولیت کی۔میری اہلیہ بھی میرے ساتھ تھیں۔دو ہفتہ قیام کے دوران مجھے احباب جماعت سے ملاقات کرنے اور حضرت اباجان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔اس سفر کی چند یادیں ذکر کرتا ہوں۔

اس سفر کے دوران حضرت اباجان مرحوم ومغفور کے حوالے سے دوست اس قدر محبت اور پیار سے ملتے کہ میں فرط جذبات سے بے قابو ہوجاتا رہا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے احباب جماعت کے دلوں میں حضرت اباجان کی ایسی محبت پیدا کر دی ہے کہ بات بات پر وہ ان کا ذکر کرتے تھے۔ ایک روز میری درخواست پر ایسے سب دوست ایک مجلس میں اکٹھے آئے جنہوں نے حضرت اباجان کو دیکھا اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا۔سب دوست بہت شوق اور محبت سے اکٹھے ہوئے اور محبت و پیار اور جذباتِ الفت سے معمور ایک یادگار مجلس منعقد ہوئی۔سب دوستوں نے اپنی پرانی یادیں اور ایمان افروز واقعات بیان کیے۔الحمد للہ کہ اس ایمان افروز مجلس کی ویڈیو بھی تیار کی گئی اور ان سب محبین اور مخلصین کے ساتھ ایک تاریخی گروپ فوٹو بھی ہوگیا۔میں نے جماعت احمدیہ فلسطین کے ایمان و اخلاص اورحضرت اباجانؒ سے ان کی محبت کا تذکرہ تو بارہا سن رکھا تھا لیکن اس کیفیت کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور محبت بھرے جذبات اور واقعات کو سن کر بہت لطف آیا اور دل جذبات حمدوشکر سے لبریز ہو گیا کہ یہ سب جماعت کی برکت ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے۔ اس کیفیت کو لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ آج بھی اس مجلس کی یاد آتی ہے تو آنکھیں پُر آب ہو جاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ سب مخلصین کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین

ایک دوست نے ذکر کیا کہ میں حضرت مولانا کے ساتھ پریس میں کام کیا کرتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ مولانا عربی رسالے کے لیے خود ہی مضامین لکھتے اور پھر خود ہی کمپوز بھی کرتے اور چند احباب کی مدد سے دستی پریس پر شائع کیا کرتے تھے۔وہ خودبھی مشین چلانے کی خدمت کیا کرتے تھے۔ ایک دوست نے یہ واقعہ یاد دلایا کہ وہ ان کے ساتھ فٹ بال کھیلتے تھے اور حضرت مولانا اکثر ان سے فٹ بال چھین لینے میں کامیاب ہوجایا کرتے تھے۔بعض نے اکٹھے سفر پر جانے کی یادیں تازہ کیں۔ بعض نے مخالفین سے مناظرات اور تبلیغی گفتگو کی تفاصیل بتائیں۔بعض نے اس قہوہ کا ذکر کیا جو وہ اپنے ہاتھ سے تیار کرکے انہیں پلایا کرتے تھے۔ الغرض محبت اور پیار کی زبان سے ایسا خوبصورت تذکرہ جاری رہا کہ ہر شخص کا دل ایک بار پھر حضرت اباجانؒ کی یاد سے آباد اور دعاؤں سے پُر ہوگیا۔میں نے ان محبیّن کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

اس سفر کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ ابتدائی پرانی مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا حجرہ ہوا کرتا تھا جس میں حضرت اباجان نے کچھ عرصہ قیام کیا۔اب تو ماشاء اللہ اس پرانی مسجد کی جگہ پر ایک شاندار اور بہت خوبصورت مسجد تعمیر ہو چکی ہے۔بعدازاں آپ نے ایک اور مکان میں رہائش اختیار کی جو مسجد کے بالکل ساتھ تھا۔میں نے وہ جگہ بھی دیکھی ۔اب وہاں نیا مکان تعمیر ہوچکا ہے۔ایک روز جماعت کے امیر مکرم محمد شریف عودہ صاحب مجھے اور میری اہلیہ کو وہ جگہ دکھانے لے گئے جو مسجد کے قریب ہی پہاڑ کے دامن میں ہے۔ جہاں ایک چشمے پر حضرت اباجانؒ ٹھنڈے پانی میں نہانے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس جگہ کے قریب کھیتوں میں ابتدائی ایام میں حضرت مولانا عربی زبان میں تقریر کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کا طریق یہ تھا کہ آپ تازہ عربی اخبارات خرید کر وہاں اس وادی میں اکیلے چلے جاتے اور کھیتوں کے درمیان کھڑے ہو کر بلند آواز سے اخبار پڑھتے اور تقریر کی مشق کیا کرتے تھے۔اس راز کا پتہ اس طرح لگا کہ ایک روز ایک احمدی بھی قریبی راستہ سے گزر رہا تھا کہ اس نے حضرت مولانا کی بلند آواز سنی اور اس طرح یہ بات ہمارے علم میں آئی کہ آپ تبلیغ اسلام کی خاطر کس طرح دن رات محنت کرتے تھے اور اپنی لیاقت اور قابلیت بڑھانے کے لیے کیا کیا طریق اختیار فرماتے تھے۔

ایک روز مکرم عبد اللہ اسد عودہ صاحب مجھے اپنے ایک پرانے اور معمر شناسا سے ملانے کے لیے لے گئے۔جاتے ہوئے انہوں نے تعارف کروایا کہ وہ ایک معروف علم دوست آدمی ہیں اور ایک مقامی اسلامی تنظیم کے لیڈر ہیں۔ان کا جماعت سے رابطہ رہا ہے اور بعض اوقات وہ مسجد بھی آتے رہے ہیں۔انہیں ہمارے آنے کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ ہم پہنچے تو وہ عرب رواج کے مطابق ہمارے استقبال کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے اور بہت اخلاص اور محبت بھرے پُرجوش معانقہ سے ہمارا استقبال کیا۔پھر بہت تکریم کے ساتھ گھر کے اندر لے گئے اور مرکزی جگہ پر بٹھا کر فوراً ہی مہمان نوازی میں مصروف ہوگئے۔میرے لیے اس نوعیت کایہ پہلا تجربہ تھا۔باوجود دیگرافراد خانہ کے جو مدد کے لیے تیار تھے یہ بزرگ دوست خود گھر کے اندر سے کھانے پینے کی اشیاء ایک ایک کرکے لاتے اور بہت محبت سے پیش کرتے تھے۔اس دوران ان کے محبت بھرے کلمات اور عزت و تکریم کا انداز ان کی قلبی محبت کا آئینہ دار تھا۔ بار بار خوشی کا اظہار کرتے اور کھانے پینے کا اصرار کرتے تھے۔

مہمان نوازی کا زور ذرا دھیما پڑاتو باتیں شروع ہوئیں۔عبد اللہ صاحب نے جماعت کے احوال بیان کیے اور کچھ امور اس معمر بزرگ نے بیان کیے۔دوران گفتگو میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کو جماعت احمدیہ سے کب سے تعارف ہے۔اس پر جو جواب انہوں نے دیا وہ سن کر میں بھی اور عبد اللہ صاحب بھی حیرت میں ڈوب گئے۔انہوں نے کہا کہ میں تو جماعت احمدیہ کو بہت پرانے وقتوں سے جانتا ہوں۔ میں مسجد بھی کئی بار گیا ہوں اور پھر کہا کہ میں السید مولانا ابولعطاء سے بھی ملا ہوں وہ یہاں جماعت کے مبلغ تھے اور بہت بڑے عالم تھے۔اچانک یہ ذکر سن کر ہم دونوں بہت حیران بھی ہوئے اور خوش بھی اور جب عبد اللہ صاحب نے انہیں بتایا کہ میں ان کا بیٹا ہوں تو اس وقت ان کی حالت دیکھنے والی تھی۔فرطِ محبت سے اٹھ کر مجھے گلے لگالیا اور بہت گرمجوشی سے ملے۔مجھے اس وقت حضرت اباجان کی یاد نے بے قابو کر دیا۔اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ان کی محبت بھری یادیں آج بھی زندہ ہیں۔ ان کی قربانیاں آج بھی زندہ ہیں۔ ان کا نیک تذکرہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ الحمدللہ

حیفا جماعت کے موسیٰ بن عبد القادر صاحب نے ایک بار لندن میں مجھ سے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت اباجانؒ مرحوم و مغفور کے مناظرات کے نتیجے میں سارے فلسطین میں آپ کی اتنی علمی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ مخالف علماء انہیں سامنے سے آتا دیکھ کر اکثر اپنا راستہ تبدیل کرلیا کرتے تھے اور اس طرز عمل سے وہ آپ کی علمی برتری اور فوقیت کا اعتراف کرتے تھے۔

رسالہ الفرقان کی مقبولیت

رسالہ الفرقان اپنی مقبولیت اور اہمیت کے لحاظ سے جماعت کی صحافتی تاریخ میں ایک غیرمعمولی مرتبہ رکھتا ہے اور آج بھی لوگ اس رسالہ کو یاد کرتے ہیں۔اس کی ایک وجہ حضرت اباجان کی اپنی ہمہ گیر اور مشہور و معروف شخصیت بھی ہوسکتی ہے مگر الفرقان کی مقبولیت کی اصل وجہ اس کا علمی معیار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ الفرقان نہ صرف جماعت میں مقبول ترین ماہنامہ تھا بلکہ غیر از جماعت علمی اور مذہبی حلقوں میں بھی اس کو خوب شہرت اور مقبولیت حاصل تھی۔اس سلسلے میں اپنا ایک ذاتی تجربہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

غالباً1967ءیا1968ءکی بات ہے کہ مجھے وقف عارضی کرنے کی توفیق ملی۔محترم سیدمیر محمود احمد صاحب ناصر اور مکرم ملک فاروق احمد صاحب کھوکھر کے ہمراہ میں نے یہ عرصہ کوہِ مری میں گزارا۔ایک دن خیال آیا کہ اس علاقے میں پیر صاحب موہڑہ شریف کا مرکز بھی دیکھا جائے۔ چنانچہ ہم راستہ پوچھتے پچھاتے منزل تک پہنچ گئے۔یہ مرکز مری کے نواح میں پہاڑوں کے دامن میں بہت گہری جگہ پر واقع تھا۔ کافی لمبا سفر طے کرکے ہم وہاں پہنچے تو مرکز کے کارکنان نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ ہم نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ اگر ممکن ہو تو ہم کچھ دیر کے لیے پیر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔چند منٹ میں ہم تینوں پیر صاحب کے ملاقات کے کمرہ میں تھے۔وہ ایک فرشی قالین پر تخت پوش پر بیٹھے تھے۔درمیانی عمر، وجیہ صورت، تعلیم یافتہ اور کھلے ذہن کے مالک تھے۔بہت اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی۔ہم نے اپنا تعارف کروایا تو بہت خوش ہوئے اور بتایا کہ وہ احمدیت سے خوب متعارف ہیں۔یہ ذکرکرتے ہوئے انہوں نے اپنے قالین کا ایک کونا اٹھایا تو اس کے نیچے الفضل اور الفرقان کے تازہ شمارے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں جرائد ان کے پاس باقاعدہ آتے ہیں اور وہ بڑے شوق سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ساتھ ہی کہنے لگے کہ میں ان جرائد کو قالین کے نیچے رکھتا ہوں تاکہ باقی دوستوں کی نظر نہ پڑسکے۔

ایک معاندِ احمدیت سے گفتگو

حضرت ابا جانؒ کی معاندِ احمدیت جناب شورش کاشمیری ایڈ یٹر ہفت روزہ چٹان لاہور سے ایک دلچسپ ملاقات مجھے اچھی طرح یاد ہے،میں بھی اس موقعے پر حضرت اباجان ؒ کے ساتھ تھا۔ رسالہ الفرقان کے لیے کاغذ کی خریداری کے سلسلے میں ہم دونوں لاہور گئے ۔ مکرم جناب ملک عبد اللطیف صاحب ستکوہی کی دکان پر پہنچے ، مکرم ستکوہی صاحب نے جو حضرت اباجان کے شاگردِ رشیدتھے حسبِ معمول بہت تپاک سے استقبال کیا اور فوراً چائے وغیرہ کا انتظام کیا۔باتیں ہو رہی تھیں کہ اچانک کہنے لگے کہ مولانا! آج آپ کی ملاقات شورش سے کرواتے ہیں جن سے آپ کی نوک جھونک رسالے میں اکثر جاری رہتی ہے ۔ دیکھا تو جناب شورش کاشمیری لمبا کرتہ اور پاجامہ پہنے ، ننگے سر پہلو انوں کے انداز میں چلتے آرہے تھے۔ حسن اتفاق کہ وہ بھی کسی کام کے سلسلے میں ملک صاحب کی دکان کی طرف ہی آر ہے تھے ۔ باہم تعارف ہوا اور چند ابتدائی باتوں کے بعد ابا جان نے وہ مسئلہ اٹھایا جس کا گذشتہ دنوں ہفت روزہ چٹان میں بڑا چرچا رہا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مدیر چٹان نے جماعت کے خلاف یہ شوشہ چھوڑاتھا کہ ان کا کلمہ نیا ہے اور اس کے ثبوت کے طور پرکتاب Africa Speaks میں نائجیریا کے ایک گاؤں کی احمدیہ مسجد کی پیشانی پر لکھے ہوئے کلمہ طیبہ میں لفظ محمد کو احمد میں تبدیل کر کے بڑے طمطراق سے صفحہ اول پر شائع کیا اور یہ عنوان جمایا تھا کہ لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا!

رسالہ الفرقان میں تصویر کا صحیح عکس شائع کرنے کے علاوہ اس الزام کا مدلل اورمبسوط جواب شائع ہو چکا تھا۔ اس حوالے سے حضرت ابا جان ؒنے ان سے پوچھا کہ شورش صاحب! خدا لگتی کہیں کہ کیا اب بھی آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کا کلمہ نیا ہے ؟ اس پر شورش کاشمیری صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ایک قہقہہ لگایا اور کہا کہ چھوڑیے مولانا ! ان باتوں کو۔ آخر ہم نے بھی تو اپنا اخبار بیچنا ہوتا ہے! اور ساتھ ہی کہا کہ یہ بات Off the record ہے۔ آپ نے اسے اپنے رسالہ میں شائع کیا تو میں فوراً اس کی تردید کر دوں گا۔

بد دیانتی ، جھوٹ اور اس پر یہ ڈھٹائی دیکھ کر ہم سب حیران رہ گئے۔ کذب وافترا کے گند میں پڑ کر انسان کہاں سے کہاں چلا جاتا ہے۔ اس کا ایک افسوس ناک منظر ہم نے دیکھا اور قرآن مجید کی اس آیت کا مفہوم خوب واضح ہوا کہ وَتَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ (الواقعہ : 83) خدا کرے کہ ہمارے علماء خدا خوفی سے کام لیں اور جھوٹ کو ذریعہ آمد بنانے سے اجتناب کی توفیق پائیں۔

دلی خواہش کا پورا ہونا

ہر نیک والد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دین کی خدمت کرتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ پیارے اباجانؒ بھی ہمیشہ اس بات کے متمنی اور دعا گو رہے۔ اگر چہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میرا اکثر وقت بیرون پاکستان گزرا ہے لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ اباجان کی زندگی میں ایسے متعدد مواقع پیدا ہوئے جن کو دیکھ کر آپ بے حد مسرور ہوئے اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازا۔ایک خاص موقع وہ تھا جب 1973ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ برطانیہ کے دورے پر تشریف لائے ۔ حضرت اباجانؒ بھی ان دنوں مختصر رخصت پر لندن آئے ہوئے تھے۔مقامی پولیس کے افسران کے ایک اجلاس میں تقریر کرنے کے لیے مجھے دعوت موصول ہوئی۔ میں نے اباجان سے کہا کہ آپ بھی میرے ساتھ تشریف لے چلیں چنانچہ ہم اکٹھے گئے۔ منتظمین نے پرتپاک استقبال کیا ۔ہم دونوں کو اسٹیج پر بٹھایا اور پروگرام کے مطابق میں نے اسلام کے تعارف کے بارے میں تقریر کی۔ اس کے بعد حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔اس موقع پر بعض حاضرین نے اباجان سے ان کے لباس خصوصاً پگڑی کے بارے میں سوالات پوچھے جن کے جوابات اباجان نے اردو میں دیے اور میں نے ترجمہ کیا ۔ الغرض بہت دلچسپ پروگرام رہا ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اس روز مجھے انگریزی میں تقریر کرتے سن کر اور تبلیغ اسلام کرتے دیکھ کر حضرت اباجانؒ کو بے انتہا دلی خوشی محسوس ہوئی اور انہوں نے اس کا ذکر بھی کیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے محبت بھری دعاؤں سے اس عاجز کو نوازا۔

میں نے یہ واقعہ ایک مثال کے طور پر بہت تامل سے لکھا ہے اورصرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت اباجانؒ کی اپنی اولاد کے بارے میں تمنا کیا تھی اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کی اس بیتاب تمنا کو زندگی میں پورا فرماکر ان کے لیے اسی زندگی میں تسکینِ قلب و روح کے سامان مہیا فرمائے۔فالحمدللہ علیٰ ذالک۔اللہ کرے کہ اگلے جہان میں بھی انہیں اپنی ساری اولاد کی طرف سے ہمیشہ خوشی کی خبریں پہنچتی رہیں۔

شاگردوں کا وسیع حلقہ

حضرت اباجانؒ کے شاگرد بلکہ شاگردوں کے شاگرد آج اکناف عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اور خدمات دینیہ بجا لارہے ہیں۔ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو حضرت اباجان ؒکی زندگی میں جب بھی ان سے ملتے تو بڑے فخر سے یہ ذکر کرتے کہ ہم آپ کے شاگرد ہیں۔ حضرت اباجان ایسے مواقع پر کہا کرتے تھے کہ میرا اصول تو یہ ہے کہ میرا شاگرد تو وہ ہے جو خود اس بات کو تسلیم کرے۔ گھر کے ماحول میں بارہا آپ اپنے قابل اور دیندار شاگردوں کا ذکر بڑی محبت سے کیا کرتے تھے اور ان کی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ کبھی اس بات کی خواہش نہ کرتے کہ کوئی شاگرد آپ کی خدمت کرے بلکہ آپ ان کی خدمت اور عزت افزائی میں خوشی محسوس کیا کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو سعادت مند اور خدمت گزار شاگردوں کا بہت ہی وسیع حلقہ عطا ہوا تھا اور یہ محبت بھرا تعلق زندگی کے آخر تک جاری رہا بلکہ آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے شاگرد جس محبت اور اکرام سے ملتے ہیں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت اباجان کی یاد آج بھی آپ کے شاگردوں کے دلوں میں زندہ ہے اور بعض تو ایسے ہیں کہ حضرت اباجان کا ذکر کرتے ہیںتو آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں اور جذبات سے بے قابو ہوجاتے ہیں۔ یہ سب اسی محبت اور شفقت کا نتیجہ ہے جو آپ کے دل میں اپنے سب شاگردوں کے لیے تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب آپ کی صحت کمزور تھی اور آپ بحالی صحت کے لیے کوٹلی ( آزاد کشمیر)گئے تو محترم مولانا محمد دین صاحب مرحوم نے جس طرح والہانہ محبت بھرے انداز میں دن رات آپ کی خدمت کی اس پر آپ کا دل محبت اور پیار سے لبا لب بھر جاتا تھا اور آپ کے دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعا نکلتی تھی۔جزاہ اللہ احسن الجزاء۔

درویشان قادیان سے محبت

حضرت اباجان کو قادیان دارالامان میں دھونی رما کر بیٹھنے والے درویشان سے دلی محبت تھی۔ مجھے متعدد بار حضرت اباجان کے ساتھ قادیان جانے کا موقع ملا اور میں نے بارہا یہ مشاہدہ کیا کہ ہر موقع پر آپ بڑی رازداری کے ساتھ حتی الوسع درویشان کرام کی مالی امداد فرماتے تھے۔ اس خاموشی کے ساتھ کہ کسی ضرورت مند بھائی کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو اور ضرورت بھی احسن رنگ میں پوری ہوجائے۔ علاوہ ازیں درویش بھائیوں کی تکریم ،دلداری اور حوصلہ افزائی کے مختلف انداز اختیار فرماتے۔ سب سے بڑی محبت سے ملتے اور سب کو دعائیں دیتے۔ ربوہ میں آنے والے درویشان کو گھر پر مدعو کرکے ان کی بھرپور ضیافت کرتے تھے۔

اس سلسلے میں مجھے ایک معین واقعہ یاد آیا جو بظاہر معمولی نظر آتا ہے لیکن حضرت اباجان کے دلی جذبات کو خوب ظاہر کرنے والا ہے۔غالباً جلسے کا موقع تھا چند درویش بھائی ربوہ آئے ہوئے تھے۔ آپ نے حسب معمول ان سب کو گھر میں کھانے کی دعوت پر مدعوکیا۔ کھانے کا گھر پر حسب سابق انتظام کرلیا گیا لیکن اس موقع پر آپ نے بازار سے دہی بطور خاص منگوایا۔ تھوڑی مقدار میں نہیں بلکہ پورا’’کُونڈا‘‘منگوالیا۔یعنی مٹی کا بنا ہوا وہ وسیع برتن جس میں شیر فروش دہی جماتے ہیں۔ وہ سارے کا سارا گھر منگوا لیا۔ گھر میں سب کو اس بات پر حیرت ہوئی کہ اتنا زیادہ دہی آپ نے کیوں منگوایا ہے۔ اس کی بات چلی تو آپ نے فرمایا کہ وجہ یہ ہے کہ کل میں نے دفتر سے واپس آتے ہوئے دیکھا تھا کہ ایک دکان پر یہ درویش کھڑے تھے اور بڑے شوق سے دہی خرید کر کھا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ ان کو بہت پسند ہے اس لیے یہ کُونڈا ہی منگوالیا تاکہ وہ خوب سیر ہوکر کھا لیں۔

قادیان کی ایک یادگار عید

قادیان میں منائی گئی ایک عید بھی مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔میں بارہ تیرہ سال کا تھا اور حضرت اباجانؒ کے ساتھ قادیان گیا ہوا تھا۔اس دوران عید کا موقع آیا تو یہ عید بہشتی مقبرہ کے باغ میں ادا کی گئی۔ہوا یہ کہ عید کی نماز شروع ہوتے ہی اتفاقاً وہاں درختوں پر لگے ہوئے شہد کے چھتے کو کسی نے چھیڑ دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ شہد کی بڑی مکھیاں ہر طرف گھومنے اور ہر ایک کو کاٹنے لگیں۔حضرت اباجانؒ امام الصلوٰۃ تھے۔ نماز میں تکبیرات کے وقت ہاتھ باربار بلند کرنے سے مکھیاں اور بھی شدت سے حملے کرنے لگیں۔مجھے یاد ہے کہ حضرت اباجانؒ نے موقع کی نزاکت کے پیش نظر نماز کی ایک رکعت میں سورۃ الکوثر کی تلاوت کی اور دوسری میں سورت اخلاص کی۔نماز کے بعد خطبہ دینا بھی لازم تھا۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت اباجانؒ نے اس موقعہ پرصرف دو تین منٹ کا خطبہ دیا جبکہ آپ نے پگڑی کے شملہ سے اپنا منہ ڈھانپا ہوا تھا اور دعا کروادی۔اس وقت تک مکھیوں کی یلغار بہت تیز ہو چکی تھی۔

عید سے فارغ ہوتے ہی کچھ لوگ تو بھاگ کر ڈھاب کا پُل پار کر کے سیدھے قادیان چلے گئے ۔ بعض دوسری اطراف میں بھاگنے لگے اور کچھ ایسے بھی تھے جو مکھیوں سے بچنے کے لیے نماز والی دریوں کے نیچے گھس گئے۔میں بھی انہی لوگوں میں شامل تھا۔نئے کپڑوں کی پرواہ کیے بغیر دریوں کے نیچے تو چلا گیا لیکن اندر گرمی اور گرد سے برا حال ہو رہا تھا۔اگر سانس لینے کے لیے دری ذراسی اوپر کرتا تو مکھیاں اندر آتیں اور اگر بند کرتا تو سانس لیتے وقت مٹی اندر آتی۔خیر چند منٹ بمشکل گزارے کہ کسی نے میرا نام لے کر پکاراکہ کہاں ہو۔میں نے دری کو ہلا کر اشارہ کیا تو چند خدام آئے اور مجھے کمبل میں لپیٹ کر اور ہاتھ پکڑ کر قادیان دارالامان پہنچا دیا۔مجھے بھی ایک دو مکھیوں نے کاٹا لیکن پھر بھی خیر گذری۔ بعض لوگوں کا تو بہت ہی برا حال ہوا۔حضرت اباجانؒ بھی اسی طرح کسی دوست کی مدد سے قادیان پہنچے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل محفوظ رہے۔اس واقعہ نے اس عید کوایک ناقابل فراموش عید بنا دیا۔

اوصافِ حمیدہ

حضرت اباجانؒ کی زندگی میں عاجزی اور شکر گزاری بہت زیادہ تھی۔گھر کے ماحول میں مَیں نے آپ کی زبانی عجز و انکسار کا ذکر بارہا سنا۔اپنے ابتدائی حالات اور تنگی کے زمانوں کو ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔اس موضوع پر بات کرتے ہوئے آپ ہمیشہ آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے اور ایسے ایسے انداز میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے کہ سن کر میں بھی جذبات سے مغلوب ہوجاتا تھا۔آپ کی کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کی زندہ تفسیر تھی کہ سب کچھ تیری عطا ہے، گھر سے تو کچھ نہ لائے۔ آپ کو اپنی والدہ مرحومہ سے بہت ہی پیار تھا۔ہر سال یکم ستمبر کو ان کو یاد کیا کرتے تھے۔ ان کے لیے دعائیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میری والدہ تو میرے لیے مجسم دعا تھیں۔

حضرت اباجانؒ کی زندگی میں ایک نمایاں بات یہ تھی کہ آپ نماز جنازہ میں شمولیت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے قطع نظر اس بات کے کہ کس کا جنازہ ہے۔ورثاء سے ہمدردی اور صبر کی تلقین فرماتے اور حتی الوسع تدفین کے لیے بھی ساتھ جاتے۔ خاص طور پر ایسے موقعوں پر ضرور شمولیت کی کوشش فرماتے جبکہ جنازہ کے ساتھ جانے والوں کی تعداد کم ہوتی۔ مقصد یہ ہوتا کہ مرحوم یا مرحومہ کے ورثاء کی دلداری ہو۔

زندہ دلی اور ظرافت

حضرت اباجانؒ بہت زندہ دل انسان تھے اور آپ میں خوش طبعی اور ظرافت کی صفت بہت نمایاں تھی۔لیکن ان سب مواقع پر آپ کا انداز ایسا ہوتا تھا کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور پر مزاح بات بھی بیان ہوجائے۔گھر کے ماحول میں بھی یہی کیفیت ہوتی تھی۔آپ خود بھی لطائف سنایا کرتے اور لطائف سننے کا بھی شوق تھا۔مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک ایسی کتاب میرے ہاتھ لگی جس میں بہت عمدہ لطائف تھے۔بغیر کسی خاص اہتمام کے کچھ روز گھر میں یہ سلسلہ جاری رہا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد اس میں سے کچھ لطائف سناتا تو اباجان اور باقی سب افراد بہت محظوظ ہوتے۔اس کتاب کا نام تو اب مجھے یاد نہیں ہم نے بطور لطیفہ اس کا نام ’’چورن‘‘رکھا ہوا تھا۔

ربوہ کے ابتدائی دنوں میں ربوہ میں گنتی کے چند ٹانگے ہوا کرتے تھے۔ حضرت اباجانؒ عام طور پر چودھری محمد بوٹا صاحب آف دارالیمن کا ٹانگہ استعمال کیا کرتے تھے اور وہ بھی بہت شوق اور محبت سے ہمیشہ اس خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔جب اور جہاں ضرورت ہوتی فوراً آجاتے۔اباجان بھی ہمیشہ ان کو اجرت سے کچھ زائد ہی دے دیا کرتے تھے۔ کسی دعوت پر جاتے تو گھر والوں کو ان کے لیے کھانے کی تاکید کیا کرتے تھے تاکہ وہ بھوکے نہ رہ جائیں۔عیدین اور خوشی کے دوسرے مواقع پر بھی ان کو زائد ادائیگی کرکے خوش کردیا کرتے تھے۔اباجان ان کے ساتھ خوش طبعی کی باتیں بھی کیا کرتے تھے۔ایک دفعہ ان کے ٹانگے میں سوار ربوہ کی کسی سڑک سے گزر رہے تھے۔ سڑک کے کنارے پر نئے پودے لگائے جا رہے تھے ۔ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت ابا جا نؒ نے پنجابی میں چودھری محمد بوٹا صاحب کو فرمایا:’’میاں بوٹا! تیرے ناں دا وادھا ہو ریا اے!‘‘( یعنی تمہارے نام (بوٹا)کا اضا فہ ہو رہا ہے)۔ میاں بوٹا صاحب اور باقی سب احباب بھی اس پر لطف تبصرہ سے بہت محظوظ ہوئے۔

ہمارے ملک میں اشیاء میں ملاوٹ کی خرابی بہت عام ہے۔اس کی ایک مثال دودھ میں پانی ملانا ہے۔ہمارے گھر میں قریبی گاؤں سے ایک معمر خاتون دودھ لایا کرتی تھی اور ہمیں شک گزرتا تھا کہ وہ بیچاری بھی(اللہ معاف کرے)کبھی کبھی اس کمزوری کا ارتکاب کر لیا کرتی تھی۔ ایک روز حضرت اباجان ؒ نے اس عورت کو بڑے پُر مزاح انداز میں اس طرف توجہ دلائی۔ گھر کے صحن میں بیٹھے تھے ۔ ایک طرف نلکا لگا ہوا تھا۔ آپ نے اس خاتون کو مخاطب ہو کر فرمایا۔’’بی بی دیکھو ہمارے گھر میں نلکا موجودہے ۔ ضرورت ہو گی تو ہم پانی خود ہی ملا لیا کریں گے۔‘‘

وضو کا اہتمام

حضرت اباجان ؒ مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے بہت اعلیٰ صفات حسنہ سے نوازا تھا۔ان میں سے ایک آپ کا یہ طریق تھا کہ درس ہو یا تقریر یا کسی نوعیت کی مجلس سے خطاب ہو،ہمیشہ باوضو ہو کر فرماتے۔اس بات کا بہت اہتمام فرماتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ تقریر سے پہلے وضو کر لیناچاہیے۔ اس سے خیالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکیزگی عطا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت شامل حال ہوجاتی ہے۔اس اہتمام کے علاوہ بھی میں نے یہ بات آپ میں دیکھی کہ آپ عام اوقات میں بھی باوضو رہنے کی کوشش فرماتے اور جب بھی وضو دوبارہ کرنے کی ضرورت ہوتی تو اولین فرصت میں اس کا اہتمام فرماتے یہ بات آپ کی ذہنی اور قلبی کیفیات کی آئینہ دار ہے ۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نفاست پسند تھے۔لباس سادہ ہوتا لیکن صاف ستھرا۔ جسمانی صفائی کا بھی بہت اہتمام فرماتے۔

شربتِ زندگی

مجھے یاد ہے کہ حضرت اباجانؒ نے ایک بارمجھ سے ذکر فرمایا کہ انہیں خواب میں ایک بوتل دکھائی گئی جس میں سرخ رنگ کا شربت ہے اور بوتل پرنمایاں حروف میں ’’شربتِ زندگی‘‘کا لیبل لگا ہوا ہے اور ساتھ ہی نیچے قدرے باریک الفاظ میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ شربت75 برس تک کارآمد رہے گا۔مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت اباجانؒ نے فرمایا کہ مجھے اس بشارت میں خاص طور پر کارآمد کے لفظ سے بہت خوشی ہوئی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ میری جتنی بھی زندگی ہو گی وہ آخر تک کارآمد ہوگی۔معذوری کی زندگی نہیں ہوگی اور آخر وقت تک اللہ تعالیٰ خدمت کی توفیق دے گا۔الحمدللہ کہ یہ خدائی وعدہ ہر لحاظ سے پورا ہوا۔عمر بھی قمری لحاظ سے 75 سال ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آخر تک بھرپور خدمتِ دین کی توفیق دی اور آپ خدمت کے راستہ پر سفر کرتے کرتے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔

ناقابل فراموش

مجھے وہ دن خوب اچھی طرح یاد ہے جب حضرت مصلح موعودؓ نے 1956ءمیں آپ کو خالد احمدیت کے خطاب سے نوازا۔ جلسہ سالانہ کی تقریر میں یہ ذکر ہوا تھا ۔ جلسہ سن کر گھر آنے پر حضرت اباجان سے ملاقات ہوئی۔ مبارکباد عرض کی۔ میرے پیارے اباجان اس وقت جذبات سے اس قدر مغلوب تھے کہ زبان سے کچھ کہنا مشکل ہورہا تھا۔ بڑی ہی عجیب کیفیت تھی۔خاکساری، عاجزی اور شکرگزاری کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔بات شروع کرتے تو پھر جذبات سے مغلوب ہو جاتے۔ ایسی کیفیت تھی کہ آج66سال بعد بھی یہ الفاظ لکھتے ہوئے میری آنکھیں اس منظر کو یاد کرکے آنسوؤں سے بھیگی ہوئی ہیں۔ میرے لیے وہ منظر اور وہ کیفیت ناقابل فراموش ہے۔ ناقابل بیان ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت اباجانؒ کے درجات ابدالآباد تک بلند سے بلندتر فرماتا چلاجائے۔آمین

٭…٭…٭

نوٹ: مضمون لکھنے کے بعد اشاعت سے قبل خاکسار نے یہ مضمون حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ارسال کیا ۔ حضور انورنے ازراہ شفقت جواباً اپنے مکتوب گرامی محررہ 12؍اگست 2014ءمیں تحریر فرمایا:’’آپ کی طرف سے اپنے ابا کے بارہ میں مضمون موصول ہوا۔ میں نے جستہ جستہ پڑھا ہے۔ ماشاء اللہ آپ نے اپنی یادوں کو بہت عمدہ رنگ میں جمع کیا ہے ۔ اسے اب شائع بھی کروادیں۔ ان بزرگوں کے رنگ ہی اور تھے۔ اللہ کرے کہ ان کی خوبیاں آئندہ نسلوں میں بھی جاری رہیں اور ان کی دعاؤں سے آپ ہمیشہ فیض پاتے رہیں۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button