مضامین

خلفائے احمدیت حقوق نسواں کے حقیقی علمبردار(قسط اوّل)

(امۃ الباری ناصر)

بڑی شدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحر یک ڈالی ہے کہ احمد ی مستورات بے پردگی کے خلاف جہاد کا اعلا ن کریںکیونکہ اگر آپ نے بھی میدان چھوڑ دیا تو دنیا میں اور کو نسی عورتیں ہو ںگی جو اسلامی اقدار کی حفاظت کے لئے آگے آئیں گی (حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ)

زندہ بچی قبر میں پھینک کر اس پر منوں مٹی ڈال کر جان سے مارنا اسلام میں منع ہے۔ بالکل اسی طرح اس کی حق تلفی کرنا، عزت ِنفس کو مجروح کرنا،محکومیت کی ٹھوکروں میں رکھنا، شعور و آگہی کے راستے مسدود کرنا غلط اثرات سے تحفظ نہ دینا اور برے سلوک سے تکلیفیں اور اذیتیں دے کر موت سے پہلے مارنا اور بار بار مارنا بھی منع ہے۔

اللہ جل شانہ نے بحیثیت ماں،بیوی،بیٹی، اوربہن عورت کے حقوق کا تعین فرمایا۔ حضرت رسول پاک ﷺنے قول و فعل سے انہیں ادا کرکے ہماری راہنمائی فرمائی مثلاً خواتین کے لیے زندہ رہنے کا حق، جسمانی تحفظ،عزت،عصمت، عفت، حیا،پردہ کی حفاظت،جنسی استحصال سے حفاظت، تعلیم و تربیت کا حق،معاشی خود مختاری، رائے دینے کا حق، کام کی اجرت میں برابر ی، پسند کی شادی کا حق، افزائش نسل کا حق، جائیداد رکھنے کا حق وغیرہ شامل ہیں۔ حق دار کو حق ادا کرنے سے گھروں کا امن وسکون جس سے قوموں کی تعمیر اور ترقی کی بنیاد بنتی ہے سلامت رہتے ہیں۔ اگر گھروں میں امن اور توازن نہیں ہوگا تو معاشرتی خرابیاں جنم لیں گی۔ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے اسلام احمدیت میں مردوں اور عورتوں کی ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ وہ اخلق کا نمونہ بنیں۔ اپنے حقوق و فرائض کو سمجھیں اور سچائی سے انہیں ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

اسلام کی تعلیمات میں جو حقوق عورتوں کو دیے گئے ہیں اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتا۔ اپنے حقوق سے محرومی کے نتیجے میں ایک مستقل احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے جو کئی قسم کی لا حاصل تحریکات کو جنم دیتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کے فہم اور اس پر عمل کے رجحان کم ہونے کی وجہ سے عورت کی جو بے وقری نظر آتی ہے اس سے اسلام کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔جبکہ اسلام کی تعلیم ہے:وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ (البقرہ :229)(عورتوں) کا دستور کے مطابق (مَردوں پر) اتنا ہی حق ہے جتنا (مَردوں کا) اُن پر ہے۔

فی زمانہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے احیائے اسلام کا فریضہ ادا کیا اور اسلام کی اصلی اور سچی روح کے مطابق سب تعلیمات کو زندہ کیا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے وَلَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ (البقرہ: 229) کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاوٴں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں۔ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کردیتے ہیں۔ چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَ ھْلِہٖ۔تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ417تا418، ایڈیشن 1984ء)

جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ حضرت اقدس ؑکی تعلیم وتربیت سے خلفائے کرام نے بھی خواتین کے حقوق واضح کیے۔

حضرت مصلح موعودؓ حقوقِ نسواں کے بارے میں فرماتے ہیں :’’انسانی حقوق کا جہاں تک سوال ہے عورتوں کو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے جیسے مردوں کو۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں اور عورتوں کو یکساں احکام دیے ہیں اسی طرح انعامات میں بھی اُ نہیں یکساں شریک قرار دیا ہے۔ اور جن نعماء کے مرد مستحق ہوں گے اسلامی تعلیم کے ماتحت قیامت کے دن وہی انعامات عورتوں کو بھی ملیں گے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے نہ اس دُنیا میں اُن کی کوئی حق تلفی کی ہے اور نہ اگلے جہان میں اُنہیں کسی انعام سے محروم رکھا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 512)

ماں کا حق ہے کہ غیر شرعی احکامات کے علاوہ ہربات میں اس کی اطاعت کی جائے اس کی خوشی اور آرام کا خیال رکھا جائے۔ اسے کسی بات پر ناراض نہ کیا جائے۔ اس کی خدمت کرکے جنت کمالی جائے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: من ادرک احد والدیہ ثم لم یغفرلہ فابعدہ اللّٰہ عزوجل۔ (ابن کثیر جلد 6 صفحہ61) یعنی جس شخص کو اپنے والدین میں سے کسی کی خدمت کا موقع ملے اور پھر بھی اس کے گناہ نہ معاف کیے جائیں تو خدا اس پر لعنت کرے۔بیوی کا حق ہے کہ اسے اپنے جیسا انسان تصور کرکے اس کا ہر طرح خیال رکھا جائے وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا(النحل: 73) اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے تمہاری جنس میں سے ہی جوڑے پیدا کئے۔

بیٹی اور بہن کا حق ہے کہ باپ اور بھائی ان کی حفاظت کریں مناسب دیکھ بھال کریں۔ مناسب وقت پر شادی کروائیں۔

خلفائے کرام نے عورتوں کے ہر حق کی حفاظت فرمائی ہے۔اور سچائی کے ساتھ عورت کو مردوں کے روایتی ظلم و استحصال اور بالجبر محکوم رکھنے کی قباحتوں کو دور کرنے کے لیے لفظ قوام کی درست تفسیربیان فرمائی جس سے ہر قسم کے استحصال کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ اسلام پر لگائے ہوئے الزامات کی نفی ہو تی ہے۔ اور بجائے محکوم رکھنے کے جواز کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ ہوتی ہے۔

لفظ قوام کا مفہوم ہے کہ عورتوں کو نقصان سے محفوظ رکھا جائے

قرآن کریم کا ارشاد ہے :’’مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال (ان پر) خرچ کرتے ہیں۔ پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے۔ اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو تو ان کو (پہلے تو) نصیحت کرو،پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو اور پھر (عند الضرورت) انہیں بدنی سزا بھی دو۔ پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر ان کے خلاف کوئی حجت تلاش نہ کرو۔ یقیناً اللہ بہت بلند (اور) بہت بڑا ہے۔‘‘(النساء:35)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:’’یہ آیت بیاہے ہوئے مردوں کو اچھی لگتی ہے۔ اس کا معنی ٰیہ ہے کہ مردوں کو چاہئے اپنی بیویوں کے محافظ اور ان کی درستی اور ٹھیک رکھنے کا موجب بنیں۔ …کیونکہ مردوں کو خدا نے اس قسم کی لیاقتیں اور موقعے بخشے ہیں۔ عورتیں بھی مردوں کی محافظ ہیں۔‘‘(حقائق الفرقان جلددوم صفحہ 20)

حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں :’’حقوق کے لحاظ سے تو مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں لیکن انتظامی لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر ایک حقِ فوقیت حاصل ہے۔ اُس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک مجسٹریٹ انسان ہونے کے لحاظ سے تو عام انسانوں جیسے حقوق رکھتا ہے۔ اور جس طرح ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کو بھی ظلم اور تعدی کی اجازت نہیں اُسی طرح مجسٹریٹ کو بھی نہیں۔ مگر پھر بھی وہ بحیثیت مجسٹریٹ اپنے ماتحتوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اور اُسے قانون کے مطابق دوسروں کو سزا دینے کےاختیارات حاصل ہوتے ہیں۔اسی طرح تمدنی اور مذہبی معا ملات میں مرد و عورت کے حقوق برابر ہیں لیکن مردوں کو اللہ تعالیٰ نے قوّام ہونے کی وجہ سے فضیلت عطا فر مائی ہے۔ لیکن دوسری طرف اُ س نے عورتوں کو استمالتِ قلب کی ایسی طاقت دےدی ہے جس کی وجہ سے وہ بسا اوقات مردوں پر غالب آ جاتی ہیں… خدا تعالیٰ نے مردوں کے قوام ہونے کے متعلق جو کچھ فیصلہ کیا ہے وہ با لکل درست ہے۔ شریعت کا اس سے یہ منشا نہیں کہ عورتوں پر ظلم ہو یا اُن کی کوئی حق تلفی ہو بلکہ شریعت کا اس امتیاز سے یہ منشا ہے کہ جن باتوں میں عورتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اُن میں عورتوں کو نقصان سے محفوظ رکھا جائے۔ اسی وجہ سے جن باتوں میں عورتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اُن میں اُن کا حق خدا تعالیٰ نے خود ہی اُ نہیں دے دیا ہے۔پس قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے وہ اپنے اندر بہت بڑی حکمتیں اور مصالح رکھتا ہے۔ اگر دنیا ان کے خلاف عمل کر رہی ہے تو وہ کئی قسم کے نقصانات بھی برداشت کر رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام کے خلاف عمل پیرا ہونا کبھی نیک نتائج کا حامل نہیں ہو سکتا۔

آ خر میں وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ فرما کر اس طرف توجہ دلائی کہ یاد رکھو عورتوں پر جو فوقیت ہم نے تمہیں دی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس سے ناجائز فائدہ اٹھاؤ۔ اور ان کے حقوق کو پامال کرنا شروع کردو۔ دیکھو تم پر بھی ایک حاکم ہے جو عزیز ہے۔ یعنی اصل حکومت خدا تعالیٰ کی ہے۔ اس لیے چاہیےکہ مرد اس حکومت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ اور حکیم کہہ کر اس طرف توجہ دلائی کہ ضبط و نظم کے معا ملات میں جو اختیار ہم نے مردوں کو دیا ہے یہ سرا سر حکمت پر مبنی ہے ورنہ گھروں کا امن بر باد ہو جاتا۔ چو نکہ میاں بیوی نے مل کر رہنا ہوتا ہے اور نظام اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک کہ ایک کو فوقیت نہ دی جائے اس لیے یہ فوقیت مرد کو دی گئی ہے اور اس کی ایک اور وجہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ مرد اپنا روپیہ عورتوں پر خرچ کرتے ہیں اس لیے انتظامی امور میں انہیں عورتوں پر فوقیت حاصل ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد2صفحہ 513تا514)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے فرمایا:’’ویسے تو قرآن کریم کی آیات کے بے شمار معانی ہوتے ہیں لیکن اس آیہ کریمہ میں لفظ قوام کے یہ معنے نہیں ہیں جیسا کہ بعض بیوقوف لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں اختیار دے دیا گیا ہے کہ جس طرح مرضی بیویوں سے سلوک کریں۔ یہ غلط ہے دراصل اس رشتہ کو قائم رکھنے کی ذمہ واری خاوند پر ڈالی ہے یعنی بیوی کا قیام جسمانی لحاظ سے، اس کا قیام ذہنی لحاظ سے،اس کا قیام اخلاقی لحاظ سے،اس کا قیام روحانی لحاظ سے خاوند کے ذمہ ہے بالفاظ دیگر ایک کنوارہ آدمی غلطی کرتا ہے تو اس اکیلے پر ذمہ واری ہے۔ ایک کنواری بچی سے غلطی ہو جائے تو اس لڑکی پر ذمہ واری ہے کسی مرد پر ذمہ واری نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک بیاہی ہوئی بچی سے کوئی غلطی ہو جائے تو دو پر اس کی ذمہ واری عائد ہوتی ہے۔ ایک لڑکی پر اور دوسرے اس کے خاوند پر۔ اس کاکام تھا کہ دونوں اس طرح یک جان ہو جائیں کہ وہ اس قسم کی غلطی نہ کرسکے۔‘‘(انوار القرآن جلد 1 تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ صفحہ555)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اس آیت کی وضاحت فرماتے ہیں :’’سب سے پہلے تو لفظ قوّام کو دیکھتے ہیں۔ قوّام کہتے ہیں ایسی ذات کو جو اصلاح احوال کرنے والی ہو، جودرست کرنے والی ہو، جوٹیڑھے پن اور کجی کو صاف سیدھا کرنے والی ہو۔ چنانچہ قوّام اصلاح معاشرہ کے لئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا۔ پس قوّامون کا حقیقی معنی یہ ہے کہ عورتوں کی اصلاحِ معاشرہ کی اول ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے۔ اگر عورتوں کا معاشرہ بگڑنا شروع ہوجائے، ان میں کج روی پیدا ہوجائے، ان میں ایسی آزادیوں کی رو چل پڑے جو ان کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہو۔ یعنی گھریلو نظام کو تباہ کرنے والی ہو، میاں بیوی کے تعلقات کوخراب کرنے والی ہو، توعورت پر دوش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو نگران مقرر فرمایا تھا۔ معلوم ہوتاہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلہ میں ادا نہیں کیں۔‘‘ (جلسہ سالانہ انگلستان۔یکم اگست 1987ء بحوالہ عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ52)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ(النساء: 35) کہہ کر مردوں کو تو جہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی بھلائی کا کام سپرد کیا ہے تم نے اس فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ اس لئے اگر عورتوں میں بعض برائیاں پیدا ہوئی ہیں تو تمہاری نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ پھر عورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں، اب بھی، اس مغربی معاشرے میں بھی، اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں میں بھی، کہ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے۔ تو خود تو کہہ دیتے ہیں کہ عورتیں نازک ہیں۔ عورتیں خود بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اعضاء جو ہیں، بعض قویٰ جو ہیں مردوں سے کمزور ہوتے ہیں، مردکا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس معاشرے میں بھی کھیلوں میں عورتوں مردوں کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ میں تخلیق کرنے والا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ میں نے کیا بناوٹ بنائی ہوئی ہے مرد اور عورت کی اور اس فرق کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ مرد کو عورت پر فضیلت ہے تو تمہیں اعتراض ہو جاتاہے کہ دیکھو جی اسلام نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی۔ عورتوں کو تو خوش ہو نا چاہئے کہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مرد پر زیادہ ذمہ داری ڈال دی ہے اس لحاظ سے بھی کہ اگر گھریلو چھوٹے چھوٹے معاملات میں عورت اور مرد کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں ہوجاتی ہے، ناچاقیاں ہو جاتی ہیں تو مرد کو کہا کہ کیونکہ تمہارے قویٰ مضبوط ہیں، تم قوّام ہو، تمہارے اعصاب مضبوط ہیں اس لئے تم زیادہ حوصلہ دکھاؤاور معاملے کوحوصلے سے اس طرح حل کر و کہ یہ ناچاقی بڑھتے بڑھتے کسی بڑی لڑائی تک نہ پہنچ جائےاور پھر طلاقوں اور عدالتوں تک نوبت نہ آجائے۔ پھر گھر کے اخراجات کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالی گئی ہے۔‘‘ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 83)

حقوق نسواں ادا کرنے میں خلفائے کرام کا ذاتی نمونہ

کار خیر کی تحریص اور ترغیب کے لیے آنحضورﷺ نےاپنا نمونہ پیش فرمایا۔’’خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَ ھْلِہٖ وَ اَ نَا خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِی‘‘(مشکوٰۃ)تم میں سے بہتر وہ ہے جس کا اپنے اہل و عیال سے سلوک اچھا ہے اور مَیں تم میں سے اپنے اہل سے اچھا سلوک کرنے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔

قول اور فعل میں ہم آہنگی کی یہ مثال دلوں پر بہت اثر کرتی ہے۔ حقوق نسواں کی علمبرداری پر بات کرتے ہوئے آپؐ کے عشاق خلفائے کرام کی عائلی زندگی دیکھیں تو اس معیار پر حسن و خوبی سے پورا اترتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ بیوی کی رازداری کا خیال رکھتے تھے فرمایا:’’میں نے اپنی بیوی کی چیزیں کبھی نہیں دیکھیں نہ ہمیں اب تک معلوم ہے کہ ان کے پاس کتنے ٹرنک، برتن، کپڑے، چیزیں ہیں۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ عورتوں کی باتوں میں دخل دیں۔فرمایا: بلکہ میں اپنی بیوی کی کوٹھڑی کی جانب بھی کم ہی جاتا ہوں۔‘‘(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ80)

آپؓ کے اپنے گھر میں حسن سلوک کے بارے میں ’’ارشاداتِ نور‘‘میں لکھا ہے: ’’حضرت خلیفۃ المسیح کے دل میں عورتوں کی ہمدردی اور اصلاح کے لئے ایک خاص جوش ہے اور یہ امر آپ کے ان خطبوں سے جو نکاح کے موقع پر آپ پڑھتے ہیں بخوبی ظاہر ہے۔ کبھی غذا کے متعلق کوئی امر پیش آیا تو آپ نے والدہ عبدالحی کی تجویز کو مقدم رکھا۔ آج 24؍فروری1911ء کو آپ نے قبل عصر پینے کے لئے جنجر طلب کیا۔ مگر اندر سے کہلا بھیجا کہ قہوہ اور کچھ کھانے کو دیں گے۔حضرت نے فرمایا کہ اگر اس وقت کچھ کھایا تو رات کو نہیں کھایا جائے گا۔ میں صرف تھوڑا سا پانی پیتا ہوں۔ مگر والدہ عبدالحی نے جو تیار کیا تھا اسے پلانا چاہا اور پھر کہا کہ نہیں کچھ قہوہ اور تھوڑا سا کیک کھالو۔ اس پر فرمایا۔اچھا۔

یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے…اس میں کتنا بڑا سبق اپنی بیوی کی دلداری کا ہے جس کے ذریعہ گھر جنت کا نمونہ ہوجاتا ہے۔‘‘(ارشادات نور جلد دوم صفحہ 324)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اپنے گھر میں بیویوں کے حقوق ادا کرکے جنتِ ارضی کی تعمیر کی اور ایک روشن مثال قائم فرمائی۔ متعدد شادیاں کرنا اور سب سے محبت و مودت میں خوشگوار توازن رکھنا بجائے خود ایک روشن مثال ہے۔ ہر بیگم کی قدردانی کے انداز ان کی طبائع کے مطابق ہیں۔

حضرت سیدہ چھوٹی آپا مریم صدیقہؒ کو تیس سال کا زمانۂ رفاقت نصیب ہوا۔ آپ اپنے شوہر کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہیں اور شکر گزار بھی۔ تحریر فرماتی ہیں:

چن لیا تونے مجھے ’ابنِ مسیحا‘کے لیے

سب سے پہلے یہ کرم ہے مرے جاناں تیرا

ہزاروں درود اور سلام آنحضرت ﷺ پر جن کے طفیل ہمیں اسلام جیسی نعمت حاصل ہوئی اور پھر ہزاروں سلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو اسلام کو دوبارہ لائے اور ہم نے زندہ خدا کا وجودان کے ذریعہ دیکھا۔آنحضرتﷺ پر ان کی وجہ سے ایمان لانا نصیب ہوا اور میرے رب کا کتنا بھاری احسان مجھ ناچیز پرہے کہ اس نے مصلح موعود کے زمانے میں مجھے پیدا کیا نہ صرف اُن کا زمانہ عطا فرمایا بلکہ… مجھے اُس پاک و نورانی وجود اس قدرت و رحمت اور قربت کے نشان اور مثیلِ مسیح کے لیے چُن لیا۔آپ کی صحبت سے فیض حاصل کرنے،آپ کی تربیت میں زندگی گزارنے اور پھر اس پاک وجود کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔خدا تعالیٰ کی کیا شان ہے۔ دینے پر آئے تو جھولیاں بھر بھر کر دیتا ہے۔میں کیا اور میری ہستی کیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اتنا بڑا انعام ہے کہ اس کے احسان اور انعام کا تصور کرکے بھی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سر آستانۂ الوہیت پر جھک جاتا ہے اور منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے

مَیں تو نالائق بھی ہوکر پاگیا درگہ میں بار

(الفضل 25؍ مارچ 1966ء)

حضور ؓکی بیگمات کے جذبات کا خیال رکھنے کے بارے میں حضرت سیدہ مہر آپا ؒ تحریر فرماتی ہیں :’’ایک دفعہ ایسی صورت پیش آئی کہ گھر کے ملازم بوجہ بیماری رخصت پر تھے گھر کے کاموں کی مسلسل مصروفیت کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کا کام بھی پہلی دفعہ مجھے کرنا پڑا۔ حضورؓ نے کھانے کی خوب تعریف فرمائی بلکہ مزید حوصلہ افزائی اور قدردانی کے طور پر حضرت اماں جان ؓکو بھی کھانا بھجوایا اور یہ صراحت فرمائی کہ ’’یہ بشریٰ نے تیار کیا ہے …‘‘

ہم لوگ اس محنت اور کوفت کو بھول جاتے تھے جس میں ہم دن رات لگے رہتے یہی دل چاہتا کہ آپ ہم سے کام لیتے جائیں اور ہم بے تھکان کام کیے جائیں کام لینا بھی آپ پر ختم تھا۔ کام کے دوران… لطیفے اور قہقہے بھی ہوتے آپ کی مجلس و قربت باوجود شدید مصروفیت کے زعفران زار ہوتی۔‘‘(سوانح فضل عمر جلد 5 صفحہ 374)

حضور ؓکی ایک صاحبزادی امۃ الرشید بیگم تحریر فرماتی ہیں:’’حضور کی چار بیویاں ہیں اور ازدواجی زندگی میں تعدّد ازواج ایک بڑا نازک مرحلہ ہوتا ہے مگر حضور کے گھر کی جو کیفیت ہے اسے خدا تعالیٰ کا فضل اور حضور کی قوت قدسی کا اعجاز ہی کہنا چاہیے کیونکہ اتنے بڑے گھرانے میں جو محبت پیار کا نمونہ نظر آتا ہے دنیا اس کی نظیر لانے سے قاصر ہے۔ آپ اپنی بیویوں کے بارے میں کامل عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔ افراد کی نسبت سے خرچ دیتے ہیں، کبھی کسی کو شکوہ شکایت کا موقع نہیں ملتا، نہایت محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں،سب بیویاں دل کی گہرائیوں سے حضور کی مدّاح ہیں، سفروں میں باری باری ساتھ لے جاتے ہیں،گھر میں باریاں مقرر ہیں اور ہر ایک کے حقوق کا پورا خیال رکھتے ہیں۔‘‘(الفضل خلافت جوبلی نمبر 28؍ دسمبر 1939ء صفحہ 9)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اپنے خطبات،مضامین اور نظموں میں جس محبت سے اپنی بیگمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور دعائیں کی ہیں بے مثال ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے حضرت سیدہ منصورہ بیگم کی وفات پر فرمایا:’’خدا تعالیٰ نے احسان کیا مجھ پر اور آپ کے خلیفہ وقت پر کہ ایسی ساتھی دی گئی جو اس کے کام میں ہاتھ بٹانے والی ہو اور اچھے نتائج پیدا کرنے والی ہو۔ خدا تعالیٰ کا شکر کریں اور حمد پڑھیں اور لَا اِلٰہَ اِلَااللّٰہ کا ورد کریں اور اَللّٰہُ اَکْبَرْ کے نعرے لگائیں اور جس کو ذریعہ بنایا اس چیز کا اس کے لئے دعا کریں اور ہمارے لئے ساری گھبراہٹیں دور کرنے اور غموں کو ہوا میں اڑانے کے لئے یہ ایک فقرہ کافی ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍دسمبر1981ءخطبات ناصر جلد9صفحہ332)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے حضرت سیدہ آصفہ بیگم کی یاد میں کہے گئے اشعار ان کے غم کے غماز ہیں :

میرے آنگن سے قضا لے گئی چُن چُن کے جو پُھول

جو خدا کو ہوئے پیارے، مرے پیارے ہیں وہی

تم نے جاتے ہوئے پلکوں پہ سَجا رکھے تھے

جو گہر، اب بھی مِری آنکھوں کے تارے ہیں وہی

منتظر کوئی نہیں ہے لبِ ساحِل ورنہ

وہی طُوفاں ہیں، وہی ناؤ، کِنارے ہیں وہی

یہ تِرے کام ہیں مَولا، مجھے دے صبروثَبات

ہے وہی راہ کٹھن، بوجھ بھی بھارے ہیں وہی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے اپنی اہلیہ حضرت سیدہ امۃ السبوح بیگم صاحبہ سے خوش اسلوبی سے پیش آنے کا ذکر مکرم عابد خان صاحب کی ڈائریوں میں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر جاپان کی سیر کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’مارکیٹ میں پہنچنے پر حضور انور اور خالہ سبوحی نے بعض چھوٹی دکانیں دیکھیں اور میرے خیال سے خالہ سبوحی نے بعض چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی خریدیں۔ وہاں سیر کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کس طرح اس چھوٹی سی سیر کے دوران یہ بات عیاں تھی کہ حضور انور اور آپ کی فیملی جماعت کے لیے کس قدر قربانیاں کرتے ہیں۔ جہاں ہم سب جب چاہیں اپنی مرضی سے اپنی family کے تفریحی program بناتے ہیں ایسے مواقع حضور انور اور خالہ سبوحی کو کم ہی میسر آتے ہیں اور بہت کم مواقع پر آپ ایسے مقامات پر جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر جب قافلہ ممبران اور لوکل جماعت کے ممبران بھی آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘(الفضل آن لائن 27؍جون2022ء)

یہ تو ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح حضور جلسہ یا اجتماع سے واپسی پر اس وقت تک گاڑی میں تشریف نہیں رکھتے جب تک بیگم صاحبہ تشریف نہ لے آئیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ ہر آن سلامت رکھے۔آمین

عزت،عصمت،عفت، حیا،پردہ اور رازداری کی حفاظت کا حق

قرآن مجید میں حجاب کے احکام صنفِ نازک کی حفاظت کے لیے ہیں۔ اسلام ہروہ دروازہ بند کرتا ہے جہاں سے نازک آ بگینوں کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ہر لحاظ سےپیش بندی کرتا ہے۔ ہر ممکن حفاظتی اقدامات کرتا ہے تاکہ کسی شکل میں کوئی ٹھیس نہ لگے۔بے خوف و خطر عزت اور سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ ہمارے خلفائے کرام ہر زمانے کے ابتلاؤں اور تقاضوں کے مطابق ان پر عمل کرنے کے لئے بار بار یاد دہانی کراتے رہتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ خواتین کے حجاب کے بارے میں بڑا کارآمد نکتہ بیان فرماتے ہیں:’’اپنی آنکھیں نیچی رکھیں۔ شرم گاہوں کو محفوظ رکھیں اور اپنی زینت کو نہ دکھاویں سوائے خاوندوں اور باپوں وغیرہ کے اور سوائے اپنی خاص عورتوں کے۔ اس پر بھی مجھے حیرت ہے کہ بہت کم عمل ہے۔ بہت سی عورتوں سے بھی پردہ لازم ہے۔ ہر ایک عورت سے بے پردگی نہ ہو۔‘‘(الحکم 31؍جولائی۔ 10؍اگست 1904ءصفحہ9)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکا تاکید کرنے کا اپنا انداز ہے فرمایا:’’پردہ چھوڑنے والا قرآن کی ہتک کرتا ہے ایسے انسان سے ہمارا کیا تعلق۔ وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم اس کے دشمن اور ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے احمدی مردوں اور ایسی احمد ی عورتوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں۔‘‘(الفضل27جون1958ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’قرآن نے پردے کا حکم دیا ہے انہیں (یعنی احمد ی مستورات کو)بہر حال پردہ کرنا پڑے گا یا وہ جماعت چھوڑ دیں کیونکہ ہماری جماعت کا یہ موقف ہے کہ قرآن کریم کے کسی حکم سے تمسخر نہیں کرنے دیا جائے گا۔ نہ زبان سے اور نہ عمل سے۔ اسی پر دنیا کی ہدایت اور حفاظت کا انحصار ہے۔‘‘ (الفضل 25؍نومبر 1978ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الر ابع رحمہ اللہ نے فرمایا:’’بڑی شدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحر یک ڈالی ہے کہ احمد ی مستورات بے پردگی کے خلاف جہاد کا اعلا ن کریں۔ کیونکہ اگر آپ نے بھی میدان چھوڑ دیا تو دنیا میں اور کو نسی عورتیں ہو ںگی جو اسلامی اقدار کی حفاظت کے لئے آگے آئیں گی۔‘‘ (الفضل 28؍فروری1983ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خداداد بصیرت سے ہواؤں کا رخ، زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور خواتین کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے مطابق راہنمائی فرماتے ہیں ،گویا سیدھا راستہ دکھانے کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں جہاں بھی بھٹکنے کا ڈر ہو کھینچ کھینچ کر راہ پر لاتے ہیں اس کے باوجود جب کوئی اپنے بچوں یا بڑوں میں حدود پار کرنے کے رجحان کی خبر دے کر دعا کے لئے کہتا ہے تو علاج تجویز فرماتے ہیں اور ساتھ دعا بھی کرتے ہیں۔احمدیت ہمیں مکمل اطاعت کا درس دیتی ہے آپ جن باتوں سے منع کرتےہیں ان کو چھوڑ دینے میں ہی فلاح ہے۔ مختصرا ً چند نصائح آپ ہی کے الفاظ میں درج ہیں :

حیا کی اہمیت کا احساس پانچ چھ سال کی عمر سے ہی اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہو گا

’’اس معاشرے میں ہمیں اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو حجاب اور پردے اور حیا کا تصوّر پیدا کروانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حیا اور حجاب کی جھجک اگر کسی بچی میں ہے تو ماؤں کو اسے دُور کرنا چاہئے بلکہ اسے خود اپنے آپ بھی دُور کرنا چاہئے اگر اس کی عمر ایسی ہے۔ مائیں اگر گیارہ بارہ سال کی عمر تک بچیوں کو حیا کا احساس نہیں دلائیں گی تو پھر بڑے ہو کر ان کو کوئی احساس نہیں ہو گا…۔

پس اس معاشرے میں جہاں ہر ننگ اور ہر بیہودہ بات کو اسکول میں پڑھایا جاتا ہے پہلے سے بڑھ کر احمدی ماؤں کو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اپنے بچوں کو بتانا ہو گا۔ حیا کی اہمیت کا احساس شروع سے ہی اپنے بچوں میں پیدا کرنا ہو گا۔ پانچ چھ سات سال کی عمر سے ہی پیدا کرنا شروع کرنا چاہئے۔ پس یہاں تو ان ملکوں میں چوتھی اور پانچویں کلاس میں ہی ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں کہ بچے پریشان ہوتے ہیں جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ اسی عمر میں حیا کا مادہ بچیوں کے دماغوں میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بعض عورتوں کے اور لڑکیوں کے دل میں شاید خیال آئے کہ اسلام کے اور بھی تو حکم ہیں۔ کیا اسی سے اسلام پر عمل ہو گا اور اسی سے اسلام کی فتح ہونی ہے۔ یاد رکھیں کہ کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا8 ؍اکتوبر 2016 ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍مارچ 2017ء)

لغو سے بچو

’’ہمیشہ سوچیں کہ ہم احمدی ہیں اور اگر ہم نے احمدی رہنا ہے تو پھر اِن لغویات سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیشہ یہ سوچیں کہ اگر ہم نے احمدیت کو سچا سمجھ کر مانا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سچا سمجھتے ہیں اور آپؑ کو سچا سمجھتے ہوئے آپؑ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں تو ہمیں تمام ان باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے جن سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، تبھی ہم اُن انعاموں سے فیض اٹھا سکیں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ہے۔‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے4؍ نومبر2007ء بمقام بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍دسمبر 2016ء)

’’بعض ٹی وی چینلز ہیں،ویب سائٹس ہیں جو فضول اور لغو ہیں، ان کو نہ دیکھیں۔ لیکن غیروں کے زیر اثر یہ سوال اُٹھتے ہیں کہ اُنہیں دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ ہم کون سا وہ حرکتیں کر رہی ہیں جو ٹی وی چینلز پر دکھائی جاتی ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ دو چار چھ دفعہ دیکھنے کے بعد یہی حرکتیں پھر شروع بھی ہوجاتی ہیں۔ بعض گھر اس لئے تباہ ہوئے کہ وہ یہی کہتے رہے کہ کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ دین سے بھی گئے، دنیا سے بھی گئے، اپنے بچوں سے بھی گئے۔ تو یہ جو ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے، کچھ آزادی ہونی چاہئے۔ یہ بڑی نقصان دِہ چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ لغوسے بچو تو اس لئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی فطرت کو جانتا ہے۔ اُسے پتہ ہے کہ آزادی کے نام پر کیا کچھ ہونا ہے اور ہوتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کو یہی کہا تھا کہ میں ہر راستے سے ان بندوں کے پاس، جو آدم کی یہ اولاد ہے، انہیں ورغلانے آؤں گا اور سوائے عبادالرحمٰن کے سب کو مَیں قابو کرلوں گا۔ اُس نے بڑا کھُل کے چیلنج دیا تھا۔‘‘(خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے 4 نومبر 2007ء بمقام بیت الفتوح، لندن،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9دسمبر 2016ء)

نا محرم مرد اور عورت آپس میں کھلے طور پر میل جول نہ کریں

’’پردہ کا مقصد تو یہ ہے کہ نا محرم مرد اور عورت آپس میں کھلے طور پر میل جول نہ کریں، آپس میں نہ ملیں، دونوں کی جگہیں علیحدہ علیحدہ ہوں۔ اگر آپ اپنی سہیلی کے گھر جا کر اس کے خاوند یا بھائیوں یا رشتہ داروں سے آزادانہ ماحول میں بیٹھی ہیں۔ چاہے منہ کو ڈھانک کے بیٹھی ہوتی ہیں یا منہ ڈھانک کر کسی سے ہاتھ ملارہی ہیں تو یہ تو پردہ نہیں ہے۔ جو پردے کی غرض ہے وہ تو یہی ہے کہ نامحرم مَرد عورتوں میں نہ آئے اور عورتیں نامحرم مَردوں کے سامنے نہ جائیں۔ ہر ایک کی مجلسیں علیحدہ ہوں۔ بلکہ قرآن کریم میں تو یہ بھی حکم ہے کہ بعض ایسی عورتوں سے جو بازاری قسم کی ہوں یا خیالات کو گند کرنے والی ہوں ان سے بھی پردہ کرو۔ ان سے بھی بچنے کا حکم ہے۔ اس لئے احتیاط کریں اور ایسی مجلسوں سے بچیں۔‘‘ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ کینیڈا 3؍جولائی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍ستمبر2005ء)

شادی شدہ جوڑوں کو احتیاط لازم ہے

’’معاشرے میں عورتیں اور مرد زیادہ مکس اپ (Mixup) ہونے لگ گئے ہیں۔ اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ عورتوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھنے کی اجازت مل گئی ہے اور بیویوں کی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھنے کی بھی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ خیال رکھنا بالکل اور چیز ہے اور بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ دوستانہ کرلینا بالکل اور چیز ہے۔ اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ پھر بیوی تو ایک طرف رہ جاتی ہے اور سہیلی جو ہے وہ بیوی کا مقام حاصل کر لیتی ہے۔ مرد تو پھر اپنی دنیا بسا لیتا ہے لیکن وہ پہلی بیوی بےچاری روتی رہتی ہےاور یہ حرکت سراسر ظلم ہے اور اس قسم کی اجازت اسلام نے قطعاً نہیں دی۔ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں شادی کرنے کی اجازت ہے…یہاں ان معاشروں میں خاص طور پر احتیاط کرنی چاہئے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اُس بیوی کا بھی خیال رکھیں جس نے ایک لمبا عرصہ تنگی ترشی میں آپ کے ساتھ گزارا ہے۔ آج یہاں پہنچ کر اگر حالات ٹھیک ہو گئے ہیں تو اس کو دھتکار دیں، یہ کسی طرح بھی انصاف نہیں ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ2؍جولائی2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسی ساگا کینیڈا)

’’صرف نادان لڑکے لڑکیوں کی وجہ سے برائیاں نہیں پیدا ہو رہی ہوتیں بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شادی شدہ لوگوں میں بھی آزادی اور دوستی کے نام پر گھروں میں آناجانا، بلا روک ٹوک آنا جانا مسائل پیدا کرتا ہے اور گھر اجڑتے ہیں۔ اس لئے ہمیں جن پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق دی ہے، اسلام کے ہر حکم کی حکمت ہمیں سمجھائی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر بغیر کسی قسم کے سوال اور تردّد کے عمل کرنا چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍مئی 2016ءبمقام مسجد گوٹن برگ، سویڈن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍ جون 2016ء)

غیر مردوں سے مصافحہ منع ہے

’’جو logic حجاب کے متعلق ہے وہی logicمَردوں سے ہاتھ نہ ملانے میں بھی ہے۔ یعنی اگر آپ کسی غیرمحرم کی آنکھوں سے بچتی ہیں تو اس کے ہاتھوں سے کیوں نہیں !‘‘ (طالبات کے ساتھ نشست 26؍جون 2012ءبمقام واشنگٹن، امریکہ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍ اگست 2012ء)

ڈانس منع ہے۔ڈانس اور ورزش میں فرق ہے

’’ڈانس میں انتہائی بےحیائی سے جسم کی نمائش ہوتی ہے۔ یہ انتہائی بیہودگی ہے۔ یاد رکھیں کہ لڑکیوں کو لڑکیوں کے سامنے بھی ڈانس کی اجازت نہیں ہے۔ بہانے یہ بنائے جاتے ہیں کہ ورزش میں بھی تو جسم کے مختلف حصوں کو حرکت دی جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ورزش ہر عورت یا بچی علیحدگی میں کرتی ہےیا ایک آدھ کسی کے سامنے کرلی۔ اگر ننگے لباس میں لڑکیوں کے سامنے بھی اس طرح کی ورزش کی جارہی ہے یا کلب میں جا کر کی جارہی ہے تویہ بھی بیہودگی ہے۔ ایسی ورزش کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔دوسرے ڈانس کرتے وقت آپ کے جذبات بالکل اَور ہوتے ہیں۔ ورزش کرتے وقت تو تمام توجہ ورزش پر ہوتی ہےاور کوئی لغو اور بیہودہ خیال ذہن میں نہیں آرہاہوتا لیکن ڈانس کے وقت یہ کیفیت نہیں ہو رہی ہوتی۔ جو ڈانس کرنے والیاں ہیں وہ خود اگر انصاف سے دیکھیں تو ان کو پتہ لگ جائے گاکہ اُن پر اُس وقت کیا کیفیت طاری ہورہی ہو تی ہے۔ پھر ورزش جو ہے کسی میوزک پر یا تال کی تھاپ پر نہیں کر رہے ہوتے جبکہ ڈانس کے لئے میوزک بھی لگایا جاتا ہےاور بڑے بیہودہ گانے بھی شادیوں پر بجتے ہیں حالانکہ شادیوں کے لئے بڑے پاکیزہ گانے بھی ہیں اور جو رخصتی ہورہی ہو تو لڑکی کو رخصت کرتے وقت ہماری بڑی اچھی دعائیہ نظمیں بھی ہیں، وہ استعمال ہونی چاہئیں۔‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی یکم؍ ستمبر 2007ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل2؍دسمبر2016ء)

دلہن کا بھی پردہ ہے

’’اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ جو دلہن نہیں ہے وہ پردہ کرلے اور جو دلہن ہے وہ پردہ نہ کرے، دلہن جو ہے وہ بڑی سج کر دلہن بنے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دلہنیں بنتی تھیں۔ اچھے کپڑے پہنتی تھیں۔ دلہن بن کر عورتوں میں جب بیٹھی ہوں تو جس طرح بیٹھنا ہے بیٹھے، یہاں کی عیسائی دلہنیں بھی دیکھ لو وہ بھی جب اپنی شادیاں کرتی ہیں، چرچ میں جاتی ہیں تو انہوں نے بھی ایک سفید ویل(veil) سا لیا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو ڈھانکتی ہیں۔ تو جب وہ لوگ جن کا پردہ نہیں ہے وہ بھی شادی پر اپنے آپ کو cover کرلیتی ہیں تو ہماری دلہنوں کو تو اور زیادہ کرنا چاہئے۔ لیکن اگر دوپٹہ لے کر بیٹھی ہوئی ہیں، منہ ننگا ہے تو عورتوں میں تو ٹھیک ہے۔ لیکن اس لئے کہ میک اَپ کروا کر بیوٹی پارلر سے آئی ہے اور پھر جہاں میرج ہال(marriage hall) کے اندر جانا ہے تو جاتے ہوئے ہمارا میک اپ خراب نہ ہو جائے، ہمارا زیور یا جھومر لٹکے ہوئے ہیں وہ خراب نہ ہو جائیں تو یہ غلط چیز ہے۔اس لئے پوری طرح دوپٹہ ڈھانکو اور پردہ کے ساتھ مَردوں میں سے گزرتے ہوئے ہال میں آجاؤ۔ جب پارلر سے دلہن بن کر آتی ہے تو میک اَپ کرنے کے بعد جو بھی غرارے یا جس لباس کے ساتھ بھی تیار ہوئی ہے اس کے بعد ایک چادر اوپر ڈالے، کار سے اترنے سے لے کر اس حصہ تک جہاں سے مَردوں میں سے گزرنا ہے یا جہاں تک لمبا راستہ ہے اور جب ہال کے اندر آجائے جہاں صرف عورتیں ہوں تو وہاں بیشک اتار دے اور پھر جب اپنے دلہا کے ساتھ جاتی ہے اس وقت بھی چادر اوڑھ کے کار میں جا کر بیٹھے۔ یہ نہیں کہ مرد کھڑے ہیں اور سارے دیکھ رہے ہیں اور بیچ میں سے گزر رہی ہے اور بڑی واہ واہ ہورہی ہے، بڑی خوبصورت دلہن بنی ہوئی ہے۔ احمدی دلہن کی خوبصورتی تو یہ ہے کہ اس کا پردہ بھی ہو۔‘‘(کلاس واقفاتِ نو11 ؍جولائی 2012ءمسجد بیت الاسلام، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍ستمبر2012ء)

فیس بک سے بے حیائی کی ترغیب ہوتی ہے

’’آج انٹرنیٹ یا کمپیوٹر پر آپس کے تعارف کا ایک نیا ذریعہ نکلا ہے جسے facebookکہتے ہیں…یہ بے حیائیوں کی ترغیب دیتا ہےجو آپس کے حجاب ہیں، ایک دوسرے کا حجاب ہے، اپنے راز ہیں اُن حجابوں کو توڑتا ہے۔رازوں کو فاش کرتا ہے اور بےحیائیوں کی دعوت دیتا ہے۔اس سائٹ کو بنانے والا جو ہے اُس نے خود یہ کہا ہے کہ میں نے اسے اس لئے بنایا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان جو کچھ ہے وہ ظاہر و باہر ہوکر دوسرے کے سامنے آجائے اور اُس کے نزدیک ظاہر و باہر ہوجانا یہ ہے کہ اگر ننگی تصویر بھی کوئی اپنی ڈالتا ہے تو بیشک ڈال دے اور اس پر دوسروں کو تبصرہ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔ اناللّٰہ۔ اسی طرح دوسرے بھی جو کچھ دیکھیں کسی بارے میں اس میں ڈال دیں۔ یہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس اخلاقی پستی اور گراوٹ کی حالت میں ایک احمدی ہی ہے جس نے دنیا کو اخلاق اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار بتانے ہیں۔‘‘ (اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی 26؍جون 2011ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍جولائی 2015ء)

بیہودہ فلمیں اور ویب سائٹس ،لغو رسالےفحشاء کی طرف مائل کرتے ہیں

’’…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان فواحش کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یعنی ایسی تمام باتیں جو فحشاء کی طرف مائل کرتی ہیں اُن سے رُکو۔ اس زمانے میں تو اس کے مختلف قسم کے ذریعے نکل آئے ہیں۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ ہے، اس پر بیہودہ فلمیں آ جاتی ہیں، ویب سائٹس پر، ٹی وی پر بیہودہ فلمیں ہیں، بیہودہ اور لغو قسم کے رسالے ہیں، ان بیہودہ رسالوں کے بارے میں جو پورنوگرافی pornography وغیرہ کہلاتے ہیں اب یہاں بھی آواز اُٹھنے لگ گئی ہے کہ ایسے رسالوں کو سٹالوں اور دکانوں پر کھلے عام نہ رکھا جائے کیونکہ بچوں کے اخلاق پر بھی بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ ان کو تو آج یہ خیال آیا ہے لیکن قرآنِ کریم نے چودہ سو سال پہلے یہ حکم دیا کہ یہ سب بے حیائیاں ہیں، ان کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ یہ تمہیں بے حیا بنا دیں گی۔ تمہیں خدا سے دُور کر دیں گی، دین سے دُور کر دیں گی بلکہ قانون توڑنے والا بھی بنا دیں گی۔ اسلام صرف ظاہری بے حیائیوں سے نہیں روکتا بلکہ چھپائی ہوئی بے حیائیوں سے بھی روکتا ہے۔ اور پردے کا جو حکم ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ پردے اور حیادار لباس کی وجہ سے ایک کھلے عام تعلق اور بے تکلفی میں جو لڑکے اور لڑکی میں پیدا ہو جاتی ہے، ایک روک پیدا ہو گی۔ اسلام بائبل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تم عورت کو بری نظر سے نہ دیکھو بلکہ کہتا ہے کہ نظریں پڑیں گی تو قربت بھی ہو گی اور پھر بے حیائی بھی پیدا ہو گی۔ اچھے برے کی تمیز ختم ہو گی اور پھر ایسے کھلے عام میل جول سے جب اس طرح لڑکا اور لڑکی، مرد اور عورت بیٹھے ہوں گے تو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تیسرا تم میں شیطان ہو گا۔‘‘ (سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات حدیث نمبر 117)

’’مَیں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو نہ چھوڑوگے تو گنہگار بن جاؤ گے۔ بلکہ مَیں نے بتایا کہ اس کے نقصان زیادہ ہیں اور فائدہ بہت کم ہے…آجکل جن کے پاس facebook ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہوجاتی ہیں۔ لڑکے تعلق بناتے ہیں۔ بعض جگہ لڑکیاں trap ہوجاتی ہیں اور facebook پر اپنی بے پردہ تصاویر ڈال دیتی ہیں۔ گھرمیں، عام ماحول میں، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی، اُس نے آگے اپنی فیس بُک پر ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیویارک(امریکہ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور پھرگروپس بنتے ہیں مردوں کے، عورتوں کے اور تصویروں کو بگاڑ کر آگے بلیک میل کرتے ہیں۔ اس طرح برائیاں زیادہ پھیلتی ہیں۔ اس لئے یہی بہتر ہے کہ برائیوں میں جایا ہی نہ جائے۔‘‘(کلاس واقفات نَو جرمنی 8؍اکتوبر2011ء بمقام مسجد بیت الرشید۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍جنوری2012ء)

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button