خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 24؍اگست 2018ء
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تین مزید بدری صحابہ حضرت عاصم بن ثابت، حضرت سہل بن حنیف انصاری، حضرت جبار بن صخر رضوان اللہ علیہم کا ذکر خیر اور ان کے پاک نمونوں کے حوالہ سے احباب جماعت کو نصائح
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24؍ اگست 2018ء بمطابق24؍ظہور 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
حضرت عاصمؓ بن ثابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے۔ ان کے والد تھے ثابت بن قیس اور ان کی والدہ کا نام شَمُوْسْ بنت ابو عامر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت عبداللہ بن جَحْش کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ غزوہ اُحد کے موقع پر جب کفار کے اچانک شدید حملے کی وجہ سے مسلمانوں میں بھگدڑ مچی تو حضرت عاصم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر بیعت کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نامزد تیر اندازوں میں یہ شامل تھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جز3صفحہ 243عاصمؓ بن ثابت دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) ان کا تعلق قبیلہ اَوس سے تھا۔ جنگ بدر میںبھی شریک تھے۔(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3صفحہ 5عاصمؓ بن ثابت ، مکتبہ دارالفکر بیروت لبنان 2003ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر والے دن صحابہ سے پوچھا کہ جب تم دشمن کے مدّ مقابل آؤ گے تو ان سے کیسے لڑو گے؟ حضرت عاصم نے عرض کیا یا رسول اللہ جب کوئی قوم اتنی قریب آ جائے گی کہ ان تک تیر پہنچ سکیں تو ان پر تیر برسائے جائیں گے۔ پھر جب وہ ہمارے اور قریب آ جائیں کہ ان تک پتھر پہنچ سکیں تو ان پر پتھر پھینکتے جائیں گے۔ پھر آپ نے تین پتھر ایک ہاتھ میں اٹھائے اور دو دوسرے میں اور پھر کہا کہ جب وہ ہمارے اتنے قریب آ جائیں کہ ہمارے نیزے ان تک پہنچ سکیں تو ان کے ساتھ نیزہ بازی کی جائے گی۔ پھر جب نیزے بھی ٹوٹ جائیںگے تو انہیں تلواروں کے ذریعہ قتل کیا جائے گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح جنگ لڑی جاتی ہے۔ اور پھر آپ نے فرمایا کہ جو کوئی قتال کرے جنگ کرے تو عاصم کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق جنگ کرے۔
(المعجم الکبیراز حافظ ابو قاسم سلیمان احمد طبرانی جلد 5صفحہ 34رفاعۃ بن المنذر….داراحیاء التراث العربی 2002ء)
اس زمانے میں تو تیر اور نیزے اور تلواریں ہی تھیں جن سے جنگ کی جاتی تھی اور یہی جنگ کا طریق تھا بلکہ پتھر بھی استعمال کئے جاتے تھے۔ آجکل کی طرح نہیں کہ معصوم شہریوں پر بمباری کر کے معصوموں اور بچوں کو بھی مار دیا جائے۔ ایک غیر مسلم نے کتاب لکھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’’تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے ہو کہ انہوں نے جنگیں کیں مگر ان کی جنگوں میں تو چند سو یا ہزار لوگ مرے ہوں گے اور تم جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ اور انسانیت کے ہمدرد سمجھتے ہو تم نے صرف ایک جنگ میں (اس نے جنگ عظیم دوم کا حوالہ دیا کہ) سات کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مار دیا جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔‘‘ لیکن آج بدقسمتی سے مسلمان بھی ان لوگوں سے ہی مدد لے رہے ہیں اور بلا امتیاز مسلمان مسلمانوں کا قتل کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ طریق کہ جب دشمن حملہ کرے اور دشمن قریب آئے تواس سے جنگ کرنے کے جو مختلف طریقے ہیں۔(اس پر عمل کریں)یہ خود حملہ کر رہے ہیں اور معصوموں کو مار رہے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اُحد والے دن اپنی تلوار کے ساتھ واپس آئے جو کثرت ِقتال کی وجہ سے مڑ چکی تھی۔ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ اس قابل ستائش تلوار کو رکھو ۔ یہ میدان جنگ میں خوب کام آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات سنی ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر تم نے آج کمال کی تلوار زنی کی ہے تو سہل بن حُنَیف اور ابودُجانہ اور عاصم بن ثابت اور حارث بن صِمَّہ نے بھی تلوار زنی میں کمال دکھایا ہے۔
(المستدرک علی الصحیحین از حافظ ابو عبداللہ محمدبن عبداللہ کتاب المغازی والسرایاجلد 5صفحہ 1623حدیث 4309مکتبہ نزار مصطفی الباز مکہ مکرمہ ریاض 2000ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں میں سے ابو عَزَّہ عمرو بن عبداللہ جو کہ ایک شاعر تھا، پر احسان کرتے ہوئے اسے آزاد کر دیا کیونکہ اس نے کہا تھا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میری پانچ بیٹیاں ہیں اور میرے علاوہ ان کا کوئی نہیں ہے۔ پس آپ مجھے ان کی وجہ سے بطور صدقہ آزاد کر دیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کر دیا۔ اس پر ابوعَزَّۃ نے کہا کہ میں آپ سے پختہ عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ نہ تو آپ سے جنگ کروں گا اور نہ ہی کسی کی جنگ کے لئے معاونت کروں گا۔ اس بات پر آپ نے اسے واپس بھجوا دیا اور بغیر کسی معاوضہ کے چھوڑ دیا۔ جب قریش اُحد کی طرف نکلنے لگے تو صفوان بن اُمیّہ آیا اور اس نے اسے کہا کہ تم بھی ہمارے ساتھ نکلو۔ اس نے کہا کہ میں نے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پختہ عہد کیا ہے کہ میں کبھی بھی آپ سے جنگ نہیں کروں گا اور نہ ہی جنگ کے لئے معاونت کروں گا۔ انہوں نے صرف مجھ پر یہ احسان کیا ہے اور میرے علاوہ کسی پر یہ احسان نہیں کیا۔ تو صفوان نے اسے ضمانت دی کہ اگر وہ قتل کر دیا گیا تو اس کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں بنا لے گا اور وہ زندہ رہا تو اسے مال کثیر دے گا جس سے صرف اس کا عیال ہی کھائے گا۔( اسے لالچ دیا کہ تم فکر نہ کرو۔ جنگ میں ہمارا ساتھ دو۔ اگر جنگ میں قتل ہو گئے تو تمہاری بیٹیوں کو بھی بیٹیوں کی طرح رکھوں گا اور اگر بچ گئے تو بہت زیادہ مال دوں گا۔) اس پر ابوعَزَّۃ عرب کو بلانے اور اکٹھا کرنے نکلا۔( یہی نہیں کہ خود شامل ہوا بلکہ دوسرے قبائل کو، دوسرے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اکٹھا کرنے کے لئے نکلا۔) پھر قریش کے ساتھ جنگ احُد کے لئے بھی نکلا اور دوبارہ پھر جنگ میں قید کیا گیا۔ اس کے علاوہ قریش میں سے کسی کو قید نہیں کیا گیا تھا۔ جب پکڑا گیا تو پوچھا گیا کہ تم نے تو عہد کیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں مجبوراً نکلا ہوں اور میری بیٹیاں ہیں۔ پس مجھ پر احسان کر۔ (دوبارہ وہی بات کی کہ میری بیٹیاں ہیں۔ مجھ پر احسان کرو۔ پہلے تو احسان کرتے ہوئے یہ چھوڑا گیا تھااور پھر جنگ کے لئے نکلا تھا۔) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا وہ عہد کہاں گیا جو تم نے میرے ساتھ کیا تھا۔ہرگز نہیں۔( اب یہ نہیں ہو سکتا۔) اللہ کی قَسم! اب تم مکہ میں یہ نہیں کہتے پھرو گے کہ میں نے دو دفعہ محمد کو( نعوذ باللہ) دھوکہ دیا اور بیوقوف بنایا۔ ایک اور روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ پھر آپ نے حکم دیتے ہوئےعاصم بن ثابت کو کہا کہ اس کو قتل کر دو۔ پس عاصم آگے بڑھے اور اس کی گردن اڑا دی۔‘‘
(کتاب المغازی از ابوعبداللہ محمد بن عمر جلد 1صفحہ 110-111بدر القتال ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2004ء)
اتنے ظلم کے بعد، ایسی عہد شکنی کرنے کے بعد جب سزا دی جاتی ہے تو پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے ظلم کیا۔ اب ہالینڈ کا سیاستدان وِلڈر(Wilder) جو ہےآجکل آپ کی ذات پر بڑے بڑھ چڑھ کر حملے کر رہا ہے۔ اگر اس دنیا میں اپنے ملک میں بھی وہ ایسے معافی کے نمونے دکھائیں تو پھر سمجھ آئے گی کہ واقعی وہ کسی حد تک اعتراض میں جائز ہیں۔ لیکن ایسی مثالیں وہ کبھی پیش نہیں کر سکتے۔
واقعہ رجیع اور حضرت عاصم کا ذکر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ خاتم النبیین میں بھی کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیںکہ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ صفر چار ہجری میں اپنے دس صحابیوں کی ایک پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابت کو امیر مقرر فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جا کر قریش کے حالات دریافت کریں اور ان کی کارروائیوں اور ارادوں سے آپ کو اطلاع دیں۔ لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عَضَل اور قَارَہ کے چند لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند آدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ خواہش معلوم کر کے بڑے خوش ہوئے اور وہی پارٹی جو خبررسانی کے لئے تیار کی گئی تھی ان کے ساتھ روانہ فرما دی۔ لیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ جھوٹے تھے اور بنو لَحْیَان کی انگیخت پر مدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانے سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کر دیا جائے اور بنو لَحْیَان نے اس خدمت کے معاوضہ میںعَضَل اور قَارَہ کے لوگوں کے لئے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے۔ جب عَضَل اور قارہ کے یہ غدار لوگ عُسْفَان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنو لَحْیَان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آ رہے ہیں تم( ان کو قتل کرنے کے لئے) آجاؤ جس پر قبیلہ بنو لَحْیان کے دو سو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور مقام رجیع میں ان کو آ پکڑا۔ دس آدمی جو مسلمان تھے وہ دو سو سپاہیوں کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے لیکن مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کی تعلیم نہیں دی گئی تھی۔ فوراً یہ صحابی ایک قریب کے ٹیلے پر چڑھ کر مقابلے کے واسطے تیار ہو گئے۔ کفار نے جن کے نزدیک دھوکہ دینا کوئی معیوب فعل نہیں تھا ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پر سے نیچے اتر آؤ۔ ہم تم سے پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ عاصم نے جواب دیا کہ ہمیں تمہارے عہد و پیمان کا کوئی اعتبار نہیںہے۔ ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اتر سکتے۔ اور پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا کہ اے اللہ! تو ہماری حالت دیکھ رہا ہے۔ اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔ غرض عاصم اور اس کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا ۔بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔(سیرت خاتم النبیینؐمصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 513-514) آپ مزید یہ لکھتے ہیں کہ اسی واقعہ رجیع کے ضمن میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ جب قریش مکہ کو یہ اطلاع ملی کہ جو لوگ بنو لَحْیَان کے ہاتھ سے رجیع میں شہید ہوئے تھے ان میں عاصم بن ثابت بھی تھے تو چونکہ عاصم نے بدر کے موقع پر قریش کے ایک بڑے رئیس کو قتل کیا تھا اس لئے انہوں نے رجیع کی طرف خاص آدمی روانہ کئے اور آدمیوں کو تاکید کی کہ عاصم کا سر یا جسم کا کوئی عضو کاٹ کر اپنے ساتھ لائیں تا کہ انہیں تسلی ہو اور ان کا جذبہ انتقام تسکین پائے۔ ایک اور روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ جس شخص کو عاصم نے قتل کیا تھا اس کی ماں سُلَافَہ بنت سعد نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پیئے گی۔ لیکن خدائی تصرف ایسا ہوا کہ یہ لوگ وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ زنبوروں، بھڑوں اور شہد کی مکھیوں کے جھنڈ عاصم کی لاش پر ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں اور کسی طرح سے وہاں سے اٹھنے میں نہیں آتے۔ ان لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ یہ زنبور اور مکھیاں وہاں سے اڑ جائیں مگر کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ آخر مجبور ہو کر یہ لوگ خائب و خاسر واپس لوٹ گئے۔ اس کے بعد جلد ہی بارش کا ایک طوفان آیا اور عاصم کی لاش کو وہاں سے بہا کر کہیں کا کہیں لے گیا۔ لکھا ہے کہ عاصم نے مسلمان ہونے پریہ عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ ہر قسم کی مشرکانہ چیز سے قطعی پرہیز کریں گے حتی کہ مشرک کے ساتھ چھوئیں گے بھی نہیں۔ حضرت عمر کو جب ان کی شہادت اور اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ کہنے لگے کہ خدا بھی اپنے بندوں کے جذبات کی کتنی پاسداری فرماتا ہے۔ موت کے بعد بھی اس نے عاصم کے عہد کو پورا کروایا اور مشرکین کے مس سے انہیں محفوظ رکھا۔(سیرت خاتم النبیینؐمصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 516)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحَمِيُّ الدَّبْرِ بھی کہا جاتا ہے یعنی جسے بھڑوں یا شہد کی مکھیوں کے ذریعہ بچایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد بھی بھڑوں کے ذریعہ آپ کی حفاظت کی۔
حضرت عاصم اور ان کے اصحاب کی شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ بھر نماز فجرمیں قنوت فرمایا جس میں رِعل، ذَکْواَن اور بنو لَحْیَان پر لعنت کرتے رہے۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3صفحہ 6مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2008ء)
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت عاصمؓ دشمن کے مقابلے میں تیر برساتے جاتے اور ساتھ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے کہ:
اَلْمَوْتُ حَقٌ وَالْحَیٰوۃُ بَاطِلُ
وَکُلُّ مَا قَضَی الْاِلٰہُ نَازِلُ
بِالْمَرْئِ وَالْمَرْئُ اِلَیْہِ اٰیِلُ
یعنی موت برحق ہے اور زندگی بیکار ہے اور خدا کسی انسان کے بارے میں جو فیصلہ کرے وہی نازل ہونے والا ہے اور اس انسان کو بھی اس فیصلہ کو قبول کرنا ہو گا ۔ جب حضرت عاصم کے تیر ختم ہو گئے تو وہ نیزے سے لڑنے لگے۔ نیزہ بھی ٹوٹ گیا تو تلوار نکال لی اور لڑتے لڑتے جان دے دی۔
(السیرۃ الحلبیۃ از علامہ ابوفرج نورالدین علی بن ابراہیم جلد3صفحہ 234سریہ رجیع، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2002ء)
دوسرے صحابی جن کا ذکر ہو گا وہ حضرت سَہْل بن حُنَیْف انصاری ہیں۔ حُنَیْف ان کے والد تھے۔ والدہ کا نام ہند بنت رافع تھا۔ والدہ کی طرف سے آپ کے دو بھائی تھے عبداللہ اور نعمان اور ان کی اولاد میں بیٹے اسد اور عثمان اور سعد تھے۔ حضرت سہل کی اولاد مدینہ اور بغداد میں مقیم رہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اور حضرت علی کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ انہوں نے غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی۔ حضرت سہل بن حُنَیْف عظیم المرتبت صحابی تھے لیکن آپ کے مالی حالات مضبوط نہ تھے۔ حضرت ابنِ عُیَیْنَہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زُہری کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے اموال میں سے حضرت سہل بن حُنَیْف اور حضرت ابودُجانہ کے علاوہ انصار میں سے کسی کو حصہ نہیں دیا کیونکہ یہ دونوں تنگدست تھے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 247و من بنی حنش بن عوف ….سہل بن حنیف، داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 2صفحہ 223دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد حضرت علی نے تین دن اور راتیں مکہ میں قیام کیا اور لوگوں کی وہ امانتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد تھیں وہ انہیں واپس کیں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے اور آپ کے ساتھ حضرت کلثوم بن ھِدْم کے ہاں ٹھہرے۔ دوران سفر ایک دو رات قُبَا میں حضرت علی کا قیام رہا۔ آپ بیان کرتے تھے کہ قُبَا میں ایک مسلمان عورت تھی جس کا خاوند نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رات گئے ایک آدمی آ کے اس کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ اس پر وہ عورت باہر آتی ہے۔ وہ آدمی کوئی چیز اسے دیتا ہے اور وہ لے لیتی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اس معاملہ پر شک ہوا۔ میں نے اس عورت سے کہا کہ اے اللہ کی بندی! یہ آدمی کون ہے جو ہر رات تمہارے دروازے پر دستک دیتا ہے اور جب تم باہر آتی ہو تو تمہیں کوئی چیز پکڑا جاتا ہے جس کا مجھے پتہ نہیں کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے۔ اور تم ایک مسلمان عورت ہو تمہارا شوہر بھی نہیں ہے اس لئے یہ اس طرح رات کو نکلنا اور کسی غیر مرد سے اس طرح بات کرنا یا چیز لینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس عورت نے کہا کہ یہ سَہْل بن حُنَیف ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ میں اکیلی عورت ہوں اور میرا کوئی نہیں ہے۔ اس لئے جب شام ہوتی ہے تو یہ اپنے لوگوں کے، قوم کے، رشتہ داروں کے بتوں کو توڑتے ہیںاور پھر مجھے لا کر دے دیتے ہیں تا کہ میں انہیں جلا دوں۔ اور ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓحضرت سہل کی وفات تک آپ کا یہ واقعہ بیان کرتے تھے یعنی کہ اپنے لوگوں میں شرک مٹانے کے لئے آپ نے یہ ایک ترکیب استعمال کی۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 348ہجرۃ الرسول ﷺ ، دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
حضرت سَہْل بن حُنَیف ان عظیم المرتبت صحابہ میں سے تھے جنہوں نے اُحد کے روز ثابت قدمی دکھائی۔ اس روز انہوں نے موت پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ڈھال بن کر ڈٹے رہے۔ جب دشمن کے شدید حملے کی وجہ سے مسلمان بکھر گئے تھے اس دن انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تیر چلائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نَبِّلُوْا سَھْلًا فَاِنَّہٗ سَھْلٌ۔ کہ سہل کو تیر پکڑاؤ کیونکہ تیر چلانا اس کے لئے آسان امر ہے۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2 صفحہ 223دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء) پھر بیان کیا جاتا ہے کہ غَزُوْل ایک ماہر نیزہ باز یہودی تھا اس کا پھینکا ہوا نیزہ وہاں تک پہنچ جاتا تھا جہاں دوسروں کے نیزے نہیں پہنچ سکتے تھے۔ بنو نضیر کے محاصرہ کے ایام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خیمہ تیار کیا گیا۔ غَزُوْل نے نیزہ پھینکا جو کہ اس خیمے تک پہنچ گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس کو یعنی خیمہ کو وہاں سے ہٹا دیں۔ چنانچہ اس کی جگہ تبدیل کر دی گئی۔ پھر اس کے بعد حضرت علی اس شخص کی گھات میں گئے۔ غزول ایک گروہ کو ساتھ لئے مسلمانوں کے کسی بڑے سردار کو قتل کرنے کے ارادے سے نکل رہا تھا۔ حضرت علی نے موقع پا کر اسے قتل کر دیا اور اس کا سر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔اس کے ساتھ جو لوگ تھے وہ بھاگ گئے۔ ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی ہی قیادت میں دس افراد پر مشتمل ایک دستہ روانہ فرمایا جنہوں نے ان لوگوں کا تعاقب کر کے ان کو قتل کر دیا اس لئے کہ وہ جنگ کے لئے اور چھپ کر حملہ کر کے قتل کرنے کے لئے نکلے تھے۔ اس دستہ میں جو حضرت علی کے ساتھ گیا تھا حضرت اَبُو دُجانہ اور حضرت سہل بن حُنَیف بھی شامل تھے۔(السیرۃ الحلبیۃ جلد 2صفحہ 359غزوۃ بنو نضیر ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1999ء) کوئی دن نہیں تھا جو اس زمانے میں آرام و سکون سے گزرتا ہو ہر وقت دشمن حملے کی تاک میں تھا۔ تو ایسے دشمنوںکے ساتھ پھر یہی سلوک ہونا چاہئے تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وادِی القُرٰی کا رخ فرمایا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر وادِی القُرٰی میں اترا تو یہود پہلے سے جنگ کے لئے تیار تھے۔ چنانچہ انہوں نے تیروں کے ساتھ استقبال کیا۔ مسلمانوں پر تیر پھینکنے شروع کر دئیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام جس کا نام مِدْعَمْ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے کجاوہ وغیرہ اتار رہا تھا کہ ایک اندھا تیر آ کر اسے لگا جس سے وہ جاںبحق ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً صف بندی کا حکم دیا ۔ لواء حضرت سعد بن عُبَادہ کو عنایت فرمایا اور جھنڈوں میں سے ایک حضرت حَبَّابْ بن مُنْذِر اور دوسرا حضرت سہل بن حُنَیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور تیسرا حضرت عَبَّاد بن بِشْر کو سونپا۔ اس لڑائی کے نتیجہ میں یہ سارا علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا۔ اللہ تعالیٰ نےیہاں فتح عطا فرمائی اور یہاں سے اللہ تعالیٰ نے کثیر مال عطا فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں چار دن قیام فرمایا۔ صحابہ میں غنائم تقسیم فرمائے۔ یہاں کی زمین اور باغات یہود کے پاس رہنے دئیے۔ باوجود فتح کرنے کے زمین اور باغات جو تھے ان لوگوں کے پاس ہی رہنے دئیے مگر اپنی طرف سے ان پر ایک عامل مقرر فرما دیا۔ تو یہ ہے دشمن سے بھی حسن سلوک کی اعلیٰ مثال کہ ملکیت ان کے پاس ہی رہی اور ان سے کچھ ٹیکس یاحصہ وصول کیا جاتا تھا۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق اگر ایسے دشمن کے مال اور جائیداد پر قبضہ بھی کر لیا جاتا تو حرج نہیں تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر احسان کیا۔
(شرح زرقانی علی مواھب اللدنیہ جلد 3صفحہ 301تا303 دارالکتب العلمیۃ بیروت1996ء)
(امتاع الاسماع جلد1صفحہ 325-326غزوۃ وادی القری، دارالکتب العلمیۃ بیروت1999ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی کتاب میں سیرت خاتم النبیین میں تحریر فرماتے ہیں کہ جب شام کا ملک فتح ہوا اور وہاں کی عیسائی آبادی اسلامی حکومت کے ماتحت آ گئی تو ایک دن جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سہل بن حُنَیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے کسی شہر میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھےتو ان کے پاس سے ایک عیسائی کا جنازہ گزرا۔ یہ دونوں اصحاب اس کی تعظیم میںکھڑے ہوئے۔ ایک مسلمان نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحبت یافتہ نہیں تھا اور ان اخلاق سے ناآشنا تھا جو اسلام سکھاتا ہے یہ دیکھ کر بہت تعجب کیا اور حیران ہو کر سہل اور قیس سے کہا کہ یہ تو ایک ذمّی عیسائی کا جنازہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم جانتے ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا کہ آپ غیر مسلموں کے جنازے کو دیکھ کر بھی کھڑے ہو جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ کیا ان میں خدا کی پیدا کی ہوئی جان نہیں ہے۔(سیرت خاتم النبیینؐ مصنفہ حضرت مرزابشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 656-657 ) پس یہ ہے ایک طریق انسانیت کے احترام اور مذاہب کے درمیان نفرتیں ختم کرنے کا جس کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اور وہی اسوہ حسنہ پھر صحابہ نے بھی اپنایا۔
ابووائل سے روایت ہے کہ ہم صِفِّیْن میں تھے کہ حضرت سہل بن حُنَیف کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اے لوگو! اپنے آپ کو ہی غلطی پر سمجھو کیونکہ ہم حدیبیہ کے واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اگر ہم مقابلہ کی صورت دیکھتے تو ضرور مقابلہ کرتے۔ اتنے میں حضرت عمر بن خطاب آئے ۔( یعنی حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے ) اورانہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور وہ کافر باطل پر؟تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ تو انہوں نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں نہیں اور ان کے مقتول آگ میں نہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہم حدیبیہ کے دنجو صلح کر رہے ہیں تو اپنے دین سے متعلق ایسی ذلّت کیوں برداشت کریں۔ کیا ہم یہاں سے یونہی لَوٹ جائیں یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہ کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خطاب کے بیٹے! مَیں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے ہرگز کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی کچھ کہا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ان کو کبھی ضائع نہیںکرے گا۔ پھر بخاری نے ہی لکھا ہے۔وہ آگے حدیث لکھتے ہیں کہ پھر سورۃ فتح نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو آخر تک پڑھ کر سنائی۔ حضرت عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ فتح ہے۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں۔
(صحیح البخاری کتاب الجزیہ باب اثم من عاھد ثم غدرحدیث 3182)
اس حدیث کی شرح میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ صِفِّیْن عراق اور شام کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جہاں حضرت علی اور حضرت معاویہ کا مقابلہ ہوا اور جب حضرت معاویہ کی فوج کے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ ان کو شکست ہونے لگی ہے۔ تو انہوں نے قرآن مجید کو اونچا کیا اور کہا کہ قرآن مجید کو حَکَم بنا کر فیصلہ کیا جائے۔ چنانچہ اس پر جنگ بند ہو گئی۔ حضرت علی ؓ کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔ بعض لوگوں کی طرف سے جنگ بندی پر اعتراضات بھی ہوئے۔ حضرت سہل حضرت علی کی طرف سے شریک تھے۔ حضرت سہل بن حُنیف نے ان سے کہا کہ اِتَّھِمُوْا اَنْفُسَکُمْ۔ کہ اپنی رائے ہی کو نہ درست سمجھو کیونکہ اس سے قبل صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر کو بھی غلط فہمی پیدا ہوئی تھی لیکن آخر واقعات نے بتا دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت اور ایفائے عہد کو برکت دی گئی اور آپ خطرے سے محفوظ ہو گئے۔ تو کہتے ہیں پھر آپ نے کہا کہ لوگ جس بات کو کمزوری اور ذلت پر محمول کر رہے تھے اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو قوت و عزت کا باعث بنا دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چھوٹی بڑی بات میں معاہدہ کی نگہداشت ملحوظ رکھی ہے۔(شرح صحیح البخاری از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد 5صفحہ 543) گو یہاں تو دھوکہ ہوا اور وہ نتائج نہیں نکلے لیکن مومن کو ہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہئے اور جو معاہدے اللہ تعالیٰ کے نام پر کئے جانے کی کوشش کی جائے تو ساری چیزیں دیکھ کراسے کر لینا چاہئے یہی مومنانہ شان ہے۔ لیکن بہرحال دوبارہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ وہاں تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا بھی دیا تھا۔ اسی کو بیان کرتے ہوئے حضرت سہل نے یہ کہاکہ اگر معاہدہ ہو رہا ہے، جنگ بندی ہو رہی ہے تو ہمیں بھی صلح حدیبیہ والے واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے صلح کر لینی چاہئے۔
حضرت سہل بن حُنَیف سے روایت ہے آپ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم مکہ کی طرف میرے پیامبر ہو۔ پس تم جا کر انہیں میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تین باتوں کا حکم دیتے ہیں۔ اپنے باپ دادا کی قسمیں نہ کھاؤ۔ باپ دادا کی قسمیں کھانا منع ہے ۔گناہ ہے۔ جب تم قضائے حاجت کے لئے بیٹھو تو اپنا منہ اور پیٹھ قبلہ رخ کر کے نہ بیٹھو۔ شمالاً جنوباً بیٹھنا چاہئے۔ اسی طرح تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ ہڈی اور گوبر سے استنجا نہ کرو۔(المستدرک علی الصحیحین ذکر مناقب سہل بن حنیف،حدیث 5837دارالفکر بیروت2002ء) اس میں بھی بڑی حکمت ہے کئی قسم کے بیکٹریا ہوتے ہیں جس سے انفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے۔ آجکل تو ٹشو اور پانی کا رواج ہے لیکن اس زمانے میں جنگلوں میں پتھر اور ہڈیاں وغیرہ استعمال کی جاتی تھیں جس سے آپ نے منع فرمایا۔
جیسا کہ پہلے حضرت علیؓ کے ضمن میں ذکر ہو چکا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میری تلوار نے آج کمال کر دیا تو حضرت عاصم بن ثابت اور سہل بن حنیف کے بارے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا کہ ان کی تلواروں نے بھی آج کمال کیا ہے ۔
جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی گئی تب بھی سہل جو تھے وہ ان کے ساتھ تھے۔ جب حضرت علی بصرہ کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت سہل کو اپنا قائمقام مقرر فرمایا۔ آپ حضرت علی کے ساتھ جنگ صِفِّیْن میں شامل ہوئے۔ حضرت علیؓ نے آپ کو بلاد فارس کا والی مقرر فرمایا لیکن وہاں کے لوگوں نے آپ کو نکال دیا جس پر حضرت علیؓ نے حضرت زیاد کو بھیجا جن سے اہل فارس راضی ہوئے اور مصالحت کی اور خراج ادا کیا۔ نکال اس لئے نہیں دیا تھا کہ نعوذ باللہ آپ کوئی غلط کام رہے تھے بلکہ مختلف طبائع ہوتی ہیں۔ ہر ایک انسان کی مختلف خصوصیات ہوتی ہیں اس لحاظ سے حضرت زیاد اہل فارس کو بہتر رنگ میں قابو کر سکے اور پھر ان سے مصالحت بھی ہو گئی اور خراج وغیرہ بھی وصول کیا۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد2صفحہ 223دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء) حضرت سہل بن حُنیف کی وفات جنگ صفین سے واپسی پر کوفہ میں 38ہجری میں ہوئی۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت علی نے پڑھائی۔
حضرت حَنَشْ بن مُعْتَرْ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سہل بن حُنیف کی وفات ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے میدان میں تشریف لائے۔ حضرت علیؓ نے نماز جنازہ میں چھ تکبیرات کہیں۔ یہ بات کچھ لوگوںکو ناگوار گزری۔ اس پر آپ نے لوگوں کو کہا کہ حضرت سہل بدری صحابی ہیں۔ جب ان کا جنازہ جَبَّانَہ کے مقام پر پہنچا تو حضرت قَرَظَہ بن کعب اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ہمیں ملے۔ انہوں نے حضرت علیؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا امیر المومنین! ہم حضرت سہل کی نماز جنازہ میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ اس پر حضرت علی نے انہیں آپ کی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت دی۔ پس انہوں نے حضرت قَرَظَہ کی امامت میں حضرت سہل کی نماز جنازہ ادا کی۔
(المستدرک علی الصحیحین ذکر مناقب سہل بن حنیف حدیث 5827دارالفکر بیروت2002ء)،
(الطبقات الکبری لابن سعد جلد3صفحہ 248و من بنی حنش بن عوف ….سہل بن حنیف، داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
تیسرے صحابی جن کا ذکر ہو گا وہ حضرت جَبَّار بن صَخْر ہیں۔ صَخْر بن اُمَیَّہ کے بیٹے تھے۔ حضرت جَبَّار ستّر انصار کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جَبَّار اور حضرت مِقْداد بن عمرو کے درمیان مواخات قائم کی۔ غزوہ بدر کے وقت ان کی عمر 32سال تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خَارِص ( یعنی کھجوروں کی پیداوار کا اندازہ کرنے والا) بنا کر خیبر وغیرہ بھیجا کرتے تھے۔ ان کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں تیس ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 62 سال تھی۔ حضرت جَبَّار غزوہ بدر، اُحد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمرکاب تھے۔(الطبقات الکبری لابن سعد جز3صفحہ 293ومن بنی عبید بن عدی ….، داراحیاء التراث العربی بیروت1996ء)(المعجم الکبیر للطبرانی جلد2صفحہ 270جبار بن صخر، طبع ثانی داراحیاء التراث العربی بیروت) حضرت جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ مکہ کی طرف جا رہے تھے کہ کون ہم سے پہلے اَثَایَہ مقام پر جائے اور ہمارے پہنچنے تک اس کے حوض کے سوراخوں کو مٹی سے درست کر کے اور اسے فراخ کر کے اس میں پانی بھر دے گا۔ ابواُوَیْس ایک راوی کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روانہ فرمایا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت جبار نے بیان کیا کہ اس پر میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ میں یہ خدمت سرانجام دوں گا۔ آپ نے فرمایا جاؤ۔ پس مَیں اَثَایَہ پہنچا اس کے حوض کو مرمت کر کے اسے کھلا کیا اور اسے بھر دیا۔ پھر مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گیا اور مجھے نہیں جگایا مگر اس شخص نے جس کی اونٹنی اس سے چُھوٹی جا رہی تھی۔( یعنی کہ بہت تیز وہاں پر پہنچی) اور وہ اسے حوض پر جانے سے روک رہا تھا۔( اونٹنی پانی کی طرف جا رہی تھی)۔ اس شخص نے مجھے کہا اے حوض والے! اپنے حوض پر پہنچو تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ میں نے عرض کیا جی۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ پھر حضور نے اپنی سواری کو گھاٹ پر اتارا۔ پھر آپ مڑے اور سواری کو بٹھایا۔ پھر آپ نے فرمایا برتن لے کر میرے ساتھ آؤ۔ میں برتن لے کر آپ کے پیچھے پیچھے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح وضو فرمایا۔ میں نے بھی آپ کے ساتھ وضو کیا پھر آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے ۔میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ وہاں پہنچنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلاکام یہ فرمایا کہ وضو کیا اور نفل ادا کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ میں بائیں طرف کھڑا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے دائیں طرف کھڑا کیا۔ یعنی آنحضرت ؐ کے نفل پڑھتے ہوئے انہیں یہ خیال آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نفل پڑھنے چاہئیں تو یہ بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہاتھ پکڑ کے دائیں طرف کر دیا کہ جب باجماعت نماز ہو رہی ہو اور دو شخص ہوں تو دوسرے کو امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔ کہتے ہیں پس ہم نے نماز پڑھی اور ابھی ہم نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ باقی لوگ بھی آ گئے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد5صفحہ 330اول مسند المکیین والمدنیین حدیث جبار بن صخر عن النبیؐ حدیث نمبر15550عالم الکتب بیروت1998ء)
غزوہ بدر کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ نَوْفَلَ ابْنَ خُوَیْلِدٍ۔ کہ اے اللہ! نوفل بن خُوَیلِد جو کہ قریشِ مکہ کے مشرکین کا ایک سردار تھا، کے مقابل میرے لئے کافی ہو جا۔ حضرت جَبَّار بن صَخْر نے اسے قیدی بنایا ہوا تھا اور حضرت علیؓ اس کے پاس آئے اور اسے قتل کر دیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کسی کو نوفل کی کچھ خبر ہے؟ حضرت علی نے عرض کیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے اور اس پر آپ نے یہ دعا کی کہ تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی جناب سے میری دعا قبول فرمائی۔ یہ بڑا شدید دشمن تھا۔ اس کے لئے آپ نے اللہ تعالیٰ کو کہا تھا میرے لئے کافی ہو جا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر اس کے قتل کے سامان پیدا کئے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد4صفحہ49غزوۃ بدر الکبریٰ ، ذکر رمی رسول اللّٰہ ﷺ الکفار بالحصباء….دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو ہر شخص کو خواہش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر قیام کریں۔ اس کے بارے میں بہت سارے حوالے آتے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں میری اونٹنی بیٹھے گی وہیں میرا قیام ہو گا۔ جب اونٹنی مدینہ کی گلیوں سے گزری تو ہر شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہماری طرف قیام کریں۔ لیکن آپ یہی فرماتے تھے کہ اس کا راستہ چھوڑ دو اس کو حکم دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ کی مرضی سے یہ خود ہی بیٹھے گی۔ یہاں تک کہ آپ کی اونٹنی چلتے چلتے جہاں اب مسجد نبوی کا دروازہ ہے اس جگہ پہنچی اور مسجد کے دروازے والی جگہ پر بیٹھ گئی۔ جب اونٹنی بیٹھ چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ آپ ابھی اونٹنی پر ہی تشریف فرما تھے کہ پھر وہ اونٹنی اٹھی اور تھوڑا آگے گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نکیل چھوڑی ہوئی تھی۔ پھر وہ اونٹنی دوبارہ وہیں آ کر بیٹھ گئی اور اپنی گردن زمین پر رکھ دی۔ اس موقع پر حضرت جَبَّار بن صَخْر اس امید پر کہ اونٹنی بنو سلمہ کے محلے میں جا کر ٹھہرے اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگے لیکن وہ نہ اٹھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے اور فرمایا کہ انشاء اللہ یہاں ہمارا قیام ہو گا اور آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ۔(المؤمنون30:) کہ اے میرے رب! تو مجھے ایک مبارک اترنے کی جگہ پر اتار اور تو اتارنے والوں میں سے سب سے بہتر ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون سب سے قریب ہے۔ حضرت ابوایوب انصاری نے عرض کیا کہ مَیں یا رسول اللہ! یہ میرا گھر ہے۔ یہ میرا دروازہ ہے اور ہم نے آپ کا کجاوہ اندر رکھ دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ چلو اور ہمارے آرام کرنے کی جگہ تیار کرو۔ پس وہ گئے اور آپ کے آرام کرنے کی جگہ تیار کی۔
(سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد3صفحہ272-273،جماع ابواب الھجرۃالی المدینۃ الشریفۃالباب السادس فی قدومہﷺ….. دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
شأس بن قیس ایک عمر رسیدہ شخص تھا اور سخت کافر تھا۔ مسلمانوں سے سخت شدید کینہ اور بغض رکھتا تھا۔ اس کا گزر مسلمانوں کی ایک جماعت پر ہوا جو مجلس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ جب اس نے ان کی باہمی الفت، اتحاد اور آپس کی صلح کاری دیکھی کہ یہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ہنسی خوشی پیار اور محبت سے باتیں کر رہے ہیں۔ صلح کی جو یہ فضا تھی یہ جاہلیت کی دشمنی کے بعد اسلام کی بدولت انہیں حاصل ہوئی تھی۔ اس سے پہلے ان لوگوں کی دشمنیاں تھیں۔ لیکن اسلام کی بدولت انہیں یہ صلح کی، باہمی الفت اور پیار اور محبت کے سلوک کی توفیق ملی تو کہتے ہیں وہ ایسی بات کو دیکھ کے غضبناک ہو گیا کیونکہ جب وہ مسلمان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ملا دیا۔ شأ بن قیس نے کہا کہ بَنُو قَیْلَہ کے سردار اس علاقے میں بیٹھے ہیں۔ جب تک ان کے سردار آپس میں اکٹھے ہیں ہمیں قرار نصیب نہیں ہو سکتا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ جو دشمنیاں ہیں وہ دوستیوںمیں بدل جائیں بلکہ محبت اور پیار میں بدل جائیں۔ اس نے ایک یہودی جوان کو جو اس کے ساتھ تھا اس کام پر لگایا کہ ان کے پاس جا کر ان کے ساتھ بیٹھے اور جنگ بُعَاثْ اور اس سے پہلے کے حالات کا ذکر چھیڑے اور انہیں وہ شعر سنائے جو یہی لوگ اور دو مختلف قبیلے ایک دوسرے کے خلاف کہا کرتے تھے۔ پس اس نے ایسا ہی کیا اور ایک قبیلے نے جنگ میں جو دوسرے قبیلے کے خلاف اشعار کہے تھے ان میں سے بعض پڑھے۔ اس بات نے گویا ان کے سینوں میں آگ بھڑکا دی۔ دوبارہ وہی جاہلیت کا شعر سن کر جاہلیت کا زمانہ ان پر عود کر آیا۔ اس پر دوسرے قبیلے والوں نے کہا کہ ہمارے شاعر نے اس دن ایسے ایسے کہا تھا اس نے بھی وہی جاہلانہ شعر پڑھ دئیے۔ پھر پہلے قبیلے والوں نے کہا کہ ہمارے شاعر نے اس دن ایسے ایسے کہا تھا۔ پس وہ سب آپس میں ایک وقت تھا کہ محبت اور پیار سے بیٹھے باتیںکر رہے تھے لیکن اس فتنہ کی وجہ سے آپس میں تلخ کلامی کرنے لگے، جھگڑنے لگے اور تفاخر کرنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے دو افراد حضرت اوس بن قَیْظِی اور حضرت جَبَّار بن صَخر باہم الجھ پڑے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر تم چاہو تو ہم ابھی جنگ کا آغاز کر دیتے ہیں۔ یہاں تک نوبت آ گئی کہ دونوں فریق غصہ میںآ کر لڑائی کی جگہ مقرر کرنے لگے اور زمانہ جاہلیت کے دعوے کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی خبر پہنچی تو آپ اوس اور خزرج کے پاس آئے۔ آپ کے ساتھ مہاجرین صحابہ کرام تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ کیا تم اب بھی جاہلیت والے دعوے کرتے ہو جبکہ مَیں تمہارے درمیان موجود ہوں اور اللہ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہے اور اس کے ذریعہ تمہیں عزت بخشی اور تم سے جاہلیت کا معاملہ ختم کر دیا۔ تمہیں کفر سے بچا لیا ہے اورتم میں باہم الفت ڈال دی ہے۔ کیا تم پہلے کی طرح کفر میں لوٹنے لگے ہو۔ صحابہ کرام کو پتہ چل گیا کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے اور ان کے دشمن کی چال ہے۔ پس انہوں نے اپنے ہتھیار پھینکے اور رونے لگ گئے اور اوس اور خزرج کے افراد آپس میں گلے ملنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سرتسلیم خم کئے اطاعت کا دم بھرتے واپس آ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن شأس بن قیس کی لگائی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا۔ اس پر یہ آیت بھی اتری کہ قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَاللہُ شَھِیْدٌ عَلٰی مَا تَعْمَلُوْنَ۔قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَھَا عِوَجًا وَّاَنْتُمْ شُھَدَآئُ ۔وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۔(آل عمران99-100)کہ ان سے کہہ دے اے اہل کتاب !کیوں تم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو جبکہ اللہ اس پر گواہ ہے جو تم کرتے ہو۔ اور کہہ دے اے اہل کتاب! تم اسے جو ایمان لایا ہے اللہ کی راہ سے کیوں روکتے ہو یہ چاہتے ہوئے کہ اس راہ میں کجی پیدا کرو جب کہ تم حقیقت پر گواہ ہو اور اللہ اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔
حضرت اوس بن قَیْظِی اور حضرت جَبَّار بن صَخْر اور جو اُن کے ساتھی تھے جنہوں نے شأس کے بہکاوے میں آ کر جاہلیت کے زمانے کی طرح کا مظاہرہ کیا تھا ایسے لوگوں کے بارے میں بھی پھر یہ حکم نازل ہوا کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ۔وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللہِ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ۔ وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔(آل عمران101-102)کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم نے ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی کسی گروہ کی اطاعت کی تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد ایک دفعہ پھر کافر بنا دیں گے اور تم کیسے انکار کر سکتے ہو جبکہ تم پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول موجود ہے اور جو مضبوطی سے اللہ کو پکڑ لے تو یقیناً وہ صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیا گیا ہے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد جلد3صفحہ398-399،جماع ابواب بعض امور دارت بین رسول اللہ ﷺ و بین الیھود والمنافقین الباب السابع فی ارادۃ شأس بن قیس….دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
بہرحال یہ حالت تھی ان صحابہ کی۔ ایک وقت میں شیطان کے دھوکہ میں تو آ گئے لیکن جب احساس دلایا گیا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا کہ کیوں جہالت میں واپس جا رہے تھے تو فوراً ندامت پیدا ہوئی اور صلح کی طرف قدم بڑھایا بلکہ محبت اور بھائی چارے کا اظہار کیا۔ تو یہ ان کے نمونے تھے۔
اب جو لوگ ذرا ذرا سی بات پر جھوٹی غیرتوں اور اَناؤں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان کے لئے بھی یہ ایک عظیم اسوہ ہے۔ اگر وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے جنگیں کرنے والے بھائی بھائی بن گئے تو اب ایک کلمہ پڑھنے والے بلکہ ایک جماعت میں پیدا ہونے والے لوگ کیوں اپنی اَناؤں کو ختم نہیں کر سکتے۔ بہت سارے معاملات ایسے آتے ہیں کہ جھوٹی اناؤں کی وجہ سے رنجشیں چلتی ہیں، مہینوں سالوں چلتی ہیں۔ بعض نوجوان لکھتے ہیں کہ اب جو نئی نسل ہے وہ ایک دوسرے سے رشتے قائم کرنا چاہتی ہے تو ہمارے خاندانوں کی رنجشوں کی وجہ سے ،اپنے بزرگوں کی وجہ سے، اپنے بڑوں کی وجہ سے، بزرگ تو نہیں کہنا چاہئے، بڑوں کی وجہ سے وہ رشتے قائم نہیں ہوتے۔ ان لوگوں کو عقل کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تعلیم دی ہے یہی محبت اور پیار کی تعلیم دی ہے۔ اکائی کی تعلیم دی ہے اور ایک قوم بنایا ہے، ہمیں ایک قوم بن کے رہنا چاہئے اور جھوٹی اَناؤں میں دوبارہ ڈوبنا نہیں چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب کو عقل دے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے یہود کو خیبر سے نکالا تو خود انصار و مہاجرین کو ساتھ لے کر جن میں حضرت جَبَّار بن صَخْر اور حضرت یزید بن ثابت بھی تھے خیبر کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ دونوں حضرات خیبر کی پیداوار کا تخمینہ لگانے جایا کرتے تھے اور ان دونوں آدمیوں نے اسی تقسیم کے مطابق جو پہلے سے تھی ہر ایک کا حصہ علیحدہ کر دیا۔ وادی قریٰ کی تقسیم میں حضرت عمر نے جہاں دیگر اصحاب کو حصہ دیا وہاں ایک حصہ حضرت جبار بن صخر کو بھی دیا گیا ۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد3صفحہ 639،امر فدک فی خبر خیبر، المکتبہ العصریہ صیدا 2011ء)
تو یہ تھے ان صحابہ کے بعض حالات۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔
٭…٭…٭