آنحضرت ﷺ کے روحانی مشاہدات کا ایک نمونہ (پانچویں اور آخری قسط)
اس کے بعدمعاً ایک اور عظیم الشان پیشگوئی میں خداتعالیٰ سے قطع تعلق کرنے والے لوگوں کا حلیہ اور ان کی ہلاکت کے وقت کی تعیین کرتا اور فرماتا ہے:۔
یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَنَحْشُرُالْمُجْرِمِیْنَ یَؤمَئِذٍ زُرْقًا o یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَہُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا o نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُھُمْ طَرِیْقَۃً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا o (طٰہٰ103-105:)
وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo (طٰہٰ115:)
’’ترجمہ :۔یعنی جس دن بگل بجایا جائے گا اور ان مجرموں کو جن کی آنکھیں نیلی ہیں اس دن ہم جنگ کے لئے اکٹھا کریں گے اور وہ آپس میں دھیمی آواز سے کہیں گے تم ایک دہاکا (دس روز) رہ چکے ہو۔ہم خوب جانتے ہیں وہ بات جو کہتے ہیں۔جب ان میں سے جو بلحاظ طریق کے افضل ہے کہے گاتم ایک دن ہی رہے ہو۔اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں پہاڑوں کے متعلق سو کہہ دے کہ میرا رب انہیں گرا کرپیوند خاک کردے گا اور ان کو ایک صاف چٹیل میدان چھوڑدے گا۔تو ان میں نہ کوئی کجی دیکھے گا اور نہ نشیب و فراز۔اس دن وہ پکارنے والے کے پیچھے چلیں گے جس میں کوئی کجی نہیں اور تمام آوازیں رحمٰن کے لئے نیچی ہوجائیں گی اور تُو اس دن سوائے آہستہ آواز کے نہ سنے گا۔ اس دن شفاعت نفع نہ دے گی۔بجز اس کے کہ جسے رحمٰن نے اجازت دی۔اور اس کے لئے پسند کیا کہ وہ کہے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو اُن کے پیچھے ہے۔اور وہ علم سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتے ۔ اور اس دن تمام منہ حیّ و قیّوم کے لئے جھک جائیں گے۔ اور یقیناً نامراد ہوا جس نے ظلم اٹھایا۔اور جو اعمال صالحہ بجالائے گا درآنحالیکہ وہ مومن ہے تو اسے نہ ظلم کا کھٹکا رہے گا اور نہ حق تلفی کا ڈر۔اور اس طرح ہم نے اس وعیدی(یعنی انذاری)پیشگوئی کو مختلف پیرایوںمیں بیان کردیا ہے۔ تاکہ وہ بدانجام سے بچیں ورنہ نئے پیرایہ میں یاددہانی کوتازہ کردے گا ۔ پس بہت ہی بلند مرتبہ وہ بادشاہ برحق ہے۔ اور تو قرآن کے متعلق جلدی نہ کر پیشتر اس کے کہ تیری طرف اس کی وحی پوری کی جائے۔ اور کہہ اے میرے رب مجھے اور زیادہ علم دے‘‘۔
ان آیات میں مندرجہ ذیل باتیں جو از قبیل اخبارغیبیہ میں بیان کی گئی ہیں:۔
اولؔ:بدوں کا نہایت ہی برا بدلہ ہے جو قیامت کے دن ظاہر ہوگاخواہ قیامت صغریٰ، قیامت کبریٰ ۔علماء اسلام تسلیم کرتے ہیں کہ قیامت دو ہیں ۔ ایک چھوٹی قیامت جو دنیا میں اسی زمین پر قائم ہوگی اور دوسری بڑی قیامت جو آخرت میں جزا سزا کے دن قائم ہوگی۔
دوم:ؔ نیلی آنکھوں والوں سے مراد عربوں کے نزدیک رومی وغیرہ اقوام ہیں جو یورپ کے شمال میں آباد ہیں۔یہ نام انہیں ان کی نیلگوں آنکھوں کی وجہ سے دیاگیا ہے۔
سوم :ؔ اس دن بگل بجایا جائے گا اور مجرموں یعنی خداتعالیٰ سے قطع تعلق کرنے والوں کو اکٹھا کیاجائے گا۔
نفخ صُور،حشر او ر ساری زمین کو میدان کارزار بنائے جانے کا ذکر سورہ کہف میں بھی بایں الفاظ وارد ہوا ہے۔ وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً وَّ حَشَرْنٰـھُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْھُمْ اَحَدًا(الکھف48:)
مفسرین کے نزدیک لفظ اَلْجِبَال (پہاڑوں) سے مراد بڑی بڑی جابر قومیں ہیں جنہیں جنگ کے لئے ہانکا جائے گا۔انہی معنوں میں سابقہ انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیوں میں پہاڑوں کے ہٹائے جانے کا محاورہ بکثرت استعمال ہوا ہے۔ لفظ حشر کے معنی جنگ کے لئے اکٹھا کرنے کے ہیں جیسا کہ سورہ حشر میں بھی یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال کیاگیا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے ۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِھِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ (الحشر3:)’’یعنی وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کفار کو اپنے گھروں سے پہلی جنگ کے لئے نکالا۔ ‘‘
غرض سورہ طہٰ کی مذکورہ بالا آیت لفظاً و معناً سورہ کہف کی مذکورہ بالاآیت کا مثنّٰی ہے اوردونوں ہی تثلیث پرست اقوام کے انجام سے تعلق رکھتی ہیں ۔ سورہ کہف میں وقت کی تعیین نہیں مگر سورہ طہٰ میں پیشگوئی کاوقت معین کیا گیاہے۔
چہارم:ؔ یہ نیلی آنکھوں والے آپس میں چپکے چپکے باتیں کریںگے کہ تم ایک دہا کا یعنی ہزار سال گزار چکے ہو۔ چونکہ عہد قدیم کی پیشگوئیوں میں ایک دن سوسال کے برابر لیا جاتا ہے اس لئے آیت اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا سے پایا جاتا ہے کہ دہاکا کااندازہ کرنے والی قوم نیلگوں چشم ہے جو عیسائی ہے۔
پنجم:ؔ قرآن مجید میں ایک دن اس پیشگوئی کا جس میں اسلام کا دنیا سے اٹھایا جانا مقدر ہے ایک ہزار سال کے برابرقرار دیا گیا ہے۔چنانچہ سور ہ سجدہ میں بھی فرمایا ہے
یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَo (السجدۃ6:)
’’یعنی وہ آسمان سے تدبیر کرکے شریعت کو نازل کرتا ہے۔پھر یہ اس کی طرف ایک دن میں اٹھ جائے گی۔ جس کی مقدار تمہاری گنتی کے لحاظ سے ایک ہزار سال ہے‘‘۔
مفسرین نے اس سے یہی مراد لیا ہے کہ تین صدیوں کے بعد جو کہ اچھی صدیاں ہیں ایک ہزار سال فیج اعوج کا ٹیڑھا زمانہ شروع ہوگااور اس عرصہ میں قرآن اٹھ جائے گا۔جبکہ اس عرصہ میں دجال کا خروج اورابن مریم کا نزول اور مہدی اور قیامت کی دیگر علاماتِ صغریٰ کا ظہور ہوگا۔
مذکورہ بالا پانچ باتیں اس سورۂ کہف والی عظیم الشان پیشگوئی سے تعلق رکھتی ہیں۔علاوہ ازیں سورہ طہٰ میں نہ صرف سورہ کہف والی پیشگوئی ہی کا لفظاً و معناً اعادہ کیا گیا ہے۔بلکہ صحف سابقہ کی دجال کے متعلق پیشگوئی کے الفاظ کا بھی لفظاً و معناً اعادہ کرکے دونوں پیشگوئیوں کو ایک قرار دیا ہے اور اسی لئے ان کی میعاد کو بھی اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا اور اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا میں لفظ عشر اور یوم سے ایک ہی قرار دیا اور بتلایا گیا ہے کہ ان عیسائی اقوام کے محاسبہ کی میعاد جو اس دنیامیں قائم ہوگی ایک ہزار سال کے خاتمہ پر ہے۔مگر یہ سوال کہ ایک ہزار سال کونسا مراد ہے۔ دوسری آیت میںاَمْثَلُھُمْ طَرِیْقًا کے الفاظ سے اس کی تعیین کر دی کہ یہ میعاد وہی فیج اعوج والی ہے جس میں شریعت اسلامیہ کا زمین سے اٹھ جانا مقدر ہے۔اور وہ چوتھی صدی ہجری میں شروع ہو کر تیرھویں صدی کے آخر تک ختم ہوتی ہے۔دانیال علیہ السلام کی پیشگوئی میں جو دجال کے عروج و زوال کا عرصہ مقرر کیا گیا ہے وہ 1260 سال کا ہے جو اس وقت سے شروع ہونے والا تھاجب سو ختنی قربانی بیت المقدس میں موقوف ہوئی اور جیسا کہ پہلے قدرے تفصیل سے بتایا جاچکا ہے کہ مشہور ہئیت دان علامہ ڈمبل بی کے حساب کی رُو سے یہ عرصہ اٹھارھویں صدی کاآخرہے لیکن یہاں دانیال نبی والی پیشگوئی کا ذکر نہیں بلکہ ایک ہزار سال کی وہ میعاد مراد ہے جس کاذکر یوحنا عارف کے مکاشفات باب20 میں مذکور ہے جو یہ ہے۔
موعودہ انذار کی میعاد
’’پھر میں نے ایک فرشتے کو آسمان سے اُترتے دیکھا جس کے ہاتھ میں اَتھاہ گڑھے کی کنجی اور ایک بڑی زنجیر تھی۔ اُس نے اُس اژدھے یعنی پُرانے سانپ کو جو ابلیس اور شیطان ہے پکڑ کر ہزار برس کے لئے باندھا۔ اور اُسے اَتھا گڑھے میں ڈال کر بند کر دیا اور اُس پر مہر کر دی۔ تا کہ وہ ہزار برس کے پورے ہونے تک قوموں کو پھر گمراہ نہ کرے۔ اس کے بعد ضرور ہے کہ تھوڑے عرصے کے لئے کھولا جائے ۔۔۔ اور جب ہزار برس پورے ہو چکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا۔ اور اُن قوموں کو جو زمین کے چاروں طرف ہوں گی۔ یعنی یاجوج اور ماجوج کو گمراہ کر کے لڑائی کے لئے جمع کرنے کو نکلے گا۔ اُن کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہو گا۔ اور وہ تمام زمین پر پھیل جائیں گے۔ اور مقدّسوں کی لشکر گاہ اور عزیز شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیں گے۔ اور آسمان پر سے آگ نازل ہو کر اُنہیں کھا جائے گی۔ ‘‘
مکاشفہ یوحنا باب 20آیت 1تا 9)
البیت الحرام کے معنی بھی عزیز یعنی عزت والا گھر ہیں۔
یہ دونوں میعادیں تیرھویں صدی ہجری یا اٹھارھویںصدی عیسوی تک پوری ہوتی تھیں۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے ساتھ شیطان ایک ہزار سال کے لئے باندھا گیا اور یہ قومیں ترقی کرنے سے روک دی گئیں۔ایک ہزار سال ہجری کے بعد یعنی سترھویں صدی عیسوی میں یہ یورپ کی نیلگوں آنکھوں والی شمالی اقوام نے باہر نکلنا شروع کیا اور دوسو سال میں انہوں نے عروج کیا اور تمام زمین پر چھا گئیں۔
یہ امر کہ ان شمالی اقوام میں اپنی مذہبی کتابوں کی بیان کردہ پیشگوئیوں کی میعاد کے بارے میں اندازہ کرنے کا سوال پیدا ہوا یا نہیں اس کامختصر اندازہ مندرجہ ذیل بعض کتابوں کے ناموں سے ظاہر ہے جو اٹھارھویں صدی میں شائع ہوئیں ۔
1. The New Era at Hand. (عصرجدید قریب ہے)
2.The Morning Star. (ستارۂ صبح)
3. Things to Come. (وہ باتیں جو ہونی ہیں)
4. Advent of the Christ (مسیح کی آمد)
5. Future Events. (واقعاتِ آئندہ)
6. The Easter Questions. (ایسٹر کے متعلق مسائل)
7. Downfall of Turkish Empires. (سلطنتِ ترکیہ کا زوال)
8. The Appointment Time. (ساعتِ موعودہ)
9. Islam to Christianity. (اسلام بمقابلہ عیسائیت)
عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے بھی اس صدی میں اپنا اندازہ پیش کیا ۔ (حجج الکرامہ) اوردونوں اندازے ایک ہزار سال کے بارہ میں متفق ہیں۔اور یہ امر کہ آیا فی الواقع سورہ طہٰ کی مذکورہ بالا آیات میں سابقہ انبیاء کی پیشگوئی کا ہی حوالہ دیاگیا ہے۔ یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے ان الفاظ سے مقابلہ کرنے سے ظاہر ہوجاتا ہے :۔
’’ہر ایک نشیب اونچا کیا جائے۔ ہر ایک کوہ اور ٹیلہ پست کیا جائے۔ ہرایک ٹیڑھی چیز سیدھی اور ناہموار جگہیں ہموار کی جائیں ۔ اور خداوند کا جلال آشکار ہوگا۔اور سب بشر ایک ساتھ دیکھیں گے کہ خداوند کے منہ نے یہ فرمایا ہے اور ہر بشر خدا کی نجات دیکھے گا …پر ایک دن ہے جو خداوند کو معلوم ہے …خداوند ساری دنیا کا بادشاہ ہوگا اور اس کا نام واحد ہوگا اور ساری زمین تبدیل ہو کرعرابہ کے میدان کی مانند ہوگی ‘‘ ۔ (زکریا11/7)
یہ الفاظفَیَذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا o لَّا تَرٰی فِیْھَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًاo (طٰہٰ107:،108) کے لفظاً و معناً مترادف ہیں۔اس مماثلت سے بھی ظاہر ہے کہ سورہ طہٰ کی محولہ بالا آیات میں نہ صرف سورہ کہف کی پیشگوئی کو ہی بلکہ سابقہ صحف کی پیشگوئی جو دجال کے متعلق ہے اسے بھی دہرایا گیا ہے اور اس میں اس کے ظہور کی میعاد اور اس کا آخری نتیجہ واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
غرض یہ تیسری مثال ہے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ سورہ طہٰ میں بھی قیامت اور مجازات کے ذکرکے ساتھ ایک عظیم الشان پیشگوئی کا ذکر بھی پایا جاتا ہے جس کا تعلق یاجوج و ماجوج کی نیلگوں آنکھوں والی اقوام کے ساتھ ہے اور اس پیشگوئی میں ایک ایسی مدت کا تعیّن ہے جو دو قوموں کے درمیان متفق علیہ ہے اور اس کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ جس وقت ان پیشگوئیوں کے متعلق اندازہ کرکے اس میعاد کے متعلق فیصلہ کریں گے وہی وقت خدائے وحدہٗ لاشریک کے جلال کا دین اور بنی نوع انسان کی خجالت کا دن ہوگا۔ خدائے وحدہٗ لاشریک ان کی کھڑی کی ہوئی پہاڑوں جیسی روکوں کو اڑادے گا اور ساری دنیا کے نشیب و فراز دور ہو کر مساوات قائم ہوگی۔سورہ طہٰ کی مذکورہ بالا آیتوں میں اس بات کی بھی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کے متعلق جلدی نہ کی جائے بلکہ اس دن کا انتظار کیا جائے جب واقعات اس کی خودتشریح کریں گے ۔
سورۃ انبیاء کا موضوع
سورہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَمَا بَدَأنَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَo (الأنبیاء105:) یعنی جس طرح ہم نے پہلی پیدائش سے شروع کیا اس طرح ہم اسے دہرائیں گے۔یہ ہم پر وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کرنے والے ہیں ۔اس آیت کا تعلق حیات آخرت سے بھی ہے اور اسی سے چند آیات قبل یاجوج اور ماجوج کی اقوام کے متعلق اسی پیشگوئی کا اعادہ ہے جس کاذکر سورہ کہف میں بایں الفاظ کیاگیا ہے۔ اِنَّ یَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ (الکھف95:) یعنی یاجوج و ماجوج دنیا میں فساد کرنے والے ہیں ۔
سورہ انبیاء میں اس فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتیں بیان کی گئی ہیں۔
اوّلؔ: یہ کہ تمام قوموں کے محاسبہ کا وقت قریب آگیا ہے اور یہ کہ (ذکر محدث)یعنی ایک نئی یاددہانی کی جائے گی۔
دومؔ: یہ کہ زمین و آسمان کا پیوند اس وقت ٹوٹ جائے گا اور لوگ روحانی زندگی کے لئے آسمانی وحی کے محتاج ہوں گے ۔
سومؔ:یہ کہ جس طرح مادی عالم میں انسان کی جسمانی ضرورتیں پورا کرنے کے لئے پہاڑوں اور آسمان کو بطور مخزن بنایا گیا ہے اور تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے سورج اور چاند ہیں اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے راستے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح آئندہ روحانی انتظام کے لئے سورج اور قمر کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہ سورج آنحضرت ﷺ کی ذات ہے اور قمر آپ کے مظہروں کا وجود ہے۔ یہ سلسلہ انتظام اب دنیا میں ہمیشہ قائم رہے گا۔
آیت وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ۱؎ (الأنبیاء:35) کے معنی سیاق کلام کے لحاظ سے بھی ہیں روحانی فیض رسانی میں یہ خلد دوام کسی کونہیں دیا گیا اور یہ کہ اب آئندہ دنیا کی روحانی زندگی کا قیام آنحضرت ﷺ کی زندگی کے ساتھ ہے آپ کی موت کے ساتھ دنیا کی موت ہے۔
[ ۱؎: قرآن مجید کی بعض آیات سیاقِ کلام سے اگر الگ کی جائیں تو وہ پُر حکمت کلام ہونے کی وجہ سے ایک الگ مفہوم دیتی ہیں۔ اس قسم کی آیتوں میں سے مذکورہ بالا آیت بھی ہے ۔ اس آیت سے بطور قاعدہ کلّیہ یہ استدلال بھی کیا جا سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے تمام انبیاء جسمانی طور پر فوت ہو گئے۔ لیکن سیاقِ کلام میں مذکورہ بالا آیت کا وہی مفہوم ہے جو اُوپر بیان کیا گیا ہے ۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ آیت ہے:خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُوْنَ o وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ (الأنبیاء34:،35) رات اور دن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرہ کے اندر چکّر لگا رہا ہے۔ رات سے مراد جہالت اور گمراہی کی رات ہے۔ ان آیات کا اسلوبِ بیان وضاحت سے مذکورہ بالا مفہوم کی تعیین کرتا ہے۔ مذکورہ بالا قِسم کی آیات میں سے ایک آیت یہ بھی ہے :لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرۃ:196) یعنی ’’اپنے ہاتھوں سے اپنے تئیں ہلاکت میں مت ڈالو‘‘۔اِس آیت کو سیاقِ کلام سے الگ کیا جائے تو یہ ایک پُر حکمت قاعدۂ کلّیہ کے طور پر مفہوم دے گی ۔ یعنی جان بوجھ کر تہوّر سے کام نہ لو اور اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ لیکن سیاقِ کلام میں اِس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے راستہ میں خرچ نہیں کرو گے تو اپنے تئیں ہلاک کر دو گے ۔
چہارمؔ: یہ کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی اصل غرض جو توحید باری تعالیٰ اورروحانی مملکت کاقیام ہے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے دنیا میں پوری کی جائے گی خواہ اس کے راستہ میں کتنی ہی روکیں کیو ں نہ کھڑی کردی جائیں۔
پنجمؔ: یہ کہ یاجوج و ماجوج کو کھولا جائے گا یعنی ان کو آزادی دی جائے گی اور وہ سمندروں کی لہروں پر سے تمام دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل جائیں گے ۔
ششمؔ: اس زمانہ میں برباد شدہ بستیاں دوبارہ آباد کی جائیں گی ۔
ہفتم ؔ: یہ کہ یاجوج و ماجوج کی تباہی کاوعدہ جب آئے گا تو ان کو اپنے بچانے کے لئے کوئی مہلت نہ دی جائے گی اور حیرت سے ان کی ٹکٹکی بندھ جائے گی ۔ یعنی ایک حیرت انگیز انقلاب دنیا میں پیدا ہوگا۔
ہشتمؔ: یہ کہ دنیا میں اَلْفَزَعُ الْاَکْبَرُ یعنی بہت بڑی گھبراہٹ قائم ہوگی جس سے مومنوں کو قائم رکھا جائے گا۔
نہمؔ: یہ کہ معبود ان باطلہ کااس دن خاتمہ ہوگا۔
دہمؔ:نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے ۔ خدائے وحدہٗ لاشریک تمام دنیا کا معبود ہوگا اور آنحضرتﷺ کا وجود تمام دنیا کے لئے باعث رحمت ٹھہرے گا۔ وَمَآ اَرْسَلْٰنکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo (الأنبیاء108:)
یہ عالم غیب سے تعلق رکھنے والی دس باتیں ہیں جو سورہ انبیاء کا مضمون ہیں۔یاجوج و ماجوج کے فتنۂ عظیم کے پیش نظر مذکورہ بالا پیشگوئیاں جو بہت ہی عظیم الشان ہیں ان کلمات ربی کی ہی تفسیر ہیں جن کاذکرسورۃ انبیاء کی آیت سَاُرِیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْن (الأنبیاء38:) یعنی مَیں عنقریب تمہیں اپنے نشانات دکھائوں گا ان کے متعلق تم جلدی نہ کرو۔
اور آخری آیات اِنْ اَدْرِیْ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَo اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَھْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَیَعْلَمُ مَا تَکْتُمُوْنَ o وَاِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّہٗ فِتْنَۃٌ لَّکُمْ وَمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍo (الأنبیاء110:تا 112) یعنی میں نہیں جانتا آیا نزدیک ہے یا دور وہ بات جس کا تم کو وعدہ دیا جارہا ہے۔وہی جانتا ہے بات کا ظاہر کرنا اور جانتا ہے وہ جو تم چھپاتے ہو اور میں نہیں جانتا کہ شاید وہ تمہارے لئے فتنہ ہی ہو اور ایک وقت تک فائدہ کا سامان صاف طور پر پتہ دے رہی ہیں کہ ان کا تعلق آئندہ زمانہ سے ہے، قریب زمانہ سے بھی اور دور زمانہ سے بھی۔
[مذکورہ بالا اسلوبِ بیان عربی کا مفہوم یہی ہے کہ یہ سب باتیں ہوں گی۔ الفاظ اِنْ اَدْرِیْ اور اَمْ اور لَعَلَّہٗ احتمال اور شک و شبہ کے مفہوم میں قطعاً استعمال نہیں ہوتے۔]
اِذَا فُتِحَتْ یَأْجُوْجُ وَمَأْجُوْجُ وَھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ۔(الأنبیاء97:)جب یاجوج وماجوج کو کھولا جائے گا اور وہ سمندروں کی لہروں پر سے تمام اکناف عالم میں پھیل جائیں گے ۔
آنحضرت ﷺ کے بعد قریب ہی وقت میں عیسائی اقوام کا مسلمانوں کے ساتھ ٹکرائو ہوا اور وہ شکست کھا کر کچھ عرصہ کے لئے خاموش ہوگئیں ۔لیکن اب جب انہیں مکمل آزادی حاصل ہوئی ہے اور تمام روکیں ان کے راستہ سے ہٹا دی گئی ہیں۔ ان کا حملہ اسلام اور مسلمانوں پر نہایت ہی خطرناک ہے۔
سورۂ انبیاء میں جو پیشگوئی کی گئی ہے اس کا تعلق دونوں زمانوں کے ساتھ ہے۔اور یہ عجیب بات ہے کہ ان آیات میں یاجوج و ماجوج کی ترقی کو ایک لحاظ سے فتنہ قرار دیا ہے اور ایک لحاظ سے متاع یعنی عارضی فائدہ کا ذریعہ ۔ یہ بظاہر متضاد المعنی پیشگوئی بھی علم غیب کے عجائبات میں سے ہے۔جس طور پر یہ پوری ہو رہی ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔
سورۂ حج کا موضوع
اسی طرح سورۂ حج میں بھی ایک زلزلہ عظیمہ کے برپا ہونے کا ذکر کیا اور بتایا گیا ہے اور اس کا تعلق بھی اسی ہزار سالہ یوم موعود سے ہی ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ حج کا چھٹا رکوع آیت وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَo(الحج48:)یعنی تجھ سے اس عذاب کے متعلق جلدی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا۔یقینا تیرے رب کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔
اس آیت میں اسی ایک ہزار سال کی میعاد کا حوالہ ہے جس کا ذکر سورہ طہٰ میں ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں سورہ حج میں بیت اللہ کے ہمیشہ محفوظ رکھے جانے کی پیشگوئی بھی ہے۔
فرماتا ہے وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ (الحج26:)یعنی جس نے بھی اس میں ظلم سے الحاد کاارادہ کیا ہم اسے دردناک سزادیںگے اور آخری رکوع میں فرماتا ہے۔ اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌo یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُo(الحج76:،77)یعنی اللہ تعالیٰ ملائکہ سے بھی اور لوگوں سے بھی رسول چنتا ہے اور چنتا رہے گا۔اللہ تعالیٰ بہت ہی سننے والا بہت ہی بینا ہے۔ جانتا ہے جو ان کے سامنے اب ہورہا ہے اور جو ان کے پیچھے ہوگا اور اللہ ہی کی طرف تمام امور لوٹائے جائیں گے ۔
اس آیت میں ملائکۃ اللہ اور رسولوں کے ذریعہ سے اس غرض و غایت کی حفاظت کا وعدہ ہے جس کے لئے بیت اللہ کی بنیاد حضرت ابراہیم ؑ کے ہاتھوں سے بلند کی گئی۔ چنانچہ اس سورۃ میں حج اور اس کے ارکان کا بھی ذکر ہے۔
سورۂ کہف میں آنحضرت ﷺ کی ذات ہی کو مجمع البحرین قرار دیا گیا ہے
غرض اس عظیم الشان منذر و مبشرپیشگوئی کے تعلق میں جو حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ خداتعالیٰ کے وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے بیت اللہ کی دائمی حفاظت اور زلزلہ وغیرہ کے متعلق کی گئی ہے۔میرے نزدیک سورۂ کہف سے لے کر آخری سورۃ تک تمام سورتیں ایک لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان سورتوں میں ایک طرف نئی سے نئی بشری ضرورتوں کے پیش نظر شریعت اسلامیہ کے نئے سے نئے پہلوئوں کا ذکر کیا گیا ہے اور دوسری طرف موقع و محل کی مناسبت سے انباء غیب کا ایک حیرت انگیز اور اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ اس کی وسعت کو ملحوظ رکھیں تو ’’کَلِمَاتُ رَبِّیْ‘‘ (الکھف110:) کی یہ وسعت کہ ان کو احاطہ تحریر میں لانے کے لئے دو سمندروں کی سیاہی درکار ہوگی آشکار ہوجاتی ہے۔دراصل بحر عربی زبان میں نہ صرف سمندر اور دریا کو کہتے ہیں بلکہ علم کی وسعت کو بھی اسی لفظ ’’بحر‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ سورہ کہف میں آنحضرت ﷺ کو مَجْمَعُ الْبَحْرَیْنِ (الکھف61:) کا لقب دیا گیا ہے۔ یعنی وہ ذات جہاں دنیوی علوم اور روحانی علوم اکٹھے ہو کر ان کے درمیان موافقت تامہ پیدا ہوتی ہے اور کوئی تضاد باقی نہیں رہتا۔ اس لقب میں یہ پیشگوئی مضمر ہے کہ آپؐ کی ذات والا صفات کے ذریعہ سے مادی اور روحانی علوم کے درمیان موافقت پیدا ہو کر بنی نوع انسان کے لئے آ پ مشعل ہدایت بنیں گے۔یہی وہ دو سمندر ہیں جن کی روشنائی عالم غیب سے تعلق رکھنے والی باتوں کو بیان کرنے کے لئے درکار ہے جو بذریعہ وحی آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئیں ۔
(بشکریہ ماہنامہ الفرقان۔ اگست1954ء)