’’پاکستان میں سماجی ابتری کی دگرگوں صورت حال‘‘
پاکستان کے حالات جو پہلے ہی سماجی، معاشی اور سیاسی اعتبار سے کچھ بہت تسلی بخش نہیں تھے ان میں حالیہ نفرت انگیزی سے مزید ابتری پیدا ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں جو ہڑبونگ مچی ہوئی ہے اس کو سننا ایک عذاب بھی ہے اور ناگزیر بھی۔ عبیداللہ علیم کے چار مصرعے ملاحظہ فرمائیں جو لگتا ہے اسی ہفتے لکھے گئے ہوں۔
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا۔۔۔
میں نے سنا ہے قرب قیامت کا ہے نشاں
بے قامتی پہ جُبّہ و دستار دیکھنا۔
پہلے دو مصرعے ہمارے میڈیا کے اخلاق و اطوار کے آئینہ دار جب کہ اگلے دو مصرعے موجودہ دور کے علماء کرام کی وضع داریوں اور ٹھیکیداریوں کا ماتم ہیں۔ صحافی معاشرے کی آنکھیں کہلاتے ہیں اور آج کے پاکستانی اہل قلم اور میڈیا کے جگادریوں کو آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہے۔
ہفتے بھر کے پروگرامز، ٹاک شوز اور کالموں کا عمومی مزاج اور رویہ ان خطوط پہ استوار تھاکہ:
آئین اور پارلیمنٹ نے احمدیوں کو جو کچھ بھی قرار دے دیا ہے اس پہ تو کوئی بحث اور گفتگو کی گنجائش اور ضرورت ہی نہیں۔
ختم نبوت ۔۔۔۔۔۔تو ختم نبوت ہے۔ کون مسلمان ایسا ہے جو اس ایشو پہ زبان کھول سکے۔
ناموس رسالت پہ کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔
یہ تو ایک طے شدہ مسئلہ ہے۔
قادیانی ایشو ایک حساس معاملہ ہے۔
ہمیں قادیانی عقائد کا تو کچھ زیادہ علم نہیں مگر۔۔۔۔ ۔ ۔ان کو آئین نے کافر قرار دے دیا ہے تو اس پہ بات نہیں ہوسکتی۔
اور یہ یہودی سازش، ظفراللہ خاں اور ڈاکٹر سلام،
بین الاقوامی سازش…
ہندوستان، اسرائیل۔۔۔۔۔امریکی ایجنڈا ۔۔۔ ۔۔ اسلام کے غدار۔۔۔۔۔انگریزوں کے وفادار
ملک کے لئے خطرہ۔۔۔۔۔و علی ھذ االقیاس
لیکن یہ سب کچھ تو تب چلتا اگر ہم واقعی قرون وسطی میں ہوتے۔ اس وقت نہ تو انفارمیشن کا گلا گھونٹنا ممکن ہے اور نہ ہی قابل لحاظ مدت تک لوگوں کو بے خبر رکھا جا سکتا ہے۔
آگ ہو گی تو دھواں بھی اٹھے گا اور دھواں دُور دُور سے ہی دکھائی دے گا اور آگ سے بھی پہلے نظر آئے گا۔
راقم نے گزشتہ برس ایک مضمون میں عرض کیا تھا کہ ’’نوے سالہ مسئلہ‘‘ حل نہیں ہوا تھا بلکہ اس وقت کی کم نظر قیادت نے پیر تسمہ پا مُلّائیت کے عفریت کے سامنے اپنا سر ریت میں دبا لیا تھا۔ مسئلہ تو حل کیا ہونا تھا اور پھیل گیا تھا۔اور میرا یہ سوال اسی طرح قائم ہے کہ وہ ختم نبوت جس کو آج ارکان اسلام میں پانچ کی بجائے واحد رکن اور ارکان ایمان کے چھ کی بجائے اوّل رکن کی جگہ رکھ دیا گیا ہے اس ختم نبوت کا ایک دفعہ بھی ذکر اسمبلی میں کیوں نہ کیا؟
آج بھی خاتم النبیین کے معنی اور تشریحات سے گریز کیوں ہے؟
صاف طور پہ بتاتے کیوں نہیں کہ ہم نے خاتَم کا پنجابی ترجمہ کیا ہوا ہے۔ آخری نبی۔۔۔۔زمانی لحاظ سے۔ اور غیر مشروط آخری نبی۔۔۔۔جس کے بعد کوئی بھی نہیں آئے گا اور کبھی بھی نہیں آئے گا۔ اتنی سادہ بات ہے تو سرکاری طور پہ اعلان کریں کہ حضرت عیسی نہیں آئیں گے اور امام مہدی کے آخری زمانے میں آنے کی خبر درست نہیں۔
عرب محاورے میں خاتَم الا ولیاء۔ خاتَم الشعراء اور خاتَم الحکماء کا مطلب کیا یہی ہوتا ہے کہ کوئی ولی، کوئی شاعر اور کوئی حکیم کبھی بھی نہیں ہو گا۔
ان اینکرز نے ایک کرکٹر یا کسی سنگر یا ایکٹر کا انٹرویو کرنا ہو تو یہ مہینہ بھر تیاری کرتے ہیں۔ ریسرچ ورک ہوتا ہے اور گوگل کر کے سارے حوالے ڈھونڈتے ہیں تو اس ایشو پہ کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے۔
ہماے غیر احمدی قارئین خود بتائیں کہ آپ کو عیسیٰ کی آمد اور چودھویں صدی اور امام مہدی کے عقائد اپنے اپنے گھروں سے ہی ملے؟ مرزا صاحب نے تو نہیں دیئے۔ آپ منظّم طور پہ حضرت عیسی کے آنے اور امام مہدی کے ظہور کا سرکاری طور پہ انکار کروائیں۔ مگر یاد رکھیں کہ جیسے ہی ایسا اعلان کسی وزیر نے کیا کہ کسی عیسی یا مہدی نے نہیں آنا۔ تو یہ سارے علماء اس کا جنازہ نکال دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ مانتے ہیں کہ آئے گا۔۔اور جب بھی آئے گا تو غیر مشروط ایمان ختم نبوت پہ کہاں جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ کوئی بھی نیا یا پرانا امام مہدی یا عیسی کیوں آئے ؟اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟دین مکمل ہو چکا۔نبوت ختم ہو چکی۔۔۔۔اور حلف کے الفاظ ہیں کہ ’’میں کسی ریفارمر، مصلح یا مہدی کے آنے پہ ایمان نہیں رکھتا‘‘ تو پھر سرکاری اعلامیہ جاری کرنے میں کیا قباحت ہے؟
اور ذرا علماء سے پوچھیں تو سہی کہ کیوں نہ یہ سرکاری اعلان کر دیا جائے اور آئمہ سلف کی ’’غلطی‘‘ کا اعلان کر دیا جائے تا کہ صرف احمدی گمراہ رہیں ۔۔۔۔باقی تمام مکاتب فکر تو اس گمراہی سے سرکاری طور پر باہر نکل آئیں۔ اور یہ پاکستان کی مسلم اُمّہ اور آنے والی نسلوں پر ایک احسان عظیم ہو گا۔مگر یہ ہو نہ سکا۔اور اب یہ عالم ہے۔
کہ تُو نہیں
تو تیرا غم ۔۔۔۔۔
تیری جستجو بھی نہیں۔
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے۔۔۔۔
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں۔
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے۔
دیکھیں اب تو ساحر لدھیانوی کے الفاظ بھی آپ ہی کا مرثیہ بن گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ آپ کے ہاں وہ ماتم پڑا ہے کہ ہر بات وہی مفہوم دینے لگی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
یہ کوئی دل خوشکن جملے بازیاں نہیں ہیں۔ آپ کو سچ ڈھونڈنا ہو گا۔ خود پڑھنا اور ڈسکس کرنا پڑے گا اور پھر اصل بات جان کر۔۔۔۔۔بھلے نہ مانیں۔ کوئی جبر نہیں ۔لیکن اگر بے علمی کی چادر اوڑھے رکھیں گے تو پھر پاکستان میں رضویوں قادریوں کی تو کوئی کمی نہیں اور وہ آپ کا انجانا ریوڑ جدھر چاہیں گے ہانک کے لے جائیں گے اور ایسا ناموس رسالت اور ختم نبوت کے نام پہ کریں گے۔
دوسری بات یہ کہ ایک بات اچھی طرح جان لیں کہ اس وقت پاکستان کی کوئی تحصیل، ضلع اور صوبہ نہیں جہاں احمدی پاکستان بننے سے بھی پہلے سے موجود، آباد اور قائم نہ ہوں۔ میڈیا پر ذکر ایسا سہما اور ڈرا ہوا ہوتا ہے کہ جیسے یہ کوئی خلائی مخلوق ہو جو بس کسی سانحے یا واقعے پر ہی زیرگفتگو آتی ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے ۔بس آپ کے علماء، میڈیا اور سیاستدانوں نے ان کے تعارف کے حوالے سے جھوٹ بولا ہے اور کثرت سے بولا ہے۔بغیر رکے اور سوچے اگر مَیں لکھوں تو وڑائچ، چیمے، چٹھے، باجوے، وینس، ساہی، نون، ملک، اعوان، وٹو، بھٹی، ڈوگر، یوسفزئی، چانڈیو، ابڑو، بھٹو، بلوچ، سندھی، کراچی کے اردو سپیکنگ، پنجاب کے جانگلی، بھروانے، سید، نسوانے، مرزا، بیگ، برلاس، رانے، رائے، راجپوت، رانگڑ، سرگانے، بسراء، بٹ، کشمیری، بخاری، صدیقی، رضوی، پیر، مخدوم، کھوکھر، نواب، چدھڑیا ہنجراء۔ سروعے یا سپراء۔ گوجر یا گوندل۔۔۔۔۔۔غرض کوئی برادری یا گوت ایسی نہیں ہے جس میں دو چار یا دس گھرانے احمدی نہ ہوں۔ یہ بات میں اپنے ذاتی علم اور ملاقات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ اس لئے اس تاثر سے باہر نکل آئیں کہ احمدی اقلیت، قادیانی برادری، مرزائی۔۔۔۔اقلیت قرار دیا گیا گروہ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔
اس تماش بینی کو اب بند ہونا چاہئے۔ پاکستانی احمدی کسی بھی پاکستانی کی طرح ایک محب وطن پاکستانی ہیں بلکہ اس وجہ سے ان کو زیادہ محب وطن کہنا جائز ہے کہ وہ پاکستان کی گزشتہ ستّر سالہ تاریخ میں ایک دفعہ بھی اور کسی ایک جگہ بھی اینٹی سٹیٹ سرگرمی کا حصہ نہیں بنے اور پاکستان کی سرکاری تمام ایجنسیاں اور ادارے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ احمدی عوام اور خواص کی حبّ الوطنی پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ ان کے خلاف جلوس اور بلوے کر کے لاء اینڈ آرڈر کے مسائل پیدا کئے گئے اور شورشیں رفع کرنے کے ادنیٰ ہتھکنڈوں کے طور پر ان پر خلاف واقع جھوٹے کیس بنا کر جیلوں میں بند کئے گئے۔ مگر خود احمدیوں نے ریاست اور حکومت کے لئے کبھی مسئلہ پیدا نہیں کیا۔ اپنے حقوق کے تلف ہونے پر بھی چپ رہے اور جلوس ہڑتالیں لے کر حکام کے لئے باعث پریشانی کبھی نہیں بنے۔
اس لئے فلاں کے عزیز و اقارب احمدی، ڈھمکاں کے مرزائیوں سے تعلقات۔۔۔۔یہ ناقابل عمل اور غیرمعقول طرز عمل اب ہر سطح پہ بند ہونا چاہئے۔
احمدیوں کا قیام پاکستان میں بھی حصہ ہے اور استحکام پاکستان میں بھی۔ اور احمدی پاکستان کا ایک مہذب، شریف اور سکہ بند طبقہ ہیں جو لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ پر بدل و جان ایمان رکھتے ہیں۔مومنانہ صبر اور حلم، بصیرت اور علم کے اوصاف کے من حیث القوم حامل ہیں۔ شریعت محمدیہ کے عامل اور دین اسلام کے فدائی بھی اور داعی بھی۔ نہ ختم نبوت کے منکر اور نہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے انکاری۔ ہاں اس زمانے کے مولوی اور جاہل اور نفرت کے پرچارک مُلاّں کے اعلانیہ منکر ہیں اور اس پہ انہیں کوئی ندامت نہیں۔ ملکی قانون کے پابند اور اپنی حق تلفیوں کی فریاد خدائے واحد و یگانہ سے کرنے والے متدیّن مزاج انسان ہیں۔صابر اور ظلم و جبر کی سہار اور وسعت حوصلہ رکھتے ہیں۔ مگر بزدل، خوشامدی اور بے وقار نہیں ہیں۔ بانی جماعت احمدیہ نے دیوثیت اور بزدلی اور بے غیرتی کی اپنی تحریروں میں مذمت کی ہے اور احمدی عمومی طور پر ان خامیوں سے اوپر ایک باوقار اور با رعب معاشرت رکھنے والا طبقہ ہیں جو ہمدردی بنی نوع میں ایک امتیازی شناخت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کا یتیموں کی طرح اپنے ٹاک شوز میں تذکرہ نہ کریں۔ ایک جماعت اور طبقے کے طور پر احمدی بالکل یتیم نہیں ہیں۔وہ کائنات کے مالک و خالق خدا کو اپنا ازلی و ابدی سہارا اور مولا یقین کرتے ہیں۔ تو وہ لاوارث کیسے ہوئے۔ان کے سر پر ہمہ وقت ایک ہمدرد اور دعائیں کرنے والا وجود اور ان کے انفرادی اور اجتماعی مفادات کا نگران، امام موجود ہے اور احمدی افراد اور امام جماعت باہم یکجان دو قالب کے مصداق ہیں ۔اور افراد جماعت باہمی ہمدردی اور تواضع میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس لئے ان کا تذکرہ اگر مہذب اور مناسب وقار کے ساتھ کرنے سے آپ کو مولوی کا خوف ہے تو یتیموں کی طرح انڈر ٹون میں بھی ان کی بات نہ کیا کریں۔ ایسی لولی لنگڑی اور بےوقار ہمدردی کی احمدیوں کو کوئی احتیاج نہیں۔
خود کو غیر مسلم تسلیم کر کے الاٹ کی گئی اقلیتی نشستوں کو صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی میں کبھی جماعت احمدیہ نے درخور اعتناء نہیں سمجھا اور نہ ہی غیر مسلم لسٹوں میں ووٹ دیتے ہیں۔اپنے مسلمان ہونے کے لئے وہ پارلیمنٹ اور علماء سے سرٹیفکیٹ کے طالب نہیں ہیں اور نہ وہ یہ اختیار کسی بھی زمینی اور دنیاوی فورم کے پاس سمجھتے ہیں۔کسی کو مسلمان ہونے کی سند دینے کا جواز نہ مولوی کے پاس تھا، نہ پارلیمنٹ کے پاس۔ دونوں نے ظلم کیا ہے اور اپنی حد سے تجاوز کیا ہے۔ خدا ایسا کرنے والوں سے خود نمٹتا ہے۔ اور پاکستانی سیاست اور ریاست کے حالات گواہ ہیں کہ وہ خوب نمٹ رہا ہے۔
یہ تمام تر حقائق سماجی اور معاشرتی سچائیاں اور تاریخی اور تمدنی منظر نامہ ہے۔ مذکورہ بالا امور مذہبی ایشوز نہیں ہیں اس لئے ان کو صحیح تناظر میں رکھ کر معاشرے کو سماجی سچائیوں سے روشناس کروانا میڈیا اور رپورٹنگ کی اخلاقیات ہیں اور ان کا لحاظ رکھنا ان کی صحافتی ذمہ داری ہے۔اور ہاں۔۔۔یہ بھی یاد رہے کہ احمدی خود کو احمدی کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ قادیانی یا مرزائی ان کے نام ملوانوں نے رکھے اور میڈیااور سیاستدانوں نے پرموٹ کئے ہوئے ہیں۔ ایک شریف اور مہذب معاشرے میں آوازے کسنے والے نام سے مخاطب کرنا بد تمیزی ہے۔ صحافتی اور سیاسی ضرورت کے تحت احمدیوں کا ذکر اگر کرنا پڑے تو اس بد تمیزی سے گریز کر کے اپنے مہذب اور ذمہ دار صحافی اور سیاستدان ۔۔۔۔، بلکہ انسان ہونے کا ثبوت دیں۔ اور کم از کم اس قادیانی، مرزائی ۔۔۔۔یا ۔۔۔۔۔کہ احمدی کی گو مگو سے باہر نکل آئیں۔ احمدیوں کو احمدی کہنا ناموس رسالت یا ختم نبوت کے منافی نہیں ہے۔ صرف ایک مہذب اور معقول طرز تخاطب ہے۔