اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جون2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
لاہور ہائی کورٹ میں احمدی مخالف پولیس کے حالیہ مقدمات
لاہور ہائی کورٹ (LHC) سے حال ہی میں درج ذیل معلومات حاصل کی گئیںجومختصراً درج ہیں: 1۔ جسٹس فاروق حیدر نے اپنے آرڈر شیٹ میں طاہر نقاش اور ایک فرد بمقابلہ ریاست وغیرہ کو خارج کر دیا۔ ASJ ننکانہ صاحب کے فیصلے کے خلاف ملزم کی درخواست کو رد کیا کہ توہین مذہب کی دفعات PPC 295-C اور PPC 295-B ان کی چارج شیٹ میں شامل کی جائیں۔
2۔روحان احمد، ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد کو مذہبی بنیادوں پر ایف آئی اے کے ایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ ان کی ضمانت پر رہائی کی درخواست سیشن عدالت نے مسترد کر دی۔ انہوں نے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی۔ جسٹس شہرام سرور نے 7؍جون 2021ء کو اپیل سننے سے انکار کر دیا اور کیس واپس چیف جسٹس کو بھیج دیا۔
3۔ اس کے بعد مذکورہ کیس کو سماعت کے لیے جسٹس انوارالحق پنن کے پاس بھیجا گیا جنہوں نے 17؍جون 2021ء کو اسے سننے سے انکار کر دیا اور اسے واپس چیف جسٹس کو بھیج دیا۔
4۔ مذکورہ کیس کی سماعت اے ایس جے سید علی عباس، لاہور کی عدالت میں ہو رہی ہے۔29؍جون 2021ء کو، مخالف ملاؤں کی درخواست پر انہوں نے PPC 295-C کو چارج شیٹ میں شامل کیا۔ توہین رسالت کی اس دفعہ کی سزا موت ہے۔
پنجاب پولیس کی جانب سےاحمدیہ مسجد سے مینار اور کلمہ ہٹا دیا گیا
جی بی 57 گھیالہ، ضلع فیصل آباد،جون 2021ء: مقامی جماعت کا وفد 18؍جون کو تھانے میں طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ احمدیہ مسجد کے مینار ہٹا دیں۔احمدیوں نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا جس پر ایس ایچ او نے تحصیلدار کے ذریعے کارروائی کی دھمکی دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی آر بھی درج کی جائے گی۔ 24؍جون کو اندھیراہونے پر پانچ پولیس کی گاڑیاںآئیں۔پولیس نے احمدیہ مسجد کی طرف جانے والی سڑکوں کو گھیرے میں لے کر، تالے توڑ کر مسجد میں داخل ہوئے۔انہوں نے تمام لائٹس بند کر دیں اور مقامی صدر کا موبائل فون قبضے میں لےلیا تاکہ ان کی قابل مذمت کارروائی کو ریکارڈ نہ کیا جا سکے۔پولیس نے میناروں کو مسمار اور مقدس کتب کو شہیدکیا تو اسپیشل برانچ کے اہلکاروں اور پٹواریوں کے علاوہ تیس پولیس اہلکار وہاں موجود تھے۔پولیس نے ملبہ اپنے ساتھ لے لیا اور مقامی صدر جماعت کو خبردار کیا اورمحتاط رہنے کا کہا۔اس گاؤں میں 23 کے قریب احمدی خاندان آباد ہیں ۔ یہ مسجد 1948ء میں تعمیر کی گئی تھی اور مینار بھی تب ہی سے موجود تھے۔ پنجاب پولیس کی طرف سے ملاؤں کے ساتھ مل کر احمدیوں کی عبادت گاہوں کے خلاف منظم کارروائیاں جاری ہیں۔ پنجاب حکومت ایسے واقعات کو روکنے میں نہ صرف ناکام نظر آتی ہے بلکہ ان کا ساتھ بھی دیتی رہی ہے۔
ضلع فیصل آباد میں پولیس کی جانب سے ایک اَوراحمدیہ مسجد کی جزوی شہادت اور بے حرمتی
ضلع فیصل آباد کے چک 261 آر بی ادھوالی۔ 17؍ جون 2021ء: پولیس مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں کے ہمراہ 17؍جون 2021ءکو غروب آفتاب کے بعد چک 261 آر بی ضلع فیصل آباد کی احمدیہ مسجد میں آئی، کلمہ طیبہ، اور اس میں لکھے اسمائےالٰہیہ اور قرآنی آیات کو شہید کیا، نیز میناروں کو مسمار کر دیا۔ انہوں نے محراب کو چھپانے کے لیے ا س کے سامنے دیوار کھڑی کر دی۔ مزید یہ کہ انہوں نے چار احمدیوں کے گھروں پر درج مقدس تحریرات کو بھی شہید کر دیا۔کچھ عرصے سے گاؤں میں احمدیوں کی مخالفت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا تھا۔ مخالفین نے احمدیہ مخالف جلسے کیے اور باہر سے مخالف علماء کو مدعو کیاجنہوںنے احمدیہ مسجد کے محراب اور میناروں کو گرانےاور احمدیوں کے گھروں سے اسلامی تحریروں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ۔ مسئلے کے حل کے لیے مختلف سطحوں پر حکام سے رابطے کیے گئے۔ آئی جی پنجاب کو خط بھی لکھا گیا۔ پولیس نے احمدیوں کے ساتھ امن کمیٹی کی میٹنگ کا اہتمام کیا اور جیساکہ خدشہ تھا، امن کمیٹی کے اراکین، اے سی اور ایس پی نے متفقہ سفارش جاری کی کہ کلمہ اور مینار کو ہٹا دیا جائے۔جیسا کہ فیصلے میں فریقین کو اختیار دیا گیا تھا فیصلے کے خلاف بروقت اپیل کی گئی ۔ بدقسمتی سے درخواست پر کوئی دھیان نہ دیتے ہوئے، ایس ایچ او ڈجکوٹ تھانہ اور متعدد پولیس اہلکار،30 کے قریب کونسل کے کارکنوں کے ہمراہ سورج غروب ہونے کے بعد موقع پرپہنچے اور تقریباً تین گھنٹے تک کارروائی کرتے رہے۔اس قابل مذمت فعل کے دوران، پولیس نے اپنی شناخت چھپانے کے لیےچہروں کو ڈھانپ رکھا تھا، تمام لائٹس بند کر دی گئی تھیں اور کسی کو مسجدکے قریب جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح کسی کو بھی تصویر لینے یا ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ پولیس نے ویڈیو یا تصویر بنانے کے لیے کچھ احمدیوں کے موبائل فون بھی چھین لیے۔ پولیس اہلکاروں کو قریبی گھروں کی چھتوں پر تعینات کیا گیا تھا تاکہ کسی کو مسجد تک پہنچنے نہ دیا جاسکے۔ آخر میں، پولیس نے مسجدسے کچھ ملبہ ہٹایا اور ان جگہوں کو بظاہر درست کر گئے جہاں سے تحریرات مٹائی گئی تھیں۔ انہوں نے چھپانے کے لیے مسجد کے محراب کے سامنے ایک دیوار بھی کھڑی کر دی۔یہ جماعت احمدیہ پر ریاستی حمایت یافتہ ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی ایک مثال ہے۔ مساجدپر اس طرح کے حملے براہ راست سپریم کورٹ (چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی) کے عبادت گاہوں کے تحفظ کے بارے میں 2014ءکے تاریخی فیصلے کے خلاف ہیں۔ احمدیوں کی مساجد متعدد مواقع پر حملوں کی زد میں آ چکی ہیں۔ یہ آئین کی کھلی خلاف ورزی ہےجو پاکستان کے تمام شہریوں کو زندگی اور مذہبی آزادی کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ شرمناک حرکت قانون اور آئین کے تحت کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ اتنا ہی قانونی اور آئینی ہے تو وہ ان کارروائیوں کو تاریک اوقات میں کیوںعمل میں لاتے ہیں اور کیوں اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی اس کی ویڈیو تیار نہ کرسکے۔
پنجاب گوگھیاٹ، ضلع سرگودھا میں احمدیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انگیز مہم
جون 2021ء:جماعت احمدیہ کے مخالفین نے 2018ء میں 115 سال پرانی احمدیہ مسجد کے مینار اور محراب کو مسمار کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے حال ہی میں ایک بڑا قدم یہ اٹھایاکہ پولیس سٹیشن میانی ضلع سرگودھا میں درخواست دائر کی اور احمدیوں کے خلاف ان کی مساجد قبرستانوں اور گھروں میں اسلامی تحریروں اور طریقوں کو اپنانے پر کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد احمدیوں سے کہا گیا کہ وہ 26؍جون 2021ء کو ایس ایچ او کے دفتر میں حاضر ہو کر اپنا موقف بیان کریں۔ اس کے بعد مقامی جماعت نے ڈی پی او سے ملاقات کی۔ ایس ایچ او میانی نے مخالفین کی درخواست ڈی پی او کو بھجوا دی۔ اس دوران ملاؤں نے دھرنا دے کر مرکزی سرگودھا گجرات روڈ بلاک کر دی۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کیں اور پولیس کی موجودگی میں احمدیہ مخالف نعرے لگائے۔ دھرنے کے شرکاء اور ایس پی ہیڈ کوارٹر سرگودھا کے درمیان مذاکرات ہوئےجس کے نتیجے میں دھرنا ختم کر دیا گیااور فیصلہ کیا گیا کہ ایس پی 30؍جون کو میانی کا دورہ کرے تاکہ دھرنے کے منتظمین سے ان کے تحفظات کا جواب دے سکے۔ اس سلسلے میں احمدیہ وفد کو پہلے بھلوال آنے کا کہا گیا، پھر انہیں ان کی ضلعی قیادت سمیت تھانہ میانی بلایا گیا۔احمدیہ وفد تھانے گیا اور ایس پی سپیشل برانچ سرگودھا کے سامنے پیش ہوا۔ اس کے بعد ایس پی نے گوگھیاٹ میں احمدیہ قبرستان اور مسجد کا دورہ کیا اور کچھ تصاویر بھی لیں۔ جس کے بعد ان کی ملاقات ہوئی۔ میٹنگ کے دوران ایس پی نے احمدیہ وفد کو ہدایت کی کہ وہ اپنے مقبروں سے مقدس تحریرات کو مٹا دیں۔ احمدیوں نے جواب دیاکہ یہ کام ہم خود نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی عام شہری یا ملا کو کرنے دیں گے۔اس پر ایس پی نے کہا کہ پولیس خود کرے گی اور ایک احمدی کے گھر سے آیات مٹائی گئیں۔
احمدیوں کا ایک اَور مینار شہید
گھڑی اعوان، حافظ آباد،جون 2021ء: احمدیوں کی یہاں ایک چھوٹی سی مسجد ہےجو ایک سابق احمدی خورشید حیات کی ملکیت ہے، اور ان کے احمدی بزرگوں نے بنوائی تھی۔ تمام مقامی احمدی اس میں نماز ادا کرتے ہیں۔ کسی نے بھی اس پر کبھی اعتراض یا شکایت نہیں کی۔ جب اس مسجد کا پینٹ مدھم ہو گیا تو احمدیوں نے فیصلہ کیا کہ اندرونی حصے کو دوبارہ پینٹ کیا جائے۔ جب پینٹ ختم ہو گیا تو کسی نے اس کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی۔ اس پر خورشیدحیات اور دیگر احمدیوں نے پولیس کو بتایا کہ یہ مسجد ان کے بزرگوں نے بنوائی تھی اور ستّر سال سے ان کے پاس ہے۔چنانچہ اگلے دن پولیس نے دوبارہ جائزہ لیا اور خورشید حیات کو اپنے ساتھ لے گئے۔ انہیں تقریباً پانچ گھنٹے تک تھانے میں نظر بند رکھا اور ان سے حلف نامہ لے لیاجس میں انہوں نے لکھا کہ اس جگہ کو صرف عبادت کے لیے استعمال کیا جائے گا، اس پر کوئی مینار نہیں بنایا جائے گا اور اگر پہلے سے کوئی مینار تھا تو اسے چوبیس گھنٹے میں ہٹا دیا جائے گا۔ اس کے بعد خورشیدحیات نے رات کی تاریکی میں خود مینار اتاراجس کا علم احمدیوں کو صبح کے وقت ہوااور شدید دکھ پہنچا۔
٭…٭…٭