ٹھوکر سے بچنے کے لئے ایک لطیف نکتہ(قسط نمبر2۔آخری)
(خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 20؍دسمبر 1929ء)
تیسرا مطلب اس سے یہ ہے کہ دل کا لفظ بہت دھوکا دینے والا ہے اور یاد رکھنا چاہئے کہ دل زمین کا نام ہے بیج کا نہیں۔ بیج اس کے لئے مختلف ہوتے ہیں جو اپنے اپنے موسم میں ہی اس کے اندر نشوونما پا سکتے ہیں۔ انسانی قلوب کے موسم دنیوی موسموں کی طرح نہیں ہوتے جن کا اثر ایک وقت میں ہر جگہ ایک ہی قسم کا ہوتا ہے بلکہ ہر قلب کے لئے الگ موسم ہوتا ہے۔ ایک شخص کے دل پر جس وقت بھادوں والی کیفیت طاری ہوتی ہے اُسی وقت دوسرے کے دل پر ساون یا چیت کی کیفیت ہوتی ہے چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص جس وقت ہنس رہا ہوتا ہے دوسرا رو رہا ہوتا ہے۔فرض کر لو دل کے اس موسم کا نام جس میں نیک بات کا اثر اس پر ہوتا ہے ساون رکھ لیا جائے تو یہ کیفیت جس انسان کے قلب کی ہو گی اس پر تو ایک نیک بات فوراً اثر کر جائے گی۔ لیکن ایک دوسرا شخص جو بظاہر نیکی میں پہلے شخص سے بڑھا ہوا ہو لیکن اس کی قلبی کیفیت ساون کی نہیں بلکہ بھادوں کی ہو وہ اس بات کو سن کر کوئی اثر قبول نہیں کرے گا کیونکہ ساون میں بھادوں کی کھیتی نہیں اُگ سکتی۔ تو دل بہت بڑی تنویع رکھتا ہے اور مختلف حالتوں میں اس پر مختلف اثرات ہوتے ہیں۔ دل تو دل مادیات میں بھی اثر قبول کرنے کا مادہ ہوتا ہے۔ ایک موقع پر ایک انگریزی فوج ایک پُل پر سے گذر رہی تھی فوج کے آگے آگے باجہ بجتا جاتا تھا اورجوش انگیز گیت گائے جاتے تھے تا سپاہیوں میں جوش پیدا ہو اُس وقت پُل یک لخت گر گیا اور بہت سے آدمی دریا میں گر کر ہلاک ہو گئے۔ بعد میں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ مادیات میں بھی خاص قسم کی حرکتیں ہوتی ہیں اور جس وقت باہر کی سُریں ان کی اندرونی حرکتوں سے مشابہ ہو جائیں تو ان میں ایک سرور کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور اسی سرور کی وجہ سے ہی حرکت میں آ کر وہ پُل گر گیا۔ ایسی کیفیات جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں اور مادے میں بھی۔ گو مادہ کی ایسی باریک ہوتی ہیں کہ ان کا سمجھنا آسان نہیں ہوتا اور جانوروں کی نسبتاً آسانی سے سمجھی جا سکتی ہیں۔ سانپ بِین پر ناچنے لگ جاتا ہے لیکن اس کیلئے بھی خاص سُریں ہوتی ہیں جنہیں سپیرے ہی جانتے ہیں۔ نیز وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ فلاں قسم کا سانپ کونسی سُر پر ناچتا ہے۔ کوئی دوسرا اگر بِین بجائے تو اس کا سانپ پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ تو قلب کی جو کیفیت ہوجب اس کے مشابہ چیز اس کے سامنے آئے وہ اسے فوراً قبول کر لیتا ہے۔ اس ایک نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے نیک لوگ بھی نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں اور بڑے بڑے مضبوط ایمان والے بھی چھوٹی سی بات سے ابتلاء میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ وہ اس بات کو مدنظر نہیں رکھتے کہ قلب کی کونسی کیفیتیں کونسے گناہوں میں انسان کو مبتلاء کر دیتی ہیں۔ اگر وہ زمیندار کے بیج کا مطالعہ کرنے کی طرح دل کا مطالعہ کرتے اور یہ دیکھتے کہ زمیندار اُس وقت بیج ڈالتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ یہ اُگ آئے گا۔ اسی طرح قلب کی کیفیات ہوتی ہیں اور اس پر بھی خاص وقت میں خاص بات کا اثر فوراً ہو جاتا ہے تو بہت فائدہ اُٹھا سکتے۔ طبائع کا میلان نیکی اور بدی پر بہت اثر رکھتا ہے۔ ایک وقت انسان پر ایک بڑی سے بڑی بات کا اثر نہیں ہوتا لیکن دوسرے وقت ایک ادنیٰ سی بات سے متأثر ہو جاتا ہے کیونکہ اُس وقت اس کے قلب کی ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ جس میں وہ خاص بیج پڑنا مفید ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھا لیکچرار اپنی تائید میں مختلف دلائل دیا کرتا ہے صرف وہی پیش نہیں کرتا جو اُس کے نزدیک سب سے زیادہ مضبوط ہو کیونکہ ہر انسان پر ایک ہی دلیل اثر نہیں کرتی بلکہ مختلف لوگوں کے لئے مختلف دلائل اثر رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فَلَمَّا تَوَفَیْتَنِیْ(المائدۃ: ۱۱۸) والی آیت کو وفاتِ مسیح کی سب سے مضبوط دلیل قرار دیتے تھے اور اس کو اصل اور باقی کو اس کے تابع قرار دیتے تھے لیکن بیسیوں لوگ ایسے ہیں جن پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ان کے سامنے یہ بات پیش کی جائے کہ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر ہوں تو وہ فوراً متأثر ہو جائیں گے۔ ان پر اُس وقت جذباتی رنگ ہوتا ہے اور محبت رسول کا جذبہ غالب آیا ہوا ہوتا ہے اس لئے اُس وقت وہ بیج کا کام دے جاتا ہے۔ لیکن اگر یہی دلیل ایک دوسرے آدمی کے سامنے پیش کی جائے جس کے قلب کی وہ حالت نہ ہو تو وہ فوراً کہہ دے گا میں سمجھ گیا آپ میرے جذبات کو بھڑکا کر دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے سامنے جب فَلَمَّا تَوَفَیْتَنِیْ والی دلیل پیش کی جائے تو فوراً اُس کی آنکھیں نیچی ہو جائیں گی۔ اس لئے اچھا خطیب وہی ہے جو ایک ہی دلیل پیش نہیں کرتا کیونکہ ضروری نہیں کہ تمام سامعین کی قلبی کیفیات اسے قبول کرنے کیلئے تیار ہوں۔ مختلف لوگوں کیلئے مختلف دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پلاؤ ایک اچھی غذا ہے لیکن کئی لوگ اس کے کھانے سے بیمار ہو جاتے ہیں۔ خود مجھے چاول کھانے سے بخار ہو جاتا ہے۔ دعوت کے موقع پر مجھے بہت مشکل پیش آتی ہے۔ اگر کوئی چیز نہ کھاؤ تو میزبان خیال کرتا ہے کہ شاید میرے کھانے میں کوئی نقص ہے اور وہ خواہ نخواہ دُکھ اور قلبی اذیت محسوس کرتا ہے۔ اس کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے چاول کھانے ہی پڑتے ہیں لیکن اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ اگر دو دعوتیں اکٹھی ہو جائیں تو ضرور اور اگر ایک ہو تو عام طور پر مجھے بخار ہو جاتا ہے۔ تو میں عام طور پر چاول نہیں کھا سکتا۔ اگرچہ کبھی کھا بھی لیتا ہوں لیکن وہ حالت خاص ہوتی ہے جب انسان سمجھتا ہے کہ اگر یہ چیز کھا لی تو ہضم ہو جائے گی۔ اسی طرح اچھی دلیل کے یہ معنے نہیں کہ ہر وقت وہی ایک دلیل سب کی سمجھ میں آ جائے۔ میں نے خاص طور پر اس کا مطالعہ کیا ہے۔ بعض لوگ ایک وقت ایک دلیل سے متأثر ہوتے ہیں دوسرے وقت دوسری اور تیسرے وقت تیسری سے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف اوقات میں مختلف حالتیں انسان کی ہوتی ہیں۔ میں نے اس کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ بعض اوقات ایک مخلص آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ جس بات نے مجھ پر اثر کیا ہے ضروری ہے کہ دوسرے پر بھی اثر کرے لیکن وہ نہیں کرتی کیونکہ اُس پر اثر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی قلبی کیفیت اُس سے مشابہ تھی۔ اسی طرح نیکیوں کا حال ہے ایک شخص محض چندہ دینے کی وجہ سے دوسرے کی نیکی کا قائل ہوتا ہے لیکن وہ جب دوسرے سے اس کا ذکر کرتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے چھوڑو جی چندہ کا کیا ہے نماز تو وہ پڑھتا نہیں۔ لیکن ایک دوسرے شخص کے سامنے اگر کہو کہ فلاں آدمی نمازیں بہت پڑھتا ہے تو وہ فوراً کہہ دے گا کہ نماز پڑھنے کا کیا ہے جب چندہ نہیں دیتا تو اسے کس طرح مخلص کہا جا سکتا ہے غرضیکہ کوئی چندہ کی خوبی سے متأثر ہوتا ہے اور کوئی نماز سے۔ مختصر یہ کہ انسانی میلان مختلف اوقات میں مختلف ہوتے ہیں اور اسی لئے ایک وقت کوئی بات ان پر اثر کرتی ہے اور دوسرے وقت کوئی اور۔ یہی وجہ ہے کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ فرمایا اور محمد رسول اللہ ﷺ کا رستہ نہیں کہا اور اسی طرح غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْن فرمایا کسی اشدّ ترین دشمن کا نام نہیں۔ حالانکہ آسانی سے شیطان کا نام لیا جا سکتا تھا مگر نہیں۔ انسان دراصل شیطان کی بھی اتباع نہیں کرتا بلکہ اپنے میلان کی پیروی کرتا ہے۔ اسی وجہ سے نیکی میں بڑھنے کیلئے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اور بُرائیوں سے بچنے کے لئے غَیْرِالمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ فرمایا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ یا الٰہی! جس نیکی سے میرے قلب میں میلان ہو اُس کی توفیق دے اور جس مغضوبیت سے میرے اندر مشابہت ہو اُس سے مجھے محفوظ رکھیو۔
دیکھو قرآن شریف نے کیا ہی لطیف اور جامع رنگ اختیار کیا ہے۔ جہاں تو میلان کا سوال نہیں وہاں کہا قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہکن جہاں میلان کا تعلق تھا وہاں صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم کے جامع الفاظ رکھ دیئے ہیںکیونکہ انسان کا میلان اس کی اپنی مرضی سے نہیں ہوتا لیکن عمل اپنی مرضی سے ہو سکتا ہے۔ چونکہ میلان اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لئے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی استعانت کی اشدّ ضرورت ہے لیکن عمل میں بہت سا دخل انسان کی اپنی مرضی کا ہوتا ہے اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسان کے دل میں جو بُرا خیال پیدا ہو اور وہ اس پر عمل نہ کرے تو یہ نیکی ہو جاتی ہے (بخاری کتاب الرقاق باب من ھم بحسنۃ اوبسیّئۃ )چونکہ دل کے خیال پر انسان کا دخل نہیں اس لئے اس پر گرفت بھی نہیں جب تک انسان اسے عملی جامہ نہ پہنائے۔ انسان عمل کر سکتا ہے،نماز پڑھ سکتا ہے،روزے رکھ سکتا ہے،حج کر سکتا ہے،زکوٰۃ دے سکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کے اندر چاروں کے لئے بشاشت بھی پیدا ہو ممکن ہے وہ کرے تو چاروں ہی لیکن بشاشت صرف ایک ہی سے پیدا ہو کیونکہ وہ اپنے آپ کو عمل کے لئے مجبور کر سکتا ہے بشاشت کے لئے نہیں اس میں اُدھر ہی چلے گا جدھر میلان ہو گا۔ اس لئے جہاں میلان کا سوال تھا وہاں قرآن کریم نے جمع کا صیغہ رکھا ہے لیکن جہاں عمل کا تھا وہاں واحد کا۔ یہ ایک نہایت ہی لطیف مضمون ہے۔ خطبہ کی طاقت نہیں کہ اس کی تفصیلات کا متحمل ہو سکے۔ اس کے لئے ایک مستقل لیکچر کی ضرورت ہے۔ لیکن جو کچھ مختصراً بیان ہوا ہے اس میں کم از کم ہر ایک کے لئے اتنا مسالہ ضرور موجود ہے کہ وہ ہدایت پا سکے اگرچہ اِس کی جُزئیات کو نہ سمجھ سکے۔ سورۃ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے یہ ایک ایسا نکتہ رکھا ہے کہ اسے سمجھ کر انسان بہت سی ٹھوکروں سے بچ سکتا ہے۔ بیسیوں بدظنیاں انسان صرف اس لئے کر لیتا ہے کہ جس وقت کوئی بات اس کے سامنے بیان کی جائے اُس وقت اس کی قلبی کیفیت اس کے قبول کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ ایک شخص سے اسے عداوت ہوتی ہے اس کے متعلق اگر کوئی اُسے بُری بات کہے تو وہ فوراً اُسے مان لیتا ہے لیکن اگر اس کے دوست کے متعلق وہی بات بیان کی جائے تو فوراً کہہ دیتا ہے لوگ جھوٹ بولا ہی کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر بیان کرنے والا اس کا دوست ہو تو کہتا ہے اسے کیا ضرورت تھی کہ جھوٹ بولتا لیکن اگر کوئی دوسرا ہو تو کہہ دیتا ہے اجی کیا اعتبار ہے لوگ یونہی باتیں اُڑا دیا کرتے ہیں۔ پھر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہی بات جو اگر براہِ راست کوئی آ کر اس سے بیان کرتا تو وہ اسے ہرگز قبول نہ کرتا لیکن اگر راوی اس کے دوست سے بیان کر ے اور دوست اس سے متأثر ہو کر اس سے بیان کرے تو اسے فوراً درست مان لیتا ہے۔ جس طرح لوہا آگ سے گرم ہوتا اور ہم لوہے سے گرم ہو جاتے ہیں اسی طرح بعض اوقات بالواسطہ بدظنی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر براہِ راست راوی اس کے پاس آتا تو یہ اُسے ٹھکرا دیتا لیکن چونکہ دوست کا میلان اس سے ملتا تھا اور راوی کا میلان اپنے دوست سے ملتا تھا اس لئے یہ بھی بِالواسطہ بدظنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اگر یہی بات میرے متعلق یا میرے دوست کے متعلق ہوتی تو میں اس کے متعلق کیا خیال کرتا۔ اس پر وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ یہ کیفیت اس کے اندر محض میلان کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے۔ اس وقت دل کی زمین مشابہ تھی۔ اس لئے یہ بدی دل کے اندر پیدا ہو گئی۔ یہی حال نیکی کا ہے جہاد کے وقت بعض لوگ مصلّٰی پر بیٹھے رہتے ہیںکیونکہ ان کا میلان اس طرف ہوتا ہے حالانکہ اس وقت افضل عبادت جہاد ہی ہے۔ ایک موقعِ جہاد پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا آج روزہ داروں سے بے روزہ بڑھ گئے (بخاری کتاب الجہاد باب فضل الخدمۃ فی الغزو )اس کی وجہ یہی تھی کہ روزہ رکھنے والوں نے اپنے میلان کی وجہ سے روزہ رکھنے کو ہی افضل سمجھا جس سے ان کی طاقتوں میں کمی آ گئی لیکن روزہ نہ رکھنے والے تازہ دم ہونے کی وجہ سے ان سے زیادہ شجاعت سے جنگ کر سکے۔ تو نیکی بدی اس معاملہ میں دونوں یکساں ہیں۔ انسان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ میرا میلان قرآن کے مطابق ہے یا نہیں۔اگر نہیں تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی نیکی نیکی نہیں اور جسے وہ بدی سمجھتا ہے وہ بدی نہیں۔ اصل گُر قرآن کریم نے یہی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ میں بتایا ہے اور اسی پر ہر میلان پرکھا جا سکتا ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں باریک در باریک راہوں سے آنے والی ٹھوکروں سے محفوظ رکھے۔ اور ایسی باتوں سے بچائے جو بسا اوقات ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔ لیکن ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہیں۔ آمین(الفضل ۳۔جنوری ۱۹۳۰ء)