جلسے کا مقصد …یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل میں بڑھائی جائے
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 02؍ اگست 2019ء بمطابق 02؍ ظہور 1398 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی آلٹن، ہمپشئر۔یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
اللہ تعالیٰ ہمیں آج پھر جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔ گذشتہ ماہ جرمنی کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ دنیا کی بڑی، مغربی ممالک کی جماعتوں میں سے کینیڈا کا جلسہ ہوا (جو جرمنی کے جلسے کے دنوں میں ہی تھا) پھر گذشتہ ماہ امریکہ کا جلسہ سالانہ ہوا اور دنیا کے اَور بھی بہت سارے ممالک میں جلسے ہوئے اور بڑی شان سے ہم ہر جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت کے وعدے پورے ہوتے دیکھتے ہیں۔ تاہم یوکے کے جلسہ سالانہ کی اپنی ایک حیثیت اس لحاظ سے بن چکی ہے کہ دنیا کی نظر خاص طور پر اس طرف رہتی ہے، اپنوں کی بھی، غیروں کی بھی اور ہر ایک لحاظ سے اس جلسے کو بین الاقوامی جلسے کی حیثیت دی جانے لگی ہے۔ اور یہ جلسہ صرف اب یوکے کا جلسہ نہیں رہا گو کہ جیسا کہ میں نے جرمنی کے جلسے کے بارے میں بھی کہا تھا کہ اب جرمنی کا جلسہ بھی بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔ بہت سے ملکوں کی وہاں بھی نمائندگی تھی اور حاضری کے لحاظ سے بھی شاید جرمنی کے جلسے کی حاضری یہاں سے زیادہ ہو ، لیکن پھر بھی مرکزی جلسہ یوکے کا ہی ہے اور یہاں شمولیت کی باہر کے لوگوں کی کوشش زیادہ ہوتی ہے کیونکہ خلافت کا مرکز یہاں ہے۔ پس اس لحاظ سے دنیا کے مختلف ممالک سے اپنے بھی اور غیر بھی یوکے کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہاں جلسے کے کارکنان کی ذمہ داری بھی بہت بڑھ جاتی ہے اور پھر یہاں حدیقة المہدی میں جو یہ عارضی شہر بنایا گیا ہے اس کے انتظامات بھی خاص توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے جیسا کہ میں کارکنوں کو ان کی ڈیوٹیوں اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلایا کرتا ہوں تو اس وقت میں اس حوالے سے پہلے بات کروں گا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے میں رہنے والے احمدی بوڑھے، جوان، بچے، عورتیں، لڑکیاں گذشتہ 35سال سے جب سے کہ خلافت کا مرکز یہاں منتقل ہوا اور جلسوں کا انعقاد خلیفہ وقت کی موجودگی میں ہوا جلسے کے انتظامات کر رہے ہیں ا ور ڈیوٹیاں بڑی خوش دلی سے دے رہے ہیں۔ گو کہ جلسہ سالانہ کی تاریخ یوکے کی بھی بہت پرانی ہے لیکن اس وقت کے جلسے تو اب شاید یہاں کے ایک حلقے کی ماہانہ میٹنگ سے بھی تعداد کے لحاظ سے کم ہوتے ہوں گے۔ اس لیے میں نے گذشتہ 35 سالہ تاریخ کا حوالہ دیا ہے جو خلافتِ احمدیہ کے مرکز کی یوکے میں جلسوں کی تاریخ ہے۔
بہرحال ابتدا میں جو جلسے منعقد ہوئے ان میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خود بہت زیادہ رہ نمائی کرتے تھے ۔ یہاں انتظامات بتانے کے لیےان کو بہت محنت کرنی پڑی ۔ پاکستان کے بعض عہدے داران کی بھی مدد لینی پڑی جنہوں نے یہاں کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کیا۔ لنگر کا انتظام ایک بہت بڑا انتظام ہے۔ یہاں وسائل اور سہولت بھی پاکستان کی طرح ،اس طرح نہیں ہے جس طرح ہم کام کرنا چاہتے ہیں اس لیے شروع میں چار پانچ ہزار کا انتظام کرنا بھی ان کے لیے مشکل تھا اور اس طرح ہی تھا جس طرح کہ دو اڑھائی لاکھ کا انتظام کر رہے ہیں۔ میں خلافت کی یہاں ہجرت کے بعد پہلی دفعہ 1988ء کے جلسے میں شامل ہوا تھا اور اس وقت انتظامیہ کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ پانچ چھ ہزار کے لیے انتظام کرنا بھی ان کو کس قدر پریشانی میں ڈال رہا ہے۔ بہرحال آج ہم دیکھتے ہیں کہ انتظامات میں یہاں کے کارکنان شاید ربوہ کے کارکنان کی مدد کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے کارکنان کے ساتھ جلسے کے انتظامات کی inspection کے بعد جو کھانا تھا اس میں میرے قریب ہی ربوہ سے آئے ہوئے ایک ناظر جو ناظرامور خارجہ ہیںاور جو نائب افسر جلسہ سالانہ بھی ہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ کھانے کے بعد میں نے دیکھا کہ انہوں نے ربوہ سے آئے ہوئے ایک نمائندے کارکن کو بلایا اور کچھ باتیں کرتے رہے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ کیا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے؟ کہنے لگے کہ لنگر کی یہ روٹی جو ہم کھا رہے ہیں یہ کوالٹی میں بڑی اچھی روٹی ہے اور ہم ربوہ میں روٹی پکانے کا جو ٹرائل کرتے ہیں ۔(وہاں بھی اللہ کے فضل سے مستقل ٹرائل ہوتے ہیں، لنگر خانے عارضی طور پر ایک آدھ دن کے لیے چلائے جاتے ہیں تا کہ مشینوں کو چالو رکھیں اور کام کی عادت بھی رہے، ڈیوٹیوں کی عادت بھی رہے۔ تو بہرحال کہتے ہیں کہ) وہاں ہماری جو روٹی ہے وہ اس معیار کی نہیں ہوتی تو کہنے لگے میں اس کارکن کو کہہ رہا تھا کہ یہاں کے روٹی پلانٹ والوں سے اس روٹی کے معیار کا پتا کریں کہ کس طرح بناتے ہیں؟ آٹے اور پانی کی نسبت کیا ہے؟ یہ آٹے اور پانی کی نسبت بڑا کاؤنٹ (count)کرتی ہے ۔ ان سے نسخہ پوچھو۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ہمارے یہاں کام کرنے والے اپنے تجربات کے بعد اتنے ماہر ہو گئے ہیں کہ ان کی روٹی ربوہ کے افسران کو بھی پسند آنے لگ گئی ہے۔
اس دفعہ روٹی پلانٹ میں کام کرنے والے نوجوان انجنیئرز نے آٹا گوندھائی کی مشین میں بھی بعض improvements کی ہیں جس سے آٹا نکالنے میں مزید آسانی پیدا ہوئی ہے ۔ روٹی پلانٹ کے انچارج اور نوجوان انجینئرجو واقف نو بھی ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں وہ اور ان کی ٹیم کے افراد بھی اب اس کوشش میں ہیں کہ اس کو مزید بہتر کیا جائے اور آٹا گوندھائی کی مشین سے لے کر پکوائی کی مشین تک براہ ِراست آٹا پہنچتا رہے اور اس وقت کارکنوں کو بالٹیوں کے ذریعہ جو آٹا پہنچانا پڑتا ہے وہ واسطہ جوہے وہ ختم ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس آٹو میشن کی وجہ سے کارکنوں کو خدمت سے محروم کر دیں گے۔ یہ کارکن دوسری بہتر خدمت پر لگا دیے جائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ اور یہی ہمارا جماعت کا امتیاز ہے کہ بچپن سے لے کے بڑے ہونے تک ہمارے کارکنان بڑی خوش دلی سے ہر کام میں اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال یہ بیان کرنے کا میرامقصد یہ ہے کہ کہاں تو وہ وقت تھا کہ چار پانچ ہزار کوکھانا کھلانا انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج ہوتا تھا اور نوے فیصد روٹی بازار سے خریدی جاتی تھی۔ ایک چھوٹا سا سیکنڈ ہینڈ روٹی پلانٹ لیا گیا تھا جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد خراب بھی ہوتا رہتا تھا۔ انجنیئرز مستقل اس کے اوپر بیٹھے رہتے تھے اور اس میں ہمارے بزرگ پرانے انجنیئرز ہیں وہ کافی کام کرتے رہے اور وہ پلانٹ صرف چند ہزار روٹی پکاتا تھا اور وہ بھی گول نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح پِیٹا بریڈ (pita bread)کی طرح ہوتی تھی اور کہاں اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے پینتیس چالیس ہزار افراد کے لیے یہ خود روٹی پکاتے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں روٹی پکتی ہے اور اس کوالٹی میں ہے جو میں نے چیک بھی کی، لوگوں کو بھی پسند آئی اور وقتاً فوقتاً میں اس روٹی کو چیک کرتا بھی رہتا ہوں ، وہ اس سے بہت بہتر ہے جو پہلے روٹی پکتی تھی ۔ اللہ تعالیٰ ان نوجوانوں کو جو یہ کام کر رہے ہیں ان کے ہنر میں بھی اضافہ کرے اور ان کو عقل بھی دے اور اس میں مزید بڑھاتا چلا جائے کہ جلسے کے مہمانوں کی پہلے سے بڑھ کر خدمت کرنے والے ہوں۔
اسی طرح لنگر خانے میں جو کھانا پکانے کی ٹیمیں ہیں وہ اپنے اپنے انچارج صاحبان کے ساتھ بڑی محنت اور لگن سے کام کر رہی ہیں۔ کھانے کا معیار جو ہے وہ بھی بہت بہتر ہے۔ اللہ کرے کہ ان تین دنوں میں بھی یہ بہتر رہے ۔
پھر لنگر خانے کے حوالے سے دیگیں دھونے کا شعبہ ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے ۔ ان کو چند سال پہلے جرمنی سے ہمارے احمدی انجنیئرز کی بنائی ہوئی دیگیں دھونے کی مشین منگوا کر دی گئی تھی ۔ جرمنی والے تو ان کو بڑا پسند کرتے ہیں۔وہاںبڑی کامیاب ہے اور وہ اس کے بڑے قائل ہیں کہ بڑی جلدی یہ مشین دیگ دھو کر خود ہی باہر نکال دیتی ہے۔ یہاں ہمارے اس شعبہ نے دو تین سال تک تو اُس مشین کو استعمال کیا اور اس کے ساتھ ہاتھ سے بھی دیگیں دھوتے رہے، یہ کام جاری رہا اور میرے کہنے پر کہ اس مشین کو ضرور استعمال کرنا ہے انہوں نے کیا لیکن گذشتہ سال سے انہوں نے بڑی منت سے یہ کہنا شروع کیا کہ ہمیں ہاتھ سے ہی دھونے دیں کہ ہم کم وقت میں یہ دیگیں دھو لیتے ہیں بلکہ 3/1 وقت میں دھو لیتے ہیں یعنی جتنی دیر میں مشین ایک دیگ دھوتی ہے ہم تین دیگیں دھو لیتے ہیں اور دھوتے بھی اس سے صاف اور بہتر ہیں۔ میں نے ان کے انچارج کو مذاقاً اس دن کہا تھا کہ لگتا ہے کہ آپ نے اس شعبے میں کوئی جن رکھے ہوئے ہیں جو اتنی صفائی کر جاتے ہیں کیونکہ جرمنی والے ابھی تک اس بات کو ماننے کو تیار نہیں کہ اتنے کم وقت میں کوئی دیگ دھو سکتا ہے۔ بہرحال اس شعبے میں یہ لوگ بڑی محنت کا کام کر رہے ہیں۔ ایک تو ہے کہ محنت کرنا، وقت لگا دینا اور یہ صرف محنت نہیں کر رہے بلکہ یہ بڑی مشقت کا کام بھی ہے۔ پاکستان میں، قادیان میں تو یہ کام مزدوروں سے مزدوری دے کر کروایا جاتا تھا لیکن یہاں بڑے اخلاص اور جذبے سے کارکن یہ کام کرتے ہیں۔
پھر کھانا کھلانے کا شعبہ ہے۔ اس میں بھی اس دفعہ انہوں نے بہتری کی کوشش کی ہے۔ یہاں جگہ بھی، مارکیاں بھی بڑی کی ہیں تا کہ مہمانوں کو آرام سے اور کم وقت میں کھانا کھلایا جا سکے۔
پھر دوسرے شعبے ہیں نظافت اور صفائی کا شعبہ ہے، کار پارکنگ کا شعبہ ہے، ٹریفک کا شعبہ ہے۔ جلسہ گاہ کے اندر مختلف اَور شعبہ جات ہیں۔ سیکیورٹی کا ایک بہت بڑا اہم شعبہ ہے اور اسی طرح اَور متفرق شعبے ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر ہر شعبہ ہی بڑا اہم ہے۔ ان تمام شعبوں میں کام کرنے کے لیے ہزاروں کارکنان جو ہیں ان کو کام کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ اسی طرح کارکنات ہیں ان کو کام کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو احسن رنگ میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جس طرح کہ میں ہمیشہ کارکنوں کو کہا کرتا ہوں کہ جس شوق اور جذبے سے آپ نے اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے پیش کیا ہے ۔ آپ کا کام ہے کہ اس جذبے کو آخر وقت تک قائم رکھیں۔ جلسے کے بعد بھی وائنڈ اپ (wind up)کا شعبہ ہو گا اور اس میں ایک ہفتہ تقریباً کام کرنا پڑتا ہے ۔
اور اس بات کا اظہار کہ آپ نے جذبے کو قائم رکھا ہے آپ لوگوں کے چہروں کی مسکراہٹوں اور مہمانوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنے سے ہو گا۔ پس کارکنان اور کارکنات جو اس جلسے کے مہمانوں کی خدمت پر مختلف جگہوں پر کام کر رہے ہیںان کو اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے وہ اس جلسے میں دوہرا ثواب کما رہے ہیں اور برکات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ایک جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر اس جلسہ سالانہ کی جو برکات ہیں اس سے فیض پا کر اور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر کے ان برکات کو حاصل کر رہے ہیں۔
مہمان نوازی اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہے۔ اتنی پسند ہے کہ اس کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں بھی دو مرتبہ فرمایا ہے ۔ اگر مہمانوں کو کھانا پیش کرنا کوئی معمولی بات ہوتی تو مہمانوں کے آنے کے ذکر پر ہر دفعہ ان کو کھانا پیش کرنے کا ذکر نہ ہوتا۔ اور پھر یہ کہ سلام ، دعا کے بعد جو پہلا کام کیا وہ فوری طور پر بھنا ہوا بچھڑا پیش کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ (هود :70) پھر وہ بھنا ہوا بچھڑا بڑی جلدی سے لے آیا۔ اس زمانے میں جو خاطر ہو سکتی تھی وہ کی اور اپنے جانور ذبح کر کے انہیں مہمانوں کے سامنے پیش کرنا بھی بہت بڑی خاطر تھی اور وہاں فوری طور پر مہیا بھی ہو سکتی تھی ۔ اس وقت جو مہمان نوازی کا طریق تھا، اس کا جو اعلیٰ معیار تھا وہ دکھایا گیا۔ آج کل کے حالات کے مطابق جو مہمان نوازی ہے وہ ہمیں کرنی چاہیے۔ یہاں بھی مہمان کی ایسی ہی خاطر داری کرنی چاہیے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ضرور محنت سے کی جائے اور بڑی محنت سے بچھڑے تلاش کیے جائیں بلکہ جو آسانی سے اور جلد مہیا ہو سکےوہ ہمیں کرنا چاہیے۔ ان کو وہ آسانی سے اور جلد مہیا بھی ہو سکتا تھا اور اعلیٰ مہمان نوازی بھی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اس بارے میں ہمارے سامنے ہے۔ اگر کھجوریں میسر ہیں تو وہ پیش کر دیں۔ اگر گوشت یا کوئی اَور اچھا کھانا ہے تو وہ پیش کر دیا۔ اگر بکری کا دودھ ہے تو وہ پیش کر دیا۔ اگر اپنے پاس کچھ نہیں ہے تو صحابہ کو فرمایا کہ اس مہمان کو اپنے گھر لے جاؤ اور ان کی مہمان نوازی کرو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان لانے والوں کو جن تین باتوں کے کرنے کا فرمایا ہے وہ سب ایسی ہیں جو ایک دوسرے کے حقوق سے تعلق رکھتی ہیں، معاشرے کو پُر امن بنانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اچھی بات کرو یا خاموش رہو۔فضول قسم کی باتیں کر کے بدامنی پیدا نہ کرو۔ آپس میں رنجشیں پیدا نہ کرو۔ ایک مومن لغو اور بیہودہ باتیں نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرو کہ پڑوسی کا بہت بڑا حق ہوتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے اور اس کا خیال رکھا جائے۔ یہاں جو اس جلسے میں شامل ہونے والے ہیں، آنے والے مہمان بھی، کام کرنے والے بھی اور مہمانوں کے لیے جو کارکنان کام کر رہے ہیں وہ سب ایک دوسرے کے پڑوسی بھی ہیں۔ پس اس لحاظ سے مہمانوں کو بھی کام کرنے والوں کی عزت اور احترام کرنا چاہیے اور کارکنوں کو بھی مہمانوں کی عزت اور احترام کرنا چاہیے۔ پھر آپس میں جو ایک دوسرے کوملتے ہیں تو وہ عزت و احترام سے پیش آئیں اور تیسری بات یہ بتائی کہ اپنے مہمان کا احترام کرو۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار والضیف …… الخ حدیث47)
اب یہ خاص طور پر میزبانوں کے لیے ہے۔ ایک حسین اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے یہ بنیاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے یہ حکم ہیں اور مومن کی یہ نشانی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب زیادہ مہمان آتے تھے تو صحابہ میں بانٹ دیا کرتے تھے اور پھر مہمانوں سے پوچھا بھی کرتے تھے کہ کیا تمہارے بھائیوں نے تمہاری مہمان نوازی اچھے طور پر کی اور پھر صحابہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ اور تربیت یافتہ تھے، آپؐ سے فیض پانے والے تھے وہ ایسی مہمان نوازی کرتے تھے کہ مہمان جواب دیا کرتے تھے کہ ہمیں ہمارے میزبانوں نے اپنے سے بہتر رکھا اور اپنے سے بہتر کھلایا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 357 حدیث 15644 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی مہمان نوازی کے یہ طریق تھے۔ گو وہ بھی دین سمجھنے کے لیے اور دین کا علم حاصل کرنے کے لیے آیا کرتے تھے اور یہاں جو آنے والے ہیں وہ بھی اسی مقصد کے لیے آ رہے ہیں اور ہم اسی بات پر مقرر کیے گئے ہیں کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بلانے پر خالصۃً دینی جلسے میں شمولیت کے لیے آ رہے ہیں ہم ان مہمانوں کی خاص طور پر مہمان نوازی کریں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کے وسائل میں بھی پہلے سے بہت زیادہ کشائش پیدا کر دی ہے اور جماعتی نظام کے تحت بھی مہمان نوازی ہوتی ہے بلکہ بعض گھروں میں ٹھہرے ہوئے مہمانوں کے لیے بھی گھر والوں کو اجازت ہے اور اس کا انتظام ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جاری لنگر سے اپنے مہمانوں کے لیے کھانا لے جا سکتے ہیں، لے جانا چاہیں تو لے جائیں لیکن صحابہ کے حالات تو ایسے نہیں تھے کہ ان کے لیے کوئی مرکزی انتظام بھی ہوتا ۔ وہ بھی کوئی نہیں تھا اور ان کے ذاتی حالات بھی شروع میں اکثر کے ایسے نہیں تھے کہ ان کو کشائش ہو۔ بلکہ ایسے واقعات ملتے ہیں کہ بچوں کو بھی بھوکا سُلا دیا، خود بھی میاں بیوی بھوکے رہے اور مہمان کو جو تھوڑا بہت کھانا تھا وہ کھلا دیا اور پھر ان کے اس فعل کو اللہ تعالیٰ نے بھی خوب سراہا اور ان کی اس بات پر خوش ہوا اور ایسا واقعہ ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خاص واقعے کی اطلاع دی۔
(صحیح البخاری کتاب المناقب الانصار باب قول اللہ ویؤثرون علی انفسھم … الخ حدیث 3798)
پس وہ لوگ جن کا اسوہ ہمیں اپنانے کا حکم ہے، قربانی کر کے مہمان نوازی کیا کرتے تھے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں بہت سے افراد ہیں جو قربانی کے جذبے سے مہمان نوازی کرتے ہیں اور یہی ہمیں کرنی چاہیے۔ باوجود جماعتی سہولت کے بعض لوگ خود مہمان نوازی کرنا چاہتے ہیں۔ کارکنان جو ڈیوٹی پر ہیں، کسی بھی خدمت پر مامور ہیں انہیں چاہیے کہ ان میں سے بعض نہیں بلکہ ہر ایک سو فیصد قربانی کے جذبے سے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہمان نوازی کرے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اب بھوک کی قربانی تو ہم سے نہیں مانگی جا رہی۔ اس وقت جو قربانی ہے اور کارکنان جو قربانی کرتے ہیں وہ وقت کی قربانی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جذبات کی قربانی بھی مانگی جاتی ہے۔ بعض دفعہ مہمان نامناسب رویّہ دکھا دیتے ہیں تو اس حالت میں جذبات کی قربانی کرنی پڑتی ہے، صبر کرنا پڑتا ہے، خاموش ہونا پڑتا ہے۔ اس لیے خاموش ہونا پڑتا ہے کہ ہمیں مہمانوں پر حسن ظنی ہے کہ یہ لوگ نیک نیتی سے دینی اور روحانی پیاس بجھانے کے لیے آئے ہیں۔ شاید کسی غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے زیادتی کا رویہ دکھایا ہو اس لیے ہم معذرت کر کے چاہے اپنی غلطی نہ بھی ہو ان کا کام کر دیتے ہیں اور یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو اس زمانے میں ہمیں مہمانوں کے لیے دکھانے چاہئیں اورجو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے ایسے بہت سے واقعات ہیں جن سے آپ کی مہمانوں کی دل داری اور مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار قائم کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ایک دفعہ جب دور دراز کے ایک علاقے سے آئے ہوئے مہمان لنگر خانے کے کارکنوں کے انکار کی وجہ سے کہ ہم آپ کا سامان نہیں اتاریں گے ناراض ہو کر واپس چلے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب اس بات کا پتا چلا تو بیان کیا جاتا ہے کہ آپؑ ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا بھی مشکل تھا جیسے کوئی بہت ہی ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہو جلدی جلدی ان کے پیچھے پیدل چلے گئے ۔وہ لوگ ٹانگے پہ جا رہے تھے ۔ بہرحال ان لوگوں نے جب دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لا رہے ہیں۔ ان کو آتے دیکھا تو ٹانگہ کھڑا کر دیا اور ٹانگے سے اترے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے معذرت کی اور واپس چلنے کو کہا اور ان کا ٹانگہ واپس موڑا اور انہیں کہا کہ آپ ٹانگے پر بیٹھ جائیں اور میں آپ کے ساتھ ساتھ پیدل چلتا ہوں۔ بہرحال مہمان بھی شرمندہ ہوئے اور ٹانگے پر نہ بیٹھے بلکہ پیدل ہی چلتے رہے ۔آخر جب لوگ واپس لنگر خانے آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود ان کا سامان اتارنا شروع کیا ۔ اس کے لیے ہاتھ بڑھایاتو اس پر وہ خدام جو پہلے ہی شرمندہ ہو رہے تھے فوری طور پر آگے بڑھے اور ان مہمانوں کا سامان اتارا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت تک وہاں موجود رہے جب تک کہ ان کی رہائش اور کھانے کا تسلی بخش انتظام نہیں ہو گیا۔
(ماخوذ از سیرت المہدی جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 56-57 روایت نمبر 1069)
آپؑ نے اپنے کارکنوں کو ایک موقعے پر فرمایا کہ دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوتے ہیں۔ بعض کو تم پہچانتے ہو بعض کو نہیں ۔اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاحترام جان کر ان کی تواضع اور خدمت کرو۔ فرمایا تم پر میرا حسن ِظن ہے کہ مہمان کو آرام دیتے ہو۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 226) پس یہ حسن ظن ہم نے آج بھی قائم رکھنا ہے۔
اس کے بعد میں مہمانوں کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ایک بات تو پہلے میں نے کی کہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا سب کا فرض ہے، مہمانوں کا بھی ،میزبانوں کا بھی۔ جہاں اسلام ہمیں مہمانوں کی عزت اور تکریم کا حکم دیتا ہے تو ساتھ ہی مہمانوں کو بھی حکم دیتا ہے کہ تم زیادہ بوجھ میزبان پر نہ بنو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے ہاں زیادہ لمبا مہمان ٹھہرنا جو ہے اورگھر والے پر جو بوجھ بننا ہے وہ اسی طرح ہے جس طرح تم صدقہ لے رہے ہو۔(صحیح البخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف … الخ حدیث 6135)
ہر ایک کے حالات ایسے نہیں ہوتے کہ شروع سے آخر تک ایک جیسی مہمان نوازی کر سکے تو مہمان کو بھی حکم ہے کہ تم بھی گھر والوں کا خیال رکھو۔ اگر زیادہ قیام ہے تو پھر اس طرح رہو جس طرح گھر والا رہتا ہے اور گھر والوں کی کام کاج میں بھی کوئی مدد کی ضرورت پڑے تو وہ بھی کر دینی چاہیے ان ملکوں میں تو خاص طور پر۔ عموماً تو لوگ کرتے ہیں اور یہی ایک خوبصورت معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ جہاں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ دوسرا شخص ہم پر بوجھ ہے وہاں خلوص اور محبت میں کمی آ جاتی ہے اور جب اس میں کمی آ جائے تو پھر حالات پُرسکون نہیں رہتے۔ پس مہمان کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مہمان کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے ذمہ جو فرائض ہیں ان کو ادا کرے۔ اگر مہمان کا حق ہے کہ مہمان نوازی کی جائے تو میزبان کا بھی حق ہے کہ مہمان اس کا حق ادا کرے اور اس پر بوجھ نہ بنے۔ مہمان کےاس حق کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چند روز تک محدود کیا ہے ۔ یہاں انتظامیہ کو میں یہ بھی کہہ دوں کہ ہمارے جلسہ پر آئے ہوئے جو مہمان ہیں اگر ایک مہینہ بھی ٹھہرتے ہیں تو ہم نے ان کی مہمان نوازی کرنی ہے ۔ اس سے یہ نہ سمجھیں کہ تین یا چار دن کے بعد ہم نے مہمان نوازی ختم کر دینی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے کاموں کے حوالے سے لنگر خانے کے قیام کو بھی اپنی شاخوں میں سے ایک شاخ قرار دیا ہے۔
(ماخوذ از حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 221)
اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لنگر میں آنے والوں کے ساتھ جب بھی وہ آئیں جلسے کے دنوں میں نہیں عام حالات میں بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔
پھر ایک حکم حسین معاشرے کا جس پر مہمانوں کو خاص طور پر اس جلسے کے ماحول میں عمل کرنا چاہیے وہ ہے سلام کو رواج دینا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں جانے والوں کی ایک خصوصیت یہ بھی بتائی تھی کہ وہ سلام کو رواج دینے والے ہیں۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان ان لا یدکل الجنۃ … الخ حدیث (54))
پھرآپؐ نے فرمایا کہ جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے تم ان کو سلام کرو۔
(صحیح البخاری کتاب الایمان باب افشاء السلام من الاسلام حدیث 28)
اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی جلسے کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بیان فرمایا تھا کہ تاکہ لوگ جمع ہوں اور اس طرح جمع ہونے سے محبت کا رشتہ اور تعارف کا ذریعہ آپس میں بڑھے۔
(ماخوذ از آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 352)
پس سلام اس محبت اور تعارف کے ذریعہ کو بڑھانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ بھائی چارے اور تعارف کو بڑھانے کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہے اور اس کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ جن کی آپس کی رنجشیں ہیں کسی بھی وجہ سے وہ بھی دور ہوں گی۔
پھر یہاں جو لوگ آئے ہیں وہ خالصۃً للہ آئے ہیں اور اسی سوچ کے ساتھ آنا چاہیے ۔ ان کے آنے کاایک للّٰہی مقصد ہے ۔دینی اور علمی اور روحانی پیاس کو بجھانے کے لیے آئے ہیں یا اس کے حصول کے لیے آئے ہیں اور یہ مقصد جیسا کہ میں نے کہا یہی ہونا چاہیے ۔ تو پھر آپس کے تعلقات کو بھی ہر ایک کو بہتر کرنا چاہیے اور رنجشوں اور نفرتوں کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جلسے میں آ کر اس مقصد کو پورا کرنے کی بھی کوشش ہونی چاہیے کہ ‘‘دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے۔’’(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351)
پس اس محبت کے حصول کے لیے جلسے کے پروگرام میں خاص طور پر شامل ہوں اسے سنیں، غور کریں۔ جلسے کے دوران بھی اور چلتے پھرتے بھی ذکرِ الٰہی کرتے رہیں اور نماز باجماعت خاص فکر اور توجہ سے ادا کریں اور نوافل اور تہجد پڑھنے کی طرف بھی توجہ دیں۔ خاص طور پر جن کا یہاں قیام ہے وہ اس ماحول کو پاکیزہ تر کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں ۔ اپنی حالتوں میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کریں اور جو صبح سے لے کر شام تک آتے ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ اس مقصد کو پورا کرنے والے بنیں جو جلسے کا مقصد ہے اور وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل میں بڑھائی جائے۔ اور یہ بہت بڑا کام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سپرد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی محبت ہمارے دلوں پر غالب آ جائے۔ اگر جلسے میں شامل ہونے والے اس مقصد کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کی بھرپور کوشش کریں گے تو سمجھیں آپ نے اپنے مقصد کو پا لیا، جلسے میں آنے کا مقصد پورا ہو گیا اور پھر رہائش اور کھانا تو ضمنی چیزیں بن جائیں گی۔ اصل مقصد یہ ہو گا کہ ہم نے اپنی روحانی حالت کو بہتر سے بہتر کرنا ہے، اس کو ترقی دینی ہے۔ اگر یہ حاصل ہو گیا تو جیسا کہ میں نے کہا جلسے پر آنے کے مقصد کو پا لیا۔
اسی طرح انتظامی لحاظ سے مہمان اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ عارضی اور وسیع انتظام میں بعض کمیاں رہ جاتی ہیں۔ اگر کہیں ایسی صورت دیکھیں تو صَرفِ نظر کریں۔ کارکنوں کو تو میں نے کہا ہے کہ وہ کسی سختی کو اگر کسی کی طرف سے مظاہرہ ہو تو برداشت کریں لیکن مہمانوں کا بھی کام ہے، شامل ہونے والوں کا بھی کام ہے کہ کمزوریوں سے صرفِ نظر کریں اور اگر ایسی کمیاں دیکھیں تو کارکنوں کا ہاتھ بٹائیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض مہمان اگر ضرورت ہو توبڑے شوق سے خود میزبان بن کر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ مثلاً غسل خانوں کی صفائی ہے۔ اگر زیادہ رَش ہو اور ڈیوٹی پر متعین کارکن پوری طرح صفائی کا انتظام نہ کر سکیں تو بعض مہمان خود ان ڈیوٹی والوں کے ساتھ یہ کام کرنے لگ جاتے ہیں اور یہی جذبہ ایک احمدی میں ہونا چاہیے اور یہی وہ حقیقی روح ہے جو آپس کے پرخلوص معاشرے کو قائم کرتی ہے۔ مہمان صرف کارکنان کو آزمانے اور امتحان لینے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں بلکہ اگر ضرورت ہو تو ہر شعبے میں جیسا کہ میں نے کہا مددگار بن جائیں۔
اسی طرح پارکنگ وغیرہ میں بھی بعض دفعہ رَش کی صورت میں ہنگامی صورت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ایسے حالات میں کاروں پر آنے والے صبر اور حوصلے سے انتظامیہ سے مکمل تعاون کریں۔ بعض دفعہ عورتوں اور مردوں دونوں طرف سے بعض شکایات آ جاتی ہیں۔ آنے والے احباب و خواتین مکمل تعاون نہیں کرتے ۔ اسی طرح داخلی راستوں پر جہاں سکیننگ وغیرہ کا انتظام ہے وہاں عموماً تو لائنیں لگتی ہیں ، بڑے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیاجاتا ہے لیکن بعض دفعہ کسی ایک آدھ کی وجہ سے ماحول خراب بھی ہو جاتا ہے ۔ وہاں ہر ایک کو مکمل طور پر صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اگر تھوڑا سا وقت بھی لگ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے اس لائن لگانے سے بہتر نکاس ہو سکتا ہے۔
پھر جلسہ گاہ میں بیٹھنے والے مَیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ جلسے کے دوران اپنے دائیں بائیں نظر رکھیں ۔ اسی طرح چلتے پھرتے ہوئے بھی اپنے ماحول پہ نظر رکھیں ۔سیکیورٹی کے حوالے سے انتظامیہ جو بھی ہدایت دے اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جلسے کی کامیابی اور اپنے جلسے میں آنے کے مقصد کو پورا کرنے اور ہر شریر کی شرارت سے بچنے کے لیے مستقل دعا کرتے رہیں۔ جماعت کی ترقی حاسدوں کو حسد میں بڑھاتی چلی جا رہی ہے ۔ اس لیے دعاؤں کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ ان دنوں میں پاکستان میں بھی احمدیوں کے حالات کے متعلق دعا کریں وہاں بھی لگتا ہے کہ حالات دوبارہ مخالفت کی طرف جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی امن کی زندگی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔ مخالفین کے نئے یا پرانے منصوبوں کو ناکام و نامراد کر دے۔
اس کے علاوہ بھی جلسے میں شامل ہونے والوں کو اس بات کی بھی یاددہانی کروا دوں کہ اس سال بھی ہمارے جو مختلف مرکزی شعبہ جات ہیں آرکائیو کا شعبہ ہے یا ریویو آف ریلیجنز کا ہے یامخزنِ تصاویر ہے یا دوسرے شعبہ جات ہیں انہوں نے اپنی نمائشوں کا اہتمام کیا ہوا ہے اور کافی معلوماتی اور علمی نمائشیں ہوتی ہیں ، اس کو بھی جو فارغ وقت ہو اس میں دیکھنے کی کوشش کریں۔
اس کے علاوہ ایم۔ٹی۔اے کی طرف سے بھی ایک اعلان ہے۔ ایم۔ٹی۔اے انٹرنیشنل کی طرف سے آج ایک نئی ایپ (app)لانچ (launch)ہو گی اور جو سمارٹ ٹی وی ایپ ہے۔ کسی بھی ملک میں اب اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ (download)کر کے ایل جی (LG)، فلپس (Philips)، ایمازون فائیر ٹی وی (Amazon Fire TV)، سونی (Sony) اور اینڈرائڈ (Android)کے ٹی وی سیٹس پر ڈش انٹینا کے بغیر بھی ایم۔ٹی۔اے کے تمام چینلز یعنی ایم۔ٹی۔اے ون(MTA1)، ایم۔ٹی۔اے ٹو (MTA2)، ایم۔ٹی۔اے تھری (MTA3) اور ایم ۔ٹی۔اے العربیة اور ایم۔ٹی۔اے افریقہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں ایم۔ٹی۔اے پہلے ہی سام سنگ (Samsung)پلیٹ فارم پر موجود ہے۔ تو یہ بھی اعلان تھا ۔ اللہ کے فضل سے جو باہر کے رہنے والے ہیں وہ اس ایپ (App)سےفائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ ابھی جمعے کے بعد مَیں اس کا لانچ (launch)بھی کر دوں گا۔
اللہ تعالیٰ جلسے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور آپ سب کو اس سے بھر پور استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭خطبہ ثانیہ٭٭٭