بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر41)
(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)
٭… ایک غیر از جماعت خاتون کی جانب سے جماعت کے بارےمیں پوچھے جانےوالے بعض سوالا ت کے بصیرت افروز جوابات نیز بعض خوابوں کی تعبیر
٭… علمائے دین اور عقل رکھنے کا دعویٰ کرنے والے مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت میں پوری ہونے والی پیشگوئیاں نظر کیوں نہیں آتیں؟
٭… حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی نبوت کس قسم کی تھی اور لا نبی بعدی کی کیا وضاحت ہے؟
٭…خلافت علی منہاج النبوۃ سے کیا مراد ہے؟
٭… منارۃ المسیح کو تعمیر کرنے کا کیا مقصدتھا ؟
٭… احادیث میں مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم ؑکے ظہور کے چالیس سال بعد قیامت کا ظہور ہو گا،اس سے کیا مراد ہے؟
سوال: ایک غیر از جماعت خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنی اور اپنے بھائی کی بعض خوابیں لکھ کر ان کے بارےمیں حضور انور سے راہنمائی چاہی، نیز جماعت کے بارےمیں اپنے بعض سوالات کے جواب بھی حضور انور سے دریافت کیے۔ اسی طرح ایک احمدی لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت بھی مانگی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 22؍اگست 2021ء میں اس خط کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطافرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو اگر وہ لڑکا بھی آپ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے خود یہ بات پوچھنی چاہیے۔ آپ نے اپنی اور اپنے بھائی کی جو خوابیں تحریر کی ہیں، ان میں سفید پرندوں، سفید گھروں اور ان گھروں میں خانہ کعبہ کے ہونے کا خاص طور پر ذکر ہے۔ خواب میں سفید رنگ نیکی، خیر و برکت اور دین کی صفائی کی علامت ہوتی ہے۔پرندے روحانی ترقی کی علامت ہوتے ہیں۔ اور کسی گھر میں خانہ کعبہ کا ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس گھر میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی شامل ہے اور گھر والوں کے دین کی اصلاح اور ان کے ہر قسم کے خوف سے امن میں ہونے کی دلیل ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کی راہ حق اور حقیقی اسلام کی طرف راہنمائی فرمائے اور آنحضورﷺکی پیشگوئیوں کے عین مطابق مبعوث ہونے والے مسیح محمدی علیہ السلام کو پہچاننے، ان کے دعاوی کو صدق دل سے قبول کرنے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اتمام حجت ہو جانے کے بعد بھی آنحضورﷺکے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانے بغیر اس دنیا سے کوچ کر جانے والوں کو آخرت میں کئی قسم کے ہم و غم کا تو بہرحال سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ سید الرسل نبی آخر الزماں خاتم النبیین حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکے احکامات کی تعمیل کیے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہوتے ہیں۔ خواب میں آپ کے والد صاحب کا وفات کے بعد خوفناک مناظر کے دیکھنے کا بیان اسی انذار کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو سچائی پہچاننے اور اسے قبول کر کے ان کے حق میں مقبول دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
باقی جہاں تک آپ کے سوالوں کا تعلق ہے تو ان کے تفصیلی جوابات تو ہمارے سلسلہ کی مختلف کتب میں موجود ہیں، وہاں سے آپ یہ تفصیلی جواب پڑھ سکتی ہیں۔ یہاں اختصار کے ساتھ میں ان کا جواب آپ کو بتا دیتا ہوں۔
۱۔ علمائے دین اور عقل رکھنے کا دعویٰ کرنے والے مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت میں پوری ہونے والی پیشگوئیوں اور نشانیوں کا نظر نہ آنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے نصیب ہوتا ہے۔ صرف کسی کے علم اور عقل کی بناپر حاصل نہیں ہو جاتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمدﷺکے نور نبوت کو حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے ایک ان پڑھ اور ناخواندہ غلام نے تو پہچان لیا لیکن مکہ کی وادی کا سردار اور حکمت کا باپ کہلانے والا(ابوالحکم)اس نور کو نہ دیکھ سکا اور اس نور نبوت کو نہ ماننے کے نتیجہ میں ابوجہل کہلایا۔
۲۔ آنحضورﷺکے اپنی ذات کے بارہ میں لا نبی بعدی کے الفاظ فرمانے کی حقیقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا(جن کے بارہ میں حضورﷺنے ارشاد فرمایا تھا کہ دین کا نصف علم عائشہ سے سیکھو) نے اس طرح بیان فرمائی کہ قُوْلُوْا خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِيّ بَعْدَهٗ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جزء6 حدیث نمبر 219)یعنی تم حضورﷺکو خاتم النبیین تو کہو لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد نبی نہیں ہو گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان کی وجہ یہ تھی کہ حضورﷺ اور خلافت راشدہ کا زمانہ گزرنے کے بعد لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہونا شروع ہو گئے تھے کہ آپؐ کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہو گیا۔ حضرت عائشہ ؓ چونکہ آخرین میں مبعوث ہونے والے مسیح محمدی کے بارےمیں قرآن کریم اور حضورﷺکی بیان فرمودہ دیگر بشارات سے بھی واقف تھیں اس لیے آپ نے اس زمانہ میں لوگوں میں پیدا ہونے والی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے یہ ارشاد فرمایا کہ وہ حضورﷺکو خاتم النبیین (نبیوں کی مہر) تو کہیں یعنی اب جو بھی نبی دنیا میں مبعوث ہو گا وہ صرف اور صرف حضورﷺکی اتباع اور آپ کے فیوض کی برکت سے ہو گا اور حضورﷺہی کی شریعت کے تابع ہو گا۔ لیکن یہ نہ کہیں کہ آپ کے بعد کسی بھی قسم کا نبی نہیں آ سکتا۔ کیونکہ یہ بات حضورﷺکے خاتم النبیین کے مقام کے منافی ہے۔حضورﷺکا مقام خاتم النبیین ثابت ہی تب ہوتا ہے جب آپ کا کوئی امتی آپؐ کے فیوض و برکات اور آپؐ کی اتباع و اطاعت کی بدولت آپ سے ظلی، بروزی اور امتی نبوت کا مقام حاصل کرے۔ اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرّہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتاہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺپر اپنا کلام نازل کیا تھا۔ میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی۔ اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولااور زمین بھی کہ میں خلیفۃ اللّٰہ ہوں مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے۔ میں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے۔ کوئی نہیں کہ میرے مقابل پر ٹھہر سکے کیونکہ خدا کی تائیداُن کے ساتھ نہیں۔ اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سےباطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔ اور میرا یہ قول کہ ’’من نیستم رسول و نیا وردہ اَم کتاب‘‘اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں۔ ہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بِلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی ﷺ۔ اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمّٰی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی۔ اور اس طور سے خاتم النبیین کی مہر محفوظ رہی کیونکہ میں نے انعکاسی اور ظلّی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا۔ اگر کوئی شخص اس وحی الٰہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی۔‘‘(ایک غلطی کا ازالہ،روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 211،210)
اپنی ایک اور تصنیف میں آپ فرماتے ہیں:’’ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحبِ شریعت ہو یا بلاواسطہ متابعت آنحضرت صلعم وحی پا سکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوی سے نعمتِ وحی حاصل کرنے کے لیے قیامت تک دروازے کھلے ہیں۔ وہ وحی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہوگی مگر نبوت شریعت والی یا نبوّت مستقلہ منقطع ہو چکی ہے۔‘‘(ریویو بر مباحثہ بٹالوی چکڑالوی، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 213)
۳۔ خلافت علی منہاج النبوۃ سے مراد خلافت کا وہ سلسلہ ہے جو نبوت کے بعد اسی کے نقشِ پا پر اور اسی کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے جاری ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس خلافت کا وعدہ مومنین کے ساتھ ان الفاظ میں فرمایاہے:وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِم۪ۡ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔(سورۃ النور:56)
یعنی اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا۔ اور جو دین اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے وہ ان کے لیے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لیے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیے جائیں گے۔پھر ایک حدیثِ رسولﷺمیں بھی بیان ہوا ہے کہ مَاکَانَتْ نُبُوَّۃٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَافَۃٌ۔ یعنی ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی الجزء الثانی صفحہ 126 مطبوعہ مصر1306 ہجری) ان الٰہی وعدوں کے مطابق پہلے آنحضورﷺکے وصال کے معاً بعد خلافت راشدہ کی صورت میں خلافت علی منہاج النبوۃ کا یہ سلسلہ مومنوں میں قائم ہوا۔ اورپھر اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں حضورﷺکی ایک پیشگوئی کے مطابق یہی سلسلہ آپ کے غلام صادق مسیح محمدی کی بعثت کے بعد قائم ہوا۔ چنانچہ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺنے اپنے ایک ارشاد میں اس خوشخبری کو اس طرح بیان فرمایا ہے۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھالے گا اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ جب یہ دَور ختم ہوگا توا س کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کردے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔یہ فرما کر آپؐ خاموش ہوگئے۔ (مسند احمد بن حنبل ؒجلد6 صفحہ285مسند النعمان بن بشیر حدیث نمبر 18596 عالم الکتب بیروت 1998ء)اس قرآنی وعدہ اور حضورﷺکے مذکورہ بالا ارشادات میں یہ پیش خبریاں موجود تھیں کہ امت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ جہاں خلافت علی منہاج النبوۃ کے سلسلے قائم فرمائے گا وہاں اس کے ساتھ مسلمانوں میں کئی دنیاوی قسم کی بادشاہتیں اور خلافتیں بھی قائم ہوں گی لیکن خلافت علی منہاج النبوۃ کی نشانی یہ ہو گی کہ وہ خلافت شدت پسندوں کا جواب شدّت پسندی کے رویّے دکھا کر قائم نہیں ہو گی۔ مسلم اُمہ کے دو گروہوں کے درمیان گولیاں چلانے اور قتل و غارت کرنے سے حاصل نہیں ہو گی بلکہ وہ خلافت اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش دلانے سے قائم ہونے والی خلافت ہوگی۔ اور جو خلافت اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی عنایت کے نتیجہ میں ملے گی وہ نہ صرف اپنے متبعین کے لیے محبت، پیار اور خوف کے بعد امن کا سامان کرنے والی ہو گی، دین کی مضبوطی کی ضامن ہو گی،اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے والی ہو گی بلکہ کل دنیا کے لیے بھی امن کی ضمانت ہو گی۔ حکومتوں کو انصاف کرنے اور ایمانداری اختیار کرنےکی طرف توجہ دلائے گی۔ عوام کو ایمانداری اور محنت سے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائے گی۔ پس یہ کام جس طرح آنحضورﷺکے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ نے کیے آپ ﷺکے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے نتیجہ میں قائم ہونے والی خلافت احمدیہ حقہ اسلامیہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی کام اس زمانہ میں انجام دینے کی توفیق پا رہی ہے۔
۴۔جہاں تک منارۃ المسیح کا تعلق ہے توجس طرح سابقہ انبیاء اور خدا تعالیٰ کےفرستادہ اپنے زمانوں میں پیشگوئیوںکو ظاہری طور پر بھی پورا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اسی سنت انبیاء کی اتباع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی خدا تعالیٰ کے اذن سےحضورﷺکی درج ذیل پیشگوئی کو ظاہری طور پر پوراکرنے کے لیے اس منارہ کی تعمیر شروع کروائی۔ حضرت نواس بن سمعؓان ایک لمبی روایت بیان کرتے ہوئے اس میں کہتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا کہ… إِذْ بَعَثَ اللّٰهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا تو وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے۔(صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ)حضورﷺکی اس پیشگوئی کو ظاہراً پورا کرنے کے لیے کئی مسلمان بادشاہوں نے اس قسم کے منارہ کی تعمیر کی کوشش کی۔ چنانچہ 461 ہجری میں دمشق میں جامع اموی میں ایک منارہ تعمیر کیا گیا، جسے کئی سال بعد عیسائیوں نے آگ لگا کر تباہ کر دیا۔ بعد کے ادوار میں اس منارہ کو دوبارہ تعمیر کیا گیا لیکن پھر آتش زدگی سے یہ منارہ اور مسجد دونوں جل گئے۔ تیسری مرتبہ 805 ہجری میں شام کے گورنر نے اس منارہ کی تعمیر کا کام شروع کیا اور اسے منارہ عیسیٰ کا نام دیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی بعثت قادیان کی بستی جو دمشق کے عین مشرق میں واقع ہے میں ہوئی، آپ نے بھی حضورﷺکی اس پیشگوئی کی ظاہری علامت کو پورا کرنے کے لیے ایک منارہ کی تعمیر شروع کروائی۔ جو بعض نا مساعد مالی حالات کی وجہ سے آپ کے عہد مبارک میں مکمل نہ ہو سکی لیکن آپ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ہی یہ تعمیر مکمل ہو کر یہ منارہ 1915ء میں اپنی تکمیل کو پہنچا اور آج بھی آپ علیہ السلام کی بعثت کے مقام پر منارۃ المسیح کے نام سے موجود ہے۔بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اس منارہ کی تعمیر کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’حدیث نبوی میں جو مسیح موعود کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ منارہ بیضاء کے پاس نازل ہو گا اس سے یہی غرض تھی کہ مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے کہ اس وقت بباعث دنیا کے باہمی میل جول کے اور نیز راہوں کے کھلنے اور سہولت ملاقات کی وجہ سے تبلیغ احکام اور دینی روشنی پہنچانا اور ندا کرنا ایسا سہل ہو گا کہ گویا یہ شخص منارہ پر کھڑا ہے….غرض مسیح کے زمانہ کے لیے منارہ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی روشنی اور آواز جلد تر دنیا میں پھیلے گی۔ اور یہ باتیں کسی اور نبی کو میسر نہیں آئیں۔(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 51 مطبوعہ 2019ء)فرمایا:’’خود اس منارہ کے اندر ہی ایک حقیقت مخفی ہے اور وہ یہ کہ احادیث نبویہ میں متواتر آچکا ہے کہ مسیح آنے والا صاحب المَنَارہ ہو گا یعنی اُس کے زمانہ میں اسلامی سچائی بلندی کے انتہا تک پہنچ جائے گی جو اس منارہ کی مانند ہے جو نہایت اونچا ہو۔ اور دین اسلام سب دینوں پر غالب آ جائے گا اُسی کے مانند جیسا کہ کوئی شخص جب ایک بلند منار پر اذان دیتا ہے تو وہ آواز تمام آوازوں پر غالب آ جاتی ہے۔ سو مقدر تھا کہ ایسا ہی مسیح کے دنوں میں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےھُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ۔(الصف:10) یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے اور اسلامی حجت کی وہ بلند آواز جس کے نیچے تمام آوازیں دب جائیں وہ ازل سے مسیح کے لیے خاص کی گئی ہے اور قدیم سے مسیح موعود کا قدم اس بلند مینار پر قرار دیا گیا ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی عمارت اونچی نہیں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 52 مطبوعہ 2019ء)فرمایا:’’یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا پیغمبر خدا ﷺکی پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اسی غرض کے لیے پہلے دو دفعہ منارہ دمشق کی شرقی طرف بنایا گیا تھا جو جل گیا۔ یہ اسی قسم کی غرض ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی کو کسریٰ کے مال غنیمت میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تا ایک پیشگوئی پوری ہو جائے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 80 مطبوعہ 2019ء حاشیہ)
۵۔احادیث میں حضرت عیسیٰ بن مریم کے ظہور کے چالیس سال بعد قیامت آنے کا جو ذکر ہے تو اس میں بھی کئی امور قابل تشریح ہیں جیسا کہ پیشگوئیوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ ان میں کئی باتیں تعبیر طلب ہوتی ہیں۔پس ایک تو خود لفظ قیامت تشریح طلب ہے کیونکہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺمیں قیامت کا لفظ مختلف معانی میں بیان ہوا ہے۔قیامت کا لفظ اس عالمگیر تباہی کے لیے بھی آیا ہے جب اس دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی۔ ہر انسان کی موت بھی اس کے لیے قیامت ہوتی ہے۔نبی کا زمانہ بھی دشمنوں کے لیے قیامت کا رنگ رکھتا ہے جب ان کے باطل عقائد کو شکست ہوتی ہے اور حق کو غلبہ عطا ہوتا ہے۔آنحضورﷺکا عہد مبارک بھی اہل عرب کے لیے ایک قیامت ہی تھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ(القمر:2)یعنی (عرب کی) تباہی کی گھڑی آگئی ہے اور چاندپھٹ گیا ہے۔اسی لیے حضورﷺنے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح قریب ہیں جس طرح یہ (درمیانی اور شہادت کی ) دو انگلیاں۔ (صحیح بخاری کتاب الطلاق) اسی طرح کسی ترقی یافتہ قوم کا تنزل یا کسی مغلوب قوم کا اچانک ترقی پانا بھی قیامت کے معنوں میں آتا ہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام یعنی مسیح محمدی کے ظہور کے چالیس سال بعد قیامت کے ذکر پر مشتمل احادیث کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ ہزار سال کے عرصہ میں اور خصوصاً مسیح موعود کی بعثت سے قبل اسلام کی کمزوری اور کس مپرسی کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ آنحضورﷺکی یہ پیشگوئی لفظ لفظ پوری ہو چکی تھی کہ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اِسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاءِ منْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُوْدُ ۔ یعنی قریب ہے کہ لوگوں پرایسا زمانہ آئے کہ جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کریم کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے۔ ان کی مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہوں گی لیکن ہدایت کے لحاظ سے بالکل ویران ہوں گی۔ اس زمانہ کے لوگوں کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی بدترین مخلوق میں سے ہوں گے کیونکہ اُن میں سے ہی فتنے اُٹھیں گے اور اُن میں ہی لوٹ جائیں گے۔(شعب الایمان للبیہقی فصل قال وینبغی لطالب علم أن یکون تعلمہ…حدیث: 1858)مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر رہے تھے اور اسلام پر ہر مذہب کی طرف سے تابڑ توڑ حملے کیے جا رہے تھے اور کوئی شخص ان حملوں کے جواب کے لیے میدان میں نہیں آ رہا تھا۔ سید المعصومین رحمۃ للعالمین حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺکی ذات اطہر اور آپ کی ازواج مطہرات کے خلاف کھلم کھلا گندہ دہنی کی جارہی تھی۔ اس زمانہ میں آنحضورﷺکی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے غلام صادق مسیح محمدی علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور آپ نے اسلام پر ہونے والے ہر حملہ کا منہ توڑ جواب دیا اور ہر دشمن اسلام کو میدان سے فرار اختیار کرنا پڑی۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ اسلام کو ایک مرتبہ پھر پوری شان و شوکت عطا فرمائی اور اسے باقی تمام مذاہب پر غالب کر کے دکھایا اور آپ علیہ السلام نے اسلام اور بانیٔ اسلامﷺ کی مداح میں برملا فرمایا:
ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے
یہ ثمر باغ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے
ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا
نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے
اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے
تھک گئے ہم تو انہیں باتوں کو کہتے کہتے
ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے
آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند
ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے
پس یہ وہ قیامت ہے جو مسیح محمدی علیہ السلام اور آپ کے بعد قائم ہونے والی خلافت علی منہاج النبوۃ کے ذریعہ اسلام اور مخالفین اسلام کے لیے ظاہر ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں اسلام اور بانیٔ اسلام ﷺکا نام اور آپ کی پیش کردہ حقیقی تعلیم دنیا کے کناروں تک پہنچی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی اس روحانی جہاد میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے اور مخالفین اسلام کی زمین روز بروز گھٹتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی راہنمائی فرمائے، آپ کو حق اور ہدایت کی راہ کو پہچاننے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ اپنے فضلوں سے نوازتا رہے۔ آمین
٭… ٭… ٭