خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11؍ جنوری 2019ء
بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
حضرت خَلَّادْ بِن عَمرو بِن جَمُوحْانصاری صحابی تھے اور بدری صحابہ میں شامل تھے۔ آپ اپنے والد حضرت عَمرو بن جَموح اور بھائیوں حضرت مُعَاذؓ، حضرت ابو ایمنؓ، اور حضرت مُعَوَّذؓ کے ہمراہ غزوہ بدر میں شامل ہوئے تھے۔ حضرت ابوایمن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کے بھائی نہیں تھے بلکہ آپ کے والد حضرت عَمرو بن جَموح کے آزاد کردہ غلام تھے۔
(اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 184 خَلَّادْ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
جنگ بدر کے لئے روانہ ہوتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ سے باہر ایک جگہ سُقْیَاکے پاس قیام کیا۔ حضرت عبداللہ بن قَتَادَۃ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُقْیَا،مدینہ سے باہر ایک جگہ تھی جہاں کنواں بھی تھا ایک، اس کے قریب نماز ادا کی اور اہل مدینہ کے لئے دعا کی۔ حضرت عَدِیّ بنِ اَبیِ الزَّغْبَاء اور بَسْبَسْ بِن عَمْرو اسی جگہ اس قیام کے دوران میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور بعض روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ کا اس جگہ قیام کرنا اور اصحاب کا جائزہ لینا بہت اچھا ہے اور ہم اسے نیک فال سمجھتے ہیں کیونکہ جب ہمارے یعنی بنو سلمہ اور اہل حُسَیْکَہ کے درمیان معرکہ ہوا تھا تو ہم نے یہیں پڑاؤ ڈالا تھا۔ اسلام سے پہلے کی پرانی بات بیان کررہے ہیں۔ مدینہ کے نواح میں ذُبَاب نامی ایک پہاڑ ہے حُسَیْکَہ اس پہاڑکے پاس ہی مقام تھا جہاں بڑی تعداد میں یہود آباد تھے۔ اسی مقام پر کہتے ہیں کہ ہم نے بھی اپنے اصحاب کی حاضری اور جائزہ لیا تھا اور جو لوگ جنگ کی طاقت رکھتے تھے ان کو اجازت دی تھی اور جو ہتھیار اٹھانے کے قابل نہ تھے ان کو واپس بھیج دیا تھا اور پھر ہم نے حُسَیْکَہ کے یہود کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ اس وقت حُسَیْکَہ کے یہود سب یہود پر غالب تھے پس ہم نے انہیں جس طرح چاہا قتل کیا۔ ان کی آپس میں بڑی جنگ ہوئی۔ ا س لئے انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے امید ہے کہ جب ہم لوگ قریش کے مقابل ہوں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ آپؐ کی آنکھوں کو ان سے ٹھنڈک عطا کرے گا یعنی آپؐ کو بھی فتح حاصل ہو گی جس طرح پرانے زمانے میں ہمیں ہو چکی ہے۔
حضرت خَلَّادْ بن عمرو کہتے ہیں کہ جب دن چڑھا تو میں خُرْبیٰ میں اپنے اہل کے پاس گیا۔ خُرْبیٰ اس محلے کا نام ہے جہاں بنو َسلَمہ کے گھر تھے۔ کہتے ہیں میرے والد حضرت عَمرِو بِن جَمُوح نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ تم لوگ جا چکے ہو۔ پہلی روایت جو بیان ہوئی تھی اس میں یہ لکھا تھا کہ والد عَمرِو بِن جَمُوح کے ہمراہ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے لیکن اس روایت سے اور بعد کی روایتوں سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ والد شامل نہیں تھے۔ میں نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سُقْیَا کے میدان میں لوگوں کا جائزہ اور گنتی کروا رہے ہیں۔ تب حضرت عمروؓ نے کہا کہ کیا ہی نیک فال ہے۔ واللہ! میں امید رکھتا ہوں کہ تم غنیمت حاصل کرو گے اور مشرکین قریش پر کامیابی حاصل کرو گے۔ جس روز ہم نے حُسَیْکَہ کی طرف پیش قدمی کی تھی ہم نے بھی یہیں پڑاؤ ڈالا تھا۔ اس پرانی بات کی یہ بھی تصدیق کر رہے ہیں جو پہلے روایت میں آ گئی ہےکہ یہودیوں کی آپس میں لڑائی ہوئی تھی۔
حضرت خَلَّادْ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حُسَیْکَہ کا نام بدل کر سُقْیَا رکھ دیا۔ میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ میں اس جگہ کو سُقْیَا کو خرید لوں۔ لیکن مجھ سے پہلے ہی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اسے دو اونٹوں کے عوض خرید لیا اور بعض کے مطابق سات اَوْقِیَہ یعنی دو سو اسّی درہم کے عوض خریدا تھا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس بات کا ذکر ہوا تو آپؐ نے فرمایا رَبِحَ الْبَیْعُ یعنی اس کا سودا بہت ہی نفع مند ہے۔
(کتاب المغازی جلد اوّل صفحہ 37-38 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2013ء) (معجم البلدان جلد 3 صفحہ 258 ’’سقیا‘‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ) (وفاء الوفاء جلد 3 صفحہ 1200’’خربی‘‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1984ء) (لغات الحدیث جلد اوّل صفحہ 82 ’’اوقیہ‘‘ مطبوعہ علی آصف پرنٹرز لاہور 2005ء)
حضرت خَلَّادْ کے والد حضرت عَمرِو بِن جَمُوح بدرمیں شامل نہیں ہوئے تھے۔ خَلَّادْ اور آپ کے والد حضرت عَمرِو بِن جَمُوح اور حضرت ابوایمن تینوں غزوۂ اُحُد میں شامل ہوئے تھے اور ان تینوں نے جام شہادت بھی نوش کیا۔ (مستدرک علی الصحیحین جلد 3 صفحہ 226 کتاب معرفۃ الصحابہ باب ذکر مناقب عمرو بن الجموحؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)یعنی خود بھی اور بھائی بھی اور والد بھی یہ تینوں جنگ اُحُد میں شامل ہوئے تھے۔ والد ان کے جنگ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ ان کی شامل ہونے کی خواہش تھی لیکن ان کی ٹانگ کی مجبوری کی وجہ سے، ان کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی۔ صحیح نہیں تھے، معذور تھے۔ اس لئے ان کو بدر میں ان کے بیٹوں نے شامل ہونے سے روک دیا تھا۔
حضرت خَلَّادْؓ کے والد حضرت عمرو بن جموحؓ کے بارے میں آتا ہے کہ بدر کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی تحریک فرمائی تو عمرو کے پاؤں میں تکلیف کی وجہ سے ان کے بیٹوں نے انہیں جنگ میں شامل ہونے سے روک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی معذوروں کو جنگ سے رخصت دی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے بیٹوں نے بھی انہیں روک دیا تھا کہ ہم چار لڑکے لڑنے جا رہے ہیں تو پھر آپ کو کیا ضرورت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو رخصت ہے۔ اور پھر یہ باوجود خواہش کے بیٹوں کے کہنے پر جنگ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ لیکن جب اُحُد کا موقع آیا تو عمرو اپنے بیٹوں کو کہنے لگے کہ تم لوگوں نے مجھے بدر میں بھی شامل نہیں ہونے دیا تھا۔ اُحُد کا موقع آیا ہے تو مجھے روک نہیں سکتے۔ میں لازماً جاؤں گا اور اُحُد میں شریک ہوں گا۔ بہرحال انہوں نے کہا اب تم مجھے روک نہیں سکتے اور میں لازماً اس میں شامل ہوں گا۔ پھر اولاد نے ان کو اُن کی معذوری کے حوالے سے روکنا چاہا تو یہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ میں خود ہی حضور سے اجازت لے لوں گا۔ چنانچہ وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے بیٹے اس دفعہ پھر مجھے جہاد سے روکنا چاہتے ہیں۔ پہلے بدر میں روکا تھا۔ اب اُحُد میں بھی جانے نہیں دیتے۔ میں آپؐ کے ساتھ اس جہاد میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ پھر انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم! میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دلی مراد قبول کرے گا اور مجھے شہادت عطا فرمائے گا اور میں اپنے اسی لنگڑے پاؤں کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤں گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرو! بیشک اللہ تعالیٰ کو آپ کی معذوری قبول ہے اور جہاد آپ پہ فرض نہیں ہے لیکن ان کے بیٹوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ ان کو نیک کام سے نہ روکو۔ ان کی دلی تمنا اگر ایسی ہے تو پھر اسے پورا کرنے دو شاید اللہ تعالیٰ انہیں شہادت عطا فرما دے۔ چنانچہ حضرت عمرو نے اپنے ہتھیار لئے اور یہ دعا کرتے ہوئے میدان اُحُد کی طرف روانہ ہوئے کہ۔ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی شَھَادَۃَ وَلَا تَرُدَّنِیْ اِلٰی اَھْلِیْ خَائِبًا۔ کہ اے اللہ! مجھے شہادت عطا کرنا اور مجھے اپنے گھر کی طرف ناکام و نامراد واپس لے کر نہ آنا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا کو قبول کیا اور انہوں نے وہاں جام شہادت نوش کیا۔
(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 195-196 خَلَّادْ بن عمروؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت خَلَّادْ کی والدہ حضرت ہند بنتِ عَمرو (اُن کے والد کا نام بھی عمرو تھا اور خاوند کا نام بھی) حضرت جابر بن عبداللہ کی پھوپھی تھیں۔ غزوۂ اُحُد میں حضرت ہِند نے اپنے خاوند، اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کو شہادت کے بعد اونٹ پر لادا۔ پھر جب ان کے متعلق حکم ہوا تو انہیں واپس اُحُد لوٹایا گیا اور وہ وہیں اُحُد میں دفن کئے گئے۔
(اصابہ جلد 2 صفحہ 287 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
جب پتہ لگا ہے کہ شہید ہو گئے ہیں تو یہ تینوں کو پہلے مدینہ لانے کے لئے لے کر آئی تھیں، لیکن پھر واپس لے گئیں اور اس کی تفصیل بھی آگے بیان ہوئی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی مرضی تھی کہ اُحُد کے یہ شہداء اُحُد میں ہی دفن ہوں۔ اس واقعہ کی تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ حضرت عائشہؓ غزوۂ اُحُد کے بارہ میں خبر لینے کے لئے مدینہ کی عورتوں کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں۔ اس وقت تک پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ جب آپؓ، (حضرت عائشہ) حرّہ کے مقام تک پہنچیں تو آپ کی ملاقات ہند بنت عمرو سے ہوئی جو کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کی ہمشیرہ تھیں۔ حضرت ہند اپنی اونٹنی کو ہانک رہی تھیں۔ اس اونٹنی پر آپ کے شوہر حضرت عَمرو بن جَموح، بیٹے حضرت خَلَّادْ بن عمرو اور بھائی حضرت عبداللہ بن عمرو کی نعشیں تھیں۔ جب حضرت عائشہؓ نے میدان جنگ کی خبر لینے کی کوشش کی تو حضرت عائشہؓ نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ خبر ہے کہ تم پیچھے لوگوں کو کس حال میں چھوڑ آئی ہو؟ اس پر حضرت ہند نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر مصیبت آسان ہے، جب آپؐ خیریت سے ہیں تو پھر کوئی ایسی بات نہیں۔ اس کے بعد حضرت ہند نے یہ آیت پڑھی۔وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِغَیْظِہِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًا۔وَ کَفَی اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْقِتَالَ۔ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیْزًا (الاحزاب26:) یعنی اور اللہ نے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا ان کے غیض سمیت اس طرح لوٹا دیا کہ وہ کوئی بھلائی حاصل نہ کر سکے اور اللہ مومنوں کے حق میں قتال میں کافی ہو گیا اور اللہ بہت قوی اور کامل غلبہ والا ہے۔
حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ اونٹنی پر کون کون ہیں؟ تب حضرت ہند نے بتایا کہ میرا بھائی ہے، میرا بیٹا خَلَّادْ ہے اور میرے شوہر عَمرِو بِن جَمُوح ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ تم انہیں کہاں لئے جاتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ انہیں مدینہ میں دفن کرنے کے لئے لے جا رہی ہوں۔ پھر وہ اپنے اونٹ کو ہانکنے لگیں تو اونٹ وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ اس پر وزن زیادہ ہے۔ جس پر حضرت ہند کہنے لگیں کہ یہ تو دو اونٹوں جتناوزن اٹھا لیتا ہے لیکن اس وقت یہ اس کے بالکل الٹ کر رہا ہے۔ پھر انہوں نے اونٹ کو ڈانٹا تو وہ کھڑا ہو گیا۔ جب انہوں نے اس کا رخ مدینہ کی طرف کیا تو وہ پھر بیٹھ گیا۔ پھر جب انہوں نے اس کا رخ اُحُد کی طرف پھیرا تو اونٹ جلدی جلدی چلنے لگا۔ پھر حضرت ہند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اونٹ مامور کیا گیا ہے یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف اسی کام پر لگایا گیا تھا کہ یہ مدینہ کی طرف نہ جائے بلکہ اُحُد کی طرف ہی رہے۔ فرمایا کہ کیا تمہارے شوہر نے جنگ پہ جانے سے پہلے کچھ کہا تھا؟ کہنے لگیں جب عَمرو اُحُد کی جانب روانہ ہونے لگے تھے تو انہوں نے قبلہ رُخ ہو کر یہ کہا تھا کہ اے اللہ! مجھے میرے اہل کی طرف شرمندہ کر کے نہ لوٹانا اور مجھے شہادت نصیب کرنا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی وجہ سے اونٹ نہیں چل رہا تھا۔ فرمایا کہ اے انصار کے گروہ! تم میں سے بعض ایسے نیکو کار لوگ ہیں کہ اگر وہ خدا کی قسم کھا کر کوئی بات کریں تو خدا تعالیٰ ان کی وہ بات ضرور پوری کرتا ہے اور عَمرِو بِن جَمُوح بھی ان میں سے ایک ہیں۔ پھر آپ نے عَمرِو بِن جَمُوح کی بیوی کو فرمایا کہ اے ہند! جس وقت سے تیرا بھائی شہید ہوا ہے اس وقت سے فرشتے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ اسے کہاں دفن کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان شہداء کی تدفین تک وہیں رکے رہے۔ پھر فرمایا اے ہند! عمرو بن جَموح، تیرا بیٹا خَلَّادْ اور تیرا بھائی عبداللہ جنت میں باہم دوست ہیں۔ اس پر ہند نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان کی رفاقت میں پہنچا دے۔
(کتاب المغازی جلد اوّل صفحہ 232-233 غزوہ اُحُد مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2013ء)
دوسرے صحابی جن کا ذکر ہو گا وہ حضرت عُقْبَہ بن عامِر ہیں۔ ان کی والدہ کا نام فُکَیْہَہ بنت سکن تھااور والد عَامِر بن نَابِیِٔ تھے۔ ان کی والدہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت سے مشرف ہوئیں۔ حضرت عُقْبَہ بن عامر ان چھ انصار میں سے تھے جو سب سے پہلے مکہ میں ایمان لائے اور بعد میں آپ بیعتِ عقبہ اولیٰ میں بھی شامل ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 428 عُقْبَہ بن عامرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 301 فکیھہ بنت السکنؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
اس کی کچھ تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرۃ خاتم النبیین میں لکھی ہے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں سے مدینہ میں اسلام کا پیغام پہنچا تھا۔ فرماتے ہیں: اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حسب دستور مکہ میں اَشْہُر حُرُمْ کے اندر قبائل کا دورہ کر رہے تھے کہ آپ کو معلوم ہوا کہ یثرب کا ایک مشہور شخص سُوَیْد بن صامت مکہ میں آیا ہوا ہے۔ سُوَید مدینہ کا ایک مشہور شخص تھا اور اپنی بہادری اور نجابت اور دوسری خوبیوں کی وجہ سے ’کامل‘ کہلاتا تھا اور شاعر بھی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا پتہ لیتے ہوئے اس کے ڈیرے پر پہنچے اور اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نے کہا کہ میرے پاس بھی ایک خاص کلام ہے جس کا نام مَجَلَّہ لُقْمَان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جو کلام تمہارے پاس ہے مجھے بھی اس کا کوئی حصہ سناؤ۔ جس پر سُوَید نے اس صحیفہ کا ایک حصہ آپؐ کو سنایا۔ آپؐ نے اس کی تعریف فرمائی یعنی جو کچھ سنایا گیا تھا کہ اس میں اچھی باتیں ہیں۔ مگر فرمایا کہ میرے پاس جو کلام ہے وہ بہت بالا اور ارفع ہے، بہت اونچے مقام کا ہے۔ چنانچہ پھر آپؐ نے اسے قرآن شریف کا ایک حصہ سنایا۔ جب آپؐ ختم کرچکے تو اس نے کہا ہاں واقعی یہ بہت اچھا کلام ہے۔ اور گو وہ مسلمان نہیں ہوا مگر اس نے فی الجملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور آپؐ کو جھٹلایا نہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ مدینہ میں واپس جاکر اسے زیادہ مہلت نہیں ملی اور وہ جلد ہی کسی ہنگامہ میں قتل ہو گیا۔ یہ جنگ بُعَاث سے پہلے کی بات ہے۔
اس کے بعد اسی زمانہ کے قریب یعنی جنگ بُعَاثْ سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ایک دفعہ حج کے موقع پر قبائل کا دورہ کر رہے تھے کہ اچانک آپ کی نظر چند اجنبی آدمیوں پر پڑی۔ یہ قبیلہ اَوس کے تھے اور اپنے بت پرست رقیبوں یعنی خزرج کے خلاف قریش سے مدد طلب کرنے آئے تھے۔ یہ بھی جنگ بُعَاثْ سے پہلے کا واقعہ ہے۔ گویا یہ طلب مدد اسی جنگ کی تیاری کا ایک حصہ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سن کر ایک نوجوان شخص جس کا نام اِیَاسْ تھا بے اختیار بول اٹھا کہ خدا کی قسم! جس طرف یہ شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو بلاتا ہے وہ اس سے بہتر ہے جس کے لئے ہم یہاں آئے ہیں۔ یعنی جنگ کے لئے مدد طلب کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہمارا رجوع ہو۔ مگر اس گروہ کے سردار نے ایک کنکروں کی مٹھی اٹھا کر اس کے منہ پر ماری اور کہا چپ رہو۔ ہم اس کام کے لئے یہاں نہیں آئے اور اس طرح اس وقت یہ معاملہ یوں ہی دب کر رہ گیا۔ مگر لکھا ہے کہ ایاس جب وطن واپس گیا، جب فوت ہونے لگا تو اس کی زبان پر کلمہ توحید جاری تھا۔
اس کے کچھ عرصہ بعد جب جنگِ بُعَاث ہوچکی تو 11 نبوی کے ماہ رجب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں یثرب والوں سے پھر ملاقات ہوئی۔ یہ نبوت کے گیارھویں سال کی بات ہے۔ آپؐ نے حسب ونسب پوچھا تو معلوم ہوا کہ قبیلہ خزرج کے لوگ ہیں اور یثرب سے آئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت محبت کے لہجہ میں کہا ’’کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں! آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘ آپؐ بیٹھ گئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن شریف کی چند آیات سنا کر اپنے مشن سے آگاہ کیا۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا یہ موقع ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہود ہم سے سبقت لے جائیں ۔یہ کہہ کر سب مسلمان ہوگئے۔ یہ چھ اشخاص تھے جن کے نام یہ ہیں:
1۔ابو اُمَامَہ اسعد بن زُرَارَہ جو بنو نجار سے تھے اور تصدیق کرنے میں سب سے اول تھے۔ 2۔عوف بن حارث یہ بھی بنو نجار سے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے ننھیال کے قبیلہ سے تھے۔ 3۔رَافِع بن مالِک جو بنو زُرَیْق سے تھے۔ اب تک جو قرآن شریف نازل ہو چکا تھا وہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا۔ 4۔قُطْبَہ بِن عَامِر جو بنی سلمہ سے تھے۔ 5۔عُقْبَہ بن عامِر جو بنی حرام سے تھے، (یہ انہیں کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس سارے واقعہ میں)، یہ عُقْبَہ بن عامر بدری صحابی تھے۔اور6۔جابر بن عبداللہ بن رِئَاب جو بنی عُبَید سے تھے۔
اس کے بعد یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوئے اور جاتے ہوئے عرض کیا کہ ہمیں خانہ جنگیوں نے بہت کمزور کر رکھا ہے۔ ہم میں آپس میں بہت نااتفاقیاں ہیں۔ ہم یثرب میں جا کر اپنے بھائیوں میں اسلام کی تبلیغ کریں گے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے ہم کو پھر جمع کردے۔ پھر ہم ہر طرح آپؐ کی مدد کے لئے تیار ہوں گے۔ چنانچہ یہ لوگ گئے اور ان کی وجہ سے یثرب میں اسلام کا چرچا ہونے لگا۔
یہ سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میںیثرب والوں کی طرف سے ظاہری اسباب کے لحاظ سے ایک بیم و رَجَا کی حالت میں گزارا۔ آپؐ اکثر یہ خیال کیا کرتے تھے کہ دیکھیں ان کا کیا انجام ہوتا ہے اور آیا یثرب میں کامیابی کی کوئی امید بندھتی ہے یا نہیں۔ مسلمانوں کے لئے بھی یہ زمانہ ظاہری حالات کے لحاظ سے ایک بیم و رجا کا زمانہ تھا۔ کبھی امید کی کرن ہوتی تھی۔ کبھی مایوسی ہوتی تھی۔ وہ دیکھتے تھے کہ سرداران مکہ اور رؤسائے طائف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو سختی کے ساتھ ردّکر چکے ہیں۔ دیگر قبائل بھی ایک ایک کرکے اپنے انکار پر مہر لگا چکے تھے۔ مدینہ میں امید کی ایک کرن پیدا ہوئی تھی مگر کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کرن مصائب و آلام کے طوفان اور شدائد کی آندھیوں میں قائم رہ سکے گی۔
دوسری طرف مکہ والوں کے مظالم دن بدن زیادہ ہو رہے تھے اور انہوں نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اسلام کو مٹانے کا بس یہی وقت ہے مگر اس نازک وقت میں بھی جس سے زیادہ نازک وقت اسلام پر کبھی نہیں آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے مخلص صحابی ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم تھے اور آپؐ کا یہ عزم و استقلال بعض اوقات آپؐ کے مخالفین کو بھی حیرت میں ڈال دیتا تھا کہ یہ شخص کس قلبی طاقت کا مالک ہے کہ کوئی چیز اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔ بلکہ اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں خاص طور پر ایک رعب اور جلال کی کیفیت پائی جاتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بات کرتے تھے تو آپؐ کی باتوں میں بڑا رعب اور جلال ہوتا تھا اور مصائب کے ان تند طوفانوں میں آپؐ کا سر اور بھی بلند ہوتا جاتا تھا۔ یہ نظارہ اگر ایک طرف قریش مکہ کو حیران کرتا تھا تو دوسری طرف ان کے دلوں پر کبھی کبھی لرزہ بھی ڈال دیتا تھا۔ ان ایام کے متعلق سر ولیم میور نے بھی لکھا ہے کہ : ان ایام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے سامنے اس طرح سینہ سپر تھا کہ انہیں بعض اوقات حرکت کی تاب نہیں ہوتی تھی۔ اپنی بالآخر فتح کے یقین سے معمور مگر بظاہر بے بس اور بے یارومددگار وہ اور اس کا چھوٹا سا گروہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کا چھوٹا سا گروہ چند مسلمان اس زمانہ میں گویا ایک شیر کے منہ میں تھے۔ مگر اس خدا کی نصرت کے وعدوں پر کامل اعتماد رکھتے ہوئے جس نے اسے رسول بنا کر بھیجا تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے عزم کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑا تھا، ولیم میور لکھتا ہے، کہ جسے کوئی چیز اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی تھی۔ یہ نظارہ ایک ایسا شاندار منظر پیش کرتا ہے جس کی مثال سوائے اسرائیل کی اس حالت کے اور کہیں نظر نہیں آتی کہ جب اس نے مصائب و آلام میں گھِر کر خدا کے سامنے یہ الفاظ کہے تھے کہ اے میرے آقا! اب تو مَیں ہاں صرف مَیں ہی اکیلا رہ گیا ہوں۔ پھر لکھتا ہے کہ نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نظارہ اسرائیلی نبیوں سے بھی ایک رنگ میں بڑھ کر تھا۔… محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ اسی موقعہ پر کہے گئے تھے کہ اے میری قوم کے صنادید! تم نے جو کچھ کرنا ہے کر لو۔ میں بھی کسی امید پر کھڑا ہوں۔
بہرحال اسلام کے لئے یہ ایک بہت نازک موقع تھا۔ مکہ والوں کی طرف سے تو مکمل طور پر ایک ناامیدی ہوچکی تھی مگر مدینہ میں یہ جو بیعت کر کے گئے تھے ان کی وجہ سے بھی امید کی کرن پیدا ہو رہی تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑی توجہ کے ساتھ اس طرف نظر ،نگاہ لگائے ہوئے تھے کہ آیا مدینہ بھی مکہ اور طائف کی طرح آپ کو ردّ کرتا ہے یا اس کی قسمت دوسرے رنگ میں لکھی ہے۔ چنانچہ جب حج کا موقع آیا تو آپؐ بڑے شوق کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے اور منٰی کی جانب عقبہ کے پاس پہنچ کر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو آپؐ کی نظر اچانک اہلِ یثرب کی ایک چھوٹی سی جماعت پر پڑی جنہوں نے آپ کو دیکھ کر فورًا پہچان لیا اور نہایت محبت اور اخلاص سے آگے بڑھ کر آپؐ کو ملے۔ اس دفعہ یہ بارہ اشخاص تھے جن میں سے پانچ تو وہی گزشتہ سال کے مصدّقین تھے اور سات نئے تھے اور اَوس اور خزرج دونوں قبیلوں میں سے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں۔
1۔ اَبو اُمَامہ اسعد بن زُرَارہ۔ 2۔ عوف بن حارث۔ 3۔ رَافِع بن مالک ۔4۔ قُطْبہ بن عامر ۔ 5۔ عُقْبَہ بن عامر۔ عُقْبَہ بن عامر جن کی سیرت بیان ہو رہی ہے یہ اس دفعہ بھی دوبارہ حج کے لئے آئے۔ 6۔مُعاذ بن حارِث۔ یہ قبیلہ بنی نجار سے تھے اور 7۔ ذَکْوَان بن عَبدِقَیْس قبیلہ بنو زُرَیق سے تھے۔ 8۔ابوعبدالرحمٰن یَزِید بِن ثَعْلَبَہ از بَنِی بَلِی اور 9۔ عُبَادَہ بن صَامِت از بَنیِ عَوف ۔ وہ خزرج قبیلہ کے بَنِی بَلِی سے تھے اور یہ بَنیِ عَوف سے تھے۔ 10۔عباس بن عُبَادَہ بِن نَضْلَہ۔ یہ بنی سالم میں سے تھے۔ 11۔ اَبُو الْہَیْثَم بن تَیْہَان یہ بَنِی عبدِالْاَشْھَلْ کے تھے اور 12۔ عُوَیْم بن سَاعِدَہ یہ اوس قبیلے کے بَنِی عَمْرِو بن عَوف سے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے الگ ہو کر ایک گھاٹی میں ان بارہ افراد سے ملے تھے۔ انہوں نے یثرب کے حالات سے اطلاع دی اور اب کی دفعہ سب نے باقاعدہ آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ بیعت مدینہ میں اسلام کے قیام کی بنیاد، قیام کا بنیادی پتھر ہے۔ اس سے بنیاد پڑی۔ چونکہ اب تک جہاد بالسیف فرض نہیں ہوا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صرف ان الفاظ میں بیعت لی تھی جن میں آپؐ جہاد فرض ہونے کے بعد عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے یعنی یہ کہ ہم خدا کو ایک جانیں گے۔ شرک نہیں کریں گے۔ چوری نہیں کریں گے۔ زنا کے مرتکب نہیں ہو ں گے۔ قتل سے باز رہیں گے۔ کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے اور ہر نیک کام میں آپؐ کی اطاعت کریں گے۔ بیعت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم صدق و ثبات کے ساتھ اس عہد پر قائم رہے تو تمہیں جنت نصیب ہو گی اور اگر کمزوری دکھائی تو پھر تمہارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ جس طرح چاہے گا کرے گا۔ یہ بیعت تاریخ میں بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ وہ جگہ جہاں بیعت لی گئی تھی عَقبہ کہلاتی ہے جو مکہ اور منیٰ کے درمیان واقع ہے۔ عقبہ کے لفظی معنی بلند پہاڑی رستے کے ہیں۔
مکہ سے رخصت ہوتے ہوئے ان بارہ نَو مسلمین نے درخواست کی کہ کوئی اسلامی معلم ہمارے ساتھ بھیجا جائے جو ہمیں اسلام کی تعلیم دے اور ہمارے مشرک بھائیوں کو اسلام کی تبلیغ کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُصْعَبْ بن عُمَیر کو جو قبیلہ عبدالدَّار کے ایک نہایت مخلص نوجوان تھے ان کے ساتھ روانہ کر دیا۔ اسلامی مبلغ ان دنوں میں قاری یا مُقْرِی کہلاتے تھے کیونکہ ان کا کام زیادہ تر قرآن شریف سنانا تھا کیونکہ یہی تبلیغ کا ایک بہترین ذریعہ تھا۔ چنانچہ مصعب بھی یثرب گئے تو یثرب میں مُقْرِی کے نام سے مشہور ہو گئے۔ بیعت عَقبہ ثانیہ جو تھی یہ 13نبوی میں ہوئی تھی اور اس میں ستر انصار نے بیعت کی تھی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 221 تا225، 227)
حضرت عُقْبَہ بن عامر نے غزوہ بدر، اُحُد اور خندق سمیت تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی۔ آپ غزوۂ اُحُد کے دن خَودمیں سبز رنگ کے کپڑے کی وجہ سے پہچانے جا رہے تھے۔ آپ حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں بارہ ہجری میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 428 عُقْبَہ بن عامرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت عُقْبَہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ ابھی وہ نَوعمر لڑکا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، میرے بیٹے کو دعائیں سکھائیں جن کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرے اور اس پر شفقت فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا اے لڑکے! کہو کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ صِحَّۃً فِی اِیْمَانٍ وَ اِیْمَانًا فِیْ حُسْنِ خُلُقٍ وَ صَلَاحًا یَتْبَعُہٗ نَجَاحٌ۔
(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 52 عُقْبَہ بن عامرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
کہ اے اللہ! میں تجھ سے حالت ایمان میں صحت طلب کرتا ہوں اور ایمان کے ساتھ حسن خلق کی دعا کرتا ہوں اور صلاح کے بعد کامیابی چاہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے ۔
اب اس کے بعد مَیں امریکہ کی ایک بہت پرانی بزرگ احمدی کا ذکر کروں گا اور پھر ان کا جنازہ بھی جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا۔ ان کا نام تھا سسٹر عالیہ شہید صاحبہ اور یہ احمد شہید صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں۔ 26؍دسمبر کو ان کی وفات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی لمبی عمر عطا فرمائی اور کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ معذوری سے بھی بچایا۔ 105 سال کی ان کی عمر تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
امیر صاحب امریکہ نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کو 1936ء میں بیعت کرنے کی سعادت عطا ہوئی اور آپ نے 1963ء سے 1966ء تک بطور صدر لجنہ امریکہ خدمت کی توفیق پائی۔ اسی طرح مرحومہ کو لجنہ اماء اللہ امریکہ میں پچاس سال پر محیط ایک لمبا عرصہ بطور جنرل سیکرٹری، سیکرٹری مال، سیکرٹری تعلیم، سیکرٹری خدمت خلق اور مقامی صدر لجنہ کی خدمت کی توفیق ملی۔ ہمیشہ جماعت اور خلافت سے گہرا تعلق رکھا اور ہر قسم کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہتی تھیں۔ بہت شفیق اور پیار کرنے والی خاتون تھیں۔ آپ کو جماعت احمدیہ امریکہ کے ابتدائی وقت کے واقعات زبانی یاد تھے جن کا آپ اکثر ذکر کیا کرتی تھیں۔ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرنے کا بھی ان کو موقع ملا۔ خاوند مکرم احمد شہید صاحب مرحوم کو امریکہ کی نیشنل عاملہ میں اور بطور صدر جماعت پِٹس برگ (Pittsburg) خدمت کی توفیق ملی۔ مرحومہ کے لواحقین میں ان کے اکلوتے بیٹے عمر شہید صاحب شامل ہیں جنہیں گزشتہ اٹھارہ سال سے بطور صدر جماعت پِٹس برگ خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ یہ افریقن امریکن تھیں۔
صدر لجنہ اماء اللہ امریکہ سسٹر عالیہ کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ان کی طرز زندگی، ان کی باتیں، ان کی ہر نقل و حرکت اس بات کا ثبوت پیش کرتی تھی کہ وہ اپنے عہدِ بیعت پر پختگی کے ساتھ عمل پیرا تھیں جو انہوں نے 76 سال پہلے باندھا تھا۔ ان کی خدمات صرف امریکہ تک محدود نہیں تھیں بلکہ ان کے معترف دنیا بھر میں تھے اور جب یہ ساری لجنہ بیرونی لجنات بھی پاکستانی لجنہ صدر کے انڈر تھیں تو اُس وقت حضرت مریم صدیقہ صاحبہ جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی حرم تھیں وہ پوری دنیا کی لجنہ کی صدر تھیں۔ ان کی طرف سے اِن کی خدمات کو بہت سراہا بھی گیا تھا۔ یہ لکھتی ہیں کہ سسٹرعالیہ کا نام ایلا لوئس(Ella Louise) تھا اور ان کے منگیتر ولیم فرینک براؤننگ (William Frank Browning)افریقن میتھوڈسٹ چرچ(Methodist Church) کے بہت سرگرم رکن تھے۔ ان کی شادی ہونے والی تھی اور وہ اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے، جب ان کے میاں تک احمدیت کا پیغام پہنچا تو ولیم صاحب اپنے والدین کے ساتھ احمدی ہو گئے اور انہوں نے اپنا نام احمد شہید رکھا۔ عالیہ نے شادی تو کر لی لیکن بیعت نہیں کی۔ احمد شہید صاحب کچھ عرصہ بعد پِٹس برگ جماعت کے صدر منتخب ہوئے اور نہ صرف جماعتی طور پر مقبول ہوئے بلکہ ملک بھر میں اپنی تبلیغی کاوشوں کی وجہ سے مشہور ہو گئے۔ اسی دوران ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام انہوں نے عمر رکھا۔
عالیہ صاحبہ اپنے احمدی سسرال میں رہتی تھیں جہاں انہوں نے اپنے سسرال اور شوہر سے چھپ کر جماعتی کتب کا مطالعہ شروع کیا۔ اسی دوران ان تک حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب ’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘ پہنچی جسے پڑھ کر وہ بہت متاثر ہوئیں۔ بعد ازاں اپنے گھر میں منعقد ہونے والی تربیتی کلاسوں میں شرکت کرنے لگیں۔ پھر ایک روز بنگالی صاحب، مکرم عبدالرحمن بنگالی صاحب جو وہاں مبلغ تھے ان کا لیکچر سنا جس میں انہوں نے مسیح کی صلیب سے نجات اور کشمیر کی طرف ہجرت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ بیان کیا۔ یہ لجنہ صدر لکھتی ہیں کہ آپ کہا کرتی تھیں کہ اس کے بعد میں نے چرچ جانا ترک کر دیا اور مسجد میں جانے لگ گئی اور بالآخر 1936ء میں احمدیت قبول کر لی۔ اپنا نام عالیہ کس طرح رکھا؟ کہتی ہیں ایک کتاب میں مَیں نے ایک نام عالیہ پڑھا تھا جو مجھے اچھا لگا۔ احمدی ہونے کے بعد میں نے اسی نام کو اپنا لیا۔
سسٹر عالیہ ہمیشہ علم کی جستجو میں رہنے والی تھیں۔ مسجد کی صفائی کرتے، کھانا پکاتے، نماز پڑھتے صرف یہ نہیں کہ علم حاصل کر رہی ہیں بلکہ ہمیشہ عاجزی سے وقار عمل بھی کیا کرتی تھیں۔ جماعتی کام بھی کیا کرتی تھیں۔ اپنے ہاتھ سے۔ مسجد کی صفائی کرنا، کھانا پکانا ان کے یہ کام تھے۔ پھر کہتی ہیں کہ ہم نے ان کو ہمیشہ نمازیں پڑھتے دیکھا۔ یہ اعلیٰ اخلاق کی باتیں ہیں۔ بیماروں کی تیمارداری کرتے دیکھا۔ چندوں کی ادائیگی ان کو کرتے دیکھا۔ ہر وقت نیکی کی کوئی نہ کوئی تحریک لجنہ میں یہ کرتی رہتی تھیں۔ لکھتی ہیں کہ مرحومہ کی ساری توجہ لجنہ کے آپس میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا کرنے میں مرکوز تھی جس کے لئے اپنی آخری عمر میں انہوں نے لجنہ کو مخاطب کر کے متعدد خطوط لکھے۔ صدر لجنہ لکھتی ہیں کہ ایک آیت وہ بڑی دہرایا کرتی تھیں جو میں نے ان سے سنی ہے کہ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ۔ (الصف5:)کہتی ہیں یہ ہمیشہ دہراتی رہتی تھیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ یقیناً ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر قتال کرتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
صدر لجنہ نے لکھا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے امریکہ میں مسجد فنڈ کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح مسلم سٹوڈنٹس سکالرشپ فنڈ کا آغاز کیا۔ ان کی صدارت میں سب سے پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا۔ اسی طرح نیشنل تبلیغ ڈے کا آغاز بھی انہوں نے کیا جس میں لجنہ قرآن کریم کے ہزاروں نسخے، تبلیغی لیف لٹس، تعارفی پمفلٹس ملک کی لائبریریوں میں بھجوایا کرتی تھیں۔ انہوں نے لجنہ کا ایک میگزین بھی شروع کیا جس کا نام اس وقت کی جو پوری دنیا کی صدر لجنہ تھیں حضرت چھوٹی آپا مریم صدیقہ صاحبہ، انہوں نے’عائشہ ‘ (Ayesha)رکھا تھا۔ انہوں نے ان سے نام رکھوایا۔ انہوں نے The path of faith اور Our Duties کے نام سے لجنہ کا لائحہ عمل بھی شائع کیا۔ ان کی تحریک پر امریکہ کی لجنہ ممبرات نے ڈنمارک میں بننے والی مسجد کے لئے بڑھ چڑھ کر قربانی کی۔ اسی طرح بالٹی مور، پِٹس برگ وغیرہ کے مشن ہاؤسز کی آرائش وغیرہ کے لئے بھی فنڈز مہیا کئے۔ یہ کہتی ہیں کہ سسٹر عالیہ بتایا کرتی تھیں کہ چونکہ اس دَور میں 98 فیصد لجنہ نئی نئی بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئی تھیں اس لئے ہم شروع میں لجنہ کو صرف نمازیں ادا کرنے اور رمضان میں روزے رکھنے کی تلقین کرتے تھے۔ اسی طرح فورًا حجاب پہننے کی بجائے پہلے کچھ سال تک صرف مناسب لباس کی طرف توجہ دلاتے تھے کہ اپنے لباس کو پہلے حیادار کرو پھر اگلا step آئے گا کہ حجاب لو، پردہ کرو۔ یہ نہیں ہے کہ آجکل کی طرح جو لجنہ میں شروع ہوگیا ہے کہ جو پردہ کرتی ہیں انہوں نے اپنے پردے اتار دئے ہیں۔ انہوں نے سٹیپ وائز (stepwise) لجنہ کو ایک سٹیج سے دوسری سٹیج میں لانے کے لئے کوشش کی، تربیت کی۔
پھر سسٹر عالیہ نے تمام لجنہ ممبرات کو قرآن کریم ناظرہ سکھانے میں بہت کوشش کی۔ روزانہ قرآن کریم پڑھانے کے لئے پروگرام بنائے۔ اسی طرح جو لجنہ ناظرہ مکمل کر لیتی تھیں ان کو روزانہ تفسیر کا کچھ حصہ پڑھنے کی طرف توجہ دلائی جاتی۔ عالیہ صاحبہ کی کوشش سے ناصرات کا سلیبس بھی بنایا گیا۔ ناصرات میں دینی علوم سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ مرحومہ نے ممبرات میں قربانی کی روح پیدا کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اسی طرح چندہ جات کا حساب بھی بڑے ماہرانہ طریقے پر منظّم رکھتی تھیں۔
جب ان سے ایک دفعہ جماعت میں داخل ہونے کے بارے میں آنے والی مشکلات کے بارے میں پوچھا گیا تو کہتی تھیں کہ میں نے جماعت میں شمولیت کے بعد بہت سے ابتلا دیکھے ہیں۔ لیکن میں نے کمزوری دکھانے کے بجائے ہمیشہ استقامت دکھانے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی کوشش کی ہے اور یہی وہ سبق ہے جو لجنہ کو گزشتہ پچاس سال سے زائد عرصہ سے میں دیتی رہی ہوں۔ یہ لکھتی ہیں کہ ان کی شخصیت استقامت کا مینار تھی جس سے ہم سب رہنمائی لیتے ہیں۔ پھر لکھتی ہیں کہ دین اسلام کے ساری دنیا پر غالب آنے کے متعلق ان کو یقین کامل تھا اور کہا کرتی تھیں کہ جب فتح اسلام آئے گی تو جماعت احمدیہ کا جو ماٹو ہے، جو نعرہ ہے کہ ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ یہی دنیا میں راج کرے گا۔ اسی طرح ان کا نظام خلافت پر بھی کامل یقین تھا اور وہ اسے ہی فتح اسلام کی کنجی قرار دیا کرتی تھیں۔ یہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ نظام خلافت قائم رہے گا اور انشاءاللہ اسی سے فتح ہو گی۔ پھر لکھتی ہیں کہ سینکڑوں فون کالز اور خطوط کے ذریعہ وہ ممبرات تک اس پیغام کو پہنچانے اور سمجھانے کی کوشش کرتی تھیں۔
23؍مارچ 2008ء کو یوم مسیح موعود پر انہوں نے لجنہ کو جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ اس سال یکم جنوری 2008ء کو ساری دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والے اپنی مساجد اور مشن ہاؤسز میں اکٹھے ہوئے اور شکرانے کے طور پر نماز تہجد ادا کی۔ ہم ایسا کیوں نہ کرتے کہ یہی تو وہ سال ہے جس میں ہمارے پیارے مسیح موعودؑ کی پیاری خلافت کو قائم ہوئے ایک سَو سال ہوئے ہیں۔ پھر آگے لکھتی ہیں کہ اے میرے اللہ! احمدیت کی راہ میں حائل تمام روکوں کو دور فرما اور ہمیں وہ فتح دکھا دے جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے۔ ہمارے مسیح موعودؑ نے اس جماعت کی بنیاد رکھی اور ہم سب کو جوڑ کر ایک جسم بنا دیا۔ اسی واسطے ہم احمدی ایک دوسرے کا درد محسوس کرتے ہیں۔ ابتلاؤں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ ایک کی خوشی پر دوسرا خوش ہوتا ہے اور ایک کی پریشانی پر دوسرا غمزدہ ہوتا ہے۔ ہم اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ ایک ہیں ۔ پھر انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا ہے جو نومبائعین کو دیا اور وہاں سب احمدی لجنہ کو کہ اللہ کا مجھ پر خاص فضل ہے کہ میں خوش نصیب ہوں کہ میں نے جماعت کی ترقی اپنی زندگی میں دیکھی ہے۔ ہم پر اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ہماری جماعت کو اسلام کی اشاعت کے لئے اور خدمت کے لئے چن لیا ہے۔ ہم ہر ہفتے خلیفۂ وقت کی آواز کو سن سکتے ہیں اور اس کی ہدایات پر عمل کر کے دین و دنیا کی ترقیات پا سکتے ہیں۔ پھر آخر میں انہوں نے لکھا۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اے میرے مولیٰ! فتح اسلام میں حائل تمام روکوں کو دور فرما دے۔ ہماری ذات کو اپنے دین کی صحیح عکاسی کرنے والا بنا دے اور ہمیں بے شمار ناصر دین عطا کر۔ تو اس طرح لجنہ کو خاص طور پر وہاںامریکہ کے جو حالات ہیں اس میں جو نومبائعات ہیں، افریقن امریکن ہیں ان کو اکٹھا کرنے میں ان کا بڑا کردار ہے۔
آپ کے بیٹے عمر شہید صاحب جو پِٹس برگ کے صدر جماعت ہیں۔ لکھتے ہیں کہ میرے والدین احمدیت اور خلافت کے ذریعہ اسلام کا دفاع کرنے والے سپاہی تھے۔ میری والدہ مستقل مزاجی کے ساتھ آپ کو خط لکھا کرتی تھیں۔ مجھے لکھ رہے ہیں وہ۔ اور مجھے بھی اس طرف توجہ دلاتی تھیں کہ خلیفۂ وقت کو خط لکھو اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ دعا کرو کہ میں اور میری اولاد مرحومہ کے نقش قدم پر چلنے والی ہو۔ لکھتے ہیں کہ جماعت کے لوگوں نے جس کثرت کے ساتھ میری والدہ کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے مجھے پہلے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ کس قدر وسیع پیمانے پر جماعت میں ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔
وہاں کی مقامی ایک اَور احمدی، امریکن سسٹر عالیہ عزیز لارڈ ہیں۔ کہتی ہیں کہ اسلام احمدیت قبول کرنے کے بعد انہوں نے یعنی عالیہ شہید نے بطور احمدی ایک مثالی زندگی گزاری۔ جب وہ سیکرٹری تعلیم تھیں تو ان کی وجہ سے کسی کا دل نہیں کرتا تھا کہ ان کے بنائے ہوئے تعلیمی ٹیسٹ میں فیل ہو اس لئے ہم سب اکٹھے مل کر ٹیسٹ کے لئے تیاری کیا کرتے تھے۔ کہتی ہیں عمر میں مجھ سے بہت بڑی تھیں لیکن پھر بھی میرے ساتھ دوستانہ تعلق تھا۔ ایک بات کہتی ہیں ان میں مَیں نے دیکھی ہے کہ جب کبھی کوئی علمی سوال ان سے کیا جاتا تو بجائے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے، ادھر ادھر مارنے کے، ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے وہ ہمیشہ اسلامی تعلیم جو ہے اس بارے میں بتایا کرتی تھیں۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا پختہ تعلق تھا جس کی وجہ سے لوگ ان کی طرف کھچے چلے آتے تھے۔
پھر سسٹر جمیلہ حامد ہیں، اہلیہ حامد منیر صاحب ہیں۔ یہ بھی مقامی امریکن احمدی ہیں۔ یہ لکھتی ہیں کہ مجھے بہت پسند کرتی تھیں۔ اور ہمیشہ مجھے بتاتی تھیں کہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔ کہتی ہیں میری والدہ کی وفات پرانہوں نے مجھے محبت بھرا خط لکھا جس کی بدولت مجھے موت کا فلسفہ سمجھنے میں مدد ملی۔ فرشتہ سیرت تھیں۔ جب بھی مدد اور مشورے کی ضرورت ہوتی ان کو بس ایک فون کال کی دوری پر پایا۔ ہمیشہ مجھے بتاتیں کہ زندگی کا مقصد جماعت کی خدمت کرنا اور خلیفۂ وقت سے محبت کرنا ہونا چاہئے کہ یہی اس زمانے میں حبل اللہ ہے۔ ان کے یقین کامل اور خدا تعالیٰ سے گہری محبت کو میں ہمیشہ رشک کی نگاہوں سے دیکھتی تھی۔ ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انہیں موت سے ڈر لگتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ جانا تو اپنے محبوب کے پاس ہی ہے تو پھر ڈر کس بات کا۔ ان کو اسلام اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے پیغام کا گہرا علم تھا جسے تمام عمر انہوں نے لوگوں تک پہنچایا۔
پھر ایک اور مقامی امریکن احمدی ڈاکٹر رشیدہ احمد ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ خود اسلامی تعلیمات پر بڑی سختی سے عمل کرتی تھیں لیکن دوسروں کو بڑے پیار سے نصیحت کیا کرتی تھیں۔ ان کی ہر نقل و حرکت میں محبت الٰہی جھلکتی تھی۔ کہتی ہیں مجھے ایک سے زائد مرتبہ ان کے گھر ٹھہرنے کا اتفاق ہوا اور ہم ساتھ نماز پڑھتے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے جس کے بعد وہ مجھے خلفائے سلسلہ کی طرف سے آنے والے خطوط بڑی محبت اور چاہت سے دکھاتی تھیں۔ خلافت کے ساتھ ان کی محبت کا اندازہ ان کی لکھی ہوئی نظموں اور تقریروں کو سن کر بخوبی ہو سکتا ہے۔ کہتی ہیں وہ نظمیں بھی لکھتی تھیں اور بڑے صبر والی تھیں۔ ہر مہینہ میں ان کو کال کر کے حال پوچھتی۔ ان کی گرتی ہوئی صحت کے بارے میں کہتی تو کبھی انہوں نے شکوہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کرتی اور شکر کرتی تھیں۔
پھر اسی طرح ایک مقامی امریکن احمدی ہیں سسٹر عزیزہ، الحاج رشید کی اہلیہ ہیں وہ کہتی ہیں کہ سسٹر عالیہ شہید صاحبہ ’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘ کی مجسم تصویر تھیں گو کہ وہ دوسرے شہر میں رہتی تھیں لیکن پھر بھی میری والدہ کے ساتھ ان کی بہت دوستی تھی۔ میری والدہ کی وفات کے بعد بھی انہوں نے یہ تعلق ختم نہیں کیا۔ مجھے ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ شاید عالیہ صاحبہ کو پتہ ہے کہ کب مَیں سست ہوتی ہوں تو فورًا ایمان افروز خط بھجوا دیا کرتی تھیں۔
پھر ایک اور لجنہ ممبر خلّت صاحبہ لکھتی ہیں۔ 1949ء میں جب میں پہلی دفعہ امریکہ آئی تب عالیہ صاحبہ کے ساتھ تعارف ہوا۔ میں اس وقت آٹھ سال کی تھی جب میں پہلی دفعہ ان سے ملی۔ بہت محبت کرنے والی، ملنسار اور اچھا اثر چھوڑنے والی شخصیت کی حامل تھیں۔ خلافت کے ساتھ بہت دیرینہ اور پختہ تعلق تھا۔ اکثر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اپنی خط و کتابت کا ذکر کیا کرتی تھیں۔ لجنہ اماء اللہ امریکہ کے لئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ عجیب روحانی شخصیت تھی اور سَو سال عمر ہونے کے باوجود بھی جلسہ میں شمولیت اختیار کرتی تھیں جو کہ ہم سب کے لئے نمونہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسل میں بھی وہ روح اور خدمت دین کا جذبہ پیدا فرمائے جو ان میں تھا جیسا کہ ان کے بیٹے نے بھی اس کا اظہار کیا ہے۔