داستانِ فتحِ عظیم (بزبان الیگزنڈر ڈووی، بانی شہرِ صیہون)
مِری شکست کو سو سال سے زیادہ ہوئے
جہان میں مِرا بہروپ بے لبادہ ہوئے
میں خود کو مثلِ مسیحا قرار دیتا تھا
ہر ایک دکھ کا مداوا قرار دیتا تھا
ہزاروں لوگ مرے دام کے اسیر ہوئے
ذرائع شوکت و ثروت بھی بے نظیر ہوئے
سو ایک شہر بسایا تھا ہم خیالوں کا
کہ وقت تھا وہ مرے بخت کے اجالوں کا
پھر ایک روز مرے نام اِک پیام آیا
کہ ہند میں ہے محمدؐ کا اِک غلام آیا
اور اختتام پہ لکھا غلامِ احمدؐ تھا
مری نگاہ میں کھٹکا یہ نامِ احمدؐ تھا
اسے تھا دعویٰ مسیح الزمانؑ ہونے کا
خدا کی ذات کا زندہ نشان ہونے کا
لکھا تھا دنیا میں اب ایک ہی مسیحا ہے
جو ہر نجات کا اب آخری ذریعہ ہے
مسیح ایک ہی دنیا میں فتحیاب ہوگا
تو دوسرے کا مقدر فقط عذاب ہوگا
سو میں نے طیش میں مکتوب پھاڑ ڈالا تھا
کہ میرا دعویٰ مری شان کا حوالہ تھا
پر اُس کے بعد میں یوں ٹوٹتا بکھرتا گیا
مِرا وجود، عدم کی طرف سرکتا گیا
اور اُس مسیح کا ہر ٹوٹا کام بننے لگا
پھر اُس کا ڈنکا زمانے میں خوب بجنے لگا
بنا بنایا مرا کام ٹوٹ پھوٹ گیا
غرور ہی مرے جاہ و حشم کو لوٹ گیا
خدایا آج مرے شہر میں چراغاں ہے
گلی گلی مری بستی کی جشن ساماں ہے
صدائے جشن مری گور تک جو آتی ہے
تو میری روح ندامت میں ڈوب جاتی ہے
سنا ہے احمدِؑ ہندی کا لعل آیا ہے
اور اُس کے نام کا پرچم بھی لہلہایا ہے
کبھی جو تخت مرا تھا، اب اُس کی مسجد ہے
سو شہر بھر کی فضا، تہنیت کی قاصد ہے
کلیدِ قریۂ صیہون اُس کے ہاتھ میں ہے
کمانِ باطن و بیرون اُس کے ہاتھ میں ہے
بس ایک بار لحد سے اگر نکل پاؤں
تو اُس مسیح کی مسجد کے سامنے جاؤں
لگاؤں نعرہ، کہ ہو جے غلامِ احمدؑ کی
یہ سرزمین ہوئی ہے غلامِ احمدؑ کی
مجھے اگر کوئی شک تھا، تو ہو گیا ہے دُور
کہ آج فیصلہ لائے ہیں حضرتِ مسرور
لو میں بھی کہتا ہوں، فتحِ عظیم اُس کی ہے
یہ باغ اُس کا ہے، بادِ نسیم اُس کی ہے