تفسیرسورۃ القریش
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے
خلفاءِ کرام کی بیان فرمودہ تفاسیر سے انتخاب
(قسط نمبر 3۔ آخری)
٭ ان معنوں سے پھر احمدیوں کے لئے ایک سبق نکلتا ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا مکّہ والوں پر خداتعالیٰ کا کوئی زیادہ احسان تھا۔ جس طرح ان کو خداتعالیٰ نے ناک کان اور منہ دیئے تھے اسی طرح ہم کو اس نے ناک کان اور منہ بخشے ہیں۔ جس طرح اُن کو قویٰ عطا کئے گئے تھے اسی طرح ہم کو قویٰ دیئے گئے ہیں۔ جو علوم اُن کو دیئے گئے تھے وہی علوم ہم کو دیئے گئے ہیں۔ جو قرآن اُن کو دیا گیا تھا وہی قرآن ہم کو دیا گیا ہے۔ اس میں سے کوئی حصہ کم تو نہیں کر دیا گیا۔ اگر مکّہ والوں کو اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ تم اپنے سارے کام کاج چھوڑکر محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف توجہ کرو اور اپنے تمام اوقات خدمتِ دین میں صَرف کرو تو یہ حکم مکّہ والوں کےساتھ کوئی مخصوص تو نہیں تھا۔ جو حالت اُن کی تھی وہی حالت ہماری ہے۔ اور جو صداقت ان کے پاس تھی وہی صداقت ہمارے پاس ہے۔ جب ہماری جماعت دعویٰ کرتی ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنی تمام صداقتوں کا احیاء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ فرمایا ہے تو سورۂ اِیلاف میں جس صداقت کو پیش کیا گیا ہے لازماً ہمیں اس صداقت کا بھی از سرِ نو احیاء کرنا پڑے گا۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سورۃ میں تو قریش مخاطب کئے گئے ہیں ہم ایسا کیوں کریں۔ اس لئے کہ ہماری جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کو دوبارہ ظلّی رنگ میں مبعوث فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت درحقیقت محمد رسول اللہ ﷺ کی ہی بعثت ثانیہ ہے۔ جب ہماری جماعت یہ تسلیم کرتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام محمد رسول اللہ ﷺ کے ظل کامل ہیں تو ہماری جماعت کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ بیت اللہ کا ظل وہ مقام ہے جہاں خدا تعالیٰ کا نام روشن ہوتا ہے اور صحابہ کا ظل وہ جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا چکی ہے۔ اس صورت میں جو فرائض اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیت اللہ میں رہنےو الوں پر عائد ہو چکے ہیں یقیناً وہی فرائض ہماری جماعت پر بھی عائد ہوتے ہیں۔ دنیا میں بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ جب باپ مر جاتا ہے تو تمام بھائیوں میں سے بڑا بھائی اس کا قائم مقام بن جاتا ہے۔ اُس وقت کوئی نہیں پوچھتا کہ ہمارا یہ بڑا بھائی باپ کا قائم مقام کس طرح بن گیا۔ کیونکہ عقل کہتی ہے کہ جب اصل سامنے نہ ہو تو بہرحال اس کا کوئی ظل ہونا چاہئے ۔اور پھر عقل یہ بھی کہتی ہے کہ جو ذمہ واریاں اصل پر عائد ہوتی ہیں وہی ذمہ واریاں ظِل پر بھی عائد ہوں گی۔
پس ہماری جماعت جب ظلّی رنگ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی ہی جماعت ہے اور ظلِّ محمد پر ایمان لا کر ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی جماعت میں شامل ہو چکے ہیں تو ہمیں بھی ان آیات کا اپنے آپ کو ویسا ہی مخاطب سمجھنا پڑے گا جیسے صحابہؓ مخاطب تھے۔ اور ہمیں بھی وہی کچھ کرنا پڑے گا جو صحابہؓ نے کیا۔ اللہ تعالیٰ ان آیات میں زمانۂ محمدی کے لوگوں سے کہتا ہے فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ۔ تم کو چاہئے کہ تم عبادتوں میں اپنا وقت لگاؤ اور ذکر الٰہی کی عادت ڈالو۔ یہی کام احمدیوں کا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ احمدیوں نے اب تک اس مقام کو نہیں پایا۔ کتنے احمدی ہیں جو اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔ بے شک دوسروں سے زیادہ چندہ دینے والے احمدی موجود ہیں مگر چندہ سے تو دین نہیں پھیلتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ۔ دین کی ترقی تو نفس کی صفائی اور عبادت کی کثرت سے ہوتی ہے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ ذکر الٰہی اور عبادت کی طرف بہت ہی کم توجہ ہے۔ فرض نمازیں بیشک وہ دوسروں سے زیادہ ادا کرتے ہیں مگر ذکرِ الٰہی کرنا، مساجد میں بیٹھنا، راتوں کو اٹھ کر تہجد ادا کرنا، اعتکاف کرنا۔ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے اور جو نفس کی اصلاح کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ مگرہماری جماعت کی توجہ ان کی طرف بہت کم ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعائیں کیں ان میں بھی آتا ہے کہ الٰہی تیرے لئے اعتکاف کرنے والے لوگ اور تیری عبادت میں اپنا وقت گزارنے والے لوگ میری اولاد میں ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ احمدیوں کی اس طرف بہت کم توجہ ہے حالانکہ جب تک ان باتوں کی طرف توجہ نہ ہو انسان کا نفس کبھی جِلا نہیں پاتا۔ جِلاءِ نفس ہمیشہ ذکرِ الٰہی سے ہوتا ہے۔
نمازوں کے متعلق بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ اس امر کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی کہ نمازیں آہستگی کے ساتھ پڑھیں۔ لوگ سنّتیں جلدی جلدی ختم کر کے مسجد سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب فرض نماز ختم ہوتی ہے اور سنّتیں پڑھنے کا وقت آتا ہے تو جھٹاپٹ ایک دوڑ شروع ہو جاتی ہے جو نہایت نامناسب اور اسلامی تعلیم کے خلاف حرکت ہے۔ ہماری جماعت کے دوستوں کا فرض ہے کہ وہ ٹھہر ٹھہر کر نمازیں پڑھا کریں اور اپنے اوقات کا ایک بڑا حصہ ذکر الٰہی اور دعاؤں میں صَرف کیا کریں اور دوسرے مسلمانوں سے بھی انہیں یہی کہنا چاہئے کہ وہ عبادت اور ذکر الٰہی پر زور دیں، کیونکہ اسلام کی اصل ترقی ذکر الٰہی اور عبادت پر زور دینے سے ہی ہو گی۔
آج کل کے لوگ مغربی تہذیب کے ماتحت یہ سمجھتے ہیں کہ ذکرِ الٰہی وغیرہ کرنا اور مصلّے پر بیٹھے رہنا وقت کو ضائع کرنا ہے۔ حالانکہ یہ مصلّے پر بیٹھ کر ذکر الٰہی کرنے والے ہی تھے جنہوں نے بارہ سال کے اندر اندر آدھی دنیا تہ و بالا کر دی۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ مصلّٰے پر بیٹھنے سے وقت ضائع نہیں ہوتا بلکہ انسان کو ایسی برکت ملتی ہےکہ وہ بڑے بڑے کام تھوڑے سے وقت میں کر لیتا ہے۔ پس مصلّٰے پر بیٹھنے کے معنے نکمّا پن کے نہیں بلکہ درحقیقت اس سے ایسی مہارت پیدا ہو جاتی ہے اور دل میں اس قسم کا نور پیدا ہو جاتا ہے کہ تھوڑے سے وقت میں انسان بڑے بڑے کام کر لیتا ہے۔ اگر تین گھنٹے وہ ذکر الٰہی میں مصروف رہتا ہے تو بیشک بظاہر اس کے تین گھنٹے وقت میں سے کم ہو جائیں گے مگر انہی تین گھنٹوں کی بدولت وہ آٹھ گھنٹوں میں وہ کچھ کام کر لے گا جو باقی 24 گھنٹوں میں بھی نہیں کر سکیں گے۔ پس عبادت کی کثرت، تہجد اور ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ کرو اور اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرو۔ مَیں بتا چکا ہوں کہ ابھی ہماری جماعت میں بہت تھوڑے لوگ ہیں جنہوںنے خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہوں اور پھر جو اپنی زندگیاں وقف کر چکے ہیں ان میں سے بھی ایک حصہ ایسا ہے جو اپنے فرائض کو نہیں سمجھتا…۔
٭ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام خداتعالیٰ نے ابراہیمؑ بھی رکھا ہے جس سے خداتعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ آپ کی اولاد اسماعیلی نمونہ کو اختیار کرے اور دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے۔ اس کے بعد خدا انہیں زیادہ دے تو وہ زیادہ قبول کر لیں اور اگر کم دے تو کم پر راضی رہیں ۔یہ خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمّت میں سے بعض فاقہ زدہ نبی بھی ہوئے ہیں اور حضرت سلیمانؑ جیسے بادشاہ بھی گزرے ہیں جن کے لشکروں اور نوکروں کی تعداد ہی ہزاروں تک پہنچتی تھی۔ میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ جماعت کے سفلی طبع لوگ یا منافق طبقہ ان کو تو ادنیٰ نگاہ سے دیکھتا ہے جو دین کی خدمت کرتے ہیں اوران کی تعریف کرتا ہے جو دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ میں خوب سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کا ایک حصہ جاہل ہے اور دوسرا منافق جو اس طرح جماعت کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ خداتعالیٰ کا فعل ایک دن ایسے سب لوگوں کو خس کم جہاں پاک کر دے گا۔ کیونکہ مومنوں کا دَور ابھی آنا ہے۔ بہرحال میں جماعت کو یہ انتباہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس بارہ میں ہماری جماعت خطرناک کوتاہی کا ارتکاب کر رہی ہے۔ دین کی خدمت کے لئے جتنے لوگوں کو اپنی زندگی وقف کرنی چاہئے اتنے لوگ اپنی زندگی وقف نہیں کر رہے اور پھر جو زندگی وقف کرتے ہیں وہ بھی اپنے فرائض کو پورے طور پر ادا نہیں کر رہے۔ حالانکہ جب تک اس امر کی طرف توجہ نہیں ہو گی ہمارا کبھی بھی وہ پیمان پورا نہیں ہو گا جو ہم خدا کے ساتھ بیعت کے وقت کرتے ہیں۔ اور جب تک ہم اپنے پیمان کو پورانہیں کرتے اس وقت تک خداتعالیٰ کا ہمارے متعلق جو عہد ہے اس کے بھی ہم کبھی حقدار نہیں ہو سکتے۔
٭ اب مَیں پھر نفسِ مضمون کی طرف آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ نتیجہ ہے لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ کا۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اہل مکّہ سے احسان اور سلوک اسی لئے کیا تھا کہ وہ ہماری عبادت کرتے۔ آخر کیا حق تھا ان کا ہم پر کہ ہم دوسروں کے مقابلہ میں ان سے نمایاں سلوک کرتے۔ کیا یورپ والے ہمارے دشمن تھے۔ کیا ہندوستان والے ہمارے دشمن تھے؟ کیا حبشی ہماری مخلوق نہیں تھے؟ پھر کیوں ہم نے ان کی ترقی کا خاص سامان کیا؟ اسی لئے کہ وہ ہمارے گھر کے پاس رہتے ہیں۔ تا ایسا نہ ہو کہ انہیں روٹی کی تکلیف ہو اور وہ اس مقام کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ مگر دیکھو ہم تو انہیں روٹی دیتے رہے مگر انہوں نے ہمارا خیال نہ رکھا حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ اس احسان کے بدلے میں وہ رَبُّ الْبَیْت کی عبادت کرتے اور ہمارے احسانات کی قدر کرتے۔
٭ یہاں رَبُّ الْبَیْت کیوں کہا ہے؟ صرف بَیْتکیوں نہیں کہا۔ اس لئے کہ قرآن کریم اس بات کا قائل نہیں کہ کوئی بے جان چیز اپنے اندر طاقتیں رکھتی ہے۔ وہ طاقتوں کا مالک صرف خداتعالی کو سمجھتا ہے۔ پس توحید کامل کا سبق دینے کے لئے یہاںرَبُّ الْبَیْتکے الفاظ رکھے گئے ہیں۔ یعنی مکّہ والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ اِس بیت کی وجہ سے انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ حالانکہ یہ اعزاز انہیں بَیت کی وجہ سے نہیں بلکہ رَبُّ الْبَیْت کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ گویا نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ خانۂ کعبہ نے کچھ کیا ہے۔ خانۂ کعبہ کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ مٹی کا ایک مکان ہے اور اس میںیہ طاقت ہرگز نہیں کہ وہ کسی کو کوئی فائدہ پہنچا سکے۔ اس گھر کا ربّ ہے جو سب طاقتوں کا مالک ہے۔ احادیث میں آتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ طواف کر رہے تھے کہ آپ حجرِ اسود کے پاس سے گزرے اور آپ نے اسے اپنی سوٹی ٹھکرا کر کہا مَیں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے اور تجھ میں کچھ بھی طاقت نہیں۔ مگر میں خدا کے حکم کے ماتحت تجھے چومتا ہوں۔ یہی جذبۂ توحید تھا جس نے ان کو دنیا میں سربلند کیا۔ وہ خدائے واحد کی توحید کے کامل عاشق تھے۔ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ اس کی طاقتوں میں کسی اور کو شریک کیا جائے ۔بے شک وہ حجرِ اسود کا ادب بھی کرتے تھے مگر اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے اس کا ادب کرو۔ نہ اس لئے کہ حجرِ اسود کے اندر کوئی خاص بات ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خداتعالیٰ ہمیں کسی حقیر سے حقیر چیز کو چُومنے کا حکم دے دے تو ہم اس کو چُومنے کے لئے بھی تیار ہیں کیونکہ ہم خداتعالیٰ کے بندے ہیں، کسی پتھر یا مکان کے بندے نہیں۔ پس وہ ادب بھی کرتے تھے اور توحید کو بھی نظرانداز نہیں ہونے دیتے تھے اور یہی ایک سچے مومن کا مقام ہے۔ ایک سچا مومن بیتُ اللہ کو ویسے ہی پتھروں کا ایک مکان سمجھتا ہے جیسے دنیا میں اور ہزاروں مکان پتھروں کے بنے ہوئے ہیں۔ ایک سچا مومن حجرِ اسود کو ویسا ہی پتھر سمجھتا ہے جیسے دنیا میں اور کروڑوں پتھر موجود ہیں مگر وہ بیتُ اللہ کا ادب بھی کرتا ہے، وہ حجرِ اسود کو چومتا بھی ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرے رب نے ان چیزوں کے ادب کرنے کا مجھے حکم دیا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ اس مکان کا ادب کرتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ حجرِ اسود کو چومتا ہے، پھر بھی وہ اس یقین پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے کہ میں خدائے واحد کا بندہ ہوں ،کسی پتھر کا نہیں۔ یہی حقیقت تھی جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اظہار فرمایا۔ آپ نے حجر اسود کو سوٹی ماری اور کہا مَیں تیری کوئی حیثیت نہیں سمجھتا۔ تُو ویسا ہی پتھر ہے جیسے اور کروڑوں پتھر دنیا میں نظر آتے ہیں۔ مگر میرے رب نے کہا ہے کہ تیرا ادب کیا جائے اس لئے میں ادب کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھے اور اس پتھر کو بوسہ دیا۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ خدا نے تیرا ادب سکھایا ہے اس لئے مَیں ادب کرتا ہوں ورنہ تیرے اندر ذاتی طو رپر کوئی ایسی طاقت نہیں جس کی بناء پر تجھے چوما جا سکے۔ جب اس احساس کے ساتھ ہم حجرِ اسود کو چومتے ہیں کہ ہمارے خدا نے اس کو چومنے کا حکم دیا ہے ورنہ وہ ایک معمولی پتھر ہے تو ہم توحید پر قائم ہوتے ہیں۔ اور جب ہم اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس پتھر کو کسی خاص خوبی کا مالک سمجھ لیتے ہیں تو ہمارا یہی فعل مشرکانہ فعل بن جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے حجر اسود کو چوما مگر وہ مشرک نہیں تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حجر اسود اپنی ذات میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ میرے رب کا حکم مجھے لایا اور میں نے اسے چوما۔ لیکن اگر کوئی دوسرا شخص حجر اسود کو چومتا ہے اور دل میں سمجھتا ہے کہ حجرِ اسود میں کوئی خاص بات ہے جس کی وجہ سے اسے چوما جاتا ہے تو وہی شخص مشرک بن جائے گا۔ اگر ایک شخص خانہ کعبہ کا اس لئے طواف کرتا ہے کہ میرے خدا نے اس کے طواف کرنے کا حکم دیا ہے تو وہ بڑا موحّد ہے۔ اور اگرکوئی شخص خانۂ کعبہ کا اس لئے طواف کرتا ہے کہ اس گھر میں کوئی خاص طاقت ہے تو وہ مشرک ہے۔ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ تم سمجھتے ہو اس بَیت کی وجہ سے تمہیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ احمقو! یہ سب کچھ اس بَیت نے نہیں کیا بلکہرَبُّ الْبَیْت نے کیا ہے۔ اس گھر کو تو خدا نے محض ایک علامت کے طور پر مقرر کیا ہے۔ جیسے پرانے زمانہ میں دستور تھا کہ بادشاہ کسی بکرے یا اونٹ وغیرہ پر اپنا نشان لگا کر اسے آزاد چھوڑ دیتے تھے اور کسی کی طاقت نہیں تھی کہ اس کو نقصان پہنچا سکے اور اگر کوئی اس کو نقصان پہنچاتا تو اس کے معنے یہ ہوتے تھے کہ بادشاہ کی ہتک کی گئی ہے۔ چنانچہ جب کوئی مخالف بادشاہ اس بکرے یا اونٹ کو مار ڈالتا تو اس سے لڑائی شروع ہو جاتی تھی۔ اس لئے نہیں کہ اس نے اونٹ کو مارا ہے۔ اس لئے نہیں کہ اس نے گھوڑے کو مارا ہے۔ اس لئے نہیں کہ اس نے بکرے کو مار اہے۔ اس لئے نہیں کہ اس نے دنبہ کو مارا ہے۔ بلکہ اس لئے کہ بادشاہ یہ سمجھتا تھا کہ اس نے میری ہتک کی ہے۔ اسی طرح بَیتُ اللہ کو خداتعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کی امّت کے لئے ایک مرکز اور اولادِ ابراہیم ؑ کو جمع رکھنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ پس وہ خدا کی ایک علامت ہے جو دنیا میں پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ اس گھر میں کوئی خاص بڑائی پائی جاتی ہے تو وہ مشرک ہے اور اگر کوئی شخص اس کی یہ سمجھ کر ہتک کرتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ نشانی نہیں تو وہ خدا کا بھی دشمن ہے۔ ایک سے وہ معاملہ کیا جائے گا جو مشرکوں سے کیا گیا اور دوسرے سے وہ معاملہ کیا جائے گا جو اصحاب الفیل سے کیا گیا۔ صرف اسی شخص کا نقطۂ نگاہ صحیح سمجھا جائے گا جو یہ سمجھتاہے کہ جو کچھ کیا رَبُّ الْبَیْت نے کیا ہے۔ بَیت نے نہیں کیا۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ۔ جو کچھ مکّہ والوں سے سلوک ہو رہا ہے اس کی وجہ ربُّ البیت کے سوا کوئی نہیں۔ اگر اس گھرکا کوئی ربّ نہ تھا تو اصحاب الفیل کو کس نے تباہ کیا۔ اگر ربُّ البیت نہ تھا تو مکّہ کی حفاظت اس طرح صدیوں تک کس نے کی۔ اگر ربُّ البیت نہ تھا تو مکّہ والوں کو رزق کس نے مہیا کیا۔ اگر ربُّ البیت نہ تھا تو ان کے ان سفروں میں یہ برکات کس طرح رکھی گئیں۔ اگر ربُّ البیت نہ تھا تو آنےو الے موعود کی یاد دلانے کے لئے جس کی خاطر یہ گھر بنایا گیا تھا مکّہ والوں کو ان ملکوں سے کس نے روشناس کروایا۔ پس جب تمہارے ساتھ جو کچھ سلوک کر رہا ہے خداتعالیٰ کر رہا ہے تو یہ کیسی قابلِ شرم حرکت ہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر لات اور منات اور عُزّیٰ کی پرستش کر رہے ہو اور سمجھتے ہو کہ خانۂ کعبہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہم جو جی چاہے کر لیں۔ ہمارے لئے جائز ہے۔ تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس خانۂ کعبہ کی عزت بھی ربُّ البیت کی وجہ سے ہے اور جب اس کی عزت بھی ربُّ البیت سے وابستہ ہے اور اسی نے تم کو ترقیات بخشی ہیں تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ تم شرک چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ گویا عبادت اور توحید دونوں پر اس آیت میں زور دیا گیا ہے۔
کہا جا سکتاہے کہ جھوٹے معبودوں اور مندروں اور پجاریوں کی بھی تو دنیا میں عزت کی جاتی ہے۔ پھر کیا وہ عزت بھی اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ بتوں نے ان کو عزت دی ہے۔ یعنی تم یہ کہتے ہو کہ اس خانۂ کعبہ کی عزت ربُّ البیت کی وجہ سے ہے حالانکہ دنیا میں ایسے مندر بھی موجود ہیں جن کی بڑی عزت کی جاتی ہے پھر کیا ان کی عزت بھی ان کے بتوں کی طرف منسوب ہو سکتی ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان بتوں نے ان کو عزت دی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جھوٹی اور سچی چیزیں ایک ہی وقت میں دنیا میں موجود رہتی ہیں۔ سونا بھی موجود ہوتا ہے اور ملمّع بھی موجود ہوتا ہے مگر کیا ملمّع کی وجہ سے لوگ سونے کو چھوڑ دیا کرتے ہیں؟ اسی طرح دنیا میں سِیپ کے بنے ہوئے موتی بھی موجود ہیں۔ اور اصلی موتی بھی موجود ہیں۔ نقلی ہیرا بھی موجود ہے اور اصلی ہیرا بھی موجود ہے۔ ایسی صورت میں ہم کیا کرتےہیں۔ کیا ہم اصلی چیزوں کو چھوڑ دیا کرتے ہیں یا ہم یہ کیا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسی امتیازی علامات ہیں جن پر پرکھ کر ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ جھوٹا کونسا ہے اور سچا کونسا ہے۔ ہم جھوٹے موتیوں کی وجہ سے اصلی موتیوں کو چھوڑانہیں کرتے۔ ہم جھوٹے ہیروں کی وجہ سے اصلی ہیروں کو چھوڑا نہیں کرتے۔ ہم جھوٹے سونے کی وجہ سے اصلی سونے کو چھوڑا نہیں کرتے۔ بلکہ ہم یہ کہا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسے امتیازی نشانات ہیں جن پر پرکھ کر ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ نقلی چیز کونسی ہے اور اصلی چیز کونسی۔ اسی طرح اس معاملہ میں بھی ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ یہ عزت جو خانۂ کعبہ کو حاصل ہوئی خداتعالیٰ کی طرف سے تھی یا نہیں اور اگر خداتعالیٰ کی طرف سے تھی تو اس کا امتیازی نشان کیا تھا جو اسے دوسرے معبدوں اور مندروں سے ممتاز کر دے۔
اسی کو ایک اَور مثال سے یوں سمجھ لو کہ ماں باپ بچے کو پالتے ہیں اور ماں باپ کی خدمت بچہ سے طبعی محبت کا ثبوت ہوتی ہے لیکن بعض دفعہ ٹھگ بچہ چرا کر لے جاتے ہیں اور بچہ کو آئندہ کی شرارت کی غرض سے پالتے ہیں۔ وہ اس کو بداخلاق، چور اور ڈاکو بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر بہرحال وہ پالتے محبت سے ہیں۔ اگر ماں باپ کی طرح محبت سے نہ پالیں تو وہ فوراً بھاگ جائے ۔گویا وہ محبت تو کرتے ہیں مگر ان کی محبت جھوٹی ہوتی ہے۔ اب کیا ان کا پالنا اس امر کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ ماں باپ کو بھی بچہ سے محبت نہیں ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اصلی اور نقلی چیزوں میں بڑا بھاری فرق پایا جاتا ہے اسی طرح جھوٹے معبودوں اور مندروں اور پجاریوں کی عزت اور اس عزت میں بڑا بھاری فرق ہے جو خانۂ کعبہ کو حاصل ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ خانۂ کعبہ اتفاقی طور پر معزز نہیںہو ابلکہ خانۂ کعبہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے الہام سے رکھی گئی۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے اَوّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ یہ سب سے پہلا گھر تھا جو سب دنیا کے فائدہ کے لئے بنایا گیا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ پرانے زمانے کے قومی مذہب ایسا گھر نہیں بنا سکتے جو سب دنیا کے لئے ہو۔ ایسا گھر خداتعالیٰ ہی کی طرف سے اور اسی کے الہام سے مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد زمانۂ ابراہیمی میں پھر خداتعالیٰ کے الہام کے مطابق اس کی عمارت کی تجدید ہوئی۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ مَیں خداکے لئے اس گھر کو بناتا ہوں اور اس لئے بناتا ہوں کہ یہاں لوگ آئیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، اس کے گھر کا طواف کریں، عبادت اور ذکر الٰہی میں اپنا وقت بسر کریں اور آنے والوں کی خدمت کریں۔ پھر انہوں نے دعا کی کہ خدایا تُو بھی اس گھر کو امن دیجیئو اور اس کے رہنے والوں کو اپنے پاس سے رزق دیجیئو اور پھر ان میں سےا یک نبی پیدا کیجیئو جو انہیں تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے۔ انہیں کتاب اور حکمت سکھائے۔ اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرے۔ یہ دعا تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھتے وقت کی۔ اُس وقت کی جب خانۂ کعبہ کی ترقی کے کوئی آثار نہ تھے۔ اس وقت کی جب اس کی آبادی کے کوئی آثار نہ تھے۔ اُس وقت کی جب وہ محض ایک وادی غیر ذی زرع تھے۔ اُس وقت کی جب اس میں پانی کا ایک گھونٹ اور گندم کا ایک دانہ بھی موجود نہیں تھا۔ پس اس کے بعد خانۂ کعبہ کی جو کچھ ترقی ہوئی اسے یقیناً ہم اس دعا اور پیشگوئی کی طرف منسوب کریں گے اور کہیں گے کہ یہ سلوک محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ اس کے مقابلہ میں دنیا میں بیشک لاکھوں مندر موجود ہیں مگر کیا ان میں سے کوئی ایک مندر بھی ایسا ہے جس کی ترقی کسی پیشگوئی کے ماتحت ہوئی ہو؟ یا کیا ان مندروں میں سے کوئی ایک مندر بھی ایسا ہے جس کو ماننے والے آج ہی اس قسم کی پیشگوئی دنیا میں شائع کر سکیں؟ اگر ان میں ہمت اور طاقت ہے تو وہ ایسی پیشگوئی کریں اور پھر دیکھیں کہ اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔
یوں کسی مندر کی عزت ہونا اور بات ہے اور پیشگوئی کے ماتحت عزت ہونا اور بات ہے۔ اگر ایک شخص کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے قبل از وقت کہہ دیتا ہے کہ ابھی زید آئے گا اور پھر واقعہ میں زید آجاتا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ دیکھو میری بات پوری ہو گئی۔ لیکن ایک اور شخص جو چپ کر کے بیٹھا رہتا ہے اگر وہ کہے کہ دیکھو میری بات پوری ہو گئی زید آگیا ہے تو ہر شخص اس پر ہنسے گا کہ تم نے یہ بات ہی کب کی تھی کہ زید کے آنے پر تم کہہ رہے ہو کہ میری بات پوری ہو گئی ہے۔ اسی طرح خانۂ کعبہ کی بنیاد رکھتے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پیشگوئی کی۔ اس میں یہ بھی ذکر تھا کہ خانہ کعبہ ترقی کرے گا۔ یہ بھی ذکر تھا کہ لوگ یہاں حج اور طواف کے لئے آئیں گے۔ یہ بھی ذکر تھا کہ لوگ یہاں بسیں گے۔ یہ بھی ذکر تھا کہ اس گھر کو محفوظ رکھا جائے گا اور کوئی دشمن اسے تباہ نہیں کر سکے گا۔ یہ بھی ذکر تھا کہ اس مقام پر رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق دیا جائے گا۔ جب ایک ایک کر کے تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئیں اور پھر مخالف حالات میں پوری ہوئیں تو یقیناً ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہے کہ خانۂ کعبہ سے جو کچھ سلوک ہوا وہ اتفاقی نہیں تھا بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ لیکن دوسرے مندروں میں سے اگر کسی کو کوئی عزت حاصل ہوئی ہے تو چونکہ اس کے ساتھ کوئی پیشگوئی نہیں تھی اس لئے اسے محض اتفاق پر محمول کیا جائے گا۔ پھر خانۂ کعبہ کا محل وقوع دیکھ لو ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسی جگہ یہ گھر بنایا جہاں کوئی آبادی نہیں تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسی جگہ یہ گھر بنایا جس کے اردگرد بھی میلوں میل تک کوئی آبادی نہیں تھی۔ حضرت ابراہیم السلام نے ایک ایسی جگہ یہ گھر بنایا جہاں پانی موجود نہیں تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسی جگہ یہ گھر بنایا جہاں کھیتی موجود نہیں تھی۔ گویا خدائی ہاتھ کا ثبوت دینے کے لئے جو جگہ ہر قسم کی ترقی کے سامانوں سے محروم تھی وہی جگہ اس گھر کے لئے تجویز کی گئی۔ پانی آبادی کے لئے ضروری ہوتا ہے مگر وہاں پانی نہیں تھا۔ کھیتی آبادی کے لئے ضروری ہوتی ہے مگروہاں کھیتی نہیں تھی۔ شہر اور اردگرد کی آبادی آبادی کے لئے ضروری ہوتی ہے مگر وہاں نہ کوئی شہر تھا اور نہ اس کے اردگرد کوئی آبادی تھی۔ ان حالات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر دنیا میں یہ اعلان کرنا کہ یہاں لوگ آئیں گے اور حج بیت اللہ کریں گے اور پھر لوگوں کا وہاں آنا اور حج بیت اللہ کرنا اور ایک غیرآباد مقام کا آباد ہو کر ایک بہت بڑا شہر بن جانا بتاتا ہے کہ جو کچھ ہوا ر بُّ البیت کی طرف سے ہوا۔ اس کے مقابلہ میں اتفاقی طور پر اگر کسی مندر کو شہرت حاصل ہو جاتی ہے تووہ ہرگز اس مندر کے کسی بُت کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ کب اس مندر کی عظمت کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی۔ کب یہ کہا گیا تھا کہ اس کی لوگوں میں شہرت ہو جائے گی اور کب کسی قوم اور مذہب نے اس دعویٰ کی سچائی پر اپنی عزت اور اپنی سچائی کی بازی لگائی تھی۔ پس اسے اگر شہرت حاصل ہوئی ہے تو محض اتفاقی طور پر۔ جیسے لنڈن ایک بہت بڑا شہر بن گیا۔ مگر اس کے لئے کوئی پیشگوئی نہیں تھی۔ نیویارک ایک بہت بڑا شہر بن گیا مگر اس کے لئے کوئی پیشگوئی نہیں تھی۔ بے شک وہ بہت بڑے شہر ہیں مگر ان کی ترقی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی۔ لیکن اگر لنڈن سے پچاسویں حصہ کے برابر بھی کوئی شہر اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق آباد ہوتا ہے تو ہم اسے اللہ تعالیٰ کا نشان قرا ر دیں گے۔ پس کسی مندر کی مقبولیت اور خانۂ کعبہ کی مقبولیت میں بڑا بھاری فرق ہے۔ خانہ کعبہ کی مقبولیت خدائی پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی ہے لیکن مندروں کی مقبولیت محض ایک اتفاقی امر ہے۔ جس طرح سونے کے مقابلہ میں ملمّع ہوتا ہے اسی طرح خانہ کعبہ کی عظمت کے مقابلہ میں کسی مندر کی عظمت یا اس کی ترقی بھی ایک ملمّع سے زیادہ اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ ۔ الَّذِيْ اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ وَاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ۔
٭ اس آیت نے اس مضمون کو بالکل واضح کر دیا ہے جس پر میں شروع سے زور دیتا چلا آرہا ہوں۔ میں نے بتایا تھا کہ یہاں اصل ذکر خدا کی خدائی اور اس کی طاقت و قوت اور اس کے فضل اورا حسان کا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے رِحْلَۃَ الشِّتَاءِ وَالصَّیْف کی محبت پیدا کی اور وہ خدا ہی ہے جس نے انہیں سفر کی سہولتیں مہیا کر کے عزت اور شہرت دی۔ اب اس آیت میں اوپر کے اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب قریش پر ہم نے اس قدر احسانات کئے ہیں تو کیا ان کا فرض نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ اس خدا کی عبادت اَلَّذِيْ اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ جس خدا نے انہیں بھوک پر کھانا کھلایا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دیا۔
٭ عربی زبان میں یہ قاعدہ ہے کہ کبھی اشارۂ قریب کا ذکر پہلے آجاتا ہے اور اشارۂ بعید کا ذکر بعد میںآتا ہے، اور کبھی ترتیب کلام کو مدنظر رکھا جاتا اور اسی کے مطابق اشارہ لایا جاتا ہے۔ یہ دونوں طریق عربی زبان میں مروّج ہیںاور دونوں طرح ضمائر کا استعال ہوتا ہے۔ اس جگہ اشارۂ قریب کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور اشارۂ بعید کا ذکر بعدمیں کیا گیا ہے۔ اشارۂ قریب لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ تھا اور اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ قریش بھوکے مرتے تھے ہم نے انہیں روٹی کھلائی۔ پس چونکہ روٹی کا قریب میں ذکر آتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے روٹی کا ہی ذکر کیا اور فرمایا اَلَّذِيْ اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ۔اس کے بعد دوسرا اشارہ جو اشارۂ بعید ہے سورۃ الفیل کی آخری آیت فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ کی طرف تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابرہہ اور اس کے لشکر کو بھوسہ کی طرح اڑا دیا۔ اگر ابرہہ کے لشکر کا کُلّی استیصال نہ کیا جاتا تو یمن سے مکّہ کو مستقل خطرہ رہتا اور یمن کا سفر مکّہ والوں کے لئے بالکل ناممکن ہو جاتا۔ اسی طرح یمن سے لڑائی کی وجہ سے شام کا سفر بھی ناممکن ہو جاتا کیونکہ یمن بھی روم کا صوبہ تھا۔ پس چونکہ اس صورت میں مکّہ والوں کے لئے یہ دونوں سفر ناممکن ہو جاتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا پُر ہیبت نشان دکھایا کہ یمن کی مسیحی حکومت بالکل تباہ ہو گئی اور شام پر بھی رعب طاری ہو گیا اور مکّہ والوں کے دونوں سفر قائم رہے۔ پس چونکہ یہاں اشارۂ بعید فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ کی طرف تھا اور اللہ تعالیٰ اپنے اس احسان کا ذکر کرنا چاہتا تھا جو اس نے اصحاب الفیل کو تباہ کر کے مکّہ والوں پر کیا اس لئے اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ کا ذکر اس نے اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ کے بعد کیا۔
٭ اس آیت نے سورۃ الفیل کی آخری آیت کی طرف اشارہ کر کے ہمیں یہ بھی بتا دیاہے کہ لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ کے جو مختلف معانی کئے گئے ہیں وہ سب کے سب درست ہیں۔ یعنی اس سورۃ میں ایک مستقل مضمون بھی بیان کیا گیا ہے اور اس میں پہلی سورۃ کے مضمون کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اَلَّذِيْ اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ نے سورۂ اِیلاف کے مستقل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا اور اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ نے سورۃ الفیل کی طرف اشارہ کر دیا۔ گویا یہ بھی درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو ایلافِ قریش کی غرض سے تباہ کیا۔ اور یہ بھی درست ہے کہ ان کے دلوں میں رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِکے متعلق رغبت پیدا کی تاکہ ان کو روٹی مل جائے اورمکّہ میں اطمینان کے ساتھ بیٹھے رہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اپنے ان دونوں انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم اس خدا کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا۔ جو تمہارے قافلوں کو شام اور یمن کی طرف لے گیا اور اس طرح اس نے تمہارے لئے روٹی کا سامان کیا۔ اسی طرح تم اس خدا کی عبادت کرو جس نے تمہارے خوف کو امن سے بدل دیا۔ یعنی اصحاب الفیل جب حملہ کر کے آئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ کیا اور تمہارے لئے اس نے امن کی صورت پیدا کی۔
٭ مِنْ جُوْعٍ میں مِنْ کا لفظ کیوں رکھا گیا ہے اور جُوْعٍ پر تنوین کیوں آئی ہے؟ اس کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں اور دونوں ہی اس جگہ چسپاں ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ تنوین تعظیم کے لئے آتی ہے۔ اگر اس امر کو مدّنظر رکھا جائے تو اَلَّذِيْ اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ کے یہ معنی ہوں گے کہ اے اہل مکّہ ہم نے تم کو ایک ایسی خطرناک بھوک سے بچایا ہے جس سے تمہارے بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ لوگ ایک وادی غیر ذی زرع میں پڑے ہوئے تھے۔ ایسے غیرآباد خطہ میں رہتے ہوئے وہ بھوک کی موت سے کہاں بچ سکتے تھے۔ طائف میں بے شک باغات وغیرہ تھے اور وہاں کسی قدر زراعت بھی ہوتی تھی مگر یہ زراعت بہت ناکافی تھی۔ مکّہ کے صرف چند امراء خاندان ہی ایسے تھے جن کو طائف سے غلّہ آتا تھا۔ باقی لوگوں کے لئے یا تو یمن سے غلہ آتا تھا یا مدینہ اور اس کے نواحی علاقہ سے آتا تھا بلکہ بعض دفعہ شام سے بھی لانا پڑتا تھا۔ زیادہ تر یمن سے ہی مکّہ میں غلّہ آتا تھا۔ اسی طرح کبھی کبھار حبشہ سے بھی آجاتا تھا۔ پس اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ میں اللہ تعالیٰ اس امر کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ تمہارا جائے وقوع ایسا تھا کہ تمہیں معمولی روٹی بھی کھانے کے لئے میسر نہیں آسکتی تھی مگر ہم نے محض اپنے فضل سے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ تمہیں بافراغت کھانا میسر آگیا اور تم بھوک کی تکلیف سے بچ گئے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مِنَ الْجُوْعِ نہیں فرمایا اگر مِنَ الْجُوْعِ ہوتا تو اس کے معنے محض بھوک کے ہوتے مگر مِنْ جُوْعٍ کے یہ معنے ہیں کہ ا یسی شدید بھوک جس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اٰمَنَهُمْ مِّنَ الْخَوْفِنہیں فرمایا بلکہ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ فرمایا ہے۔ اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے صرف خوف دور نہیں کیا بلکہ ایسا شدید خوف دور کیا جس نے تمہاری بنیادوں کو ہلا دیا تھا۔
غرض تنوین چونکہ تعظیم کے لئے آتی ہے اس لئے مِنْ جُوْعٍ کے یہ معنے ہوں گے کہ ایسی بھوک جس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اور مِنْ خَوْفٍکے یہ معنے ہوں گے کہ ایسا خطرناک خوف جس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ چنانچہ اصحاب الفیل کے واقعہ میں مَیں تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں کہ حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ سے صاف طو رپر کہہ دیا تھا کہ ہم میں تم سے لڑنے کی کوئی طاقت نہیں۔ اگر یہ خدا کا گھر ہے تو وہ آپ اس کو بچاتا پھرے۔ پھر ہذیل اور بنو کنانہ نے بھی متفقہ طور پر غور کرنے کے بعد اہل مکّہ کو یہی مشورہ دیا تھا کہ ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتے تم ابرہہ اور اس کے لشکر کے سامنے ہتھیار ڈال دو تاکہ وہ جو چاہے کر لے۔ یہ کتنا بڑا خوف ہے کہ ایک قوم کی قوم ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار ہو گئی۔ یہی حکمت ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے یہاں مِنَ الْخَوْفِ نہیں بلکہ مِنْ خَوْفٍ فرمایا ہے۔ یعنی میں نے ایک عظیم الشان خوف سے تم کو بچایا۔
لیکن جہاں تنوین تعظیم کے لئے آتی ہے وہاں عربی زبان میں تنوین تحقیر کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ اگر اس استعمال کو مدنظر رکھا جائے تو پھر مِنْ جُوْعٍ کے یہ معنے ہوں گے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ بھوک اور مِنْ خَوْفٍ کے یہ معنے ہوں گے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ خوف۔ یعنی ہم نے اتنی فراوانی اور کثرت کے ساتھ رزق دیا کہ مکّہ والے چھوٹی سے چھوٹی بھوک سے بھی نجات پا گئے۔ یہ خداتعالیٰ کا کتنا بڑا فضل اور کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے مکّہ والوں کو ایک ایسی خطرناک جگہ رکھ کر جہاں روٹی کا کوئی سامان نہ تھا ہر فرد کے لئے روٹی مہیا کر دی۔ حقیقتاً اگر غور کیا جائے تو یہ بڑے بھاری انعام اور فضل کا ثبوت ہے کہ ایسے خطرناک مقام پر رکھ کر اس نے ہر ایک کو روٹی مہیا کی۔ ہر ایک کو بافراغت رزق دیا۔ یہاں تک کہ وہ ادنیٰ سے ادنیٰ بھوک کی تکلیف سے بھی محفوظ ہو گئے۔ اسی طرح اٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے مکّہ والوں کو ادنیٰ سے ادنیٰ خوف سے بھی نجات دی۔ یعنی ابرہہ اور اس کے لشکر کو اس نے حرم کی حدود میں داخل ہی نہیں ہونے دیا۔ باہر ہی اس کا خاتمہ کر دیا۔ اگر وہ مکّہ میں داخل ہو جاتا اور منجنیقوں سے پتھر برسانے لگتا تو کچھ نہ کچھ خوف اہلِ مکّہ کو ضرور ہوتا جیسے رسول کریم ﷺ کے بعد جب حجاج بن یوسف نے مکّہ پر حملہ کیا تو روایات میں آتا ہے کہ ایک منجنیق کا پتھر خانۂ کعبہ کو بھی آلگا اور اس کا کچھ حصّہ جل بھی گیا۔
٭ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اگر وہ اسی طرح ہوا تھا تو حجاج نے جب حملہ کیا اس وقت خانہ کعبہ کا کچھ حصہ کیوں جل گیا تھا اور کیوں اس کو پتھر بھی آلگا؟ اس کا جواب بعض لوگوں نے یہ دیا ہے کہ اس کی نیت خانۂ کعبہ کو پتھر مارنے کی نہیں تھی اتفاقی طور پر وہ اسے آلگا تھا۔ دوسرے آگ فوراً بجھا دی گئی تھی اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ بہرحال جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اصحاب الفیل کی تباہی رسول کریم ﷺ کے لئے بطورِ ارہاص تھی اور خانۂ کعبہ کی حفاظت اپنی ذات میں اتنی مقصود نہیں تھی جتنی رسول کریم ﷺ کی حفاظت مقصود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جس شان سے اس وقت نشان ظاہر ہوا اس شان کا نشان بعد میں ظاہر نہیں ہوا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس وقت اہل مکّہ کو ادنیٰ سے ادنیٰ خوف سے بھی بچایا اور ابرہہ کو وہیں مار دیا۔
٭ بعضوں نے کہا ہے کہ اٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍمیں اس قحط کی طرف اشارہ ہے جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں پڑا۔ احادیث میں آتا ہے کہ جب قریش مکّہ نے رسول کریم ﷺ کو بہت تنگ کیا اور سخت تکالیف پہنچائیں تو آپؐ نے دعا فرمائی کہ اللّٰھُمَّ خُذْ ھُمْ بِسَنِیْنَ کَسَنِیْ یُوسُفَ یعنی اے اللہ تُو ان لوگوں کو ویسے ہی پکڑ جیسے یوسف کے زمانہ میں تو نے لوگوں کو قحط سے پکڑا تھا۔ اس پر مکّہ میں ایک شدید قحط پڑا۔ آخر وہی لوگ جو رسول کریم ﷺ کے شدید مخالف تھے انہوں نے آپ سے دعا کی درخواست کی۔ چنانچہ آپ نے دعا کی جس پر کچھ اردگرد کے علاقہ میں بارشیں ہو گئیں۔ کچھ حبشہ کی حکومت نے وہاں غلہ بھجوا دیا اور اس طرح قحط دور ہوا۔ پس بعض لوگ کہتے ہیں کہ اٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍمیں اسی قحط کی طرف اشارہ ہے۔ مگر یہ درست نہیں۔ اس لئے کہ واقعات سے یہ ثابت ہے کہ یہ سورۃ نہایت ابتدائی سورتوں میں سے ہے اور وہ قحط جو مکّہ میں پڑا وہ شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے وقت پڑا۔ پس یہ آیت جب پہلے نازل ہو چکی تھی تو قحط کا اس کے ساتھ تعلق کیا ہوا۔ یہاں تواللہ تعالیٰ ان پر حجت کرتا ہے کہ اس نے ان کے خوف کو امن سے بدل دیا۔ جو چیز ابھی ظاہر ہی نہیں ہوئی تھی وہ ان کے لئے حجت کس طرح ہو سکتی تھی۔
بہرحال اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے خالی سفروں کی طرف اشارہ نہیں۔ چنانچہ جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خانۂ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی تو اس وقت آپ نے ایک دعا فرمائی تھی جس کا اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے ۔
وَاِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ۔
اسی طرح آپ نے یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (ابراهيم 38)
حضرت ابراہیم علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ اے خدا تو اس گھر کو امن والا بنائیو اور مجھے اور میری اولاد کو شرک سے بچائیو۔ پھر کہتے ہیں اے خدا میں نے اپنی اولاد کو تیرے مکرم و محترم گھر کے پاس ایک ایسی جگہ لا کر بسا دیا ہے جہاں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی محض اس لئے کہ وہ نمازوں کو قائم کریں اور تیرے ذکر میں مشغول رہیں فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ پس اے خدا تو خود لوگوں کے دلوں میں تحریک کر کہ وہ ان کی طرف جھکیں وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ اور انہیں کھانے کے لئے ہر قسم کے پھل عنایت فرما تاکہ یہ تیرا شکر ادا کرتے رہیں۔
اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی اولاد کے لئے دو باتیں مانگی ہیں۔ امن اور رزق ۔اور پھر ذریعہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ امن اور رزق انہیں کس طرح ملے؟ آپ فرماتے ہیں یہ دونوں چیزیں انہیں حکومت اور تلوار کے زور سے نہ ملیں۔ بیشک دنیا میں حکومت کے زور سے امن بھی قائم ہو جاتا ہے اور حکومت لوگوں کا روپیہ بھی کھینچ کھینچ کر لے آتی ہے۔ مگر آپ فرماتے ہیں مَیں یہ پسند نہیں کرتا کہ انہیں اس رنگ میں یہ چیزیں ملیں۔ میری دعا اور التجا یہ ہے کہ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو اور وہ عقیدت کے ساتھ ان کی طرف جھکیں۔ گویا جو کچھ ملے زور اور طاقت سے نہ ملے بلکہ عقیدت اور محبت کی وجہ سے ملے۔ یہ کتنی کڑی شرطیں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میں لگا دی ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص جنگل میں جا کر یہ دعا کرے کہ خدایا مجھ پر بارش برسا۔ وہ میرے اردگرد نہ برسے۔ وہ صرف آدھ گھنٹہ برسے اور جب برس چکے تو فوراً اسی جگہ سے ایک درخت نکل آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنی اولاد کو ایک جنگل میں لا کر بٹھا دیتے ہیں اورپھر دعا یہ کرتے ہیں کہ انہیں امن حاصل ہو۔ بھلا جنگل میں امن کہاں! جنگل میں تو یہی ہو سکتاہے کہ کوئی بھیڑیا آئے اور چیر پھاڑ جائے یا کوئی ڈاکو آئے اور وہ لُوٹ لے۔ پھر وادیٔ غیر ذی زرع کہاں اور رزق کہاں! مگر وہ ایک جنگل میں اپنی اولاد کو بٹھا کر یہ دعا کرتے ہیں کہ خدایا انہیں رزق عطا فرما۔ گویا اللہ تعالیٰ سے وہ اپنی اولاد کے لئے دو چیزیں مانگتے ہیں۔ رزق بھی مانگتے ہیں اور امن بھی مانگتے ہیں اور مانگتے بھی وادیٔ غیر ذی زرع میں ہیں۔ مگر پھر یہیں پر بس نہیں کرتے بلکہ ایک اور شرط یہ عائد کرتے ہیں کہ انہیں رزق اور امن تو ملے مگر تلوار سے نہیں۔ حکومت اور طاقت کے زور سے نہیں بلکہ اس طرح کہ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو اور وہ خود بخود عقیدتمندانہ جذبات کے ساتھ ان کی طرف جھکتے چلے جائیں۔ یہ کتنی سخت اور کڑی شرائط ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا کے ساتھ لگائی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں وہ دو باتیں اپنی اولاد کی طرف سے بھی کہتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مکّہ میں رہیں گے اور دوسری یہ کہ خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگے رہیں گے اور وہ عبادت توحید والی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اسی دعائے ابراہیمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے اَلَّذِيْ اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ ۔اے مکّہ والو! ہم نے وہ وعدہ پورا کر دیا جو ہم نے ابراہیم کےساتھ کیا تھا۔ اب کیا تمہارا فرض نہیں کہ تم بھی اس عہد کو پورا کرو جو تمہاری طرف سے تمہارے دادا ابراہیمؑ نے کیا تھا۔ یہ دو باتیں کہ وہ مکّہ میں رہیں گے اور عبادتِ خدا میں لگے رہیں گے اور عبادت بھی توحید والی کریں گے ہم نے نہیں کہی تھیں۔ ہم نے ابراہیمؑ سے یہ نہیں کہا تھا کہ اے ابراہیم چونکہ تُو ہم سے دو چیزیں مانگ رہا ہے ہم بھی تجھ سے وہ چیزیں مانگتے ہیں۔ ہم نے ابراہیم سے کوئی سودا نہیں کیا۔ بلکہ ابراہیم نے خود کہا کہ اے میرے ربّ! میں تجھ سے یہ سودا کرتا ہوں اور یہ سودا پیش کرنے والا تمہارا اپنا دادا تھا۔ اس کی بات کی پچ تو تمہیں زیادہ زیادہ ہونی چاہئے۔ ہم پر ابراہیم نے جو ذمہ داری رکھی تھی وہ ہم نے پوری کر دی۔ اَلَّذِيْ اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوْعٍ وَاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ ۔اس نے جہاں کہا تھا ہم نے رزق پہنچایا۔ اس نے کہا تھا کہ میری اولاد کو وادیٔ غیر ذی زرع میں رزق دیا جائے۔ سو ہم نے وادی غیر ذی زرع میں ہی تمہیں رزق دے دیا۔ اس نے کہا تھا کہ انہیں اس خطرناک مقام پر امن دیا جائے۔ سو ہم نے اس خطرناک مقام پر تمہیں امن د ے دیا۔ اس نے کہا تھا کہ یہ رزق اور امن انہیں تلوار کے زور سے نہ ملے بلکہ لوگوں کی محبت اور پیار کے نتیجہ میں ملے سو ہم نے لوگوں کے دلوں میں تمہاری محبت قائم کر دی اور اب اسی محبت کے نتیجہ میں تمہیں رزق اور امن حاصل ہو رہا ہے۔ اب کیا تمہارا فرض نہیں کہ تمہارے دادا نے تمہاری طرف سے جو وعدہ کیا تھا کہ یہ اس گھر میں ہمیشہ کے لئے بس جائیں گے اور اس میں خالص تیری عبادت کو قائم کریں گے، تم اسے پورا کرو۔ ہم نے کتنے عرصہ تک اپنے وعدہ کو پورا کیا۔ اس کے مقابلہ میں تمہاری طرف سے بھی یہ وعدہ تھا کہ ہم مکّہ میں رہیں گے اور خدائے واحد کی پرستش بجا لائیں گے تم ہزاروں سال سے شرک کرتے چلے آرہے ہو مگر ہم نے تمہیں کچھ نہیں کہا۔ کیونکہ تم کہہ سکتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی تعلیم نہیں پہنچی۔ لیکن اب تو محمد رسول اللہ ﷺ تمہاری طرف بھیج دیئے گئے ہیں اور وہ تمہیں خدائے واحد کی طرف بلارہے ہیں۔ مگر اے ظالمو! تم اب بھی خدائے واحدکی طرف نہیں آرہے۔
(ماخوذ از تفسیرِ کبیر زیر سورۃ القریش)