ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
میرے ساتھ ایک ایسا قادر ہے کہ اس کے نگہبان میرے گھر سے دُور نہیں ہوتے اور اس کی رحمت ایک لمحہ بھی مجھ کو نہیں چھوڑتی
لیکن مخالف نہیں دیکھتے۔ مَیں وہی مسیح موعود ہوں جس کا آنا آخر زمانہ میں خدا کی طرف سے مقدّر تھا۔
میرا انکار منکروں پر حسرت کا سبب اور میرا اقرار ان کے لئے جو حسد کو چھوڑتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں برکتوں کا باعث ہے۔
’’ اور ان میں سے ایسے لوگ ہیں کہ کمینی اور رذیل خصلتوں میں سب سے بڑھ گئے۔ یہی لوگ ہیں جو اہل حق پر ٹھٹھے مارتے ہیں اور ان سے دشمنی کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور ریا اور دکھلاوے کے کام کرتے ہیں اور اخلاص نہیں رکھتے اور خدا کے مسیح پر اور اس کے گروہ پر حملہ کرتے ہیں اور ان کو حاکموں کی طرف کھینچتے ہیں اور ہر ایک رستے کے سرے پر ان کے ستانے کے لئے بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو مار ڈالو کیونکہ یہ کافر ہیں۔اور جس وقت ان کو کہیں کہ خدا کے کلام کی طرف آؤ اور اس کو ہمارے اور اپنے درمیان حَکم بناؤ تو ان کی آنکھیں غصہ سے لال ہو جاتی ہیں اور گالیاں دیتے گزر جاتے ہیں۔ بہتوں نے خدا کے نشانوں کو آنکھوں سے دیکھا پھر متکبرانہ گزر جاتے ہیں گویا اندھے ہیں۔ خدا کی کتاب کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا ہے اور کہتے ہیں کہ اس کی دلیلوں کو نہ سنو اور اس کے پڑھنے کے وقت شور ڈال دو تا غالب ہو جاؤ لیکن جو ضَآلِّیْن کے وارث ہوئے ان میں سے بعض نصاریٰ کی خوُ خصلت اور شعار کو دوست رکھتے ہیں اور اس طرف جھک گئے۔ لباس کوٹ پتلون بوٹ اور طرزِزندگی اور ساری عادتوں میں نصاریٰ کی نقل اتارتے ہیں اور ان عادتوں کے مخالفوں پر ہنستے ہیں اور نصاریٰ کی عورتوں کو اپنے نکاح میں لاتے ہیں اور اُن سے عشق بازیاں کرتے ہیں۔ اور ان میں سے (کئی) نصاریٰ کے فلسفہ کی طرف متوجہ ہوئے جس کی ان شہروں میں انہوں نے اشاعت کی ہے اور دین کے کاموں میں غفلت کرتے ہیں۔ بہت سی نامناسب باتیں بولتے ہیں اور خدا کے دین کی حقارت کرتے ہیں اور خوف نہیں کرتے۔ اور بعض ان میں سے پکّے گمراہ ہو گئے اور جہالت سے اسلام کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اور اسلام کے ردّ میں کتابیں لکھیں اور خدا کے رسول کو برُا کہا اور اس کی عزت پر حملہ کیا اور اس قسم کے لوگ اس ملک میں کثرت سے ہیں اور وہ اس سے پہلے مسلمان تھے۔ پس جس بات کا سورۃ فاتحہ میں اشارہ تھا وہ ظاہر ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اور پہلی خبر جو اُمُّ الْکِتَاب کی خبروں میںسے ظاہر ہوئی وہ مسلمانوں کا نصرانی ہو جانا اور ان کا گالیاں دینا اور کتّوں کی طرح حملہ کرنا ہے۔ جیسا کہ دیکھتے ہو۔ پھر مَغْضُوْبِ عَلَیْہِم کی خبر ظاہر ہوئی جیسا کہ تم علماء کے گروہ اور ان کے تابعوں اور اہل دنیا اور امیروں اور پیروں اور فقیروں اور درویشوں میں دیکھتے ہو کہ کس قدر تکبر کرتے ہیں۔ خاکساری اختیار نہیں کرتے۔ ریا کرتے ہیں۔ اخلاص نہیں رکھتے۔ اور وہ ایسی باتیں بتاتے ہیں جو خود نہیں کرتے۔ دنیا پر اوندھے پڑے ہیں اور خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اور خدا کے دنوں پر ایمان نہیں لاتے۔ اور خدا کے نشانوں کو دیکھتے ہیں اور سر پھیرتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ حق کو خاک کے نیچے چھپا دیں۔ اور اس کے دامن کو کتّوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔ اور اپنے رات اور دن میں فکر نہیں کرتے کہ آخر پوچھے جائیں گے۔ اگر مجھ کو قتل کر سکتے تو ضرور قتل کرتے لیکن خدا نے ان کو ناکام اور نامراد رکھا۔ میرے نابود کرنے میں مکر کام میں لاتے ہیں۔ تب آسمان سے ایک ایسا امر نازل ہوتا ہے کہ ان کے مکر کو برباد کر دیتا ہے اور وہ نہیں جانتے۔ میرے ساتھ ایک ایسا قادر ہے کہ اس کے نگہبان میرے گھر سے دُور نہیں ہوتے اور اس کی رحمت ایک لمحہ بھی مجھ کو نہیں چھوڑتی لیکن مخالف نہیں دیکھتے۔ بلکہ مجھ کو دیکھتے ہیں اور چیں بہ جبیں ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور قسم پر قسم کھاتے ہیں کہ مَیں جھوٹا ہوں اور ایسا کوئی بھید نہیں رہا جو ظاہر نہ ہو اور نہ کوئی قضیہ جو فیصلہ نہ ہو۔ قریب ہے کہ جو کچھ میرے دل میں ہے اور جو کچھ ان کے دل میں ہے ظاہر ہو جائے۔ یہ دو گروہ مَغْضُوْبِ عَلَیْہِم اور اہلِ صلیب میں سے ہیں کہ خدا نے فاتحہ میں ان کا ذکر کیا ہے اور اشارہ کیا ہے کہ آخر زمانہ میں بکثرت ہو جائیں گے اور فساد میں کمال کو پہنچ جائیں گے۔ اُس وقت آسمان کا پروردگار تیسرے گروہ کو قائم کرے گا۔ اس لئے کہ مشابہت پہلی اُمّت سے پوری ہو جائے اور اس لئے بھی کہ دونوں سلسلے ایک دوسرے سے مشابہ ہو جائیں۔ پس وہ وقت یہی وقت ہے اور جو کچھ رحمٰن نے وعدہ کیا تھا وہی ظاہر ہوا اور تم نے مسلمانوں میں سے عیسائی ہونے والوں کی کثرت کو دیکھا اور اس اُمّت کے یہود اور ان کی سیرت کو بھی دیکھا اور اس عمارت میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔ یعنی مُنْعَم عَلَیْہم ۔ پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بِنا کو کمال تک پہنچاوے۔ پس مَیں وہی اینٹ ہوں اور جیسا کہ عیسیٰ بنی اسرائیل کے لئے نشان تھا ایسا ہی میں تمہارے لئے اے تبہ کارو ایک نشان ہوں۔ پس اے غافلو! توبہ کی طرف جلدی کرو۔ اور میں مُنْعَم عَلَیْہم گروہ میں سے فردِ اکمل کیا گیا ہوں اور یہ فخر اور ریا نہیں۔ خدا نے جیسا چاہا کیا۔ پس کیا تم خدا کے ساتھ لڑتے ہو۔ اور مَیں وہی مسیح موعود ہوں جس کا آنا آخر زمانہ میں خدا کی طرف سے مقدّر تھا اور میں وہ مُنْعَم عَلَیْہ ہوں کہ اس کی طرف فاتحہ میں ان دو گروہ کے ظہور کے وقت اشارہ تھا اور بدعتوں اور فتنوں کے پھیل جانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پس کیا تم قبول نہیں کرو گے۔ اور میرا انکار منکروں پر حسرت کا سبب اور میرا اقرار ان کے لئے جو حسد کو چھوڑتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں برکتوں کا باعث ہے۔ اور اگر یہ امر خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو البتہ یہ کارخانہ تباہ ہو جاتا اور ہم پر زمین اور آسمان کی لعنت جمع ہو جاتی اور دشمن اپنے ہر ارادہ میں کامیاب ہو جاتے۔ ہرگز ایسا نہیں۔ بلکہ اس سلسلہ کا خدا کی طرف سے وعدہ دیا گیا تھا جو سچے طور سے پورا ہو گیا اور خوشخبری اُن کے لئے ہے جو انتظار کرتے تھے۔ اب ہمارا یہ مقدمہ خدا کی کچہری میں پہنچ گیا ہے۔ اور قریب ہے کہ تمہاری فتح ہو یا تمہیں شکست ہو۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 114تا119۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)