عائلی مسائل اور قول سدید کی اہمیت
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’لڑکوں اور لڑکیوں کے رشتوں کے معاملات اور پھر رشتوں کے بعد عائلی مسائل یہ ایسے معاملات ہیں جو گھروں میں پریشانی اور بے چینی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ شادیوں کے بعد عائلی مسائل ہیں وہ صرف خاوند بیوی کے لئے مسئلہ نہیں ہوتے بلکہ دونوں طرف کے والدین کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہوتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر اولاد ہو گئی ہے تو اولاد میں بھی بے چینی پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات اولاد اس وجہ سے دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے بگڑ رہی ہوتی ہے اور ماں باپ اور خاندان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ گویا پریشانیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ تقریباً روزانہ میری ڈاک میں ایسے معاملات آتے ہیں یا زبانی ملاقات میں لوگ اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک طرف لڑکیوں کے رشتوں کا مسئلہ ہے۔ جب لڑکی کی رشتے کی عمر ہوتی ہے تو پڑھائی کو عذر بنا کر اصل عمر میں رشتے نہیں کئے جاتے کہ ابھی پڑھ رہی ہے اور جب ذرا بڑی ہو جاتی ہیں، پڑھ لکھ جاتی ہیں اور بڑی عمر میں رشتے ہو جاتے ہیں تو پھر understanding کا نہ ہونے کا جواز بنا کر رشتوں میں دُوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس میں دراڑیں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر بعض لڑکیوں کی یہ باتیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں کہ سہیلیاں اور دوستیں غلط طور پر ایسے خیالات ان کے دلوں میں پیدا کرتی ہیں کہ ان ملکوں میں تمہارے بڑے حقوق ہیں۔ اپنے خاوندوں کویہ بتاؤ کہ میرے حقوق ادا کرو اور یہ یہ دو۔ میں تمہیں اپنا خاوندنہیں مانتی اور خاوندوں کی ہر بات ماننی بھی نہیں چاہئے۔ پھر بعض دفعہ ماں باپ خود بھی لڑکیوں کو ایسی باتیں سکھاتے ہیں جس سے لڑکے لڑکی یا خاوند بیوی کا آپس کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے یا شکوک و شبہات ابھرنے لگتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان سے رشتہ کروا کر یہاں آئی ہوئی لڑکیاں جو مغربی ممالک میں آتی ہیں وہ بھی یہاں آزادی کو دیکھ کر اس رنگ میں رنگین ہو کر پھر غلط مطالبے کرنے شروع کر دیتی ہیں…یہ حال صرف لڑکیوں کا نہیں ہے بلکہ لڑکے بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ بلکہ لڑکوں کی ایسی حرکتوں کی نسبت جو ہے وہ شاید لڑکیوں سے کچھ زیادہ ہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر لڑکے اور لڑکیاں بھی قول سدید سے کام نہیں لیتے جس بات کا رشتے سے خاص تعلق ہے۔ نکاح پہ جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں قول سدید کے بارے میں خاص طور پر تاکید ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۳؍مارچ۲۰۱۷ء)