حضرت مسیح موعود؈ کا عشق رسول ﷺ
(جمیل احمد بٹ)
آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ حسن و احسان میں درجہ کمال پر فائز تھے۔ آپ ایک ایسا وجود تھے جن سے محبت کے سوتے پھوٹتے اور ہرقریب آنے والے کو سیراب کرتے۔ اور جو بھی یوں فیض یاب ہوتا اس کے لئے اس قرآنی حکم پر عمل کرنا عین راحت ہو جاتا۔
قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّاالْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ۔ (شوریٰ24:)ترجمہ تو کہہ دے میں اپنی خدمت کے بدلے میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ سوائے اس محبت کے جو اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے کی جاتی ہے۔
اسی لئے وہ سب اصحاب جو آپ کے گرد جمع ہوئے وہ آپ کے عشق میں گرفتاراور سرشار رہے۔ آپ کے قریب رہنے اور آپ کی باتیں سننے کے ایسے شیدائی کہ گھر بار چھوڑ کر اصحابِ صفّہ بن گئے ۔مطیع ایسے کہ اُس حکم پر بھی عامل ہوئے جس کے مخاطب وہ نہ تھے۔آپ کی عافیت کے ایسے طلبگار کہ یہ بھی پسند نہ کیا کہ اپنی جان کے بدلے آقا کے پائوں میں کانٹا بھی چبھے۔ اپنے باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر کی زندگی پر اس خبر کو مقدم سمجھا کہ آپ خیریت سے ہیں۔ آپ کے آگے پیچھے ، دائیں بائیں حفاظتی دیوار بنے رہے اور انتہا یہ کہ جب آپ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے تو محبت کے یہ مارے ایسے دیوانے ہوئے کہ ایک ہوش مند نے تلوار کھینچ لی کہ کوئی اس تلخ حقیقت کو زبان پر نہ لائے ۔ غرضیکہ عُشّاق کا یہ ایک ایسا گروہ تھا جو اپنی مثال آپ ہے۔
نسلِ انسانی کی خوش بختی ہے کہ یہ مقدر تھا کہ عشق کی اس داستان کو ایک بار پھر دہرایا جائے ۔ آخرین کے بارہ میںآنحضرت ﷺ کی اس خبر میں کہ مَا اَنَاعَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْکہ وہ میرے اور میرے صحابہ کے طریق پر ہوں گے۔ ( ترمذی کتاب الایمان )
یقیناً محبت کا یہ باب بھی شامل تھا۔
آخرین کی اس جماعت کے سرخیل حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح و مہدی موعود علیہ السلام تھے۔ جنہوں نے اس دور میں آنحضرت ﷺ سے بے مثل محبت کی۔یہ عشق اپنی خوش نظری میں قوس قزح کی طرح رنگا رنگ ہے۔ ان رنگوں میں سے چندکو درج ذیل عناوین کے تحت بیان کی ایک کوشش درج ذیل ہے
1۔اظہارِ محبت
یہ خدائی تقدیر تھی کہ آپ کا نام غلامِ احمد رکھا گیا اور پیدائش کی گھڑی کے ساتھ ہی عشق رسول آپ کا راستہ ٹھہرا۔ آپ اس راستہ پر تیزی سے آگے بڑھے۔ اور پھر آپ کی تمام زندگی اس عشق سے معطر رہی۔ آنحضرت ﷺ سے آپ کے عشقِ ذاتی کا اظہار کئی رنگ میں بار بار ہوا۔مثلاً
محبت سے بھیگی آنکھیں آپ کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا
’’یہ خاکسار حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں پیدا ہوااور … میں آسمانی آقا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرے دیکھنے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے ذکر پر بلکہ محض نام لینے پر ہی حضرت مسیح موعودؑ کی آنکھوں میں آنسوئو ں کی جھلّی نہ آگئی ہو‘‘۔ (سیرت طیبہ مجموعۂ تقاریر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 27-28نظارت اشاعت ،ربوہ)
ایک عجیب آرزو کا اظہار’ایک ساتھی نے روایت کیا کہ وہ باہر سے مسجد میں آئے تو دیکھا حضرت مسیح موعودؑ اکیلے ٹہل رہے ہیں ۔ کچھ گنگناتے جاتے ہیں اور آپ کی آنکھوں سے آنسوئوں کا تار بندھا ہوا ہے۔ قریب ہو کر سنا تو حضرت حسان بن ثابت ؓ کاوہ عربی شعرآپ کے زیرِ لب تھا جو انہوں نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر کہا تھا اور جس کا اردو ترجمہ یوں ہے
ترجمہ تُو میری آنکھ کی پُتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہو گئی ہے اور اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا۔
راوی کہتے ہیں کہ انہوںنے گھبرا کے پوچھا حضرت کیا بات ہے؟ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا
’میں اس وقت یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہو رہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا!‘
(سیرت طیبہ مجموعۂ تقاریر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 28 نظارت اشاعت ،ربوہ)
محبت کی بے بسی ایک بار گھریلو ماحول میں حج کا ذکر شروع ہو گیا اور خاندان کے ایک بزرگ نے سفرکی سہولتوں کے پیش نظر یہ خواہش کی کہ حج کو چلنا چاہیے۔ زیارت حرمین شریفین کے تصور سے یکدم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھیں بھر آئیں ۔ آپ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا
’’یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خوہش ہے مگر مَیں سوچا کرتا ہوں کہ کیا مَیں آنحضرت ﷺ کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا۔‘‘ (سیرت طیبہ مجموعۂ تقاریر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 35-36نظارت اشاعت ،ربوہ)
2۔ذکرِ محبوب
حضرت مسیح موعود اپنے محبوب کے ذکر سے کبھی نہ تھکتے۔آنحضرت ﷺ پر درود و سلام بھیجنا آپ کا سدا وطیرہ رہاجواس کیفیت کو بھی پہنچا کہ فرمایا
’ـ’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اس رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے آبِ زُلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے اُن میں کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمدﷺ کی طرف بھیجی تھیں‘‘۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ 576 حاشیہ در حاشیہ 3)
آپ جب بھی آنحضور ﷺکا ذکرکرتے ہمیشہ دلی محبت کے ساتھ ’ہمارے رسول ‘کہہ کر فرماتے اور جب بھی قلم اٹھاتے، نثر ہو یا نظم، اردو ہو، فارسی یا عربی، اس میں عشقِ رسول ﷺ کا بیان در آتا۔یہ تحریریںحیرت انگیز جذب اور دلی تعلق کا مظہر ہیںاور پڑھنے والوں کو بھی اس در کا دیوانہ کرتی ہیں۔بطور مثال ایسے چند جملے درج ذیل ہیں
ز…’’دنیا میں کروڑہا ایسے پاک گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مردِ خدا کو پایا جس کا نام ہے محمد ﷺ ‘‘۔ ( چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد نمبر 23صفحہ نمبر 301)
ز…’’اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم اور اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر النّاس ہیں ۔ جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے‘ ‘ ۔
(براہینِ احمدیہ روحانی خزائن جلد نمبر 1صفحہ نمبر 557حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
ز…’’ اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو ! اٹھو، اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد ﷺ کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں‘ ‘ ۔
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ نمبر 9 نیا ایڈیشن)
ز…’’میرا ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ ؐسے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے ‘‘۔
( حقیقۃُ الوحی روحانی خزائن جلد نمبر 22صفحہ نمبر 67)
ز…’’ آنحضرت ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا جس کے لوازم میںمحبت اور تعظیم اور اطاعتِ آنحضرت ﷺ ہے اس کا ضروری نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے‘ ‘ ۔
( عصمت ِ انبیاء روحانی خزائن جلد نمبر 18صفحہ نمبر 680 ایڈیشن 2008ء)
شعر محبت کے اظہار کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عشق رسول میں اپنے دلی جذبات کے اظہار کے لئے اس واسطے کو بھی خوب استعمال فرمایا اور اردو، فارسی اور عربی زبان میں عشق و محبت میں ڈوبے لافانی شعر کہے مثلاً ؎
ربط ہے جانِ محمدؐ سے میری جاں کو مُدام
دل کو وہ جام لبا لب ہے پلایا ہم نے
تیری الفت سے ہے معمور میر ا ہر ذرّہ
اپنے سینہ میں یہ اِک شہر بسایا ہم نے
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225)
؎
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمدؐ دلبر میر ا یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 456)
؎
دریں راہ گر کشندم ور بسوزند
نتابم رُو زِ اَیوا ن محمدؐ
تو جانِ ما منور کردی از عشق
فدایت جانم اے جان محمدؐ
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ649)
ترجمہ واﷲ اگر آپ کے راستہ میں میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائوں اور میرے وجود کو جلا کر راکھ کر دیا جائے تب بھی میں آپ کے در سے منہ نہ موڑوں گا۔ اے محمد کی جان! تجھے پر میری جان قربان کہ تو نے میرے وجود کو اپنے عشق سے منور کر رکھا ہے۔
؎
در رہِ عشق محمدؐ ایں سر و جانم رَوَد
ایں تمنا ، ایں دعا ، ایں در دلم عزم صمیم
(توضیح مرام روحانی خزائن جلد3 صفحہ 63)
ترجمہ میرے دل میں یہی تمنا ، یہی دعا اور یہی پختہ ارادہ ہے کہ عشقِ محمدؐ کے راستہ میں جان اور اپنا سر پیش کردوں۔
؎
بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کا فرم
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ 185)
ترجمہ میں خدا کے بعد محمد ﷺ کے عشق میں مست ہوں اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں۔
؎
محمدؐ است امام و چراغ ہر دو جہاں
محمد ؐ است فرو زندۂ زمین و زماں
خد ا نگویمش از ترس حق مگر بخدا
خدا نما ست و جود ش برائے عالمیاں
( کتاب البریّہ روحانی خزائن جلد نمبر 13صفحہ نمبر 157حاشیہ )
ترجمہ محمد ﷺ ہی دونوں جہانوں کا امام اور چراغ ہے۔ محمد ﷺ ہی زمین و زماں کا روشن کرنے والا ہے ۔مَیں خوفِ خدا کی وجہ سے اُسے خدا تو نہیں کہتا مگر خدا کی قسم اس کا وجود اہل جہاں کے لئے خدا نما ہے ۔
؎
اگر خواہی دلیلے عاشقش باش
محمدؐ ہست برہانِ محمد ؐ
ترجمہ اگر تو اس کی سچائی کی دلیل چاہتا ہے تو اس کا عاشق بن کہ محمد ﷺ ہی خود محمد ﷺ کی دلیل ہے ۔
( آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 649)
؎
یَا حِبِّ اِنَّکَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّۃً
فِیْ مُھْجَتِیْ وَ مَدَارِکِیْ وَ جَنَانٖ
جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا
یَا لَیْتَ کَاَنَتْ قُوَّۃُ الطَّیْرَانِ
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 594)
ترجمہ اے میرے محبوب تیری محبت رگ و ریشہ میں اور میرے دل میں اور میرے دماغ میں رچ چکی ہے۔ میری روح تو تیری ہو چکی ہے مگر میرا جسم بھی تیری طرف پرواز کرنے کی تڑپ رکھتا ہے۔ اے کاش! مجھ میں اُڑنے کی طاقت ہوتی۔
3۔غیرتِ محبوب
محبوب کے لئے غیرت ، محبت کا ایک لازمہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشقِ رسول کا یہ رنگ بھی نمایاں تھا۔ آپ کے بڑے بیٹے نے بیان کیا
’’آنحضرت ﷺ کے خلاف والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔ اگر کوئی شخص آنحضرتؐ کی شان کے خلاف ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور آنکھیں متغیّر ہوجاتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھیـ‘‘۔
(سیرت المہدی جلد اول از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 201 نظارت اشاعت ربوہ فروری 2008ء)
بد زبان عیسائیوں اور آریوں کے آنحضور ﷺ پر ناپاک حملے آپ کو بہت دکھ دیتے اور درد بھرے دل سے بے ساختہ یہ صدا نکلتی
ز…’خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پائوں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور مَیں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جائوں اور اپنی تمام خوشیوں اور آسائشوںکو کھو دوں۔ تو ان ساری باتوں کے مقابل پر میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول کریم ﷺ پر ناپاک حملے کئے جائیں‘۔
(ترجمہ ازعربی آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 15)
ز…’’مَیں سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوںسے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں‘‘۔ (پیغام صلح روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 459)
اسی غیرت کا اظہار کردہ واقعہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کے خلاف بد زبانی کرنے والے ایک دشمن لیکھرام نامی کے سلام کرنے پر آپ نے یہ کہہ کر منہ پھیر لیا کہ ’’ ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے‘‘۔(سیرت طیبہ مجموعۂ تقاریر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ31نظارت اشاعت، ربوہ)
4۔محبوب کی گلی
آقا سے محبت کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے ان تمام افراد سے بھی محبت کی جو آنحضرت ﷺ سے قریب تھے یا جو قربت کے دعویدار تھے۔ ان میں اصحابِ رسول، آل ِرسول اور اُمتِ رسول سب شامل ہیں۔
ز…اصحابِ رسول کی آپ نے خوب مدح کی۔ جیسا کہ فرمایا
’’رسول اﷲ ﷺ کو جو جماعت ملی وہ ایسی پاکباز اور خدا پرست اور مخلص تھی کہ اس کی نظیر کسی دنیا کی قوم اور کسی نبی کی جماعت میں ہر گز نہیں پائی جاتی‘‘۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 60)
اور
ز…’’صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین آنحضرت ﷺ کی سیرت کے روشن ثبوت ہیں…….پس وہی شخص آنحضرت ﷺ کی سچی قدر کرسکتا ہے جو صحابہ کرام کی قدر کرتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ 527)
اس حوالہ سے آپ نے یہ اصول ٹھہرایاکہ
’’یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت ﷺ سے محبت ہو اور پھر صحابہ ؓ سے دشمنی‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 527)
ز…آل رسول سے محبت کا اظہار اس واقعہ سے خوب ہوتا ہے جوآپ کی ایک صاحبزادی نے یوں روایت کیا ہے
’’ایک بار محرّم کے دنوں میں آپ نے مجھے اور چھوٹے بھائی کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا’آئو میں تمہیں محرّم کی کہانی سنائوں‘۔
پھر حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے واقعات سنائے۔ سناتے جاتے اور آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھتے جاتے۔ آخر میں بڑے دکھ سے فرمایا
’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریمؐ کے نواسے پر کروایا۔ مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا‘‘۔ (سیرت طیبہ مجموعۂ تقاریر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ36-37 نظارت اشاعت ،ربوہ)
محبت کے اس باب میں آپ کا مسلک اس شعر سے نمایاں ہے ؎
جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است
خاکم نثار کوچہ آلِ محمدؐ است
(آئینہ کمالاتِ اسلام،روحانی خزائن جلد 5، صفحہ 645)
ترجمہ میری جان اور دل حضرت محمد ﷺ کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل ِمحمد ﷺ کے کوچہ پر قربان ہے۔
ز…اُمّتِ رسول آپ اپنے ان ہم عصر علماء کے لئے بھی جو آپ کو کافر جانتے اور سخت سست کہتے صرف اس لئے محبت کا دامن وا رکھتے کہ وہ بھی آنحضور ﷺسے محبت کے دعویدار ہیں جیسا کہ آپ کے اس شعر سے ظاہر ہے۔ ؎
اے دل تو ینز خاطر ایناں نگاہ دار
کآخر کنند دعوی حُبِّ پیمبرم
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 182)
ترجمہ اے میرے دل تو ان کا خیال رکھ کیونکہ یہ لوگ بھی میرے پیغمبر رسول ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ز…اس مسلک پر عمل کرتے ہوئے آپ نے اپنی مختلف تحریرات میں خدا ترس اہل اسلام علماء کا ان الفاظ سے ذکر فرمایا
’’مسلمان‘‘، ’’مومن‘‘، ’’بزرگ‘‘، ’’دانشمند‘‘، ’’اپنے بھائی‘‘، ’’اسلام کے سچے محب‘‘، ’’مومنوں کے آثار باقیہ‘‘، ’’نیک لوگوں کی ذریّت‘‘، ’’قوم کے منتخب لوگ‘‘، ’’بزرگان دین‘‘، ’’قوم کے چمکتے ہوئے ستارے‘‘۔
(ذکر حبیب از مولانا نسیم سیفی صفحہ 6، نظارت اشاعت،ربوہ، دسمبر 1975ء)
اللہ تعالیٰ نے اُمّت محمدیہ کے لئے اپنی دلی نیک خواہشات کے ہم رنگ آپ کو یہ خوش خبریاں بھی دیں کہ
’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد‘۔(براہینِ احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 623)
ترجمہ ’’اب وہ وقت آ رہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر ان کا قدم پڑے گا‘‘۔ (نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18، صفحہ 511)
نیز ؎
’چو دور خسروی آغاز کردند
مسلماں را مسلماں باز کردند‘
(تجلیاتِ الٰہیہ،روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 396)
ترجمہ جب فارسی الاصل روحانی بادشاہ کا دَور شروع ہوگا تو ظاہری مسلمانوں کو از سرِنو مسلمان کیا جائے گا۔
5۔محبوب کی خاطر
آنحضرت ﷺ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت کا ایک مسلسل اظہار وہ جدوجہد تھی جو آپ نے اس پیغام کے دفاع اور اشاعت کے لئے کی جو آنحضور ﷺ کے ذریعہ دنیا کو عطا ہوا۔ اسلام کے دفاع میں آپ نے عظیم جہاد کیا اور تمام غیر مذاہب کو ہر طرح للکارا۔ مقابلے، مباحثے ، مناظرے، مباہلے، انعامات کی پیشکش، عذاب کی پیش خبریاں، غرضیکہ کوئی طریق نہ چھوڑا اور سب پر اتمام حجت کردی۔نیزآئندہ اس مقابلہ کے لئے بھی ایک عظیم علمِ کلام چھوڑا۔
اس کام کو جاری رکھنے کے لئے آپ نے جو جماعت بنائی اس کا دامن بھی حبّ ِ رسول سے باندھااور دس شرائط بیعت میںاس حوالہ سے یہ دو شرطیں بھی شامل کیں
’سوم …..حتی الوسع …..اپنے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے …..میں مداومت اختیار کرے گا‘۔
’ششم اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا‘۔
(اشتہار تکمیلِ تبلیغ 12 جنوری 1889ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159 نیا اڈیشن نظارت اشاعت ربوہ)
بعد میں جب مردم شماری کے وقت جماعت کا نام رکھنے کی ضرورت پڑی تو آپ نے یہ نام بھی آنحضرت ﷺ کے حوالے سے ہی رکھا ۔ جیسا کہ فرمایا
’’اس فرقہ کا نام … فرقہ احمدیہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کے دو نام تھے ایک محمد ﷺ اور دوسرا احمد ﷺ …مدینہ کی زندگی میں اسم محمد ﷺ کا ظہور ہوا …لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسمِ احمد ظہور کرے گا … پس اس وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے ‘‘۔
(اشتہار واجب الاظہار 4نومبر 1900ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 473۔ نیا ایڈیشن نظارت اشاعت ربوہ)
6۔محبوب کا رنگ
محبت انسان کو محبوب جیسا بننے پر اکساتی ہے۔ اس جہت سے بھی آپ کا عشق رسول ایک بے مثل رنگ رکھتا ہے۔آپ نے ساری زندگی اوراپنے ہر قول و فعل میں اپنے آقا کی متابعت کا اتناخیال رکھاکہ اطاعت رسول ﷺآپ کے مزاج کا ایک لازمی حصہ بن گئی ۔اس سے ہٹ کر آپ نہ کچھ سوچتے ، نہ بولتے اور نہ کرتے ۔آپ کی حیات کا ورق ورق اِتّباعِ رسول کے نور سے منور نظر آتا ہے۔حسنِ خلق، حسن ِمعاملہ ، حسنِ معاشرت،شفقت و محبت، مہمان نوازی ، دوست داری،ایفائے عہد، عیادت و تعزیت، عفو و درگزر، برداشت و رواداری،، سادگی و بے تکلفی ،محنت و مشقت،عبادت و ریاضت، سچائی ، عدل و انصاف، جودوسخا، ایثار، مساوات، تواضع، اپنے ہاتھ سے کام کرنا، عزم و استقلال، شجاعت غرضیکہ سب طریق محبوب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔
7۔محبوب کے نام
اس عشق کا ایک عجیب رنگ یہ تھا کہ جب اس کامل اطاعت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقبول کیا اور یہ قرآنی وعدے پورے ہوئے کہ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران32:)
ترجمہ میری اتباع کرو ( اس صورت میں ) اللہ تم سے محبت کرے گا۔
وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ۔ (النساء 70:)
ترجمہ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا انعام کیایعنی انبیاء۔
تو آپ نے کمال محبت سے اس انعام کو بھی آقا کی طرف لوٹایا اور تکرار سے یہ اظہار ضروری سمجھاکہ
i۔؎
اُس نور پر فدا ہوں اس کا ہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے ، مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد20 صفحہ 456)
ii۔ ’’اگر میں آنحضرت ﷺکی اُمّت میں نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر بھی میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں ہرگز کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ کا نہ پاتا‘‘۔
(تجلیات الٰہیہ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 411-412)
iii۔ ’’میرے لئے اس نعمت کا پایا جانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سید و مولا فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی پیروی نہ کرتا۔ سو مَیں نے جو کچھ پایا اس کی پیروی سے پایا‘ ‘۔
(حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ4 6)
iv۔ ؎
ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دہم
یک قطرہ ز بحر کمال محمدؐ است
(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 645)
ترجمہ یہ روحانی خزائن جو میں خدا کی مخلوق کو دے رہا ہوں یہ آنحضورﷺ کے دریائے کمال کا صرف ایک قطرہ ہے۔
8۔اعترافِ عشق
آنحضرت ﷺ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق اتنا منفرد اور بے مثال تھا کہ جس نے دیکھا اعتراف کیا۔
i۔ آپ کو ہر دم قریب سے دیکھنے والے آپ کے بڑے بیٹے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے یہ شہادت دی کہ
’’آنحضرت ﷺ سے تو والد صاحب کو عشق تھا ایسا عشق میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا‘‘۔
(سیرت المہدی جلد اول از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 201 نظارت اشاعت ربوہ فروری 2008ء)
ii۔ ایک اور بیٹے نے اس کا اظہار ان الفاظ میں کیا
’’آپ کے دل و دماغ بلکہ سارے جسم کا رُئواں رُئواں اپنے آقا حضرت سرورِ کائنات فخر موجودات ﷺ کے عشق سے معمور تھا۔‘‘
(سیرت طیبہ مجموعۂ تقاریر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 27نظارت اشاعت ،ربوہ)
iii۔ 1886 ء میں بمبئی کے سیٹھ اسماعیل آدم صاحب نے اپنے پیر رشیدالدین صاحب العلمؒ (جھنڈے والے پیر)(حرّوں کے اوّلین پیشوا پیرصاحب پگاڑا کے بھائی)سے حضرت مرزا غلام احمدقادیانی صاحب کے دعویٰ کے بارے میں راہنمائی کے لئے درخواست کی۔ پیر سائیں نے اپنے جوابی خط میں تین تصدیقی شہادتیں درج فرمائیں جن میں سے ایک یہ تھی
’خواب میں ہم نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا تو ہم نے سوال کیا کہ حضور مولویوں نے اس شخص (مرزا غلام احمد قادیانی صاحب) پر کفر کے فتوے دیئے ہیں اور اس کو جھٹلاتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا
’در عشقِ ما دیوانہ شدہ است‘
یعنی وہ ہمارے عشق میں دیوانہ ہوا ہے۔
(مکتوبات احمد جلد سوم صفحہ 262)
iv۔ تاہم اس عشق پر اصل گواہی وہ فضلِ الٰہی تھا جو تیس اکتیس سال کی عمر میں آپ پر زیارتِ رسول کی شکل میں ہوا جس کا ذکر آپ نے یوں فرمایا
’’اوائل جوانی میں ایک رات میں نے رؤیا میں (حضورﷺ کو)دیکھا …آپ ﷺ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپ کی پُر شفقت و پُر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور مجھے کبھی بھول نہیں سکتی۔ آپ کی محبت نے مجھے فریفتہ کر لیا اور آپ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا…….
(پھر آپ نے کتاب براہین احمدیہ کے بارے میں آنحضور ﷺسے خواب میںاپنی گفتگو کا حال لکھا اور اس کے بعد)
میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کی کرسی اونچی ہو گئی ہے حتیٰ کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا گویا اس پر سورج اور چاند کی شعاعیں پڑرہی ہیں اور میں ذوق اور وجد کے ساتھ آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور میرے آنسو بہہ رہے تھے پھر میں بیدار ہو گیا اور اس وقت بھی میں کافی رو رہا تھا‘‘۔
(ترجمہ از آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 548-549)
9۔انتہائے عشق
اس عشق کی انتہا حضرت مسیح موعود کے درج ذیل عربی مصرعہ سے ظاہر ہے
؎
سَأَدْخُلُ مِنْ عِشْقِیْ بِرَوْضَۃِ قَبْرِہٖ
کہ میں اپنے عشق کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی قبر کے روضہ مبارک میں داخل ہو جاؤ ں گا۔
( کرامت الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 95)
اس اظہارمیں آپ نے آنحضرت ﷺ سے اپنے عشق کی انتہا اس پیشگوئی کی تکمیل قرار دیا ہے جو اُمّت کے موعودمسیح کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے ان الفاظ میں فرمائی تھی کہفَیُدْفَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِی وہ میرے ساتھ میری قبر میں دفن کئے جائیں گے۔(مشکوٰۃ باب نزولِ عیسیٰ صفحہ 480 مطبوعہ نور محمد اصح المطابع دہلی)
یہ خبر علامتی ہے کیونکہ ظاہری معنی کرنے میں آنحضرت ﷺ کی کسر شان ہے ۔ویسے بھی حدیث میں قبر کا لفظ استعمال ہواہے نہ کہ مقبرہ کا۔ اور بمطابق آیت ِ کریمہ ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ (عبس 22:)(ترجمہ پھر اسے مارا اور قبر میں داخل کیا۔) اللہ ہر شخص کو موت دے کر ایک روحانی قبر عطا فرماتا ہے۔
یہ شاندار انجام اس روحانی مناسبت اور مقامِ قرب پر دال ہے جو آپ کو آنحضرت ﷺ سے اپنے بے مثل عشق کے نتیجہ میںبارگاہِ الٰہی سے عطا ہوا۔
محبت کی یہ داستان خوب ہے اور یہ بیان دلوںکو گرماتا ہے اورہمیں اکساتا اوراس احساس کو تازہ کرتا ہے کہ ہم بھی اپنے دلوں کو عشق ِرسول سے بھر یں۔ ہماری آنکھیں اس احساسِ محبت سے تر رہیں۔ ہماری زبانیں اس آقا پر درود بھیجنے سے نہ تھکیں ۔ ہمارے وجود اطاعتِ رسول سے ذرہ برابر منحرف نہ ہوںاور ہماری ہر حرکت اور سکون،قول اور فعل سیرتِ رسول ﷺ کے تابع ہو جائیں۔ ہم اپنے اندر محبت رسول کی ایسی لَو لگائیں کہ ہمارے وجود منور ہوجائیں اور ہمارے اردگرد سب کو اسی روشنی میں راستہ ملے تا کہ اﷲ کی طرف ہماری دعوت میں بھی تازگی، حرارت اور برکت پیدا ہو۔اور جیسا کہ آپ کو الہاماً فرمایاگیا۔
کُلُّ بَرَکَۃٍ مِنْ مُحَمَّدﷺ کہ ہر ایک برکت محمد ﷺ کی طرف سے ہے ۔
(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 265)
اللہ کرے کہ ہماری جھولیاں ان برکتوں سے سدا بھری رہیں۔ آمین ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلیٰ آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌمَّجِیْد۔
٭…٭…٭