ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
ہم پورے اطمینان اور یقین کے ساتھ یہ جانتے ہیں کہ وہ اللہ اپنے دین کی مدد فرمائے گا اور اسے دشمنوں سے بچائے گا۔اور آسمان سے اسے تمام ادیان پر غلبہ دے گا۔ لیکن وہ غلبہ جنگ اور جہاد سے نہیں بلکہ زبر دست نشانات کے ذریعہ اورایسے ہاتھ سے ہوگا جو دشمنوں کی کھوپڑیاں توڑدے گا۔ اور ظالم اپنے ظلم کا پورا پوارا بدلہ پائیں گے۔
’’پس خلاصہ کلام یہ کہ ہم نے اس حکومت کو محسنوں میں سے پایا۔ اور اللہ کی کتاب (قرآن) نے ہم پر واجب کر دیا ہے کہ ہم اُن کے شکر گزار ہوں۔ اسی وجہ سے ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کی خیر چاہتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کی اسلام کی طرف راہنمائی فرمائے اور اس بندے کی بندگی سے انہیں نجات بخشے جو مصائب و آلام جھیلنے میں ان جیسا ہی بندہ تھا۔ اوراللہ اپنے دین کے لئے ان کی آنکھیں کھولے اور انہیں سب سے بہتر دین کی طرف متوجہ کرے اور انہیں دین و دنیا میں ہر نقصان سے محفوظ رکھے۔یہ ہماری دعا ہے اور احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور نیکی کے بدلے میں برائی صرف وہی شخص کرتاہے جس کا دل گنہگار ہو اور وہ شیاطین کی طرح ہوگیا ہو۔ پس ہم ظالموں کا طریق نہیں چاہتے۔ اور اس رسالے میں ہمارا رُوئے سخن ان علماء ِ نصارٰی اور پادریوں کی طرف نہیں مگر جنہوں نے اسلام کو گالیاں نکالنے اور ہمارے سید و مولی خیر الانام صلی اللہ علیہ و سلم کی توہین اپنا مذہبی فریضہ خیال کیا ہوا ہے۔ پس ہم اللہ کی طرف سے ان کو روکنے اور دور ہٹانے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور وہ (خدا ) اپنے دین کا مددگار ہے اور وہی بہترین مددگار ہے۔
اور میرے رب نے اپنے دین کی نصرت کے لئے ایسے کلام سے مجھے مخاطب کیا جس میں میں بہت بڑا وعدہ پاتا ہوں اور اس نے فرمایا:یعنی کہ ’’تُو انہیں اللہ کے ایام کی بشارت دے اور انہیں خوب نصیحت کر‘‘۔ پس ہم پورے اطمینان اور یقین کے ساتھ یہ جانتے ہیں کہ وہ اللہ اپنے دین کی مدد فرمائے گا اور اسے دشمنوں سے بچائے گا۔ اور آسمان سے اسے تمام ادیان پر غلبہ دے گا۔ لیکن وہ غلبہ جنگ اور جہاد سے نہیں بلکہ زبر دست نشانات کے ذریعہ اور ایسے ہاتھ سے ہوگا جو دشمنوں کی کھوپڑیاں توڑدے گا۔ اور ہم نے اس کی کتاب میں ایسا ہی پایاہے۔ پھر میرے رب نے مجھے اس جیسی وحی کی اور یہ وحی کا خلاصہ ہے۔ پس اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا۔ اور ظالم اپنے ظلم کا پورا پوارا بدلہ پائیں گے۔ اور اس طرح اس زمانے میں آثار ظاہر ہوئے اور ہمارا رب اہلِ زمین کیلئے قہری تجلی کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ پس اس نے اپنے قہری نشان تمام ملکوں میں دکھائے۔ اور بہت سے لوگوں کو طاعون نے فنا کردیا۔ اور ان میں سے بہتوں کو زلزلوں نے جڑوں سے اکھاڑ دیا اور موتوں نے انہیں آلیا۔اور وہ جو کل رات تک محلّات میں سو رہے تھے آج تُو انہیں قبروں میںمُردہ پڑے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ مجلسیں ان سے سُونی ہوگئیں اور محلّات ویران ہوگئے اور وہ ایسے گھر میں اترے جس نے انہیں (اس قابل)نہ چھوڑا کہ وہ اپنے بھائیوں کے پاس واپس جاسکیں اور اپنے ہمسایوں سے اپنے گھر واپس چھین سکیں اور تو لوگوں کو دیکھتا ہے کہ انہیں اس وباء سے بچ نکلنے کی طاقت نہیں اور آسمان کے نیچے ان کے لئے کوئی بھاگنے کی راہ باقی نہیں رہی۔ اور جیسا کہ مخالفین کا خیال ہے اس بلا کو قسمت اور اتفاق پر محمول نہیں کیا جاسکتا پس نیک بخت وہی ہے جس نے ان نشانوں کو پہچانا اور ان سنگلاخ گھاٹیوں میں داخل ہوا۔
اللہ تم پر رحم فرمائے ! تم جان لو کہ یہ مصائب ان تقدیروں میں سے ہیں جنہیں نہ تم نے اس زمانہ سے پہلے دیکھا اور نہ ہی کبھی تمہارے آباء نے دیکھا۔ اور یہ نشانات صرف اس شخص کی خاطر ہیں جسے خدائے منّان کی طرف سے تمہارے درمیان اس لئے مبعوث کیا گیا تاکہ اللہ اپنے دین کی تجدید اور اس کے دلائل کو ظاہر کر دے اور اس کے باغات کو سرسبز و شاداب کرے۔اور اس کے پیڑوں کو پاک پھلوں سے لاد دے۔ اور اس کی جلانے کے قابل ٹہنیوں کو تروتازہ شاخوں کی طرح بنادے اور ایسا اس لئے ہو تا لوگ اللہ کے دین قویم کو شناخت کر لیں اور اپنے رب رحیم کی طرف پوری طرح مائل ہوں اور وہ کریم الطبع شخص کی طرح دنیا سے نفرت کریں۔ اور جب دین کی صبح رو شن ہوئی اور اس نے براہین کی شعاعیں دکھائیں تو ان میں سے اکثر نے اپنے آنکھیں نیچی کر لیں تاکہ وہ نہ دیکھیں اور انہوں نے جانتے بوجھتے اللہ کے پیغام کو ناپسند کیا۔ حیف ہے ان پر کہ وہ خیر سے بھاگتے ہیں اور نقصان کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یقینا دروازہ کھلنے کا وقت آگیا ہے۔ پس کون ہے جو باربار دستک دے؟ اورجس کی آنکھ ہے اس کے لئے (معرفت کا) چشمہ جاری ہو گیا ہے۔ اللہ غفور و رحیم ہے جو اس کے پاس قلب ِ سلیم کے ساتھ آئے وہ اسے واپس نہیں لوٹاتا۔ اور جو طلب میں بڑھتا جا تا ہے وہ اسے عطا میں بڑھاتا جاتاہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ قوم نے جسمانی فقر کو روحانی بد حالی کے ساتھ جمع کر دیا ہے۔پھر بھی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خدائے کریم کی طرف سے مبعوث ہونے والے مصلح کے محتاج نہیںاور ان پر تمام دروازے بند کر دیئے گئے ہیں،پھر بھی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ہر قسم کی نعمتیں دی گئی ہیں اور اس بات پر خوش ہیں کہ چوپایوں کی سی زندگی گزاریںاور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور انعامات سے اعراض کریں۔ ہمیں ان کی کم ہمتی اور خستہ حالی پر حیرانگی ہوتی ہے۔ اور ہم ان کی اصلاح کے لئے اس وقت تک اللہ سے التجاکرتے رہیں گے جب تک انہیں کامیابی حاصل نہ ہوجائے اور ہم نے ان کے لئے دعا کے واسطے اپنے اکثر اوقات، بالخصوص اوقات سحر وقف کر دیئے ہیں اور وہ آنکھ بھی جو ان افکار سے اغماض نہیں کرتی (وقف کردی ہے)۔ اور اللہ کی قسم ! میں نے ایام طاعون کے ظاہر ہونے سے قبل ہی ان لوگوں کو اس کے زمانہ کی اطلاع دیدی تھی۔ اور میں نے کوئی بات نہیں کہی تھی مگر جب میرے رب نے مجھے اس کے پوشیدہ راز سے اطلاع دی اور اس کے بتانے کا ارشاد فرمایا۔ پھر اس کے بعد طاعون نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور ان پر موتوں کا نزول ہوا۔ اور اس کی یہ اطلاع اس وقت دی گئی جب اطباء کی رائے کو اس تک کوئی رسائی نہ تھی۔ اور کسی عقلمند نے اس کے متعلق کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ پھر ویسے ہی وقوع میں آیا جیسے میرے رب نے مجھے خبر دی تھی اور یہ آسمان کے رب کی طرف سے ایک برہانِ عظیم تھی لیکن لوگوں نے اس کی طرف نگاہ نہ کی اور کسی شخص نے اپنی آنکھوں سے آنسوئوں کا پانی نہ بہایا۔ اور نہ انہوں نے توبہ کرنے اور اعمال حسنہ بجا لانے کیلئے کوئی فوری قدم اٹھا یا بلکہ وہ معاصی اور برائی میں اور بڑھ گئے۔ اور انہوں نے میری تکذیب کی اور مجھے کافر قرار دیا اور کہاکہ یہ لئیم دجال ہے اور میری تنہائی میں صرف میرے رب رحیم نے میری غمخواری فرمائی۔ اور وہ سب میرے خلاف سبّ و شتم میں اکٹھے ہو گئے۔ اور قرض خواہ کے چمٹنے کی طرح وہ مجھ سے چمٹ گئے اور اپنے قدیمی بغض کے باعث انہوں نے مجھے نہیں پہچانا۔ اورہم اصحاب کہف و رقیم کی طرح ان کی نگاہوں سے چھپے رہے۔‘‘
(الاستفتاء مع اردو ترجمہ صفحہ 141تا146۔ شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ ربوہ۔