ایک روایت ہے آنحضرتﷺ کی رضاعی والدہ حلیمہ مکہ آئیں اور حضور سے مل کر قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا۔ حضورﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا۔ (طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ ۱۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۰)اب خدمت صرف حقیقی والدین کی نہیں ہے بلکہ ہمارے آقا حضرت محمدﷺ کا اسؤہ حسنہ تو یہ ہے کہ اپنی رضاعی والدہ کی بھی ضرورت کے وقت زیادہ سے زیادہ خدمت کرنی ہے۔ اور اس کوشش میں لگے رہناہے کہ کسی طرح مَیں حق اداکروں۔ اور یہاں اس روایت میں ہے کہ مال چونکہ حضرت خدیجہ ؓکا تھا، وہ بڑی امیر عورت تھیں اور گو کہ آپ نے اپنا تمام مال آنحضرتﷺ کے سپرد کر دیاتھا، آپ کے تصرف میں دے دیا تھا، آپ کو اجازت تھی کہ جس طرح چاہیں خرچ کریں لیکن پھربھی حضرت خدیجہؓ سے مشورہ کیااور ہمیں ایک اور سبق بھی دے دیا۔ بعض لوگ اپنی بیویوں کا مال ویسے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے تصرف میں نہیں بھی ہوتا ان کے لئے بھی سبق ہے۔
پھرایک روایت ہے حضرت ابو طفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو مقام جِعْرَانہ میں دیکھا۔ آپؐ گوشت تقسیم فرما رہے تھے۔ اس دوران ایک عورت آئی تو حضورؐ نے اس کے لئے اپنی چادر بچھادی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے جس کی حضورؐ اس قدر عزت افزائی فرما رہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ آنحضورﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔ (ابو داؤد۔ کتاب الادب۔ باب فی بر الوالدین)
ایک بار حضورؐ تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے۔ حضورؐ نے ان کے لئے چادرکا ایک پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپؐ نے دوسرا پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپؐ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب باب برالوالدین)۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍جنوری ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍مارچ ۲۰۰۴ء)