حصول تقویٰ کے چھ قرآنی ذرائع
تقویٰ،جس سے مراد خدا خوفی ہے، اس پر اسلام میں بہت زور دیا گیا ہے اور اس کے حیرت انگیز نتائج بیان فرمائے گئے ہیں۔ چنانچہ فرمایا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ۔ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے، فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ۔اللہ متقیوں سے محبت رکھتا ہے۔ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ۔ اللہ متقیوں کی ہی قربانی قبول فرماتا ہے۔ اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ مَفَازًا۔ متقیوں کے لیےکامیابی ہے۔ اَلْعَاقِبَۃ لِلْمُتَّقِیْن۔ اچھا انجام متقیوں کے لیے ہے۔ اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہارے لیے ایک بڑے امتیاز کا سامان پیدا کردے گا۔ اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّعُیُوۡنٍ۔ متقی باغوں اور چشموں والی جنتوں میں ہوں گے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہاں تک فرمایا ہے کہ ’’ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے‘‘۔ چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے حصول کے کیا ذرائع ہیں؟ ذیل کے مضمون میں حصولِ تقویٰ کے ان چھ بڑے ذرائع کا ذکر ہے جو قرآن کریم نے بالوضاحت بیان فرمائے ہیں۔
۱۔عبادت
تقویٰ کے حصول کا ابتدائی اور اہم ترین طریق اور قرآن کریم کا سب سے پہلا حکم یہ ہے: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَالَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ (البقرۃ:۲۲) اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلوں کو بھی، تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔
یعنی تقویٰ کے حصول کا ایک بلکہ اہم ترین طریقہ عبادت ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم متقیوں کو اعلیٰ مقامات پر پہنچاتا ہے اس لئے تم کو متقی بننا چاہئے تاکہ تم اس کے ساتھ جو فوائد وابستہ ہیں ان سے متمتع ہو سکو اور اس کا طریق یہ بتایا کہ اپنے رب کی عبادت کرو‘‘ (تفسیر کبیر، جلد ۱، صفحہ ۲۰۴،البقرۃ: ۲۲)عبادت میں مزہ نہ آئے، کسی حد تک بھی انسان گنہگار ہو، یا اسے کسی قسم کے مسائل درپیش ہوں، اس خیال سے عبادت کرتے چلے جانا چاہئے کہ اس سے تقویٰ حاصل ہو گا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’ شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سُرور نہیں آتا تو وہ پَے در پَے پیتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آجاتا ہے۔ دانشمند اور زیرک انسان اس سے فائد ہ اُٹھا سکتا ہے اور وہ یہ کہ نماز پر دَوَام کرے اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سُرور آجاوے‘‘۔(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۸، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
اس آیت میں ’’المسلمین‘‘ کی بجائے ’’الناس‘‘، ’’اللہ‘‘ کی بجائے ’’ربّ‘‘ اور ’’صلاۃ‘‘ کی بجائے ’’اعبدوا‘‘ کے الفاظ کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ یہ خطابِ عام ہے اور انسان کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اور اللہ تعالیٰ کو کسی بھی نام سے پکارتا ہو اس کے نزدیک جو بھی عبادت کا طریق ہے اس پر حسن نیت سے عبادت کر کے تقویٰ حاصل کر سکتا ہے۔ پھر اگر غیر مسلم ہے تو یا اسلام تک پہنچ جائے گا یا اسلام کا صحیح پیغام اس تک نہیں پہنچا تو بھی اس کے لیے کوئی خوف کی بات نہیں۔
۲۔روزہ
فرمایا:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔(البقرۃ:۱۸۴) یعنی اے ایمان والو، تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے یعنی اس لیے تاکہ تم اس ذریعہ سے تقویٰ حاصل کرو۔
پس روزے رکھنا بھی تقویٰ کے حصول کا ایک طریق ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ روزوں کے متعلق فرماتے ہیں: ’’اس سے نفس پر قابو حاصل ہوتا ہے اور انسان متقی بن جاتا ہے‘‘۔ (حقائق الفرقان،البقرۃ ۱۸۴)اسی طرح روزہ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’ اس کے نتیجہ میں تقویٰ پر ثباتِ قدم حاصل ہوتا ہے‘‘۔(تفسیر کبیر، البقرۃ:۱۸۴)
۳۔تلاوت قرآن کریم
فرمایا:خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّاذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔(الاعراف:۱۷۲) جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑو اور جو اس میں بیان کیا گیا ہے اسے پڑھو تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔
’’اُذکروا‘‘ یعنی یاد رکھو کا ایک مطلب ’’اُدرسوا‘‘ یعنی پڑھو بھی بتایا گیا ہے (تفسیر کبیر، البقرۃ:۶۴) حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ کے کلام کو اسی کی زبان میں پڑھنا چاہیے اس میں بھی ایک برکت ہوتی ہے ‘‘(ملفوظات، جلد ۲ صفحہ ۶۵۶، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)قرآنی تعلیم کا مقصد ہی تقویٰ پر قائم کرنا ہے، فرمایا اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا وَّصَرَّفۡنَا فِیۡہِ مِنَ الۡوَعِیۡدِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ (طٰہٰ:۱۱۴)ہم نے اسے عربی قرآن اتارا ہے اور اس میں خبردار کرنے کی باتیں مختلف پہلو سے بیان کی ہیں تاکہ یہ لوگ تقویٰ اختیار کریں۔ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا غَیۡرَ ذِیۡ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ (الزمر:۲۹)یہ قرآن یعنی پڑھے جانے والی کتاب ہر بات کھول کر اور وضاحت سے بیان کرتی ہے اور ہر کجی سے پاک ہے تاکہ یہ لوگ تقویٰ حاصل کریں۔ پس قرآن کریم کی تلاوت بھی تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ جو اس نیت سے تلاوت کرتا ہے کہ اس پر عمل کرے گا، وہ ضرور تقویٰ کا ایک حصہ حاصل کر لیتا ہے۔ اس کے بعد جتنا اخلاص سے، سمجھ کر، جتنا زیادہ عمل کرتے ہوئے، جتنا زیادہ پڑھے گا اتنا ہی فائدہ اٹھائے گا۔
۴۔رسول پر ایمان
فرمایا:اَوَعَجِبۡتُمۡ اَنۡ جَآءَکُمۡ ذِکۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَلٰی رَجُلٍ مِّنۡکُمۡ لِیُنۡذِرَکُمۡ وَلِتَتَّقُوۡا (الاعراف:۶۴)کیا تم تعجب کرتے ہو کہ تمہارے رب کی طرف سے تم میں سے ایک بندے پر ذکر اتارا گیا ہے تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور اس لیے اتارا گیا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
کلام الٰہی تو تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے ہی، رسول بھی تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے۔ وہ کلام الٰہی کی تشریح کرتا اور اپنے عملی نمونہ سے بتاتا ہے کہ کس طرح اس پر عمل کرنا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول پر ایمان ہی کافی ہے۔ یہود کا خیال تھا: لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً (البقرۃ :۸۱)ہم جو پہلے نبیوں پر ایمان لے آئے ہیں اس کے بعد اگر ہم میں سے کوئی جہنم میں گیا بھی تو چند دن سے زیادہ ایسا نہیں ہوگا! لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرۃ:۸۲) ہرگز نہیں! جس کسی نے بھی غلط کام کیے اور اس کی غلطیاں اسے ہر طرف سے گھیر کر اس کے اچھے کاموں پر حاوی ہو گئیں، تو وہ لوگ آگ میں پڑیں گے۔ اور محض چند دن کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ مسلمانوں کو فرمایا: لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ (النساء:۱۲۴) فیصلہ نہ تو تمہاری خواہش کے مطابق ہو گا نہ ہی اہل کتاب کی خواہش کے مطابق بلکہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ جو کوئی بھی غلط کام کرے گا، اس کا نتیجہ بھگتے گا۔
درحقیقت ایمان میں اعمال شامل ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ رسول پر ایمان لاتا ہے مگر اس کی تعلیم پر عمل نہ کرے تو عملاً وہ رسول پر ایمان نہیں لایا۔ بلکہ اس نے صرف ظاہری طور پر رسول کی تکذیب اور مخالفت ترک کر دی ہے اور اس پر حسن ظن کیا۔ مگر یہ بات کافی نہیں جب تک اس کے ساتھ پاک اعمال نہ ہوں۔
۵۔بدعات اور تفرقہ سے اجتناب
فرمایا : وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمۡ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوَن۔ (الانعام:۱۵۴)بدعات اور خود ساختہ تعلیمات کے نئے نئے راستے مت اختیار کرنا ورنہ تم اللہ کے راستے سے ہٹ جاؤ گے۔ یہ نصیحت اس لیے کی گئی ہے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔
بہت سے لوگ اپنے خیال سے نئی رسوم یعنی بدعات ایجاد کر لیتے ہیں۔ خواہ بظاہر کیسی ہی پر کشش اور اچھی بات ہو مگر بالآخر ایسی چیزیں گمراہی کا باعث بنتی ہیں۔ اور بدعات تفرقہ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ مسلمانوں میں اس وقت جو بڑے فرقے ہیں، ان میں سے اکثر میں نماز، روزہ پر اتفاق ہے۔ اختلاف اکثر بے معنی اور لا یعنی مسائل میں ہی ہے۔ مثلاً نور اور جسم کا مسئلہ یا محفل میلاد کے مسائل وغیرہ۔ انسان بھی عجیب چیز ہے، جن باتوں کے کرنے کا اسے حکم دیا گیا ہے وہ تو کرتا نہیں، اور جن باتوں کا حکم نہیں دیا گیا وہ خواہ مخواہ ایجاد کر کے اپنے لیے مشکل پیدا کر لیتا ہے۔
۶۔قصاص
فرمایا: لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ (البقرۃ :۱۸۰)اے عقل والو، تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔
اس جگہ ’’تقویٰ ‘‘سے معاشرتی مسائل سے ’’بچنا ‘‘تو مراد ہے ہی، تاہم خدا خوفی بھی مراد ہے کیونکہ بعض مواقع پر سزا دینا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اس نے باریک حکمتوں کے تحت دیا ہے۔ اولی الالباب سے خطاب سے ظاہر ہے کہ ایسے قصاص کے نتیجہ میں صرف عقلمند ہی خدا خوفی میں ترقی کرتے ہیں۔ نیز اولی الالباب کو اس لیے مخاطب کیا گیا ہے کہ وہ فطری طور پر معاف کرنے والے ہوتے ہیں۔ بدلہ تو جانور بھی لیتے ہیں لیکن اپنے مزاج کے برخلاف محض اس حکم کی اطاعت میں بدلہ لینا نیکی و تقویٰ میں ترقی کا باعث ہے۔