محترم میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ کا ایک واقف زندگی کے نام خط
یکم مئی۱۹۷۲ء کو جب ہم ۱۳؍لڑکے جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کرکے فارغ ہوئے تو محترم میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ نے ہر ایک لڑکے کے نام یہ خط بھیجا، یہ خط نہ صرف ہر واقفِ زندگی بلکہ ہر کارکن کے لیے راہنما ہے۔یہ استفادہ عام کے لیے الفضل کی زینت بنایا جا رہا ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہٖ الکریم
و علیٰ عبدہٖ المسیح ا لموعود
عزیز م مکرم ….
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ کہ آپ ایک لمبے عرصے کا تعلیمی اور تربیتی دور مکمل کرکے عملی میدان میں قدم رکھ رہے ہیں۔میری دلی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اس موقع پر میں نے چاہا کہ چند باتیں آپ کے سامنے پیش کر دوں شاید آپ کے لیے فائدے کا موجب ہوں۔
یاد رکھیں ! آپ نے زندگی وقف کر کے جو بوجھ اپنے اوپر ڈالا ہے وہ کوئی معمولی بوجھ نہیں یہ تو دراصل اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ والا بوجھ ہے اور اسے کامیابی سے اٹھانے کے لیے ظلوم اورجہول بننا پڑتا ہے۔اور اس کے بغیر یہ بوجھ کمر توڑ دینے والا ہے۔اس لیے بجزاللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے آپ کبھی اس بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے۔
جامعہ کے دوران میں نے اور میرے ساتھی اساتذہ نے بھی پوری کوشش اورسعی کی ہے کہ آپ اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہو جاویں۔ آپ سے جو بھی ہمارا سلوک رہا میں شرح صدر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمیشہ یہی پیش نظر رہا کہ آپ کا معیار بلند سے بلند تر ہوتا جاوے۔
میں اپنے متعلق تو یقین سے اور دوسرے اساتذہ کے متعلق غالب حسن ظنی سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ کبھی کوئی ذاتی تعصب بیچ میں حائل نہیں ہوا، نہ کسی کے حق میں اور نہ کسی کے خلاف۔ جو کچھ کیا ہمیشہ نیک نیتی سے کیا۔بشری کمزوری اور غلط فہمی کی وجہ سے جو زیادتیاں ہم سے ہوتی ر ہیں ان کے لیے میں تہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محض اپنے فضل سے معاف فرما دے۔ آمین
یہ زمانہ اسلام کی نشاۃِٔ ثانیہ کا زمانہ ہے۔یہ وہی دور ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ پہلا دور بہتر ہے یا بعد کا۔ اس نئے دور کے لانے کی جو کوششیں انسانی ہاتھوں سے کی جانی ہیں،جن کا تخم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے بویا تھا یہ وہ جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل طلباء کی ذمہ داری رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔اس لیے میری دردمندانہ درخواست ہے کہ آپ اپنے مقام کو پہچانیں اور ان ذمہ داریوں کا احساس اپنے دل میں پیدا کریںجو آپ پر پڑنے والی ہیں۔اس احساس کے بغیراور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے حوصلہ اور ہمت اور محنت اور جانفشانی اور جفاکشی کے بغیر کبھی کامیابی ہمارے قدم نہیں چوم سکتی۔
٭… کامیابی کے گُروں میں سے ایک بنیادی گُر یہ ہے کہ آپ کبھی اپنی کوشش اور سعی اور محنت اور کام اور کامیابی پر نازاں نہ ہوں۔اپنی طبیعت میں خاکساری اور انکسار پیدا کریں۔
اللہ تعالیٰ ہی کام کے مواقع مہیا فرماتا ہے۔ سوچ اور سمجھ دیتا ہے۔اس کے لیے ہمت عطا فرماتا ہے اور پھر خود ہی کامیابی بخشتا ہے۔اس لیے ہمیشہ ہر آن، ہر بڑے اور چھوٹے کام میں اس پر توکل ہونا چاہیے۔ہر کام سے پہلے اس کے حضور کامیابی کے لیے دعا ہونی چاہیے۔تدبیر بعد میں ہو اوردعا پہلے ہو۔ یہی گُر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سمجھایا ہے۔ یاد رکھیں دعا ہی ایسی ایک چیز ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے حضور میں کچھ قدر ہے ورنہ دوسری کوئی چیز بھی اس کے حضور میں قابلِ اعتنا ء نہیں قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡلَا دُعَآؤُکُمۡ۔
٭… آپ جوانی کے زمانہ میں سے گزر رہے ہیں جب قویٰ پورے جوبن پر ہیں۔ یہی کام کرنے اور جانفشانی سے کام کرنے کا وقت ہے۔ پورے شوق، کامل ذوق،کمال توجہ اور غائت درجہ انہماک سے پہلے ہی دن سے کام شروع کر دیں۔جوانی ڈھلتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ جب آپ پچاسویں سال میں قدم رکھیں گے تو یوں معلوم ہوگا کہ یہ سارازمانہ پلک جھپکتے میں گذر گیا۔اس لیے اس طاقت اور ہمت کے زمانہ کی قدر کریں اور کوئی کام آخری عمر کے لیے اٹھا نہ رکھیں۔ پھر یہ بھی کس کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کب بلاوا آجائےگا۔ اچھی زندگی کا یہ معیار نہیں کہ کتنی لمبی تھی بلکہ یہ معیار ہے کہ جتنی بھی تھی کیسی گذری؟ غفلت میں گذری یا کام میں؟دنیوی سعی میں یا اپنی کوششوں میں ؟ خادم بننے میں یا مخدوم بنے رہنے میں ؟
٭… آپ مجاہد ہیں یہ بات ہمیشہ زیرِ نظر رہے اور سستی، غفلت، کسل مندی،وقت کے ضیاع کا اس لفظ کے ساتھ عین تضاد ہے۔ وقت کی قیمت پہچانیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کو جو الہام ہوا تھا، اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗوہ صرف آپؑ کی ذات کے لیے تو نہ تھا بلکہ آپ کے متبعین کے لیے نصیحت اور ہدایت تھی۔ وقت ایک نہایت قیمتی چیز ہے بلکہ قیمتی سرمایہ ہے اس کا جو لمحہ بیکار گیا ایسا ہی سمجھیں کہ اتنا ہی آپ کا قیمتی سرمایہ ضائع گیا۔ اس لیے در حقیقت اس کا ایک لمحہ اور دقیقہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
مجھ سے کئی دفعہ سنا ہوگا کہ میں تو وقت کو ایک سواری سمجھتا ہوں۔اچھے سوار کی نشانی یہ ہے کہ وہ سواری کو اپنے قابو میں رکھتا ہے، اس طرح وقت کو اپنے قابو میں رکھنا چاہیے۔نہ یہ کہ انسان وقت کی کمی کی شکایت کرتا رہے۔ میں نے بہت سے کام ایک ہی وقت میں سنبھالے ہیں مگر الحمد للہ مجھے وقت کی کمی کی کبھی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ سواری سواری میں فرق ہے۔آپ چاہیں تو اپنے وقت کو آواز کی رفتار سے تیز تر ہوائی جہاز بنا لیں،چاہیں تو صدیوں پرانا چوں چوں کرتا گڈا بنا لیں۔ یہ آپ کے اختیار میں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یتقارب الزّمان کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آخری زمانہ میں یہ ممکن ہو جائے گا کہ تھوڑے سے وقت میں بہت سا کام کیا جائے۔ اس لیے وقت کا صحیح اور مفید استعمال انسان کو کامیابیوں سے ہمکنار کر دیتا ہے۔اگر دنیا دار انسان دن میں اٹھارہ اٹھا رہ گھنٹے ان تھک کام کر سکتا ہے تو کیا خدا کے سپاہی کے لیے یہ ممکن نہیں؟
٭… یہ بات اچھی طرح دل میں جما لیں کہ رازق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌمِّنَ الْیَدِ الْسُّفْلیٰ آپ کی نظریں کسی کے مال،کسی کے تحفے، کسی کی عیدی، کسی کے نذرانے، کسی کی دعوت پر ہرگز نہ اٹھیں اور اگر اٹھیں تو حد درجہ تعامل کے ساتھ۔ آپ کے مال سے دوسروں کی ضرورت پوری ہو ناں یہ کہ دوسرے کے مال سے آپ استفادہ کریں۔ آپ اس معاملہ میں کوہِ وقار کی حیثیت رکھیں۔ غیر احمدی علماء کی حالت نے اسلام کو حد درجہ بدنام کر دیا ہے۔ملاؤں کی روٹیوں نے اسلام کو غیروں کی نظروں میں ذلیل کر کے رکھ دیا ہے۔
اب یہ آپ کے ذمہ ہے کہ اس کیفیت اور اس بدنامی کو بدل کر رکھ دیں اور آئندہ قیامت تک کوئی شخص اسلامی عالم یا مولوی کے کردار پر انگلی اٹھانے کی جرأت نہ کر سکے۔
٭…جامعہ کے دوران آپ کو کچھ باتیں پابندی سے کرنا سکھائی گئی تھیں۔ نماز باجماعت کی پابندی، تلاوت قرآن مجید، درس رمضان،مسجد مبارک میں حاضری، تہجد، ہر ماہ کے تین روزے، محاسبہ، مراقبہ، لباس کا وقار، وقار عمل اور ہاتھ سے کام کرنا، ورزش، روزانہ ڈائری لکھنا وغیرہ۔یہ باتیں عارضی نہیں آپ کے لیے مستقل افادیت رکھتی ہیں۔ اگر آپ یہاں سے فارغ ہو کر ان باتوں کو بھول جائیں گے تو نقصان اٹھائیں گے۔ اگر ان کو یاد رکھیں گے اور عادت ڈال لیں گے تو بہت سی برکتیں حاصل کریں گے۔ اگر کام نگران کی نظروں کے نیچے ہی ہو اور نگران کی نظر کے ختم ہو جانے کے ساتھ اس میں شامل ہو تو اس کا نہ کوئی ثواب ہے نہ فائدہ۔کام وہی ہے جو نگران کی عدم موجودگی اور لاعلمی میں ہو۔ اللہ تعالیٰ تو بہرحال حاضرو ناظر ہے۔
٭… سلسلہ کی ہدایت کی تعمیل شرح صدر اور محبت سے ہونی چاہیے۔اگر خدانخواستہ شرح صدر نہیں تب بھی ہونی چاہیے اطاعت کا جو جذبہ اسلام سکھاتا ہے اسے اپنے دل میں پوری طرح رچا لیں۔جہاں کہا جائے،جب کہا جائے، جس طرح کہا جائے،چلے جا ویں۔ جو کام بھی سپرد کیا جائے اس میں لیت و لعل نہ ہو۔خواہ ذاتی طور پر کتنا ہی نقصان ہوتا ہو۔ آپ تو اپنی جان تک دے چکے پھر چُوں کیوں اور چرا ں کیسی ؟
اور یہ ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ حاضرناظر ہے۔یہ نہیں کہ وہ ایشیا میں ہے اور یورپ میں آپ کے اعمال کا محاسبہ نہیں فرماتی،امریکہ میں تو نگرانی فرماتی ہے اور افریقہ میں اسے پتا نہیں لگتا۔ ربوہ سے باہر کی جماعتوں میں تو آپ کے کاموں کا جائزہ لیتی ہے اور ربوہ میں بھول جاتی ہے۔ العیاذ باللّٰہ۔اس لیے جگہ کی تعین کے بغیرخوا ہ دفتروں میں کام دیا جائے یا جماعتوں میں۔لکھائی کا کام دیا جائے یا پڑھائی کا،پاکستان کے اندر ہو یا بیرون ملک ہر جگہ ذات باری نگران اور محاسب ہے۔میں نے بعض عزیزوں کو دیکھا ہے کہ باہر جاکر خوب چوکس ہو جاتے ہیں لیکن ربوہ میں آتے ہیں تو سستی اور تساہل اور غفلت کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ حتّی کہ نمازوں اور درس قرآن مجید میں شمولیت میں بھی کوتاہی کر جاتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
٭… کتاب الحیل سے حد درجہ پرہیز کریں۔اس جیسی خدا کو ناراض کرنے والی کوئی چیز نہیں آپ کی بات سیدھی اور صدق وسداد پر مبنی ہو۔ شیطان بہت دفعہ، بہت جگہ بہکائے گا۔ نفسانی خواہشات بسااوقات پُھسلائیں گی۔ان سے ہوشیار اور چوکس رہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ۔ وَّلَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ ۔کبھی اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا نہ ہونے دیں۔ کیونکہ سب سے بڑا دھوکا وہی ہے جو انسان اپنے آپ کو دے رہا ہوتا ہے۔
٭… اللہ تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا کریں۔یہ ضرورت اتنی واضح ہے کہ مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کی زندگی کی معراج اللہ تعالیٰ کا بن کر رہنے میں ہے۔ اس کی خاطر ہی تو آپ نے اپنی زندگی وقف کی ہے۔ پھر وہی گوہر ہاتھ نہ آیا تو زندگی کا کیا لطف اور کیسی کامیابی؟
٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی عادت ڈالیں اور اتنی عادت ڈالیں کہ دل و جان معطر ہو جائے۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ایک معین تعداد مقرر کر لیں اور روزانہ پابندی کے ساتھ وہ تعداد پوری کریں۔ بہتر یہ ہے کہ فجر کی نماز کے بعد کسی سے (سوائے اشد مجبوری کے ) بات نہ کریں جبتک یہ تعداد پوری نہ ہو جائے۔
٭… حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے اور آپؑ کے مشن کی تکمیل کے لیے جو غلبہ اسلام کی مہم ہے اس کے لیے ہمیشہ دعا کرتے رہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کے حضور باقاعدگی سے خط لکھیں،دعا کی درخواست کریں اور ان سے ایک خصوصی ذاتی تعلق پیدا کریں۔ ایسا کہ آپ کی زندگی حتّی کہ ذاتی حالات اور آپ کا کام ان کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہو۔ اس کی برکات وہی شخص مشاہدہ کرتا ہے جو ان سے ایسا تعلق رکھتا ہے۔غیر اس امر کو نہیں جان سکتے۔
٭… آپ کی اس مقررہ تعلیم کے ساتھ مطالعہ ختم نہیں ہو جانا چاہیے۔ تدبّر قرآن، تفسیر قرآن، احادیث نبویؐ،کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء سلسلہ کا توایک اہتمام کے ساتھ دَور ہونا چاہیے۔ یہ تعہّد کریں کہ خواہ کچھ ہو جائے آپ رات کو بستر پر نہیں جائیں گے جب تک کہ ایک حصّہ مطالعہ نہیں کریں گے۔ اس طرح خواہ کئی سال میں ہو دور مکمل ہوتا رہے گا۔آپ کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ علمی مطالعہ میں کمزوری پیدا ہو جانے کا احتمال ہے اس لیے پابندی اور تعہّد کے ساتھ توجہ کریں گے تو یہ مطالعہ جاری رہ سکے گا۔ یاد رکھیں جس کا مطالعہ جاری نہیں رہتا اس کا علمی معیار گرنے لگ جاتا ہے۔آپ کا علمی معیار تو بجائے گرنے کے روز بروز بلند ہوتا رہنا چاہیے۔
٭… آپ نے اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت کے لیے وقف کی ہے اور دن کے چوبیس گھنٹے، مہینے کے تیس دن اور سال کے بارہ ماہ وقف کیے ہیں۔ اس لیے رخصت کا تصور ذہن سے کلّی طور پر نکال دیں۔دفتری قواعد آپ کو رخصت کا حق دیں گے مگر یاد رکھیں کہ آپ نے دفتر کے لیے وقف نہیں کیا۔ رخصت صرف اسی صورت میں لیں جب حقیقی اور اشد ضرورت اور مجبوری ہو۔معمولی کاموں یا ضرورت پر ہرگز رخصت نہ لیں۔خواہ قواعد کی رو سے آپ کا سالوں کا حق ہی کیوں نہ بنتا ہو۔یہ صرف انتظامی باتیں ہیں وقف کی روح کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں صحت برقرار رکھنے کے لیے رخصت لینا اور اسے صحت کی بحالی کے لیے استعمال کرنا یا صلہ رحمی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کے لیے مناسب رخصت لینا جائز اور ضروری ہے مگر اس میں سلسلہ کی ضرورت بہرحال مقدم رکھی جانی چاہیے۔
میں نے یہ چند باتیں آپ کے سامنے مستحضر کرنے کے لیے لکھ دی ہیں اور بڑے درد مند دل کے ساتھ لکھی ہیں۔اگر ان کو اچھی پائیں تو فائدہ اٹھا لیں۔ خدا کرے کہ آپ کی زندگی کا ایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ اس امر کی گواہی دے کہ آپ نے وقف زندگی کی حقیقی روح پا لی۔ اور اپنی جان اور مال اور وقت اور عزّت اور اپنا سب کچھ اپنے مولا کے حضور نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر پیش کر دیا۔اور آپ کی زندگی قرآنی فرمان مِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ میں بیان کی گئی دو باتوں میں سے ایک کی ذیل میں ضرور آجائے۔ آمین یا رب العالمین
خاکسار میر داؤد احمد
(مرسلہ: ’م۔ الف۔ بسمل‘)