ناقدری کرنے پر نعمتیں چھین لی جاتی ہیں
(خطبہ جمعہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۶؍فروری۱۹۱۴ءبمقام قادیان)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے قبل از خلافت فروری ۱۹۱۴ء میں ایک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے احباب جماعت کو اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کی تلقین کرتے ہوئے اس مضمون کو عام فہم مثالوں کے ساتھ بیان فرمایا۔قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے سورۃ بقرہ رکوع اوّل کی آخری دو آیتیں پڑھ کر فرمایا:
دنیا میں دوہی قسم کے آدمی ہوتے ہیں
ایک تو وہ لوگ ہیں کہ وہ کسی چیز کا انکار کریں تو اپنی کم علمی کی وجہ سے کرتے ہیں اور جب ان کو کوئی خوبی،کوئی نیکی اچھی طرح سے سمجھادی جاوے تو وہ مان لیتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو کہ کسی بات کا انکار اپنی کم علمی کے سبب سے نہیں کرتے بلکہ وہ ایک بغض اور ضد،تعصب اور ہٹ دھرمی کے سبب سے انکار کرتے ہیں۔ جو لوگ کہ کم علمی کی وجہ سے انکار کرتے ہیں ان کو سمجھانا بالکل آسان ہوتا ہے اور وہ ہدایت کے بالکل قریب ہوتے ہیں اور ان کے لئے ہدایت پا جانا بالکل آسان ہوتا ہے۔ اور دوسرا فریق جو تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار کرتے ہیں ان کے لئے سمجھانا کبھی با برکت نہیں ہو سکتا اور وہ ہدایت نہیں پاسکتے۔ ہر ایک نبی کے وقت میں ایسے گروہ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی گمراہی کا موجب بنتے ہیں۔
حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے یہ بات شروع ہے۔ آدم کا اور ابلیس کا مقابلہ ہوا
ابلیس نے کہا۔ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ (الاعراف:۱۳)میں آدم سے بہتر اور اس سے اعلیٰ ہوں اور میرا درجہ اس سے بلند ہے۔ پھر اس کو خدا کی عظمت و جبروت سے ڈرایا گیا مگر اس نے قبول نہ کیا اور انکار ہی کرتا رہا۔ آدم بھی اکیلا تھا اور اس کا ابلیس بھی اکیلا ہی تھا۔
پھر آدم علیہ السلام کے قائم مقام بھی بڑھے اور اس کی اولاد نے ترقی کی تو ادھر ابلیس کے بھی قائم مقاموں نے ترقی کی اور وہ بڑھتے گئے پھر جتنا جتنا زمانہ بڑھتا گیا اتنا ہی یہ دونوں قومیں بڑھیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ بھی۔اور
آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں بھی ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی تھی جنہوں نے اس وجہ سے نافرمانی کی کہ ان میں سے ایک آدمی نکل کر سمجھانے کے لئے کھڑا ہو گیا ہے اور وہ نبی بن گیا ہے۔
ہمارے زمانے میں بھی ایک جماعت نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا انکار کیا اور انہوں نے انکار اس وجہ سے نہیں کیا کہ ان کو سمجھ نہیں تھی بلکہ اس وجہ سے انکار کر دیا کہ ان کے دل میں ایک تعصب اور ہٹ دھرمی تھی۔ جب کسوف و خسوف ماہ رمضان میں ہوئے تو ایک مولوی جو اس وقت مسجد میں ٹہل رہا تھا بار بار کہتا جار ہا تھا۔
’’ہُن لوگ گمراہ ہون گے،
ہُن لوگ گمراہ ہون گے۔‘‘
یعنی اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے کیونکہ حدیثوں میں یہ مہدی کا نشان لکھا ہے کیونکہ اس کے زمانہ میں کسوف و خسوف دونوں ماہ رمضان میں اکٹھے ہوں گے۔(سنن الدار قطني الجزء الثانی صفحه ۶۵ مطبوعہ قاهره ۱۹۶۶ء )اور اب وہ بات تو سچی ہو گئی اور ایک شخص ایسا بھی موجود ہے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ میں مسیح موعودو مہدی معہود ہوں اور اس نے اپنی صداقت کا نشان یہ بھی بتلایا ہوا ہے، تو اب لوگ اس کو مان لیں گے۔
اب اس کی ضد اور تعصب کو دیکھو کہ وہ کہتا ہے کہ لوگ جو مان لیں گے وہ گمراہ ہوجائیں گے۔
وہ سمجھا ہوا تھا مگر ایک بغض جو اس کے دل میں تھا اس کی وجہ سے اس نے اس ہدایت کا نام بھی گمراہی رکھا۔ایک اور مولوی جس سے احمدیوں کا مباحثہ ہوا وہ بہت ہی خلاف باتیں لوگوں کو بتلا رہا تھا۔ اسے ایک دوسرے آدمی نے اسی کی زبان میں سمجھانا چاہا تو اس نے جواب دیا کہ ہم اگر لوگوں کو تمہاری مخالفت کی وجہ سے ایک کی بجائے دو خدا منوانا چاہیں تو یہ ماننے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگوں کا کام صرف مقابلہ و مجادلہ ہی ہوا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو گروہوں میں سے جو لوگ کہ کسی بے علمی کی وجہ سے انکار کرتے ہیں اور جب علم ہو گیا تو مان لیتے ہیں ایسے لوگ کامیاب ہوں گےاور جو لوگ کہ ضد اور تعصب اور ہٹ دھرمی کو کام میں لاتے ہیں ایسے لوگوں کو تیراڈ رانا یا نہ ڈرانا برابر ہے، ایسے لوگ ہدایت نہیں پاسکتے۔ خدا تعالیٰ بڑا غیور ہے۔ بہت سے انسان باغیرت ہوتے ہیں انسان کی فطرت میں غیرت کے سمجھانے کے لئے یہ رکھا ہے کہ انسان جب کسی کے ساتھ کوئی احسان کرے یا کسی پر خوش ہو کر اس کو انعام دے اور آگے اس کی بے قدری ہو تو اس سے انعام لے لیتا ہے اور پھر اس کو انعام نہیں دیتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَ زِيْدَ نَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ (ابراہیم :۸) تم اگر میری نعمتوں کی قدر کرو گے تو میں تم پر انعام زیادہ کروں گا۔ یہاں تاکید فرمائی ہے کہ میں ضرور تمہاری نعمتوں کو زیادہ کروں گا۔ یہ فطرت انسانیہ سمجھائی ہے۔
ہر ایک انسان اپنے نفس میں سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ کسی پر انعام کرے اور وہ آگے سے انعام کی بے قدری کرے تو پھر انسان اس پر کبھی انعام نہ کرے گا اور اسے کچھ نہ دے گا۔
اگر انسان کسی کو کپڑا دے اور وہ وہیں اس کے سامنے چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دے یا کھانے کی چیز دے اور وہ کتے کے آگے پھینک دے۔ یا دودھ دیا اور اس نے پھینک دیا اور انعام کی بے قدری کی تو پھر اسے انعام دینے کو جی نہیں چاہتا اور انسان پھر دوبارہ اس پر انعام نہیں کرے گا۔ انسان تو اگر انعام کی بےقدری ہوتے دیکھے تو جس پر انعام کرے اس سے سب انعام چھین لیتا ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی بے قدری کرے تو اللہ تعالیٰ چونکہ ربّ العالمین ہے۔ہمارے تو حوصلے پست ہوتے ہیں اس لئے سب انعام اس سے چھین لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس نعمت کی ناقدری دیکھے وہی اس سے چھینتا ہے اور صرف اس کو سزا دیتا ہے جس کےخلاف ہو۔
انعامات دو قسم کے ہوتے ہیں
جسمانی اور روحانی۔
جسمانی انعامات میں سے آنکھ کو لے لو۔ جو شخص کہ آنکھ سے کام نہ لے اور اسے استعمال میں نہ لائے تو آنکھ ناکارہ ہو جاتی ہے اور تباہ ہو جاتی ہے پھر وہ کبھی کام نہیں دے سکتی۔ بعض ہندو لوگ ہاتھوں کو سکھا دیتے ان سے کام نہیں لیتے اور ان کو یونہی کھڑا رکھتے ہیں تو وہ ہاتھ سُوکھ کر نکمے ہو جاتے ہیں۔ غرض انسان جس عضو سے کام لیوے وہ ترقی کرتا ہے اور جسے بیکار چھوڑ دے وہ نکما ہو جاتا ہے۔ جس طرح انسان کے ظاہری اعضاء کے ساتھ معاملہ ہے ایسے ہی روحانی اعضاء کا معاملہ ہے۔ ہر ایک عضو کے دو کام ہوتے ہیں روحانی اور جسمانی۔ اگر کوئی آدمی عقل سے کام نہ لے تو اس کی عقل ماری جاتی ہے اور جو حافظہ سے کام نہ لے اس کا حافظہ نکما ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی جو شخص دانائی سے کام نہ لے تو اس کا بھی یہی حال ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کریم کو نہ پڑھے اور اگر وہ قرآن کریم کی ایک آیت کو بھی غور سے نہ دیکھے اور اسے سمجھنے کی کوشش نہ کرے تو وہ روحانی معاملات کے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ ایسے لوگ
جو قرآن کریم کے سمجھنے میں اپنےافکار سے کام نہ لیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں تو ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر ہو جاتی ہے اور وہ کچھ سمجھ نہیں سکتے۔
اور جس طرح ظاہری اعضاء کو کام میں نہ لایا جائے تو وہ بے کار ہو جاتے ہیں ایسے ہی ان کی دل کی آنکھوں پر پردے پڑ جاتے ہیں اور ان کے دل کی بینائی ماری جاتی ہے اور بالکل ضائع ہو جاتی ہے اور ان کے کانوں میں بوجھ پڑ جاتے ہیں وہ کچھ نہیں سن سکتے۔ اور ان کو سزادی جاتی ہے اور انہیں سخت عذاب ہو گا۔ اور جو ایمان لے آتا ہے اور ماننے اور ہدایت کو قبول کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اسے تو اور زیادہ انعام ملتے ہیں اور وہ کامیاب و مظفر و منصور ہوتا ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کرتا ہے اور وہ کفر کرتا ہے تو اس سے وہ نعمتیں چھین لی جاتی ہیں اور اسے عذاب ملتا ہے۔ ایسے منکر جو بغض سے کام نہ لیں ان کے لئے تو ہدایت کے رستے کھلے ہوتے ہیں۔ یہ تو منکرین قرآن کے لئے ہے جو شخص کہ قرآن کریم کی ایک آیت کا بھی انکار کرتا ہے تو جس طرح اگر کوئی ایک عضو کو کام میں نہ لائے تو ناکارہ ہو جاتا ہے ایسے ہی وہ ایک آیت کا انکار کرنے والا بھی۔ تمہیں چاہیے کہ اس کی قدر کرد قرآن کریم کو پڑھو اور اس پر غوروفکر کرو۔ اگر کوئی ایک آیت کا بھی انکار کرتا ہے تو اس کے دل کی بینائی ماری جاتی ہے۔ مومن کو ہر وقت ہوشیار رہنا چاہیئے اور کوشش کرنی چاہیئے کہ انکار کی حالت دور ہو اور ہر عضو سے مناسب کام لینا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں ناکارہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔(الفضل۱۱؍فروری۱۹۱۴ء)